• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذونسب بزرگ آباؤ اجداد

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ کا قدیم قانون اور سنت یہی ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو منصب دعوت ونبوت پر مامور کرتا ہےجو اعلیٰ خاندان میں سے ہوں اور ذاتی طور پر بھی چال چلن اچھے رکھتے ہوں کیونکہ جیسا کہ خدا تعالٰی قادر ہے حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تا کہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے۔یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں۔ اِسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولی ٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باوجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 280 ،281)

حضرت مسیح موعودؑ کا شجرہ نسب اور خاندان

فرمایا:
’’ہمارا شجرہ نسب اس طرح پر ہے:
میرا نام غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ابن مرزا عطا محمد صاحب ابن مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا فیض محمد صاحب ابن مرزا محمد اسلم صاحب ابن مرزا محمد دلاور صاحب ابن مرزا الہ دین صاحب ابن مرزا جعفر بیگ صاحب ابن مرزا محمد بیگ صاحب ابن مرزا عبد الباقی صاحب ابن مرزا محمد سلطان صاحب ابن مرزا ہادی بیگ صاحب مورث اعلیٰ۔‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 172)

مرزا ہادی بیگ مورث اعلیٰ خاندان مسیح موعودؑ حاجی برلاس کی نسل میں سے تھے اور حاجی برلاس سمر قند کے امیر تیمور کے چچا تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مورث اعلیٰ منگول اور ترک نسل کے تھے امیر تیمور نے اپنی زندگی میں 42 ملک فتح کئے اور اس خاندان نے فارس اور وسطی ایشیاء میں اپنی حکومت قائم کی اور سمر قند کو 1370ء میں اپنا دارالحکومت بنایا۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا’’ماوراء النہر(ترکستان) کے علاقہ سے ایک شخص مبعوث ہوگا جسے الحارث بن حراث کے لقب سے پکارا جائے گا۔‘‘

(سنن ابی داؤد)

سمر قند (SAMARKAND)

تہذیبوں کا سنگم سمر قند ازبکستان کا دوسرا بڑا شہر اور صوبہ سمر قند کا دارالحکومت ہے۔زمانہ قدیم سے چین اور یورپ کے درمیان شاہراہ ریشم کے وسط میں واقع ہے۔
امیر تیمور (1336ء۔1405ء) نے،جیسا کہ بیان ہوا ہے اپنی زندگی میں 42 ملک فتح کئے اور فارس اور وسطی ایشیا میں اپنی حکومت قائم کی اورسمر قند کو اپنا دارلحکومت بنا لیا۔
سمر قند جس کا مطلب ہے Rock City کئی تہذیبوں کا سنگم ہے امیر تیمور آرٹ اور آرکیٹیکچر کا بہت بڑا سرپرست تھا انہوں نے سمر قند کو 15 مختلف باغات سے آراستہ کیا جس میں پانی کی نہریں اور چشمے اور گھنے درخت لگوائے شاندار عمارات بنوائیں ان کے پوتے الغ بیگ نے سمرقند میں ایک شاندار رصد گاہ Observatory بنوائی۔
سمر قند اسلام تعلیم اور تحقیق کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے آج بھی بی بی خانم مسجد اس کی اہم ترین عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔
امیر تیمور کے بعد جلد ہی یہ سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور 1550ء میں ازبک قبائل نے وسطی ایشیا کے اکثر حصوں پر قبضہ کرلیا اب یہ محدود ہو کر ازبکستان کے ایک اہم شہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ازبکستان وسط ایشیا کے مرکزی حصے پر محیط ہے جسے تاریخی طور پر ترکستان کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
19ویں صدی کے وسط سے 20ویں صدی کے آخر تک وسط ایشیا کا اکثر علاقہ رشین ایمپائر اور پھر سویت یونین کا حصہ بن گیا۔1924ء سے1930ء تک سمر قند ازبک(SSR) کا دارلحکومت رہا ہے۔
2001ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے سمرقند کے تاریخی شہر کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے اس کو Samarkand _ Crossroad of cultureیعنی’’ تہذیبوں کا سنگم ‘‘ کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔
آج کا سمر قند دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ نیا شہر اور پرانا شہر اب بھی 100 سےزیادہ قوموں کے لوگ سمر قند میں بستے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی سمر قند سے ہجرت اور قادیان کی بنیاد

حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریباً 200 آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل وعیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا اور لاہور سے تخمیناً بفاصلہ50 کوس بگوشہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہو گئے جس کو انہوں نے آباد کرکے اس کا نام اسلام پور رکھا جو بعدمیں اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے ان دنوں میں سب کا سب ماجھہ کہلاتا تھا غالباً اس وجہ سے اس کا نام ماجھہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اورچونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے۔
مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمرقند سے اس ملک میں آئے مگر کاغذات سے یہ پتہ ملتا ہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا۔پھر اس ملک میں آکربادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات جاگیر ان کو ملے چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی۔‘‘

(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 162تا 165 حاشیہ)

طوائف الملوکی کا زمانہ

فرمایا’’سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب میرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے جن کے پاس اس وقت 85 گاؤں تھے اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے تاہم ان کی جواں مردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھےجو اب تک ان کے پاس ہیں غرض وہ اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے۔

دینی ذوق و شوق اور فیاضی

ہمیشہ قریب 500 آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دسترخوان پر روٹی کھاتےتھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے جن کے لئے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثرقال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسانہ تھا جو تارک نماز ہو یہاں تک کہ چکی پیسنے والی عورتیں بھی پنج وقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں اور گردونواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا مکہ کہتے تھے کیونکہ اس پُرآشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ165-166)

Sir Lepel Griffin‘‘The Punjab Chiefs Lain Adamson” Mirza Ghulam Ahmad of Qadian

مندرجہ بالا کتاب میں بھی آپ کے آباؤ اجداد کاذکر ملتاہے۔
اس کتاب میں وہی باتیں بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر حضور نے خود فرمایا مغلوں اور پھر سکھوں اور اس کے بعد انگریزوں کے دربار میں بھی حضور کے آباء کو کرسی ملتی تھی۔

حضرت مسیح موعودؑ کی حیات طیبہ

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی حضرت مرزا غلام احمد ؑ ان کے چھوٹے بیٹے تھے انہیں دنیا کی طرف ذرا بھی رغبت نہ تھی آپ کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کی غلامی میں مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کیا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا۔آپؑ فرماتےہیں۔

ابتدا سے گوشہ خلوت رہامجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا تیرا ہی ہے سب برگ و بار

ایک نئے اور مبارک دور کا آغاز

حضرت مسیح موعودؑ کو 1882ء میں ماموریت کا الہام ہوا اور اس سے اگلے سال 1883ء میں مندرجہ ذیل الہام ہوا جو کئی بار دہرایا جاتا رہا۔
سبحان اللہ تبارک وتعالٰی زاد مجدک ینقطع آبآؤک و یبدء منک
سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔اس نے تیرے مجد کوزیادہ کیا تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہو جائے گایعنی بطور مستقل ان کا نام نہیں رہے گا اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کا کرے گا۔

(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ 582 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

انجینئر محمود مجیب اصغر

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2019