• 22 مئی, 2024

قرآن کریم کی ایک عظیم پیشگوئی

قرآن کریم کی ایک عظیم پیشگوئی
فرعون کی لاش کا ملنا

تاریخی حقائق کی ایک جھلک

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

نَتۡلُوۡا عَلَیۡکَ مِنۡ نَّبَاِ مُوۡسٰی وَفِرۡعَوۡنَ بِالۡحَقِّ لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۴﴾

(القصص: 4)

ترجمہ: سناتے ہیں ہم تمہیں کچھ حالات موسٰیؑ اور فرعون کے بالکل ٹھیک ٹھیک، ایسے لوگوں کے فائدے کے لئے جو ایمان لائیں

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا ۚ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾

(الاعراف: 104)

ترجمہ: پھر بھیجا ہم نے اُن کے بعد موسٰیؑ کو اپنی نشانیوں کے پاس فرعون اور اُس کے سرداروں کے مگر اُنہوں نے (نہ مان کر) نا انصافی کی اُن نشانیوں کے ساتھ۔ پس دیکھو کیا ہوا انجام فساد مچانے والوں کا۔

فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَاِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ ﴿۹۳﴾

(یونس: 93)

ترجمہ: سو آج ہم بچا لیں گے تیرے جسم کو تاکہ بن جائے تُو اُن لوگوں کے لئے جو تیرے بعد ہوں گے، نشان عبرت۔ اور اگرچہ اکثریت انسانوں کی ہماری نشانیوں سے غفلت برتتی ہے

فرعون جس نے حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کی رسالت کا انکار کیا تھا اور آج سے تقربیاً تین ہزار سال قبل اس دنیا سے گزر چکا ہے۔ فرعون کی موت کے 1500 سال سے زائد عرصہ کے بعد قرآن پاک نے یہ پیشگوئی کی کہ فرعون کے جسم کو بچا لیا گیا ہے۔ 19ویں صدی میں قرآن کریم کی اس پیشگوئی کی تصدیق ہوگئی جبکہ فرعون کی ممی دریافت ہوئی۔

منفتاع (دائیں) رعمیس II (بائیں)

یہود و نصاری کی تاریخ سے تعلق رکھنے والے متعدد واقعات ہیں جن کا ذکر عہد نامہ قدیم، عہد نامہ جدید اور قرآن کریم میں ملتا ہے۔ خروج کا واقعہ قرآن کریم کے کلام الہٰی ہو نے کا بین ثبوت ہے۔

حضرت موسٰیؑ کے مصر سے خروج اور ان کا تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کے انجام کا واقعہ یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کے لئے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔

خروج

Dr. Maurice Baueaile خروج کے بارے میں اپنی کتاب ’’The Bible the Quran & the Science‘‘ میں یہ جائزہ لیتے ہوئے کہ حضرت موسٰیؑ کو ایک فرعون یا دو مختلف فرعونوں سے اپنی زندگی میں واسطہ پڑا تحریر کرتا ہے ’’یہ مفروضہ‘‘ جو کہ بائبل سے شروع ہوتا ہے قرآن کریم میں موجود معلومات سے مکمل ہوتا ہے۔ جدید معلومات جو کہ ان دونوں مقدس کتب میں ہے، بائبل اور قرآن میں موجود ہیں۔

بائبل میں اس واقعہ کے بارے میں بیان

’’اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی ان سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔‘‘

(بائبل خروج 14: 29-30)

بائبل کا بیان اگرچہ تاریخ کو محفوظ تو کرتا ہے لیکن قرآن کریم کے مقابلہ میں بالکل سطحی ہے۔ حضرت موسٰیؑ کے ایک ماننے والے نے جو کچھ دیکھا اور محفوظ کیا وہ بس اتنا ہے کہ فرعون اور اس لشکر پہاڑوں جیسی دوبلند لہروں میں غرق ہو گیا۔ غرق ہونے سے پہلے فرعون پر کیا گزری؟ ڈوبتے وقت اس کے اور خداتعالیٰ کے درمیان کیا بات ہوئی؟ بائبل صرف اتنا بتاتی ہے کہ وہ سب ڈوب گئے۔

قرآن کریم میں خروج کے واقعہ کا ذکر

قرآن کریم میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔

وَجٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتۡبَعَہُمۡ فِرۡعَوۡنُ وَجُنُوۡدُہٗ بَغۡیًا وَّعَدۡوًا ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَاَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۹۱﴾ آٰلۡـٰٔنَ وَقَدۡ عَصَیۡتَ قَبۡلُ وَکُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۹۲﴾ فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَاِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ ﴿۹۳﴾

(یونس: 91 – 93)

ترجمہ: اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر پار اتار لائے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے بغاوت اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پربنی اسرائیل پرایمان لائے ہیں اور میں (بھی) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ کیا اب (ایمان لایا ہے)! جبکہ اس سے پہلے تو نافرمانی سے کام لیتا رہا اور تو مفسدوں میں سے تھا۔ پس آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک عبرت بن جائے۔ حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے اکثر یقینا ہمارے نشانات سے بالکل غافل ہیں۔

یہاں یہ امر توجہ طلب ہے کہ قرآنی بیان کے برعکس بائبل میں فرعون کی جسمانی نجات کے امکان کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ کیونکہ بائبل کے مطابق ان میں سے ایک بھی نہ بچا۔ چنانچہ قرآن کریم سے پہلے کسی انسانی تاریخ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا فرعون کے جسم کو اس لئے بچایا گیا تاکہ وہ آئندہ نسلوں کے لئے باعث عبرت ہو۔

نزول قرآن کے وقت فراعین مصر کے مقابر صحرا کی ریت کی تہوں میں مدفون تھے۔ تو اس زمانہ کے لوگوں کو ممی بنانے کا علم نہیں تھا اور خصوصاً عرب تو اس سے بالکل ہی نابلد تھے۔ کسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی کتاب یا روایت میں فرعون کی جسمانی نجات کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ کجا یہ ذکر کہ اس کا جسم بعد میں بھی محفوظ رہا۔

حضرت موسیٰ اور فرعون کے مقابلے کا نشان تین زمانوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ اس واقعہ کو آج سے تقربیاً 3300 سال گزر چکے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیع الربع اپنے خطبہ جمعہ 03 ستمبر 1988 میں فرماتے ہیں
’’قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کے اس نشان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ جب فرعون اپنے لشکریوں کے ساتھ غرق ہونے لگا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ استدعا کی کہ اب میں موسیٰ اور ہارون اور اُن کے خدا پر ایمان لاتا ہوں اس لئے تو مجھے بچا لے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا اب یہ کوئی وقت ہے بچنے کا اور اس جواب میں بہت ہی گہری حکمت ہے۔

اس کے ساتھ ہی قرآن پاک میں فرمایا ہاں ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ یہ کون سا وقت ہے بچانے کا اور پھر اچانک یہ کہہ دینا کہ ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے۔ اس میں بہت گہری حکمت ہے۔ مراد یہ کہ جب تیری روح کی نجات کا وقت تھا جب تیری روح کو خطرہ تھا اُس وقت تو تو ایمان نہیں لایا اب بدن کو خطرہ پیدا ہوا ہے تو تو ایمان لاتا ہے ہاں تیرے بدن کو نجات دیں گے اور محض ایک طعن کے رنگ میں نہیں بلکہ اس غرض سے کہ یہ آئندہ نسلوں کے لئے ایک عبرت کا نشان بن جائے۔ یہ ہے وہ مکمل جواب دراصل جو چھوٹے سے جواب میں مضمر ہے۔ ۔ ۔ ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الرابع 03ستمبر 1988)

چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب پہلی مرتبہ اسی صدی کے آغاز میں مصرکے ایک گورنر کو جب یہ معلوم ہوا کہ باوجود اس کے کہ پرانے مقابر سارے لوٹے جاچکے ہیں اچانک مصر میں کچھ ایسے از منہ قدیم کے نشانات بکنے شروع ہوئے ہیں جن کے اُس وقت مصر کے بازروں میں بکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی چنانچہ اُس گورنر نے جب تحقیق کا حکم دیا تو پتا لگا کہ واقعی وہ شاہی نشانات ہیں اور یقینی طور پر فراعین مصر سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ بادشاہوں کے وہ مقابر جوسب معلوم تھے وہ خالی پڑے ہوئے تھے چیزیں لوٹی جاچکی تھیں۔ جو سامان حکومتوں کے ہاتھ آیا وہ پہلے ہی عجائب گھروں کی زینت بن چکا تھا۔ اس لئے اُس کو بہت تعجب ہوا اور اُس نے تحقیق شروع کروائی تو پتا لگا کہ عبد الرسول ایک خاندان ہے جو یہ کاروبار کر رہا ہے۔ چنانچہ دباؤ کے نتیجے میں، بار بار کی پرستش کے نتیجے میں، کچھ عرب دستور کے مطابق اُن میں سے ایک آدمی کو پکڑکر اُس کے تلوں پر انہوں نے سانٹے لگائے تو آخر میں وہ بول پڑا۔ اُس نے بتایا آؤ میں تمہیں لے کر جاتا ہوں۔ اس جگہ جو بادشاہوں کا مقبرہ یا مقابر کہلاتے تھے سے ایک میل دور ایک اور مقبرہ بھی ہے جس کا کسی کو کچھ پتا نہیں تھا اور اُس میں یہ ساری چیزیں محفوظ پڑی ہیں اور وہاں پرانے بادشاہوں کی لاشیں بھی ہیں اُس کو ہم نے اس لئے ہاتھ نہیں لگایا کہ ہم پکڑے جاتے۔ چنانچہ جب ایک مہم وہاں گئی اور محقق جوپرانی زبان پڑھ سکتا تھا اُس نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ یہ قطعی طور پر پرانے فراعین کی لاشیں ہیں۔ اُس کے کچھ دیر کے بعد ایک اور مقبرہ بھی وہیں قریب ہی دریافت ہوا جہاں 31 فراعین کی لاشیں ملیں۔ اُن لاشوں میں منفتاح کی لاش بھی تھی اور اُس کے دادا کی لاش بھی تھی اور اُس کے والد کی بھی اور کئی اہم فراعین کی لاشیں وہاں موجود تھیں۔ چنانچہ محقیقین بڑی حیرت سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ واقعہ جب معلوم ہوا تو تمام محقیقین دم بخود رہ گئے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ لاشیں جو تین ہزار سال سے گم رہیں وہ اچانک دریافت ہوں گی اور بالکل صحیح حالت میں جس طرح ممی کی گئی تھیں اُسی طرح پڑی ہوئی وہاں ملیں گی۔ چنانچہ اس پر مزید تحقیقات ہوتی رہی اور پتا لگا کہ مختلف وقتوں میں اُس زمانے میں بھی چونکہ چوریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اس لئے اُس زمانے میں بھی چور اُچکے مال و دولت کے لالچ میں بار بار حملے کرکے وہ قیمتی چیزیں چرالیا کرتے تھے۔ اس لئے حضرت موسٰیؑ کے تقربیاً تین سو سال کے درمیان کے عرصہ میں مصر کے پادریوں نے یہ فیصلہ کیا (یا مہنتوں اور پنڈتوں نے جو بھی آپ اُن کا نام دیں) کہ ان بادشاہوں کی حفاظت کی خاطر انہیں کسی مخفی جگہ پر منتقل کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ دوسرا سازوسامان سب وہیں رہنے دیا گیا اور بادشاہوں کی لاشوں کو حفاظت کے ساتھ دو مقبروں میں دفنا دیا گیا جس کا راز تین ہزار سال کے بعد معلوم ہوا ہے۔ پس قرآن کریم کا یہ معجزہ کوئی معمولی معجزہ نہیں ہے اور حیرت انگیز معجزہ ہے۔

قرآن کریم کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ نہ صرف بعض گزشتہ واقعات کا انکشاف کرتا ہے جو اس وقت تک دنیا کو معلوم نہ تھے بلکہ وہ یہ پیشگوئی بھی کرتا ہے کہ مستقبل بھی اب بیانات کی تصدیق کرے گا۔ اس وقت اس بات کا تصور بھی محال تھا کہ بائیبل کے بیان کردہ حالات کی رو سے غرق ہونے کے بعد فرعون کا جسم بچا لیا گیا ہو۔ لیکن بفرض محال اگر اسے بچا بھی لیا جاتا تو بھی ممی کا ذکر بجائے خود ایک عجوبہ سے کم نہ ہوتا۔

بایں ہمہ قرآن کریم بعینہٖ یہی دعویٰ کرتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں کوئی آدمی ایسا بیان دینے کے بارہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو اس وقت کے موجود تاریخی شواہد کے اتنا برعکس ہوتا۔ اس وقت ان لوگوں کا یہی خیال تھا کہ فرعون کو سمندر نے ہمیشہ کے لئے نگل لیا تھا حتیّٰ کہ ان مقابر میں چوری کی نیت سے داخل ہونے والوں کے ذہن میں یہ شائبہ تک نہ تھا کہ ’’ویلی آف کنگز‘‘ (valley of kings) یعنی ’’بادشاہوں کی وادی‘‘ میں فراعین مدفون ہیں۔ اگر قراان کریم رسول کریم ﷺ کی اختراع ہوتا تو انہیں اس قسم کا عجیب بیان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اول تو یہ کہ ایسا بیان تو ویسے بھی ایک بالکل بے سود بات تھی بلکہ اس سے تو بجائے فائدہ کے نقصان کا احتمال تھا کیونکہ اگر کوئی اسے چیلنج کر دیتا تو رسول کریم ﷺ کے پاس اس موقف کے دفاع میں ان دنوں کوئی شہادت موجود نہ ہوتی۔ اس کا تو صرف ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا یعنی کہ قرآن کریم کی صداقت مشتبہ ہو جاتی۔

نزول قرآن سے کئی صدیاں بعد زمین نے اپنے بھید کھولنا شروع کئے اور اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے منسوب تمام فراعین کی حنوط شدہ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

سکالرز نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دور

Tuthmesis II (1493 – 1479B)

سے لے کر

Merneptah (1212 – 1202 BC)

بیان کیا ہے۔

اکیڈیمک امریکن انسائیکلوپیڈیا

موسیٰ علیہ السلام کا دور 31 صدی ق۔ م بیان کرتا ہے اور خروج کا واقعہ 5021 ق۔ م میں ہوا۔ تاریخی اور مذہبی شواہد کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش رعمیس II نے کی، اس نے 5 سال تک حکومت کی۔

Encyclopedia Britannica

قدیم مصر کے 91 خاندان (1292-1190 BC) کے بارے میں بیان کرتا ہے۔ جس کا دور حکومت (1279-13BC) مصری تاریخ میں دوسرا لمبا دور تھا۔ Merneptah جو کہ اس کا جانشین تھا ایک جنگجو بادشاہ تھا، صرف چند سال (4-8 سال) حکومت کی۔

Itolt’s World History

اہم لوگوں، جگہوں اور واقعات کی ڈکشنری Merneptah کو خروج کا فرعون بتاتی ہے۔

Egypt & Bible

مشہور Egyptologists پیری مونٹیٹ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ منفتاع ہی خروج کا فرعون تھا۔

Hutchison New Century Encyclopedia

بھی اس پر یقین رکھتا ہے کہ منفتاع ہی اس وقت کا فرعون تھا۔

Fatherde Vaus

کی تھیوری کے مطابق حضرت موسٰیؑ کی زندگی کے عرصہ کے دوران صرف ایک ہی فرعون تھا۔

Ancient History of Israel

اور وہ بلاشک و شبہ رعمیس ثانی تھا۔

عیسائیت کے بارے میں مقبول اور مستند فلم ’’The Ten Commandments‘‘ جو کہ 1958میں ریلیز ہوئی Yule Bryner کو بطور رعمیس ثانی، خروج کا فرعون کاسٹ کیا گیا۔

رعمیس ثانی کا عہد حکومت مصری کی شاہی طاقت کا آخری عروج کا دور تھا۔ اس کی وفات کے بعد مصر دفاعی حالت اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن اس نے فلسطین اور ملحقہ علاقوں پر اپنی بالا دستی بیسویں خاندان کے آخری دور تک قائم رکھی جہاں تک تاریخ دانوں کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چاہے خروج کا فرعون رعمیس ثانی ہو یا اس کا بیٹا منفتاع دونوں ہی ظالم تھے اور اسرائیلوں کا استحصال کرتے تھے اور دونوں کے اجسام مل گئے ہیں اور مصر کے عجائب گھر میں نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں۔

جہاں تک قرآنی پیش گوئی کا تعلق ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کہ وہ رعمیس ثانی تھا۔ منفتاع تھا۔ دونوں کے اجسام مل چکے ہیں، طبی طور پر اس کی تصدیق ہو چکی ہے اور قاہرہ کے عجائب خانے میں تمام بنی نوع انسان کے دیکھنے کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اس سے قرآنی پیشگوئی، جو کہ1500 سال قبل کی گئی کی تصدیق ہوتی ہے۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ؒ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’یہ امر بنوز حل طلب ہے کہ یہ فرعون رعمیس ثانی تھا یا اور کوئی اور؟ لیکن اس امر میں تو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ’’ویلی آف کنگز‘‘ (Valley of Kings) یعنی وادی شاہانِ مصر سے برآمد ہونے والی ایک ممی اسی فرعون کی ہے جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ٹکر لی تھی۔ لامحالہ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری تاریخ عالم کے فیصلے کے خلاف صرف قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی درست ثابت ہوا: یعنی آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے۔ قرآن کریم کا یہ وہ فیصلہ ہے جس پر تاریخ عالم نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

(حضرت مرزا طاہر احمد، الہام، عقل علم اور سچائی صفحہ 502)

رعمیس ثانی ایک ظالم و جابر فرعون
اور خروج کا فرعون

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ؒ نے اپنی تصنیف الہام، عقل، علم اور سچائی میں جو خیالات درج کئے ہیں وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں رعمیس ثانی ہی فرعون خروج تھا اور کہ غالباً خروج کے وقت ڈوبنے سے بچ گیا اور کچھ عرصہ بعد تک خراب صحت کے زندہ رہا اور مرنے کے بعد اس کی ممی بنائی گئی۔ اس کی تائید کی بنیاد یہ توجیہات ہیں۔

1۔ وہ مفسرین جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب فرعون کو سمندر سے نکالا گیا تو وہ مر چکا تھا ان کے نزدیک یہ رعمسیس ثانی کا جانشین منفتاح تھا نہ خود رعمسیس۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسٰیؑ نے ایک کی بجائے دو فراعین کا زمانہ پایا۔ آپؑ کی پیدائش رعمسیس ثانی کے دور میں ہوئی اور اسی کے محل میں اس کی ایک خدا ترس بیوی نے آپ کی پرورش کی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی سب سے چھوٹی بیوی تھی۔

چونکہ اس کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی لہذا اس کی حضرت موسٰیؑ کو متبنٰی بنانے کی خواہش ناقابل فہم نہیں ہے۔ اگر اس نقطۂ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو رعمسیس ثانی کی وفات کے بعد جب منفتاح تخت نشین ہو چکا تھا، حضرت موسٰی ؑ مدین سے اس وقت مصر واپس تشریف لائے ہوں گے۔ یہ لوگ اپنی تائید میں بائیبل کا یہ حوالہ پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت موسٰی ؑعلیہ السلام کو مدین کی طرف اپنی جلاوطنی کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی کہ وہ فرعون جس کے عہد میں آپؑ کے ہاتھوں ایک شخص قتل ہوا تھا، مر چکا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ بات منطقی اور قابل قبول معلوم ہوتی ہے لیکن ایک بادشاہ کی وفات سے کوئی شخص اپنے جرم سے بری الذمہ نہیں ہوجاتا اور اس میں کوئی منطق نہیں ہے۔

2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے خوف کو دور کرنے کے لئے فرعون کی موت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ اس کے برعکس انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ ہرگز خوف نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اور ان کے بھائی کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ توجیہہ کہیں زیادہ معقول نظر آتی ہے۔

3۔ مزید برآن مسئلہ یہ ہے کہ رعمسیس ثانی کی ممی کی حالت کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ کی شہادت یہ ہے کہ اس نے نوے سال عمر پائی اور اپنی زندگی کے آخری تیس سال انتہائی نقاہت، کمزروی اور غالباً شریانوں کے سکڑنے کی امراض کے باعث بستر علالت پر گزارے۔ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ حالت اس کے ڈوب کر مرنے کے قریب پہنچ جانے کے بعد ایک بلاواسطہ نتیجہ کے طور پر ہوئی ہو جس کی وجہ سے اس کا دماغ آکسیجن کی مناسب مقدار مل نہ سکنے کی وجہ سے مستقلاً مفلوج ہو گیا ہو۔

4۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی مدین کی طرف ہجرت اور وہاں کا عرصہ قیام آٹھ سے دس سال تک بنتا ہے جس کے اختتام پر رعمسیس ثانی کی عمر چالیس سے پچاس سال سے زیادہ نہیں ہوسلتی۔ لہذا بائیبل کا یہ بیان ناقابل قبول ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف فرعون کی موت کا انتظار کر رہا تھا تاکہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو بطور نبی مبعوث فرما کر مصر واپس جانے کا حکم دے۔ ضمناً قرآن کریم یہ ذکر بھی کرتا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام جس فرعون کے پاس واپس گئے اس نے آپؑ پر قتل کا الزام تو ضرور لگایا لیکن بوجہ ان معجزوں کے جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے وہ آپؑ کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے باز رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپؑ کا سزا سے بچ جانا کسی ایک فرعون کی موت اور دوسرے کی تحت نشینی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔

5۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی مصر میں واپسی کے بعد کی زندگی کو قرآن کریم اور بائیبل دونوں نے بے حد مصروف قرار دیا ہے اور فرعون کے ساتھ ان کا مقابلہ کم و بیش دس سال پر محیط دکھائی دیتا ہے کیونکہ بیان کردہ معجزات تمام کے تمام ایک یا دوسال کی محدود مدت میں سمیٹے نہیں جاسکتے۔ اس کے برعکس مؤرخین کے اندازہ کے مطابق تاجپوشی سے وفات تک منفتاح کا سارا عہد حکومت آٹھ سال یا اس سے بھی کم مدت پر مشتمل ہے۔

6۔ مزید برآن تاریخ بتاتی ہے کہ منفتاح ایک جنگجو بادشاہ تھا جو کئی سال فلسطینیوں پر مسلسل حملے کرتا رہا۔ جبکہ قرآن کریم اور بائیبل دونوں ہی فرعون موسٰی کے اسرائیل پر ایسے حملوں کے بارہ میں مکمل طور پر خاموش ہیں کہ یہ خروج رعمسیس ثانی کے دور میں ہوا یا منفتاح کے دور میں۔

جب تک دونوں ممیاں محفوظ ہیں، دونوں ہی ہمیشہ کے لئے قرآنی پیشگوئی پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہیں گے ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

(حضرت مرزا طاہر احمد، الہام، عقل علم اور سچائی صفحہ (504-505)

(درثمین خان)

پچھلا پڑھیں

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2022