• 23 اپریل, 2024

صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند دلچسپ غیر مطبوعہ واقعات

خاکسار کو بچپن سے ہی حضرت محمد مصطفٰی ﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے صحابہؓ کی سيرت پڑھنے اور سننے سے دلچسپی رہی ہے۔ خلفاء ِحضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے اپنے دورِ خلافت ميں صحابؓہ کرام کے حالاتِ زندگی کو جمع کر کے تحريری شکل ميں لانے پر بہت زور ديا ہے۔اسی سلسلہ ميں حضرت خلیفۃ المسیح الثانِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ايک اِرشاد پيشِ خدمت ہے جو آپ نے ۱۹۵۵ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر احبابِ جماعت کو مخاطب کرتے ہوۓ فرمايا :
’’آپ لوگ تو قدر نہيں کرتے۔جس وقت يورپ اور امريکہ احمدی ہوا تو انہوں نے آپ کو بُرا بھلا کہنا ہےکہ حضرت صاحبؑ کے صحابہؓ اور ان کے ساتھ رہنے والو ں کے حالات بھی معلوم نہيں‘‘

(الفضل ۱۶فروری ۱۹۵۶)

خلفاءِ احمديت نے بڑے دردِ دل اور تڑپ کے ساتھ احبابِ جماعت کی توّجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی ہے کہ صحابہؓ کے حالاتِ زندگی کوجمع کر کے چھپوايا جاۓ۔ اس کا ايک مقصد آنے والی نسلوں کے لئے ان واقعات کو بطور راہنمائی محفوظ کرنا تھا۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے خاکسار اپنے خاندان میں موجود بعض اصحاب حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے چند دلچسپ غير مطبوعہ واقعات کوبطور ہديہ قارئین کی خدمت ميں پيش کرنے کی توفيق پا رہا ہے جو کہ خاندان کے بزرگوں سے سن کر اکٹھے کئے گئے ہيں۔ وَمَاتَوْفِيْقُنَا اِلّابِاللّٰہِ الْعَزِيْز۔ فَا لْحَمْدُلِلّٰہ عَلٰی ذٰلِکَ۔

حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود عليہ السلام سے اس الہام اِنِّی مُھِيْنٌ مَّنْ اَرَادَاِھَانَتَکَ کے ذريعے وعدہ فرمايا ہے کہ میں اس کی ہتک کروں گا جو تيری ہتک کا ارادہ کرےگا۔ يہ الہام نہ صرف حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے حق میں پورا ہوا اور ہو رہا ہے بلکہ آپ کے غلام بھی اس وعدے کے مصداق ہيں۔ اس سلسلہ ميں حضرت شيخ محمد مبارک اسماعيل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھ دورانِ تعليم پیش آنے والا ايک واقعہ پيشِ خدمت ہے۔ آپ ؓحضرت صوفی شيخ مولا بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف لاہور (جو کہ 313 صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ميں سے تھے) کے بڑے صاحبزادے تھے۔

بی۔ اے کی تعليم مکمل کرنے کے بعد آپؓ کو مزیدتعلیم کےسلسلہ میںگھر سے ايک پرائیویٹ ہوسٹل ميں منتقل ہونا پڑا۔ اس ہوسٹل میں مختلف کالجوں کے اور طلباء بھی رہا کرتے تھے۔ آپؓ نے چندہ اکٹھا کر کے ہوسٹل کے عین صحن میں ايک چبوترہ بنايا جس نے بعدازاں مسجد کا رنگ اختيار کر ليا۔ آپ ؓنے اپنے ہاتھ سے فرش لگايا، پانی کا مٹکا لا کر رکھا، لوٹے رکھے اور صفیں بچھا کرپانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا انتظام کيا۔ آپؓ اذان خود ديتے اور غير احمدی اصحاب کو بھی تاکيد کرتے کہ وہ بھی نمازادا کیا کريں۔ کئی طلباء نے قرآنِ کريم کا ترجمہ بھی پڑھنا شروع کر ديا تھا۔

اس ہوسٹل ميں پير جماعت علی شاہ صاحب کہ دو مرید بھی تھے جو مذہبی اختلاف کی وجہ سے دشمنی رکھتے تھے۔ (پیر جماعت علی شاہ صاحب نقشبندی فرقے کے پير تھے اور جماعت ِاحمديہ کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے ) ۔ اس ہوسٹل میں ايک ڈاکٹر حميد اللہ بيگ صاحب بھی رہتےتھے وہ ان مريدوں سے مل گئے اور سازش کی کہ اس چبوترے پراحمديوں کو نماز پڑھنے سے روکا جائے۔عصر کی نماز کے وقت انہوں نے ايک لڑکے کو امام بنا کر کھڑا کر ديا اورپہلے نماز پڑھنے لگ گئے۔ ايک روز آپؓ نے کالج سے آنے کے بعد عصر کی اذان دی اور فوراً نماز شروع کر دی۔ ايک دو احمدی جو ہوسٹل ميں آپ کے ساتھ رہتے تھے انہوں نے فساد سے بچنے کے لئے تجویز دی کہ آئندہ اذان نہ دیں۔ چنانچہ فساد بڑھنے کے اندیشہ کے پیش نظر آپ نے غیر احمدیوں کو کہا کہ کوئی بات نہيں ہم احمدی اندر نماز پڑھ لیاکریں گے۔آپ اس جگہ نماز پڑھ ليں۔آپؓ کو اس بات کی خوشی تھی کہ کم از کم مخالفت کی وجہ سے ہی سہی ، غير احمديوں نے نمازتوپڑھنی شروع کر دی تھی۔ جب کچھ دن آپ چبوترے پر نماز پڑھنے کے لئے نہ آئے تو حمید اللہ بیگ صاحب کی تحریک پر پير صاحب کے مريدوں نےاس چبوترےکی صفوں کو دھونا شروع کر دياکہ مرزائيوں کے نماز پڑھنے سے يہ پلید ہو گئی ہيں ۔ آپؓ نے بيان کيا کہ جب يہ مخالفت جاری تھی تو آپ نے اور حضرت سيد ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو کہ اس وقت وہاں موجود تھے) نے بڑے دردِ دل سے دعا کی کہ اللہ ہم کمزور ہيں تو ہماری مدد کر۔

چنانچہ ان دنوں اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد اس طرح کی کہ حميداللہ بيگ جو اس ساری مخالفت میں پیش پیش تھا اور اس تحریک کا مدار المہام تھا سے کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ وہ پورے کالج اور ہوسٹل میں بدنام اور رسوا گیا۔

حضرت لیفٹیننٹ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف مردان کی جرأت و بہادری کا واقعہ

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ ہميشہ ضرورت مندوں اور کمزوروں کے کام آتےتھے۔ آپ ﷺ نے فرمايا کہ جب بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے قيامت کے روز کی تکلیف دور کرے گا۔اور جو شخص کسی مسلمان کی سترپوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قيامت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا (بخاری)۔ اسی ضمن ميں حضرت لیفٹيننٹ ڈاکٹر عبدالحکيم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف مردان کا واقعہ پيش ہے۔

آپؓ فوج ميں ویٹرنری اسسٹنٹ سرجن تھے۔ آپؓ بڑے خوش اخلا‍ق، ايمان دار ، علم دوست اور بہادر انسان تھے۔ آپؓ کا ايک واقعہ آپ کی بيٹی مرحومہ حسن آراء بيگم صاحبہ نے بيان کيا کہ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ سرحد کے جس علاقے ميں رہتے تھے وہاں ايک مرتبہ ايک ڈاکو آ گيا جس نے بڑی بڑی وارداتيں کر کے سب لوگوں کو پريشان کيا ہوا تھا۔ پوليس اسے گرفتار کرنے ميں ناکام تھی۔آپ ؓنے ارادہ کيا کہ آپؓ اسے پکڑيں گے۔ چونکہ آپؓ فوج ميں تھے اور ڈيوٹی پر تھے آپ ؓنے اپنے چند ساتھيوں کو ساتھ ليا اور سارا شہر چھان مارا مگر وہ نہ ملا۔ بالآخر آپ ؓکو خيال آيا کہ وہ شہر سے ملحقہ جنگل ميں ہو سکتا ہے۔ آپؓ اپنے ساتھيوں کے ساتھ جنگل کی طرف چل پڑے۔شہر سے کچھ دور پہنچ کرآپؓ نے محسوس کياکہ زمین اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے بلکہ مٹی اوپر نيچے ہوئی ہوئی ہے۔ آپ ؓنے مٹی ہٹائی تو نيچے ايک سرنگ نظر آئی ۔ آپؓ نے اپنے ساتھيوں سے کہا کہ وہ باہر انتظار کريں اور آپ ؓ اکیلے سرنگ میں داخل ہو گئے اور کچھ ہی دير میں اس ڈاکو کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ جب آپ ؓکے ہاتھوں کی طرف ديکھا گيا تو وہ بہت زخمی تھے جس سے يہ پتہ چلتا تھا کہ سرنگ ميں شديد مزاحمت ہوئی تھی اور بڑی مشکل سے اس ڈاکو کو پکڑا گيا تھا۔ يوں آپؓ نے علاقے کے لوگوں کو اس ڈاکو سے نجات دلائی۔

پہلی جنگِ عظيم کے اختتام پربرطانیہ ميں ڈاکٹروں کی ضرورت تھی۔ ۱۹۱۹ ميں ملٹری کی طرف سے آپؓ کی قابليت کی بنا پر آپ کو برطانیہ بھجوايا گيا اس طرح برطانیہ آ کر انسانيت کی خدمت کرنے کا بھی شرف آپ نے حاصل کيا۔

حضرت ملک عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف گجرات کا قبولیت دعا کا ایک واقعہ

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید ميں فرماتا ہے: اُدْعُوْنِیْ اَ سْتَجِبْ لَکُمْ (المؤمن: آيت ۶۱) تم مجھے پکارو ۔ میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوۓ جو دعائیں کی جاتی ہيں وہ عجب قدرتوں کے رنگ اپنے اندر رکھتی ہيں۔ يہ واقعہ اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔

حضرت ملک عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بيٹے ملک بشارت ربّانی صاحب مرحوم نے ميرے والدِ محترم ملک عابد ربّانی صاحب سے يہ واقعہ بار ہا دفعہ بيان کيا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب گجرات شہر تشريف لائے تو حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ نے اپنا ایک ايمان افروز واقعہ آپؓ کی خدمت ميں یوں بيان کيا:
حضور پہلی جنگ ِعظيم کے دوران فوجی ہونے کی بنا پر میں شام اور عراق کے محاذ پر فوج کے ساتھ تھا۔ ملکِ شام اور عراق کے درميان دريائے فرات بہتا تھا۔ لوگ ايک پل کے ذريعے دریا عبور کرتے تھے۔ ميری بڑی خواہش تھی کہ ميں دريا کے پار جا کر مقدس مقامات کی زيارت کروں۔ايک دن چھٹی تھی اور ميں پل کے اوپر سے گزر کر دوسری طرف ملکِ عراق ميں چلا گيا ۔ وہ پل رات کو اٹھا ياجاتا تھا۔ ميں نے سوچا کہ رات سے پہلے واپس ملکِ شام میں داخل ہو جاؤں گا۔ مقدس مقامات کو ديکھتے ہوئے مجھے وقت کا احساس نہ ہوا ۔ ميں جب واپس آيا تو پل اٹھایا جا چکا تھا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر ميں واپس نہ پہنچا تو ميرا کورٹ مارشل ہو جائے گا۔ ميں نے دعا شروع کر دی ۔ اتنے ميں دريا ميں سےچپو کےچلنے کی آواز آئی حالانکہ اس وقت دريا ميں کشتی چلانا ممنوع تھا ۔پھر مجھے غصّہ میںعربی زبان میں بولنے کی آواز آئی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ بے وقت آ جاتے ہيں پھر يہ کہتے ہيں کہ ہماری مدد کرو اور اونچی آواز ميں کہا بیٹھ جاؤ ۔چنانچہ میں کشتی میں بیٹھ گيا اور پھر اس نے مجھے دريا کے دوسرے کنارے اتار ديا۔ ميں نے منہ دوسری طرف کر کے جيب ميں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ موجود تھا نکال کر شرمندگی سے کہا کہ ميرے پاس اس وقت اس رقم کے سوا کچھ نہيں ۔جب کوئی آواز نہ آئی تو ميں نے مڑ کر ديکھا کہ وہاںکوئی کشتی تھی اور نہ ہی کوئی شخص۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن کر فرمايا کہ يہ واقعہ لکھ کر بھيج ديں۔

اعلیٰ درجہ کی ایمانداری کا مظاہرہ

آپکی اہليہ مرحومہ امّ سلمیٰ صاحبہ نے ميرے والدِ محترم ملک عابد ربّانی صاحب سے آپکی ايمانداری کا ايک واقعہ بيان کيا کہ ايک بار آپ ايک گلی ميں سے گزر رہے تھے تو آپ کو چھن چھن کی آواز سنائی دی آپؓ نے ديکھا کہ ايک گائے کے منہ ميں ايک تھیلی تھی۔ آپؓ نے گائےکے منہ سے تھیلی نکال لی ،کھول کر ديکھا تو اس کے اندر ايک لاکھ روپیہ تھا۔ آپؓ کچھ دير وہاں کھڑے رہے ۔ تھوڑی دير کے بعد وہاں سے ايک شخص گزرا جو بہت گھبرايا ہوا تھا پوچھنے پر اس نے تفصيل بتائی کہ ميری رقم والی تھیلی گم ہو گئی ہے۔ آپ نے مزيد پوچھا کتنی رقم تھی اس کے صحيح بتانے پر آپؓ نے تھیلی اس شخص کے حوالے کر دی۔ وہ شخص ہندو تھا ، بہت متاثر ہوا اور آپؓ کو 5 ہزار روپے بطور انعام دينا چاہا مگر آپ ؓنے لینے سے انکار کر ديااور کہا کہ میری ایمانداری کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ صرف پیارے نبی کریم ﷺ کی پیروی کی برکت سے ہے ۔

حضرت شيخ عبدالغفور صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف گجرات کا قبولیت دعا کا واقعہ

حضرت شيخ عبدالغفور صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ايک متقی، پرہيزگار، مخلص اور بے نفس انسان تھے ۔ آپؓ کی بڑی بيٹی ناصرہ احمد صاحبہ بيان کرتی ہيں کہ :
آپؓ کاگجرات شہر ميں شيخ الٰہی بخش و رحيم بخش بک سيلر اور پبلشر کے نام سے کاروبار تھا۔ کاروبار میں پيسوں میں کمی بیشی ،لینا دينا چلتا رہتا تھا۔ ايک بار مال آيا ہوا تھا مگر ادائیگی کے لئے پیسے نہ تھےبڑی کوشش کی مگر رقم کا انتظام نہ ہو سکا۔ آپؓ بہت پريشان تھے۔ آپؓ اپنے بھائی شيخ عبدالشکور صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھے ہوئےتھے کہ ايک دم سے اٹھ کر جوتی پہننا شروع کر دی ۔ بھائی نے پوچھا کہاں جا رہے ہيں؟ آپ ؓنے جواب ديا اپنے ايک دوست کے پاس جا رہا ہوں۔ گھر آئے کمرے کا دروازہ بند کيا اور نفل پڑھنے لگ گئے خوب دعا کی اور اس وقت تک سجدے میں گرے رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی نہ دی۔ واپس دکان پر گئے تو بھائی نے پوچھا کہ کام ہو گيا ہے؟ آپ ؓنے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ کل 11 بجے ميرے دوست نے آنا ہے۔ اگلے دن وقت گزرتا جا رہا تھامگر کوئی نہیں آیا تھا ۔ آپؓ اٹھ کر جانے لگے تو عین 11 بجے ايک آدمی آيا اور اس نے کہا میں نے اپنی بھینس فروخت کی ہے۔ آپؓ يہ پیسے اپنےپاس رکھ ليں۔ جب ضرورت ہو گی تو میںآپ سےلے لوں گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے غيب سے ايک انسان کو بھيج کر آپؓ کی وقتی ضرورت پوری کی اوربعدمیںاسےضرورت پڑنےپراس کی رقم واپس کردی۔ الحمداللہ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کو اپنے قرب و جوار میں جگہ عطا فرماۓ اور ہميں ان کے نقش ِقدم پر چلنے کی توفيق عطا فرماۓ۔ آمين۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

(مبارز احمد ربّانی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021