• 25 اپریل, 2024

حضرت منشی خادم حسین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ

حضرت منشی خادم حسین صاحب رضی اللہ عنہ بھیرہ کے ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب بھیرویؓ سے وابستگی آپ کو احمدیت سے وابستہ کرنے کا باعث ہوئی۔ آپ خود بیان کرتے ہیں:
’’یہ خاکسار جس کو ایک عرصہ تک شیعہ عقائد کی سچائی کا گمان رہ چکا ہےاور پھر مولانا مولوی نور الدین صاحب بھیروی کی زبان فیض ترجمان اور خامہ برکت شمامہ کے فیض سے اہل سنت و الجماعت کے عقائد کی تصدیق ہوئی اور پھر اسی ناصح مشفق کے فرمودہ کے مطابق حضرت مہدی الزمان کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔‘‘

(الحکم 31؍مارچ 1901ء صفحہ11)

بیعت کے بعد نہایت مخلصانہ طور پر سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام 313 صحابہ کی فہرست میں 253 نمبر پر درج فرمایا ہے۔

آپ ایک علمی شخصیت تھے۔ نوشہرہ (صوبہ خیبر پختونخواہ) کے ایک رئیس میاں رحیم شاہ صاحب نے آپ کو اپنے دو فرزندگان کے لیے اتالیق مقرر کیا۔ 1902ء میں اسلامیہ ہائی سکول پشاور میں استاد مقرر ہوئے۔ آپ چونکہ علم دوست انسان تھے لہٰذا ہر روز بعد از نماز عصر اور کبھی کبھی جمعہ کے دن صبح سے احباب جمع ہوجاتے اور علمی محفل سجتی جو ازدیاد علم اور ازدیاد ایمان کا موجب ہوتی۔ اسی محفل میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ بھی شامل ہوتے اور اسی کی برکت کے متعلق بیان کرتے ہیں :
’’خاکسار نے بھی 15؍جنوری 1902ء کو آپ کی تحریک سے حضرت احمد علیہ السلام سے بذریعہ تحریر بیعت کی۔‘‘

(تاریخ احمدیہ سرحد صفحہ 156از حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ۔ مطبوعہ 1959ء)

آپ کو شیعہ کتب کے مطالعہ کا بہت شوق تھا اور شیعہ عقائدوروایات کے متعلق بڑی وسیع معلومات رکھتے تھے۔ بیعت کےبعد سے ہی شیعہ کتب کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق لکھنے کی طرف راغب تھے۔ آپ کا ایک مضمون ’’تائیدات الرحمٰن علیٰ دعاوی امام الزمان‘‘ اخبار الحکم میں شائع ہوا ہے جس میں آپ نے شیعہ کتب کے حوالے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ثبوت دیا ہے۔

(الحکم 31؍مارچ 1901ءصفحہ11)

ایک مرتبہ ایک صاحب نے اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی (پرچہ 8؍ستمبر 1901ء) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کو غلط قرار دیا تو آپ نے شیعہ کتب سے ہی ملفوظات کی تائید پر مضمون لکھ کر بذریعہ اخبار الحکم اس کا جواب دیا۔

(الحکم 30 ستمبر 1901ء صفحہ 6تا7)

شیعہ ازم کے حوالے سے آپ کے مضامین تشحیذ الاذہان، بدر، الحکم، فاروق و الفضل وغیرہ میں شائع شدہ ہیں۔ رسالہ تشحیذ الاذہان میں چھپے ہوئے آپ کے مضامین کی فہرست ذیل میں دی جاتی ہے:
’’تحقیقات واقعات کربلا‘‘ (تشحیذ الاذہان دسمبر 1911ء صفحہ 464 تا 487)
’’سلمان منّا اھل البیت‘‘ (تشحیذ الاذہان جنوری 1912ء صفحہ 33 تا 35)
’’شیعہ مذہب‘‘ (تشحیذ الاذہان مارچ 1912ء صفحہ 103 تا 112)
’’عبداللہ بن سبا‘‘ (تشحیذ الاذہان مئی 1912ء صفحہ 202 تا 209)
’’خواص الائمہ‘‘ (تشحیذ الاذہان جون 1912ء صفحہ 317 تا 323)
’’الملاحم‘‘ (تشحیذ الاذہان ستمبر 1912ء صفحہ409 تا 415)
’’شیعیان قدیم‘‘ (تشحیذ الاذہان نومبر 1912ء صفحہ510 تا 515)
’’واقعات کربلا‘‘ (تشحیذ الاذہان دسمبر 1912ء صفحہ 558 تا 561)
’’واقعات کربلا‘‘ (تشحیذ الاذہان جنوری 1913ء صفحہ 17 تا 22)
’’شمائل مرتضوی‘‘ (تشحیذ الاذہان جولائی 1913ء صفحہ 349 تا 353)
’’ان ارید الّا الاصلاح‘‘ (حضرت علیؓ کے بارے میں نصاریٰ کے مثیل فرقہ کی پیشگوئی کے متعلق) (تشحیذ الاذہان اکتوبر 1913ء صفحہ 507 تا 526)
’’یزید کی مدح خوانی اکابر شیعہ کی زبانی‘‘ (تشحیذ الاذہان نومبر 1913ء صفحہ 561 تا 568)
’’تعزیہ داری ایران‘‘ (تشحیذ الاذہان دسمبر 1913ء صفحہ 594 تا 598)
’’خلفائے راشدین اور یزید کا مقابلہ‘‘ (تشحیذ الاذہان جنوری 1914ء صفحہ 21 تا 36)
’’اتحاد الفریقین فی اعتقاد الفریقین‘‘ (تشحیذ الاذہان فروری 1914ء صفحہ 12 تا 40)
’’السلام علیٰ حق الجدید‘‘ (حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی صداقت کتب شیعہ سے) (تشحیذ الاذہان جون 1915ء صفحہ 22 تا 48)
’’چند کار آمد حوالے‘‘ (تشحیذ الاذہان اکتوبر 1917ء صفحہ 13 تا 24)
’’بعض قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا حضرت مرزاغلام احمد قادیانی کی صداقت‘‘ (تشحیذ الاذہان دسمبر 1921ء صفحہ 25 تا 34)

شیعہ ازم کے متعلق اپنے مطالعے اور تحقیقات کے بارے میں آپؓ کا ایک اعلان اخبار بدر 23مارچ 1911ء کےصفحہ 9 پر موجود ہے۔ آپؓ اپنی ملازمت کے سلسلے میں مختلف جگہوں پر متعین رہے چنانچہ آپ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پشاور، کلکتہ، دہلی وغیرہ میں ملازم رہے۔ شکارپور سندھ سے آپ کا بھجوایا ہوا مضمون اخبار فاروق 16؍مئی 1918ء صفحہ 5 اور 6 پر شائع شدہ ہے۔ اسی طرح مسئلہ نبوت اور کیا قادیان میں حج ہوتا ہے؟ کے عنوان پر آپ کی ایک شیعہ سے گفتگو کا احوال اخبار الفضل 14مئی 1918ء کے صفحہ 9 اور 10 پر موجود ہے۔ شیعہ ازم میں آپ کا ید طولیٰ رکھنا اتنا معروف تھا کہ ایک مرتبہ لاہور میں سنی جماعت نے اہل تشیع سے مباحثے کے لیے آپ کی علمی خدمات حاصل کیں چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کی ڈائری 6؍نومبر 1921ء بعد نماز ظہر میں لکھا ہے:
’’سید دلاور شاہ صاحب سیکرٹری تبلیغ لاہور نے عرض کیا کہ منشی خادم حسین صاحب بھیروی آج کل لاہور میں مقیم ہیں۔ چونکہ اس دفعہ شیعہ سنیوں میں چل گئی ہے اس لیے شیعوں کے بعض سوالات کے جواب میں سنیوں کو کچھ حوالوں کی ضرورت تھی۔ وہ مجھے ملے، مَیں نے اُن کو منشی صاحب سے ملا دیا ہے اور منشی صاحب نے قلمی مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فرمایا یہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہر میدان کے مرد ہمارے پاس ہیں۔ شیعوں کے مقابلہ کے لیے احمدیوں میں موجود ہیں۔ آریوں کے مقابلہ کے لیے احمدیوں کے پاس ہیں۔ عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے احمدیوں میں ہیں۔ فرمایا ہمارے مخالف کیوں غور نہیں کرتے کہ جس قدر اسلام کے پہلوان ہیں وہ احمدیوں کے پاس ہیں۔ کیا ان سب اسلامی پہلوانوں نے نعوذ باللہ دجال ہی کے ہاتھ پر بیعت کرنی تھی ….‘‘

(الفضل 28؍نومبر 1921ء صفحہ11)

آپ شعر و شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے اور آپ کا تخلص بھی خادمؔ تھا۔ آپ کی ایک نعت اخبار الحکم 31جنوری 1899ء کے صفحہ 9 پر شائع شدہ ہے جس کا پہلا اور آخری شعر یوں ہے:

مرے جسم اور جاں اندر محمدؐ ہے محمدؐ ہے
مرے روحِ رواں اندر محمدؐ ہے محمدؐ ہے
محمدؐ کی محبت میں سدا سرشار ہے خادؔم
مرے دل اور زباں اندر محمدؐ ہے محمدؐ ہے

آپ کی اہلیہ اور ہمشیرہ کی وفات کا اعلان اخبار بدر 5جنوری 1911ء کےصفحہ 2 پر یوں شائع شدہ ہے:
’’منشی خادم حسین صاحب بھیروی مشہور نامہ نگار کی ہمشیرہ اور بیوی کا جنازہ پڑھا جائے۔‘‘ اپنی اس بیوی کی وفات کے بعد آپ نے ایک اور شادی کی جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا عطا فرمایا جس کا نام محمد یحیٰ رکھا گیا۔ (الفضل 2مارچ 1928ء صفحہ2) لیکن پانچ سال بعد ہی آپ کے اس اکلوتے بیٹے نے وفات پائی۔ (الفضل 10جنوری 1933ء صفحہ 2) تاریخ احمدیت صوبہ سرحد کے مطابق آپ کی اور کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ صرف ایک بیٹی باقی رہی۔ آپ نے 1933ء میں وفات پائی۔

اخبار الفضل نے لکھا:
’’نہایت ہی رنج و افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے ….. کہ منشی خادم حسین صاحب خادم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرانے صحابی، مخلص، متقی اور نہایت قابل انسان تھے، 7؍نومبر کو صرف دو دن بعارضہ بخار بیمار رہ کر فوت ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون ….. مرحوم اپنے پیچھے چار لڑکیاں اور ایک بیوی چھوڑ گئے ہیں۔ نرینہ اولاد کوئی نہیں۔ احباب مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کریں۔‘‘

(الفضل 12نومبر 1933ء صفحہ2)

اللھم اغفرلہٗ و ارحمہٗ

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021