حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’ آپ (حضرت مسیح موعود ؑ) فرماتے ہیں ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ… (حٰم السجدہ: 31)۔ فرماتے ہیں کہ اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ (یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدے پر قائم ہوگئے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ وہی ہماری سب ضرورتوں کو پوری کرنے والا ہے۔ وہی پالنے والا ہے۔ ان پر فرشتے یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرو نہ اور تمہارے جو کوئی پچھلے فعل ہیں، عمل ہیں ان پر بھی خوف نہ کھاؤ کیونکہ اب تم نے تقویٰ اختیار کر لیا) آپ فرماتے ہیں کہ اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ۔ یعنی ان پر زلزلے آئے، ابتلاء آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔ (خدا تعالیٰ سے ثابت قدمی کا عہد کر لیا۔ یہ نہیں کہ سال کے سال رمضان آئے گا تو پھر اس پر عمل ہو گا اور تقویٰ اختیار ہو گا اور ایک مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جائیں گے۔ استقامت شرط ہے) آپ فرماتے ہیں پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی تو اس کا اجر یہ ملا
تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یعنی ان پر فرشتے اُترے اور کہا کہ خوف اور حُزن مت کرو۔ (غم مت کر) تمہارا خدا متولّی ہے۔ وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ (حٰم السجدہ:31) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے۔ فرماتے ہیں کہ اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے۔ (اگلے جہان کی جنت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے والوں کو اس جنت کی بشارت دے رہا ہے۔) جیسے قرآن مجید میں ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن:47)۔ پھر فرماتے ہیں پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ (حٰم السجدہ:32)دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ مستقل مزاجی سے نیکیوں پر قائم ہونے والوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ انہیں دنیا کی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی ولی اور متکفل ہوتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 2جون 2017ء)