• 14 مئی, 2025

’’جو خاک میں ملے ا ُسے ملتا ہے آشنا‘‘

’’جو خاک میں ملے ا ُسے ملتا ہے آشنا‘‘
آج کے دور میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر خاکستر ہوجانے کی بہت ضرورت ہے

خاکسار اپنے ادارىوں کے لئے بالعموم عناوىن کى تلاش کے لئے قرآن کرىم، احادىث نبوى ﷺ، ارشادات حضرت مسىح موعودؑ اور فرمودات خلفاء سلسلہ مىں سے ہى کوئى خىال ىا پوائنٹ ڈھونڈنے کى کوشش کرتا ہے لىکن کبھى کبھار قارئىن کرام کى ڈاک مىں بھى کوئى اىسى کام کى چىز مل جاتى ہے کہ جس سے ذہن کے دروازے کھل جاتے ہىں اور اىک مضمون تشکىل پاجاتا ہے، اس کے علاوہ قارئىن گاہے بگاہے کسى عنوان کى طرف توجہ بھى دلا دىتے ہىں۔ حال ہى مىں مىرے ساتھ دوستانہ مراسم رکھنے والے بزرگ جناب مبارک طاہر نے حضرت مسىح موعودؑ کے انتہائى گہرے مطالب پر مشتمل مصرعہ ’’جو خاک مىں ملے اُسے ملتا ہے آشنا‘‘ کو بطور عنوان بھجوا کر اس اہم موضوع کى اہمىت اور ہمارى حقىقى آشنا ہستى ىعنى اللہ تعالىٰ کو پانے کے طرىق بىان کرنے کى درخواست کى ہے۔ شاىد ان کا مقصد اس مضمون کو بىان کرنے سے ىہ ہو کہ دنىا بھر کے موجودہ حالات و واقعات کى روشنى مىں معاشرے مىں صبر، حوصلہ اور برداشت کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے،معمولى معمولى بات پر بھڑک اٹھنا معمول بن رہا ہے۔ وسعتِ حوصلہ کا فقدان معاشرہ مىں کم نظر آنے لگا ہے۔ معمولى معمولى باتوں پر آپس مىں ناچاقىاں اور لڑائىاں بڑھ رہى ہىں۔ دورانِ گفتگو چھوٹے بڑے کا لحاظ نہ رکھنا عام سى بات سمجھى جانے لگى ہے۔ بد زبانى سے بھى ماحول مىں تعفن پىدا ہو رہا ہے۔گفتگو کے دوران تکبر اور رىاکارى ملاوٹ کرکے بعض ىہ سمجھتے ہىں کہ معاشرہ مىں ان کا قد اونچا ہو تا ہے، حالانکہ ان عقل کے اندھوں کو ىہ معلوم نہىں کہ اللہ تعالىٰ اور اس کے رسول ﷺ نے انہى لوگوں کو سخت وعىد کى ہے۔

ممکن ہے قارئىن ىہ سوچىں کہ مندرجہ بالا تمہىد کا اس موضوع کے ساتھ کىا تعلق ہے ؟ اصل بات ىہ ہے کہ خداتعالىٰ کى پہچان، اس کے حقوق اور اس کى عبادت اس وقت تک مکمل نہىں ہوتى جب تک اس کى مخلوق (جو اللہ کى عىال ىعنى خاندان ہے) کے ساتھ نىک اور محبت کے تعلقات استوار نہ ہوں،اس کے بندوں کے حقوق ادا نہ ہورہے ہوں۔ ان کے ساتھ تحمل،بُرد بارى، طبىعت مىں نرمى اور کشائش کے ساتھ برتاؤ نہ کىا جائے تو نہ خدا ملتا ہے اور نہ وصال صنم ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو خاک مىں ملانے اور جُھک کر زندگى گزارنے سے ىہى مراد ہے کہ سب سے پہلے معاشرہ مىں بسنے والوں کے ساتھ عاجزى، انکسارى اور خاکسارى کا برتاؤ کرو پھر بڑے آشنا اللہ تعالىٰ سے ملنے کے لئے اس کے آگے رکوع و سجود کرو۔ سجدے مىں ناک رگڑو تب آشنا ملے گا۔حضرت مسىح موعودؑ نے فرماىا ہے کہ دعا کى قبولىت کے لئے دل کىنہ اور بغض سے صاف ہونا ضرورى ہے

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ فرماتے ہىں کہ ’’دعاؤں کى قبولىت کے لئے ىہ انتہائى ضرورى چىز ہے کہ سب ذاتى رنجشوں اور کدورتوں کو بھلا دىا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 29دسمبر 2017ء)

جب انسان اس حد تک اپنے آپ کو نىچے لے جا کرخدا کى مخلوق سے حسنِ سلوک کرتے ہوئے اس کے حضور گرتا ہے، جھکتا ہے تو ىہى معنى ہىں حضرت مسىح موعود ؑ کے اس مصرعہ کے، جو خاک مىں ملے اسے ملتا ہے آشنا۔ اپنے آشنا، اپنے ربّ کو پانے کا ىہى راز ہے۔

حضرت مسىح موعودؑ کےمندرجہ بالا مصرعہ کے الفاظ کو روحانى لحاظ سے سمجھنے کے لئے اس دنىا مىں مجازى محبت پر اس مثال کو اپلائى کرنا چاہئے۔ آشنا کا لفظ رفىق، ىار، جگرى دوست، محبوب، عاشق کے لئے بولا جاتا ہے اور مذکر و مؤنث دونوں کے واسطے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ خاک کے معنى زمىن، مٹى، دھول، غبار اور نىچے لگنے کے ہىں۔ آشنا کے معنى پر غور کرىں تو اس کے اندر ہى خاک مىں ملنے کے معنى موجود ہىں۔ اردو لغات مىں لکھا ہے کہ کسى کى طرف مائل ہونا اور محاورہ درج ہے دونوں گھٹنے آشنا بزمىن ہوئے کہ دونوں گھٹنے زمىن کى طرف مائل ہوئے۔ زمىن کى طرف جھکے۔ اگر مجازى آشنا کى بات کرىں تو ہم آئے روزAffair کے بارے سنتے رہتے ہىں۔ اور بار ہا سننے مىں آتا ہے کہ جب کسى کو کسى سے پىار ہو جائے تو اُس کو پانے کے لئے انسان ہر قسم کے جتن کرتا ہے اور ہر اس حد سے گزر نے کى کوشش کرتا ہے جس کو عرف عام مىں بہت معىوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس کے حصول کى خاطر اس کو خاک چاٹنى پڑتى ہے اس کے بعد کہىں جا کر آخرى حد تک پہنچتا ہے۔ بعض اوقات منت سماجت، عجز و انکسارى اور عزىزو اقارب کے پاؤں پکڑ کر منانے کى کوشش ہوتى ہے تب وہ آشنا پانے مىں کامىاب ہوتا ىا ہوتى ہے۔ گوىا اس کے حصول کے لئے ناکوں چنے چبانے پڑتے ہىں ىا دانتوں سے لوہے کے چنے چبانے کى نوبت آجاتى ہے۔ اس سب کا ذکر کرنے سے مراد ىہ ہے کہ آپ کو علم ہوجائے کہ اس دنىا مىں مجازى آشنا کو پانے کے لئے کتنے جتن کرنے اور اپنے آپ کو خاک مىں ملانا پڑتاہے۔

اس اہم موضوع کے روحانى معنوں مىں داخل ہونے سے قبل تمام مذاہب کى عبادات کے طرىق کا ر کا جائزہ لىنا ضرورى ہے۔ دنىا کے مذاہب پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کى عبادت مىں اللہ تعالىٰ کے آگے جھکنا ضرورى ہے۔ کسى مىں Bowdown کى اور کسى مىں سجدہ کرنے ىعنى Prostrate کى کىفىت ہے۔ کسى مىں سر نگوں کر کے با ادب کھڑے ہو کر ىا ذرا سا کمر کے بل رکوع کى طرح جھک کر عبادت کے فرائض ادا کئے جاتے ہىں۔ اور اللہ تعالىٰ نے تمام مذاہب کے طرىقوں کو اسلام کى عبادت ىعنى نماز پڑھنے کے انداز مىں جمع کر دىا ہے۔ ىہ تمام طرىق آشنا کے حصول کے لئے خاک مىں ملنے ہى کى مانند ہىں۔ اللہ تعالىٰ کو مومن کى نماز مىں ان اداؤں پر اتنا پىار اور ناز آتا ہے کہ وہ مومن کے قرىب آجاتا ہے۔ مومن اىک قدم بڑھتا ہے تو آشنا دو قدم قرىب ہو جاتا ہے۔ نوافل تو ہے ہى نام اپنے آپ کو خاک مىں ملانے کا اور تہجد کے وقت کى ادائىں خدا کو بہت پسند آتى ہىں۔ جب وہ انکسارى، عاجزى مىں گڑگڑا کر اور آنسو کى لڑى کے ساتھ اللہ کے حضور اپنى بپتا سناتا ہے تو وہ سمىع و بصىر خدا اسے سنتا بھى ہے اور دىکھ بھى رہا ہوتا ہے۔ رات جب نوافل مىں اىک مومن اپنے آپ کو جھکاتا ہے تو اس کے آنسو خدا کو بہت پسند آتے ہىں۔آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا ہے کہ اللہ تعالىٰ کو دو قطرے بہت پسند ہىں اىک شہىد کا راہِ خدا مىں نکلا ہو ا خون کا قطرہ اور اىک اللہ تعالىٰ اور اس کى محبت کے حصول کى خاطر آنکھوں سے نکلا ہوا آنسو کا قطرہ۔ ىہ بھى اسى شہىد بمعنى گواہ کا قطرہ ہے جو خدا کى خدائى اور وفا دار آشنا کى وحدانىت کى گواہى کے لئے نکلتا ہے۔

حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے اس مضمون کو بہت اچھوتے انداز مىں ىوں بىان فرماىا ہے:
’’نماز کى جس قدر حالتىں جسم پر وارد ہوتى ہىں۔ مثلاً کھڑا ہونا ىا رکوع کرنا۔ اس کے ساتھ ہى روح پر بھى اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم مىں نىاز مندى کى حالت دکھاتا ہے۔ اسى قدر روح مىں پىدا ہوتى ہے۔ اگرچہ خدا نرے سجدہ کو قبول نہىں کرتا مگر سجدہ کو روح کے ساتھ اىک تعلق ہے۔ اس لئے نماز مىں آخرى مقام سجدہ کا ہے۔ جب انسان نىاز مندى کے انتہائى مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہى کرنا چاہتا ہے۔ جانوروں تک مىں بھى ىہ حالت مشاہدہ کى جاتى ہے۔ کتے بھى جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہىں تو آکر اس کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دىتے ہىں اور اپنى محبت کے تعلق کا اظہارسجدہ کى صورت مىں کرتے ہىں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 آن لائن اىڈىشن 2016ء صفحہ79)

سىدنا امىر المومنىن حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ نے اس مضمون کو خطبہ جمعہ فرمودہ 2جنورى 2004ء مىں ىوں بىان فرماىا ہے

’’حضرت مصلح موعود رضى اللہ عنہ اس بارہ مىں فرماتے ہىں کہ:
وہ عبادالرحمن جنہوں نے دنىا مىں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنى عمر بسر کى۔ جو دن کے اوقات مىں بھى احکام الٰہى کے تابع رہے اور رات کى تارىکىوں مىں بھى سجدہ وقىام مىں اللہ تعالىٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائىں کرتے رہے۔ قىامت کے دن اللہ تعالىٰ ان کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہىں ساتوىں آسمان پر جگہ عناىت فرمائے گا ىعنى وہ حضرت ابراہىم علىہ السلام کے ساتھ رکھے جائىں گے۔ کىونکہ حضرت ابراہىم علىہ السلام ساتوىں آسمان پرہى ہىں۔

(مسنداحمد بن حنبل جلد4 صفحہ207-208)

اس کى طرف رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم نے اس حدىث مىں بھى اشارہ فرماىاہے کہ اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَى السَّمَآء السَّابِعَۃِ (کنزالعمال جلد2 صفحہ52) کہ جب کوئى شخص اللہ تعالىٰ کے لئے تواضع اختىار کرتاہے تو اللہ تعالىٰ اسے ساتوىں آسمان مىں جگہ دىتاہے۔ چونکہ ان لوگوں نے خدا کے لئے ھَوْن اور تَذَلُّلْ اختىار کىا ہوگا اس لئے خداتعالىٰ بھى انہىں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائے گا اور انہىں منازل قرب مىں سے سب سے اونچى منزل عطا کى جائے گى۔

(تفسىر کبىر جلد ششم صفحہ597)

اسى مضمون کے مطابق حضرت مسىح موعود علىہ السلام کا مندرجہ بالا مصرعہ کا مکمل شعر اس طرح ہے۔

؎جو خاک مىں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے ىہ نسخہ بھى آزما

جىسا کہ مَىں نے پہلے بھى عرض کىاہے کہ اس زمانے مىں عاجزى اختىار کرنے کے طرىقے اور سلىقے حضرت اقدس مسىح موعود علىہ السلام نے ہمىں سکھائے اس لئے آپ علىہ السلام کے روحانى نسخوں پرعمل کر کے ہى ہم اس خلق کو حاصل کر سکتے ہىں۔ آپؑ فرماتے ہىں کہ تذلل اور انکسارى کى زندگى کوئى شخص اختىار نہىں کر سکتاجب تک کہ اللہ تعالىٰ اس کى مدد نہ کرے۔ اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کى طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہىں۔ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِىْمَ کى دعا صحابہ کى طرح جارى رکھو۔ راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالىٰ تم کو اپنى راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے صحابہؓ نے بھى تدرىجاً تربىت پائى۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ،28رپورٹ جلسہ سالانہ1897ء)

پھر آپؑ فرماتے ہىں: ’’عاجزى اختىار کرنى چاہىے۔ عاجزى کا سىکھنا مشکل نہىں ہے اس کا سىکھنا ہى کىا ہے۔ انسان تو خود ہى عاجز ہے اور وہ عاجزى کىلئے ہى پىداکىا گىا ہے۔ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِىَعْبُدُوْنِ۔

(اَلذَّارىات: 57)

(ملفوظات جلد سوم صفحہ232 البدر 24 اپرىل 1903)

تو اس کا بھى ىہى مطلب ہے کہ عاجزى اختىار کرنے کے لئے اللہ تعالىٰ کے حضور جھکو، اس کى عبادت کرو۔ تو عاجزى سمىت تمام خلق پىدا ہوتے چلے جائىں گے، اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

پھر آپؑ فرماتے ہىں: ’’پانچ وقت اپنى نمازوں مىں دعا کرو۔ اپنى زبان مىں بھى دعا کرتى منع نہىں ہے۔ نماز کامزا نہىں آتا ہےجب تک حضور نہ ہو اور حضورِ قلب نہىں ہوتا ہے جب تک عاجزى نہ ہو۔ عاجزى جب پىدا ہوتى ہے جو ىہ سمجھ آجائے کہ کىا پڑھتا ہے۔ اس لئے اپنى زبان مىں اپنے مطالب پىش کرنے کىلئے جوش اور اضطراب پىدا ہوسکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ434 الحکم 17 اکتوبر 1903ء)

جب آدمى دعا کر رہا ہو سمجھ نہ آ رہى ہو تو عاجزى کس طرح پىدا ہوگى اگر مطلب نہ آرہا ہو۔ اس لئے اپنى زبان مىں دعائىں کرىں۔ اللہ تعالىٰ سے مانگىں اس کے آگے روئىں، گڑگڑائىں۔

حضرت اقدس ؑ فرماتے ہىں : ’’…انبىاء مىں بہت سے ہنر ہوتے ہىں۔ ان مىں سے اىک ہنر سَلبِ خودى کا ہوتا ہے۔ ان مىں خودى نہىں رہتى۔ وہ اپنے نفس پر اىک موت وارد کرلىتے ہىں۔ کبرىائى خدا کے واسطے ہے۔ جو لوگ تکبر نہىں کرتے اور انکسارى سے کام لىتے ہىں وہ ضائع نہىں ہوتے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ216 البدر 2مئى 1907ء)

آپ ؑجماعت کو نصىحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں: ’’انسان بىعت کنندہ کو اول انکسارى اور عجز اختىار کرنى پڑتى ہے اور اپنى خودى اور نفسانىت سے الگ ہونا پڑتاہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتاہے لىکن جو بىعت کے ساتھ نفسانىت بھى رکھتاہے اسے ہر گز فىض حاصل نہىں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ455، 16 نومبر 1903ء)

آپ نے فرماىا: ’’مىں اپنى جماعت کو نصىحت کرتاہوں کہ تکبر سے بچو کىونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کى آنکھوں مىں سخت مکروہ ہے…اىک شخص جو اپنے بھائى کى بات کو تواضع سے سننا نہىں چاہتا اور منہ پھىر لىتاہے اس نے بھى تکبر سے حصہ لىاہے۔ … کوشش کرو کہ کوئى حصہ تکبر کا تم مىں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عىال سمىت نجات پاؤ۔ خدا کى طرف جھکو اور جس قدر دُنىا مىں کسى سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو۔ اور جس قدر دُنىا مىں کسى سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غرىب اور مسکىن اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔

(نزول المسىح۔ روحانى خزائن جلد18 صفحہ402-403)

فرماىا: ’’انسان جو اىک عاجز مخلوق ہے اپنے تئىں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس مىں آجاتى ہے۔ اللہ کى راہ مىں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکار انہىں پا سکتا۔ کبىر نے سچ کہا ہے۔

؎بھلا ہوا ہم نىچ بھئے ہر کو کىا سلام
جے ہوتے گھر اونچ کے ملتا کہاں بھگوان

ىعنى اللہ تعالىٰ کا شکرہے کہ ہم چھوٹے گھر مىں پىدا ہوئے۔ اگرعالى خاندان مىں پىدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنى اعلىٰ ذات پر فخر کرتے تو کبىر اپنى کم ذات باخندہ پر نظر کر کے شکر کرتا ۔ پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دىکھے کہ مىں کىسا ہىچ ہوں۔ مىرى کىا ہستى ہے۔ ہر اىک انسان خواہ کتنا ہى عالى نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دىکھے گا بہر نہج وہ کسى نہ کسى پہلو مىں بشرطىکہ آنکھىں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہىچ جان لے گا۔ انسان جب تک اىک غرىب و بىکس بڑھىا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جواىک اعلىٰ نسب عالى جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے ىا برتنے چاہئىں اور ہر اىک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالىٰ کى بادشاہت مىں داخل نہىں ہو سکتا۔‘‘

 (ملفوظات جلد سوم صفحہ314-315 الحکم 31مئى 1903ء)

*مىں اپنے مضمون کو مثالوں سے آراستہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے آقا و مولىٰ اور مطاع حضرت محمد مصطفےٰ صلى اللہ علىہ وسلم کى سىرت کى طرف آتا ہوں۔

آپ ﷺکے خصائل مىں لکھا ہے۔ آپؐ کسى کى مذمت و تحقىرنہ کرتے اور نہ توہىن و تنقىص۔ نہ اتنى تعرىف جىسے وہ آپؐ کو بے حد پسند ہو۔آپؐ کسى دنىوى معاملہ کى وجہ سے نہ غصّہ ہوتے نہ برا مناتے۔ اپنى ذات کے لئے کبھى غصہ نہ ہوتے اور نہ اس کے لئے بدلہ لىتے۔ آپؐ کے اخلاق و اطوار قرآن کے عىن مطابق تھے۔

 (حدىقۃ الصالحىن از ملک سىف الرحمن،صفحہ50-45)

 آپؐ کى عادات مىں لکھا ہے۔

اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے گھر کے کام کاج کرتے۔۔۔ خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے، آٹا پىستے پىستے اگر وہ تھک جاتا تو اس مىں اس کى مدد کرتے، بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے مىں شرم محسوس نہ کرتے، امىر غرىب ہر اىک سے مصافحہ کرتے۔ اگر کوئى معمولى کھجوروں کى دعوت دىتا تو آپ اسے حقىر نہ سمجھتے اور قبول کرتے۔ خدا کے خوف سے فکر مند رہتے لىکن ترش روئى اور خشکى نام کونہ تھى۔ منکسر المزاج تھے

(حدىقۃ الصالحىن 63-64)

’’حضرت محمد صلى اللہ علىہ وسلم مىں تکبر نام کو بھى نہ تھا نہ آپ ناک چڑھاتے اور نہ اس بات سے برا مناتے اور بچتےکہ آپ بىواؤں اور مسکىنوں کے ساتھ چلىں اور ان کے کام آئىں اور ان کى مدد کرىں ىعنى بے سہارا عورتوں اور مسکىنوں اور غرىبوں کى مدد کے لىے ہر وقت کمربستہ رہتے اور اس مىں خوشى محسوس کرتے۔‘‘

(حدىقۃ الصالحىن صفحہ 67)

اىک جگہ فرماىا مجھے غرىبوں مىں تلاش کرو۔ خاک مىں ملنے کا طرىق بىان کرتے ہوئے آپؐ فرماتے ہىں
’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، ضرورتمندوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمى کرو اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز پڑھو اگر تم اىسا کرو گے تو تم امن اور سلامتى کے ساتھ جنت مىں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

(حدىقۃ الصالحىن صفحہ 51-52)

فرماىا تم مجھے کبھى بھى بخل سے کام لىنے والا، بڑہانکنے والاىا بزدلى دکھانے والا نہىں پاؤ گے۔

(صحىح بخارى کتاب الجہاد)

قارئىن آئىں ! اب رسول خدا صلى اللہ علىہ و سلم کے عاشق صادق حضرت مسىح موعود علىہ السلام کى عادات و خصائل کو عاجزى و انکسارى کے اس آئىنہ مىں دىکھتے ہىں

آپؑ کى سىرت قدسىہ اور اوصاف کرىمانہ جو خاک مىں ملے اسے ملتا ہے آشنا کے مضمون سے لبرىز ہىں۔ آپ کى تمام زندگى انتہائى سادگى، عاجزى و فروتنى اور انکسارى سے گزرى۔ آپؑ  اپنى مجالس مىں آنے والے دوستوں سے انتہائى محبت سے ملتے۔ آپؑ کے قول و فعل سے بڑا پن ىا بڑے آدمى کا تاثر نہ ملتا۔ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد اکثر فرماتے تھے کہ والد صاحب نے اپنى عمر اىک مغل کے طور پر نہىں گزارى۔ اىک دفعہ آپ اىک ىکہ پر سوار ہو کر بٹالہ جا رہے تھے۔ رقم کى ادائىگى ہو چکى تھى۔ آپ کو نہر کا پل پار کر کے ىاد آىا کہ کوئى چىز گھر رہ گئى ہے۔ آپ ىکہ والے کو نہر پر کھڑا کرکے قادىان پىدل آئے۔ اتنے مىں ىکہ والے کو بٹالہ کى سوارىاں مل گئىں اور وہ چل دىا۔ جس پر آپؑ پىدل بٹالہ پہنچے۔ اگلے روز مکرم مرزا سلطان احمد نے ىکہ والے کو برا بھلا کہا اور سختى بھى کى اور کہا کہ اگر مرزا نظام الدىن صاحب ہوتے تو تم کو خواہ تىن دن وہاں ٹھہرنا پڑتا تو ضرور ٹھہرتے۔ اىک نىک اور دروىش طبع آدمى کى تم نے کوئى خاطر نہىں کى۔ جب حضرت مسىح موعودؑ کو علم ہوا کہ ىکے والے کے ساتھ سختى ہوئى ہے تو آپؑ نے فرماىا ’’وہ مىرى خاطر کىسے بىٹھا رہتا اسے مزدورى مل گئى اور وہ چلا گىا۔‘‘

(حىات طىبہ صفحہ15-16)

آپؑ فرماتے ہىں:
’’انسان کے نفس امارہ مىں کئى قسم کى پلىدىاں ہوتى ہىں مگر سب سے زىادہ تکبر کى پلىدى ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئى شخص کافر نہ رہتا سو تم دل کے مسکىن بن جاؤ۔‘‘

(تذکرۃالشہادتىن، روحانى خزائن جلد20 صفحہ63)

 پھر فرماتے ہىں کہ
’’تکبر سے بچو۔۔۔تکبر کىا چىز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مىں خدا کى روح سے بولتا ہوں ہر اىک شخص جو اپنے بھائى کو اس لئے حقىر جانتا ہے کہ وہ اس سے زىادہ عالم ىا زىادہ عقل مند ىا زىادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کىونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہىں سمجھتا اور اپنے تئىں کچھ چىز قرار دىتا ہے۔ کىا خدا قادر نہىں کہ اس کو دىوانہ کر دے اور اس بھائى کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر علم اور عقل دے دے۔‘‘

(نزول المسىح،روحانى خزائن جلد18 صفحہ402)

حضرت مسىح موعود ؑ اپنے اىک شعر مىں فرماتے ہىں:

؎بد تر بنو تم ہر اىک سے اپنے خىال مىں
کہ شائد اسى سے دخل ہو دارالوصال مىں

حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے مندرجہ بالا اقتباس کو مضمون کى پىک بناتے اور اب اس موضوع کو سمىٹتے ہوئے خاکسار اپنى ذہنى فکر کو اسى پر ختم کرتا ہے اور چند اىسى نىکىاں، اخلاق حسنہ اور اىسى بدىاں ىا اخلاق سىئہ کا ذکر کر کے مضمون کا اختتام کرتا ہے جن نىکىوں کو اپنا کر اور بدىوں کو چھوڑ کر خاک مىں اپنے آپ کو ملا کر حقىقى آشنا سے ملا جا سکتا ہے۔

نىکىاں اور اخلاق حسنہ

نماز مىں انکسارى، نوافل، احکام قرآن پر عمل، قرآن کرىم مىں موجود اوامر و نواہى کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھنا، ہر نىکى کا اپنے آپ کو سب سے پہلا مخاطب سمجھنا، اطاعت رسول ﷺ،سبقت الى الخىر، احترام انسانىت/آدمىت و ىتامىٰ، دنىا کى محبت و خواہشات سے اجتناب، بىوى بچوں کے حقوق، شہرىوں، پڑوسىوں کے حقوق، بىوى کے لىے خاوند اور بچوں کے حقوق، صلہ رحمى والدىن اور عزىز و اقارب سے تىماردارى، تعزىت، تجہىز و تکفىن اور نماز جنازہ مىں شمولىت، صدقہ و خىرات، وقارعمل، بزرگوں کا احترام، علماء کا احترام، صحبت صالحىن، اىفائے عہد، اىثار، پاک دامن، تواضع و انکسارى، خدا پر ىقىن، عدل، احسان اىتاء ذى القربىٰ، حلت و حرمت، حلىم بُردبادى، رافت، قرض کى ادائىگى، اللہ کا شکر گزار بندہ بننا، خوش خلقى، بشاشت، عفو و درگزر، مہمانوں کى عزت و احترام۔ خىر خواہى اور تَعَاوَنُ عَلَى الْبِرِّ۔

بدىاں، اخلاق سىئہ

تکبر/غرور، استہزاء، اسراف، بخل /حرص، بد ظنى، عىب جوئى، غىبت /چغل خورى، خىانت، ظلم و ستم،حق تلفى، احسان جتانا، زبان کا غلط استعمال، لغوىات سے پرہىز، فحاشى سے پر ہىز، تجسس، تکلف، نقالى، بناوٹ، تشبہ بالخىر، توہم پرستى اور بد فالى۔

اس اہم مضمون مىں تکبر کے حصّے پر واپس آتے ہوئے اىک سبق آموز حدىث بىان کرنا چاہتا ہوں۔

 آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کى اىک اونٹنى کا نام عضباء تھا جو کسى کو آگے نہىں بڑھنے دىتى تھى۔ اىک دفعہ اىک دىہاتى نوجوان کى اونٹنى نے اسے مات دے دى جس کا صحابہ کو بہت افسوس ہوا تو آپ نے اس افسوس کو بھانپ کر فرماىا ىا حَقٌ عَلَى اللّٰہِ اَنْ لَّا ىَرْ تَفَعْ شَىٌ مِّنَ الدُّ نْىَااِ لَّا وَضَعَہُ۔

 (صحىح بخارى،کتاب الجہاد)

کہ اللہ تعالى کى ىہ سنت ہے کہ دنىا مىں جو بلند ہوتا ہے بالآخر اللہ تعالى اس کے غرور کو توڑنے کے لئے اسے نىچا دکھاتا ہے۔

گھروں کے باہر جو باڑ لگائى جاتى ہے اس کى جب کٹائى کرىں تو اکثر سر کنڈے ىا ٹہنىاں اپنى روٹىن مىں بڑھتى ہىں مگر اىک آدھ ٹہنى بہت تىزى سے اوپر جاتى ہے۔ ہم نے اکثر دىکھا ہے کہ وہ پھر محفوظ نہىں رہتى۔ کوئى راہگىرىا پھر مالى ہى اسے مسل دىتا ہے۔ پاکستان مىں چونکہ اکثر باہر سڑکوں پر کھڑے ہونے کا رواج ہے تو کھڑے کھڑے ہمارا ہاتھ اسى سر کنڈے پر جاتا ہے جو نماىاں طور پر نظر آ رہا ہوتا ہے اور ہم اسےگفتگو مىں مگن ہوکر مسل دىتے ہىں۔

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالى نے حالىہ جلسہ سالانہ جرمنى 2021ء کى اختتامى تقرىب مىں مؤرخہ 9 اکتوبر کو جو بصىرت افروز خطاب فرماىا اس مىں بھى تکبر اور عاجزى کے مضمون کو بہت پُرحکمت اور خوبصورت انداز مىں اجاگر فرماىا۔

آپ ارشاد فرماتے ہىں۔

الله تعالىٰ نے اپنى خوشنودى حاصل کرنے والوں کى اىک ىہ نشانى بھى بتائى ہے کہ وہ تکبّر نہىں کرتے، تکبّر اىک بہت بڑى بىمارى ہے جس سے بچنے کى کوشش کرنى چاہىئے۔ اگر ہم تکبّر کى وجوہات تلاش کرىں تو اىک بہت بڑى وجہ فخر کرنا نظر آتا ہے، اپنے آپ کو کچھ سمجھنا، اپنى ذات پر فخر ہے، اپنى قومىت پر فخر ہے، اپنى دولت پر فخر ہے، اپنے علم پر فخر ہے، اپنى اولاد پر فخر ہے کہ زىادہ اولاد ہونا ىا اُس کا لائق ہونا اور اِس طرح کى مختلف چىزىں ہىں۔

ىہ فخر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کاىاتکبّر کا بىج بوتا ہے حالانکہ الله تعالىٰ کے نزدىک ىہ چىزىں نہ انسان کے لىئے فخر کى جگہ ہىں، نہ بہتر سمجھنے کا معىار ہىں، الله تعالىٰ نے تو فرماىا ہے کہ

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُمْ۔ (الحجرٰت: 14)

ىقىنًا الله تعالىٰ کے نزدىک تم مىں سے زىادہ معزز وہ ہے جو سب سے زىادہ متقى ہے۔

پس ىہ دنىاوى چىزىں الله تعالىٰ کے نزدىک معزز ہونے کا معىار نہىں ہىں، پھر کس بات پر فخر اگر ىہ معىار نہىں ہىں۔ پس سوچنے کا مقام ہے۔ الله تعالىٰ کے نزدىک جو چىز کسى انسان کو معزز بناتى ہے وہ تقوىٰ ہے، وہ جو تقوىٰ پر چلنے والا ہے وہ الله تعالىٰ کا خوف دل مىں رکھتے ہوئے کبھى ىہ سوچے گا بھى نہىں کہ مَىں معزز ہوں، اُس کو الله تعالىٰ کا خوف اور الله تعالىٰ کا قرب پانے کى تڑپ ہر وقت اِس خىال مىں ہى ڈالے رکھے گى کہ مَىں کب اور کس طرح الله تعالىٰ کا پىار حاصل کروں۔ انسان کو اگرفخر ہے بھى تو کس بات پر،ہے تو وہ اِس زمىن پر رہنے والى مخلوق کا ہى اىک فرد اَور اِس زمىن کى حىثىّت اِس کائنات مىں اىک چھوٹے سے ذرّے سے زىادہ کچھ نہىں ہے پھر کس بات پر فخر کرتا ہے اور تکبّر کرتا ہے انسان۔ پھر زمىن پر ہى اگر ہم دىکھىں تو الله تعالىٰ کى قدرت کے جونظارے ہمىں نظر آتے ہىں اُن تک بھى انسان نہىں پہنچ سکتا، الله تعالىٰ فرماتا ہے۔

وَ لَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ﴿۳۸﴾

 (بنىٓ اسرآءىل: 38)

اور زمىن مىں اکڑ کر نہ چل، تو ىقىنًا زمىن کو پھاڑ نہىں سکتا اور نہ قامت مىں پہاڑوں کى بلندى تک پہنچ سکتا ہے۔

آسمانى آفات جب آتى ہىں تو کىا اِنسان اُس کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ تکبّر کرنے والے لوگ بھى بچوں کى طرح بِلبلاء رہے ہوتے ہىں اُس وقت، تکلىفىں جب پہنچتى ہىں اُن کو۔ گزشتہ دنوں بارشوں نے ہى جرمنى کے بعض علاقوں مىں تباہى مچا دى تھى، بڑے بڑے قد کاٹھ کے لوگ اُن کو مَىں نے دىکھا ہے ٹى وى پر آتے تھے، جو ىہ سمجھتے تھے ہم بڑے آرام سے رہ رہے ہىں اور ہمىں کوئى چىز نقصان نہىں پہنچا سکتى، اُنہىں الله تعالىٰ نے بتا دىا کہ اصل ذات مىرى ہے، وہى لوگ جو لوگوں کو کھانا کھلانے کا ذرىعہ بن رہے تھے خود لائن مىں لگے اىک روٹى کے ٹکڑے کے لىئے بھىک مانگ رہے تھے تو تکبّر کس بات کا ہے؟

پس الله تعالىٰ نے بتا دىا کہ تمہارے اندر کوئى بڑائى نہىں، الله تعالىٰ کے اِس ارشاد کو ہمىشہ اىک احمدى کو سامنے رکھنا چاہىئے کہ اپنے اندر عاجزى پىدا کرے اور الله تعالىٰ فرماتا ہے اِس سے تم مىرى محبّت حاصل کرنے والے بھى بنو گے۔

پھر آنحضرتﷺ نے بھى تکبّر کرنے والے پر بڑا اِنذار فرماىا ہے، آپ ﷺنے فرماىا کہ جس کے دل مىں ذرّہ بھر بھى تکبّر ہو گا، الله تعالىٰ اُسے جنّت مىں داخل ہونے نہىں دے گا۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ انسان چاہتا ہے کہ دنىا کى اچھى اچھى چىزوں کو استعمال کرے، کشائش اگر الله تعالىٰ نے دى ہے تو پھر استعمال بھى کرے اور اپنے ظاہر کو بھى سنوار کر رکھے، کپڑے بھى اچھے پہنے۔ آپﷺ نے فرماىا! تکبّر ىہ نہىں، الله تعالىٰ کى نعمتوں کا استعمال کرنا، احسن رنگ مىں کرنا اور اپنے اوپر اُس کا اظہار کرنا ىہ تکبّر نہىں ہے۔فرماىا کہ الله تعالىٰ تو خود خوبصورت ہے اور خوبصورت چىزوں کو پسند کرتا ہے، صفائى ستھرائى، حُسن کو پسند کرتا ہے، اِس لىئے اِن چىزوں سے تمہىں نہىں روکا جا رہا (ىہ نہ سمجھو کہ اِن چىزوں سے تمہىں روکا جا رہا ہے) بلکہ تکبّر ىہ ہے کہ حق کا انکار کرو (سچى بات ہے اُس کا انکار کرو، اپنى اناء اور ضدوں مىں پڑ جاؤ ىا اپنى بڑائى تمہارے اندر ہو جس کى وجہ سے ضد پىدا ہو جائے)، لوگوں کو ذلىل سمجھو اور اُن کو کم تر سمجھ کرحقارت کى نظرسے دىکھو، اُن سے برى طرح پىش آؤ، ىہ تکبّر ہے۔

(الصحىح فى المسلم۔کتاب الاىمان ؍باب تحرىم الکبر وبىانہ ؛ حدىقتہ الصّالحىن۔ حدىث نمبر855، صفحہ810)

اِس بارہ مىں حضرت مسىحِ موعود علىہِ الصَّلوٰۃ والسّلام مزىد کھول کر بىان فرماتے ہىں، آپؑ نے فرماىا! اىک شخص جو اپنے بھائى کے اىک غلط لفظ کى تکبّر کے ساتھ تصحىح کرتا ہے، اُس نے بھى تکبّر سے حصّہ لىا ہے (اب ىہ چھوٹى سى بات ہے کہ کسى لفظ کى، کسى فقرے کى تصحىح کر دى لىکن اگر اُس تصحىح مىں، اُس کو ٹھىک کرنے مىں تکبّر کى روح ہے تو وہ متکبّر کہلائے گا، اپنى بڑائى کى بُو ہے تو وہ متکبّر کہلائے گا)۔ فرماىا! اىک شخص جو اپنے بھائى کى بات کو تواضح سے (توجہ اور انکسار سے) سننا نہىں چاہتا اور منہ پھىر لىتا ہے، اُس نے بھى تکبّر سے حصہ لىا ہے (غور سے بات نہىں سنتے تب بھى تکبّر ہے)۔

(نزول المسىح۔ روحانى خزائن؍ جلد18، صفحہ403)

اللہ تعالى ہم سب کو اسلامى تعلىمات کے عىن مطابق اپنى زندگىاں بسر کرنے کى توفىق دىتا رہے۔ آمىن

حضرت مسىح موعود ؑ فرماتے ہىں :
’’جبکہ ان سارى باتوں سے معلوم ہو گىا کہ سچے تقوىٰ کے بغىر کوئى راحت اور کوئى خوشى مل ہى نہىں سکتى تو معلوم کرنا چاہئے کہ تقوىٰ کى بہت سے شعبے ہىں جو عنکبوت کے تاروں کى طرح پھىلے ہوئے ہىں مکڑى کے جال کى طرح پھىلے ہوئے ہىں۔ تقوىٰ تمام جوارِ انسانى اور، عقائد اور اخلاقِ انسانى سے متعلق ہے۔‘‘ انسان کے جتنى خصوصىات ہىں، ان کے عقىدے ہىں، زبان ہے، خلاق ہے، سارى باتىں ہىں، قوىٰ ہىں ان سب سے متعلق تقوىٰ کا حکم ہے۔ ان سب کو تقوٰى کے مطابق چلانا ہے۔ فرماىا کہ نازک ترىن معاملہ زبان ہے۔ زبان مىں تقوىٰ نہ ہو تو بڑاناز ک معاملہ ہے ىہ۔ بسا اوقات تقوىٰ کو دور کر کے اىک بات کہتا ہے اور دل مىں خوش ہو جاتا ہے کہ مىں نے ىوں کہا اور اىسا کہا۔حالانکہ وہ بات برى ہوتى ہے۔حضرت مسىح موعود ؑ فرماتے ہىں کہ مجھے اس پر اىک نقل ىاد آئى کہ اىک بزرگ کى کسى دنىا دار نے دعوت کى۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشرىف لے گئے تو اس متکبر دنىادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج مىں لائے تھے اور پھر کہا کہ دوسرا تھال بھى لانا جو ہم دوسرے حج مىں لائے تھے اور پھر کہا تىسرے حج والا بھى لىتے آنا۔ ان بزرگ نے فرماىا اس نام نہاد حاجى کو کہ تُو تو بہت ہى قابلِ رحم ہے ان تىن فقروں مىں تونے اپنے تىن ہى حجوں کا ستىاناس کر دىا۔ دکھاوا اور دنىا دارى تھى تىرا ىہ حج دنىا دارى اور دکھاوے کے لئے ہے۔تىرا مطلب اس سے صرف ىہ تھا کہ تو اس امر کا ظاہر کرے کہ تُونے تىن حج کئے ہىں۔ اسلئے خدا نے فرماىا کہ زبان جو ہے بڑى سوچ سمجھ کر استعمال کرنى چاہئے اور عقل کا استعمال بھى۔ عقل کرے انسان پھر اس کے ساتھ زبان کو چلائے انسان۔ آپؑ فرماتے ہىں کہ اسى لئے خدا تعالىٰ نے تعلىم دى ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھو۔ اور بے معنى، بے ہودہ بے موقع، غىر ضرورى باتوں سے اعتراض کى جائے۔فرماىا دىکھو اللہ تعالىٰ نے اىاک نعبدو کى تعلىم دى ہے ممکن تھا کہ انسان اپنى عقل پر بھروسہ کر لىتا اور خدا سے دور ہو جاتا اس لئے ساتھ ہى اىاک نستعىن کى تعلىم دے دى کہ ىہ مت سمجھو کہ عبادت جو مىں کرتا ہوں اپنى قوت اور طاقت سے کرتا ہوں،ہر گز نہىں بلکہ اللہ تعالىٰ کى استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ساتھ توفىق اور طاقت نہ دے کچھ بھى نہىں ہو سکتا۔ اور پھر فرماىا کہ اىاک نعبدو اور اىاک استعىن نہىں کہا اس لئے کہ اس مىں نفس کے تکبر کى بوآتى تھى۔ اس مىں مىَں آجاتى ہے۔ اور فرماىا کہ ىہ تقوىٰ کے خلاف ہے۔ تقوىٰ پر چلنے والا ہے وہ نىکىوں کے لئے دعا بھى کرتا ہے تو کُل انسانوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے۔فرماىا کہ زبان سے ہى انسان تقوىٰ سے دور چلا جاتا ہے۔ زبان سے تکبر کر لىتا ہے اور زبان سے ہى فرعونى صفات آجاتى ہىں۔ اور اسى زبان کى وجہ سے پوشىدہ اعمال کو رىا کارى سے بدل لىتا ہے۔ اور زبان کا زىاں بہت جلد ظاہر ہوتا ہے۔ نىک عمل کئے اور ظاہر کر دىے تو رىا کارى ہو گئى دکھاوا ہو گىا جىسے اس حاجى کا واقعہ ہے۔ جس نے تىن حج کئے اور تشرىح لانے کے لئے تىنوں حجوں کا اظہار بھى کر دىا بتانے کے لئے۔ ىہ رىاکارى ہے۔ فرماىا اور زبان کا زىاں بہت جلد پىدا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے متقى اپنى زبان کو بہت ہى قابو مىں رکھتا ہے۔ اس کى زبان سے کوئى اىسى بات نہىں نکلتى جو تقوىٰ کے خلاف ہو پس تم اپنى زبان پر حکومت کرو نہ ىہ کہ زبانىں تم پر حکومت کرىں۔ پس ىہ ہے وہ معىار جو ہمىں اپنانے کى کوشش کرنى چاہئے۔ اپنے روز مرہ کے معاملات مىں ہم کىا کرتے ہىں ىہ ہمىں دىکھنے کى ضرورت ہے۔ ہمارا بولنا، ہمارى باتىں کرنا، ہمارا اىک دوسرے سے تبادلہ خىال کرنا، ہمارے اىک دوسرے سے کسى کاروبار مىں ىا کسى بھى وجہ سے جو اىنٹر اىکشن ہے،بات چىت ہے اس کو ہم کس طرح کر رہے ہىں۔ اگر ہمارى زبانوں کے غلط استعمال ہىں تو ہم اسلام کى تعلىم سے دور جا رہے ہىں۔ تقوىٰ سے دور جا رہے ہىں۔ اللہ تعالىٰ کے حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے ىہ بھى دىکھنا ہے کہ ہم اىک دوسرے کے کىا اور کس حد تک حق ادا کر رہے ہىں۔ عبادت کا حق ادا کر رہے ہىں تو ساتھ دوسرے حقوق بھى دىکھنے ہوں گے۔ اىک دوسرے کے ساتھ ہمارا سلوک کىسا ہے، تبھى تقوىٰ کى صحىح راہوں کا پتہ چلے گا۔ ہم نے دىکھنا ہے کہ آپس مىں کس حد تک ہم محبت اور پىار سے رہ رہے ہىں،تکبر سے بچنے کى ہم کس حد تک کوشش کر رہے ہىں، عاجزى کى راہوں کو ہم کس حد تک اپنا رہے ہىں،اپنے عہدوں کو کس حد تک پورا کرنے کى کوشش کر رہے ہىں،سچائى کے قىام کے لئے ہم کىا کوشش کر رہے ہىں، کىونکہ سچائى کا قىام ہى ہے جو ہمىں شرک سے بھى پاک کرتا ہے،اپنى اولادوں اور اپنى نسلوں کو سنبھالنے کے لئے ہمارى کىا کوشش ہے کہ تقوىٰ ان مىں جارى رہے اور وہ بھى اپنى زندگى اللہ تعالىٰ کے حکم کے مطابق گزارنے کى کوشش کرنے والے ہوں۔ پس اس حوالے سے ہمىں ہر چىز کو دىکھنا ہو گا کہ جو بھى نىکىاں ہىں جن کے کرنے کا اللہ تعالىٰ نے ہمىں حکم دىا ہے ہم کر رہے ہىں ؟ اور جو بھى برائىاں ہىں جن کے رکنے کا اللہ تعالىٰ نے ہمىں حکم دىا ہے اُن سے رک رہے ہىں ؟ اگر تو ىہ ٹھىک ہے تو پھر ہم ىقىناً تقوىٰ پر چلنے والے کہلا سکتے ہىں۔ پس اپنى زندگىوں کو ہمىں ىوں ہى نہىں ضائع کر دىنا چاہئىے کہ ہمارا ہر قول وعمل ہمىں صحىح راستے پر ڈالنے والا ہونا چاہئے۔ ہمارى آپس کى محبت اىسى ہو جو اىک مومن کو دوسروں سے ممتاز کرے۔گھر کے ماحول سے لے کر معاشرے کے عمومى تعلقات تک ہم اس کى اعلىٰ مثالىں قائم کرنے والے ہوں اور ىہ نظر آنى چاہئىں ورنہ نہ ہى گھر مىں سکون رہتا ہے،نہ ہى معاشرے مىں اور جب ہم اس پر غور کرتے ہىں تو پتہ چلتا ہے کہ بد ظنى کى وجہ سے ہى امن و سکون برباد ہو رہا ہوتا ہے اىک برائى بہت بڑى بد ظنى بھى ہے۔ بعض فتنہ انگىز بد ظنى کى بات دل مىں پىدا کر دىتے ہىں کوئى اىسى بات کر دىتے ہىں جس سے دل مىں بد ظنى پىدا ہو جائے۔ اور جلد باز انسان بغىر سوچے سمجھے اس بات پر ىقىن بھى کر لىتے ہىں ىاپس مىں صحىح طرح اىک دوسرے کى بات کو سمجھا نہ سکنے کى وجہ سے بد ظنىاں پىدا ہو جاتى ہىں۔ اس لئے اللہ تعالىٰ نے بد ظنى کو بہت بڑا گناہ قرار دىا ہے کہ اس وجہ سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہے اور اس حکم کى وجہ سے آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے بھى فرماىا ہے کہ بد ظنى سے بچو کىونکہ بد ظنى سخت قسم کا جھوٹ ہے اور اىک دوسرے کے عىب نکالنے کى جستجو مىں نہ رہو،اىک دوسے کے خلاف تجسس نہ کرو اور پھر اس کے ساتھ ہى آنحضرت صلى اللہ علىہو سلم نے بہت سى برائىوں کا ذکر فرماىا کہ ان سے بچو کىونکہ ىہ معاشرے کا امن برباد کرتى ہىں۔آپؐ نے فرماىا کہ اپنے بھائى کى اچھى چىز ہتھىانے کى کوشش نہ کرو ىعنى کسى کى اچھى چىز دىکھو تو اپنے قبضے مىں لىنے کى حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،حسد کسى کى اچھى چىز دىکھ کے ىا ترقى دىکھ کر تماہارے مىں حسد نہىں پىدا ہونى چاہئے، مسابقت کى روح بىشک ہو آگے بڑھنے کى روح بىشک ہو لىکن حسد کرتے ہوئے اسے نقصان کوشش کرتے وہ پھر تم اس لئے حسد نہ کرو، آپس مىں دشمنى نہ رکھو دشمنىاں بھى بد ظنى کى وجہ سے عموماً پىدا ہوتى ہىں۔ اىک دوسرے سے بے رخى نہ برتو، اور اللہ تعالىٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالىٰ کے بندے اور بھائى بھائى بن کے رہو۔۔۔۔ پس جب انسان اللہ تعالىٰ کا بندے بننے کوشش کرے گا تو اس سے برائىاں سر ذد ہو ہى نہىں سکتىں۔آپ صلى اللہ علىہ وسلم نے فرماىا مسلمان مسلمان کا بھائى ہے اس پر ظلم نہىں کرتا اسے رسو انہىں کرتا اسے حقىر نہىں جانتا اپنے سىنے کى طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرماىا تقوىٰ ىہاں ہے اىک تو اس کا ىہ مطلب ہے کہ حقىقى تقوىٰ آنحضرت صلى اللہ وسلم کے مطہر دل مىں ہى ہے سب سے بڑھ کے لىکن ىہ بھى ىاد رکھنا چاہئے کہ تقوىٰ ىہاں ہے سے ىہ مراد بھى ہے کہ مقامِ تقوىٰ دل ہے جس کو اس بات کى سمجھ آجائے کہ دل کو تقوىٰ سے بھرنا ہے تو پھر ىہ خىال آہى نہىں سکتا کہ وہ کوئى اىسى حرکت کرے جس سے دلوں کى رنجشىں پىدا ہوں۔ اىک دوسرے کے حق غصب کرنے کا خىال آئے،پس ہمىں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کى ضرورت ہے کىا واقعى ہمارے دلوں مىں تقوىٰ ہے ىا صرف ہمارے منہ کى باتىں ہىں۔اگر ہمارے دل مىں دوسرے کا احترام نہىں ہے، اس کا حق ادا کرنے جذبہ نہىں ہے،تو ہمارے دل تقوىٰ سے خالى ہىں۔ ہم لاکھ نمازىں پڑھنے والے اور عبادت کرنے والے ہوں ہم اللہ تعالىٰ کى نظر مىں تقوىٰ پر چلنے والے نہىں کہلا سکتے پھر بھى اگر ىہ باتىں ہم مىں نہىں ہىں۔آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے ہمىں کس بارىکى سے اس بارے مىں نصىحت فرمائى ہے کہ فرماىا کہ اىک مسلمان کے لئے ىہى برائى کا فى ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو تحقىر کى نظر سے دىکھتا ہے۔آپؐ نے فرماىا کہ ہر مسلمان کى تىن چىزىں دوسرے مسلمان پر حرام ہىں اس کا خون، اس کى آبرو اور اس کا مال ۔۔۔۔۔ اللہ تعالىٰ نے اپنى خوشنودى حاصل کرنے والوں کى اىک نشانى ىہ بھى بتائى ہے کہ وہ تکبر نہىں کرتے،تکبر اىک بہت برى بىمارى ہے جس سے بچنے کى کوشش کرنى چاہئے۔ اگر ہم تکبر کى وجوہات تلاش کرىں تو اىک بہت بڑى وجہ فخر کرنا نظر آتا ہے، اپنےآپ کو کچھ سمجھنا، اپنى ذات پر فخر ہے اپنى قومىت پر فخر ہے، اپنى دولت پر فخر ہے اپنے علم پر فخر ہے اپنى اولاد پر فخر ہے زىادہ اولاد ہونا ىا ذہىن ہونا اور اس طرح کى مختلف چىزىں ہىں اور ىہ فخر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا ىا تکبر کا بىج بوتا ہے حالانکہ اللہ تعالىٰ کے نزدىک ىہ چىزىں نہ انسان کے لئے فخر کى جگہ ہىں نہ بہتر سمجھنے کا معىار ہىں۔ اللہ تعالىٰ نے تو فرماىا ہے کہ ىقىناً اللہ تعالىٰ کے نزدىک تم مىں سے زىادہ معزز وہ ہے جو سب سے زىادہ متقى ہے پس ىہ دنىاوى چىزىں اللہ تعالىٰ کے نزدىک معزز ہونے کا معىار نہىں ہىں پھر کس بات کا فخر ہے اگر ىہ معىار نہىں ہے۔ پس سوچنے کا مقام ہے اللہ تعالىٰ کے نزدىک جو چىز سب سے زىادہ معزز بناتى ہے وہ تقوىٰ ہے۔ جو تقوىٰ پر چلنے والا ہے وہ اللہ تعالىٰ کا خوف دل مىں رکھتے ہوئے کبھى سوچے گا بھى نہىں کہ مىں معزز ہوں۔اس کو اللہ تعالىٰ کا خوف اور اللہ تعالىٰ کا قرب پانے کى تڑپ ہر وقت ہى اس خىال مىں ڈالے رکھے گى کہ مىں کب اور کس طرح اللہ تعالىٰ کا پىار حاصل کروں۔انسان کو اگر فخر ہے بھى تو کس بات پر،ہے تو وہ اس زمىن پر رہنے والى اىک مخلوق کا اىک فرد اور اس زمىن کى حىثىت اس کائنات مىں اىک چھوٹے سے ذرے سے زىادہ کچھ نہىں پھر کس بات پر فخر کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے انسان۔‘‘

(اختتامى خطاب جلسہ سالانہ جرمنى، مورخہ 9اکتوبر2021ء)

اللہ تعالى ہم مىں سے ہر اىک کو اپنے حقىقى آشنا اللہ تعالىٰ تک رسائى کے لىے اپنے آپ کو خاک مىں ملا کر خاکستر ہونے کى توفىق عطا ء فرمائے۔ آمىن

اور ہم اپنى زندگىوں مىں حضرت مسىح موعود ؑ کا ىہ شعر پورا ہوتے دىکھىں:

؎جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہوگىا
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہوگىا

(ابو سعىد)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع 2021ء مجلس انصار اللہ نیدرلینڈ (ہالینڈ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 نومبر 2021