• 20 اپریل, 2024

حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم بنت حضرت مصلح موعودؓ کے حالاتِ زندگی

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبانِ مبارک سے اپنی والدہ ماجدہ

حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم بنت حضرت مصلح موعودؓ کے حالاتِ زندگی

’’قارئین الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘

نوٹ:حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم والدہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے آپ کے حالاتِ زندگی بیان فرمائے جس کا ایک حصہ دیا جارہا ہے۔

حضور انور فرماتے ہیں۔
گزشتہ دنوں میری والدہ کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ میں جب بھی اُن کی زندگی پر غور کرتا ہوں، اُن کی عبادت کے معیار مجھے نمونہ نظر آتے ہیں۔ اُن کا قرآنِ کریم پر غور کرتے ہوئے گھنٹوں پڑھنا مجھے نمونہ نظر آتا ہے۔ اُن کی نمازوں میں انہماک اور مغرب کو عشاء سے جوڑنا اور پھر عشاء گھنٹوں لمبی چلنا، وہ میرے سامنے ایک نمونہ ہے۔ میری والدہ وہ تھیں جنہوں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تو نہیں دیکھا لیکن ابتدائی زمانہ دیکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیار اور دعائیں حاصل کیں۔ صحابہ اور صحابیات سے فیض پایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب کے زمانے کے زیرِ اثر اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے براہِ راست فیض یاب ہونے والوں کی صحبت کا اثر اُن میں نمایاں تھا۔ آپ کا اُٹھنابیٹھنا، بول چال، رکھ رکھاؤ میں ایک وقار تھا اور وقاربھی ایسا جو مومن میں نظر آنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کی ایک تڑپ تھی۔ اس تڑپ کا اظہار آپ نے اپنے شعروں میں بھی کیا ہے۔ مَیں یقینا جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کی نمازوں میں انہماک کو دیکھ کر کہہ سکتاہوں کہ آپ کے شعر وادیوں میں بھٹکنے والے شاعروں کی زبان دانی اور سطحی الفاظ نہیں تھے بلکہ دل کی آواز تھی۔ ایک نظم ہے، اُس کے چند شعر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتی ہیں کہ

؂ محبت بھی، رحمت بھی، بخشش بھی تیری
میں ہر آن تیری رضا چاہتی ہوں
اطاعت میں اُس کی سبھی کچھ ہی کھو کر
میں مالک کا بس آسرا چاہتی ہوں
میرے خانۂ دل میں بس تو ہی تو ہو
میں رحمت کی تیری رِداء چاہتی ہوں

ایک مرتبہ ایک جنازہ گزر رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، صحابہؓ نے اُس مرنے والے کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا واجب ہو گئی۔ بعد میں یہ پوچھنے پر کہ کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا۔ جنت واجب ہو گئی

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المتین حدیث نمبر1367)

کیونکہ جس کی نیکیوں کی لوگ تعریف کریں اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ میری والدہ کی وفات پر جو بےشمار تعزیتی خطوط آرہے ہیں اور جن سے اُن کا براہِ راست واسطہ پڑتا رہا، سب ہی اُن کے مختلف اوصاف کی تعریف لکھ رہے ہیں۔ پس مختلف لوگوں کے یہ خطوط اور جو مَیں نے اُنہیں دیکھا ہے اُس سے امید ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس دعا کو کہ ’میں رحمت کی تیری رِداء چاہتی ہوں‘ قبول کرتے ہوئے اپنی مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لیا ہو گا۔

اے میرے پیارے خدا! تو میری والدہ سے وہ سلوک فرما جو اُس نے اپنی اس دعا میں تجھ سے چاہا اور ہم جو اُن کی اولاد ہیں ہمیں بھی اس مضمون کو سمجھنے والا بنا۔ ہمیں بھی اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے رکھنا اور ہم کبھی اُن توقعات سے دور جانے والے نہ ہوں جو آپ نے اپنی اولاد سے کیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ نسلوں کو بھی اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کے متعلق مختصراً بعض باتوں کا بھی ذکر کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آپ حضرت مصلح موعودؓ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے بعد دوسرے نمبر پر تھیں۔ آپ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ جو حضرت اُمّ ناصرؓ کے نام سے جانی جاتی ہیں اُن کے بطن سے اکتوبر 1911ء میں پیدا ہوئیں۔ حضرت اُم ناصرؓ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح کا واقعہ بھی مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ یہ نکاح 1902ء میں ہوا۔ حضرت اُمّ ناصر سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب وہ ہیں جن کی مالی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اب یہ مالی قربانیاں نہ بھی کریں تو جو کر چکے ہیں وہ بھی بہت ہیں۔

(ماخوذ از تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء انوار العلوم جلد 9صفحہ 403)

لیکن بہر حال وہ پھر بھی آخر دم تک مالی قربانیاں کرتے رہے۔ 1902ء میں نکاح ہوا تھا۔ اکتوبر 1903ء میں شادی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب حضرت ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ تجویز کیا، اس کی تحریک فرمائی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کولکھا کہ ’’اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گو ابھی الہامی طورپر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں….مگر محمود کی رضا مندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً واللہ اعلم جنابِ الٰہی کی رضا مندی کے موافق ان شاء اللہ ہو گا۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد چہارم صفحہ 45)

یقیناً یہ رشتہ جنابِ الٰہی کی رضا مندی سے تھا کہ آپ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رِداء پہنائی۔

میری والدہ کا نکاح 2 جولائی 1934ء کو میرے والد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ ہوا جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے بیٹے تھے اور ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی نکاح ہوا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک لمبا خطبہ ارشاد فرمایا۔ ان ہر دو نکاح میں پہلا نکاح حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا اور دوسرا جیسا کہ مَیں نے کہا میرے والد، والدہ کا تھا۔ یہاں اُس خطبہ کے بعض حصے خاص طور پر بیان کر دیتا ہوں۔ عام طور پر تو پوری جماعت کے لئے ہے، لیکن خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افراد کے لئے کہ اس کو سُن کر اِن کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور میری والدہ جو ہمیشہ اپنوں اور غیروں کی تربیت کے لئے کوشاں رہیں، اُن کے اعلیٰ معیار کے لئے کوشاں رہیں اُن کو بھی اس کا ثواب مل جائے کہ اُن کی وفات کی وجہ سے میری اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں کہ:

’’وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعۃ:4) سے مراد ہے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزِ کامل۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر اُس وقت ایسا شخص مبعوث ہو چکا ہو جسے میرا وجود کہا جا سکے تو وہ اس دجال کا مقابلہ کرے گا ورنہ سوائے اس کے اور کوئی صورت نہ ہو گی کہ مسلمان اس دجال سے لڑ کر مر جائیں۔ اس عظیم الشان فتنہ کے مقابلہ کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی کی ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اپیل کی ہے کہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ جب یہ فتنہ عظیم پیدا ہو گا تو اہلِ فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو تمام قسم کے خطرات اور مصائب کو برداشت کرتے ہوئے پھر دنیا میں ایمان قائم کر دیں گے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ: ’’میں سمجھتا ہوں یہ خالی پیشگوئی ہی نہیں بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آرزو ہے۔ ایک خواہش ہے۔ ایک امید ہے۔ اور یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ خدا کا رسول ابنائے فارس سے کیا چاہتا ہے؟ اس فتنہ سے خطرات کے لحاظ سے بہت کم، نتائج کے لحاظ سے بہت کم، زمانہ اور اثرات کے لحاظ سے بہت کم، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی فتنہ اُٹھا۔ صحابہؓ نے اُس وقت جو نمونہ دکھایا وہ تاریخ کی کتابوں میں آج تک لکھاہے‘‘۔ (اور پھر آپ نے اُس کی تفصیل بیان فرمائی کہ صحابہ نے کیا نمونہ دکھایا، کس طرح اُنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔)

پھر حضرت مصلح موعود آگے جا کر اُس جنگ کا ذکر کرتے ہیں جو فتح مکہ کے بعد ہوئی اور جس میں نو مسلم بھی شامل ہوئے تھے اور اُن کو اپنی تعداد پر بڑا زُعم اور بھروسہ تھا، اُس پر تکبر کر رہے تھے لیکن کفار کے تیروں کی جب بارش پڑی ہے تو اُس کے آگے ٹھہر نہ سکے اور اُن نو مبائعین کی کمزوریٔ ایمان کی وجہ سے یا ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے جب اُن سب کے گھوڑے بِدکے ہیں تو اُنہوں نے جو پرانے صحابہ تھے اُن کی صفوں میں بھی بے ترتیبی پیدا کر دی، کھلبلی مچا دی، جس کی وجہ سے اُن کے گھوڑے بھی بِدکنے لگے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف دس بارہ صحابہ رہ گئے۔ تب صحابہ کو بلکہ خاص طور پر انصار کے لئے آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی کو کہہ کر یہ اعلان کروایا کہ انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ اُس وقت جب ان سب کے گھوڑے بدک رہے تھے اور باوجود موڑنے کے نہیں مڑ رہے تھے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اتنی زور سے اُس کی لگامیں کھینچتے تھے کہ اُن کی گردنیں مڑ کے پیچھے لگ جاتی تھیں لیکن اُس کے باوجود جب ڈھیلی چھوڑو پھر گھوڑے واپسی کی طرف دوڑتے تھے تو اُس وقت جب یہ اعلان ہوا کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے تو صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارے جسموں میں ایک بجلی سی دوڑ گئی ہے۔ سواریوں کو قابو کرنے کی کوشش کی تو پھر بھی نہیں مڑتی تھیں، کسی کی سواری مڑ سکی تو سواری پر چڑھ کر ورنہ پھر اس آواز کے بعد اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی گردنیں اُڑاتے ہوئے، اُن کی گردنیں کاٹ کر اور وہیں اُن کو گرا کے پیدل ہی چند منٹ میں آنحضرت ﷺ کی آواز پر جمع ہو گئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اُس آواز سے زیادہ شان کے ساتھ، اُس آواز سے زیادہ یقین کے ساتھ، اُس آواز سے زیادہ اعتماد کے ساتھ، اُس آواز سے زیادہ محبت کے ساتھ، اُس آواز سے زیادہ اُمید کے ساتھ خدا کے رسول ﷺ نے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِّنْ اَبْنَاءِ الْفَارَسِ وہ وقت جب میری اُمت پر آئے گا کہ جب اسلام مٹ جائے گا، جب دجال کا فتنہ روئے زمین پر غالب آجائے گا، جب ایمان مفقود ہو جائے گا، جب رات کو انسان مومن ہو گا اور صبح کافر، صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر، اُس وقت میں اُمید کرتا ہوں کہ اہلِ فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو پھر اس آواز پر جو میری طرف سے بلند ہوئی ہے لبیک کہیں گے۔ پھر ایمان کو ثریا سے واپس لائیں گے۔ ان الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالی رَجُلٌ نہیں کہا بلکہ رِجَالٌ کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اشاعتِ اسلام کی ذمہ داری رجلِ فارس پر ہی ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اُس کی اولاد پر بھی وہی ذمہ داری عائد ہو گی اور اُن سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسی چیز کی اُمید رکھتے ہیں جس کی امید آپ نے رجلِ فارس سے کی۔ یہ وہ آواز ہے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ناامیدی کی تصویر کھینچنے کے بعد جس سے صحابہ کے رنگ اُڑ گئے اور اُن کے دل دھڑکنے لگ گئے تھے اُن کے دلوں کو ڈھارس دینے کے لئے بلند کی۔ اور یہ وہ امید و اعتماد ہے جس کا آپ نے ابنائے فارس کے متعلق اظہار کیا‘‘۔

فرماتے ہیں کہ ’’مَیں آج اس امانت اور ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور آج ان تمام افراد کو جو رجلِ فارس کی اولاد میں سے ہیں رسولِ کریم ﷺ کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت اُمید ظاہر کی ہے کہ لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِّنْ فَارَس اور یقین ظاہر کیا ہے کہ اس فارسی النسل موعود کی اولاد دنیا کی لالچوں، حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے۔ ایمان کو ثریا سے واپس لایاجائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے، یہ امید ہے جو خدا کے رسول نے کی۔ اب مَیں اُن پر چھوڑتا ہوں وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی، وہ اپنے دلوں میں غور کر کے اپنے فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد اُن پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔‘‘

(خطبات محمود (خطبات نکاح) جلد سوم صفحہ 342 تا 345)

اللہ کرے کہ ہم جو اُس رجل فارس سے منسوب ہونے والے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس درد بھرے پیغام کو سمجھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنے والے ہوں۔ ہماری اولادیں اس کی ذمہ داری ادا کرنے والی ہوں۔ ہمارے خاندان کی جو بزرگ ہستی ہم سے جُدا ہوئی ہے اُس کا جدا ہونا خاندان کے افراد کو خصوصاً اور افرادِ جماعت کو عموماً اُس اہم فریضے کی طرف توجہ دلانے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے سپرد فرمایا ہے جس کا اظہارکئی بار مختلف موقعوں پر آپ نے فرمایا کہ مَیں جماعت کے کیا معیار دیکھنا چاہتا ہوں۔

اپنی والدہ کی زندگی کے متفرق واقعات کا بھی مَیں ذکرکرتا ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی دنیاوی اور دینی تعلیم پر اُس وقت کے حالات کے مطابق زور دیا، آپ کو پڑھایا، آپ کو ایف۔ اے تک تعلیم دلوائی، پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت سیدۃ امۃ الحئی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی وفات پر اظہار فرمایا تھا کہ میرے ذہن میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق ایک سکیم آئی ہے اس کا عملی اظہار 17 مارچ 1925ء کو ہوا جب ایک مدرسہ کھولا گیا اور میری والدہ بھی اس مدرسہ کی ابتدائی طالبات میں سے تھیں۔ 1929ء میں اس مدرسے کی کل سات خواتین نے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور سب کامیاب رہیں جن میں آپ بھی شامل تھیں۔

(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ۔ جلد اول صفحہ 166 تا 170) (الفضل 13 مئی 1927ء جلد 14 نمبر 89 صفحہ 9، 10)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے بچوں کی آمین پر بھی ایک نظم لکھی جو دعاؤں سے پُر ہے۔ بعض بڑے بچوں کا اس میں ذکر فرمایا۔ میری والدہ حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا بھی اُس میں ذکر فرمایا۔ اُن کے ذکر میں فرماتے ہیں کہ ؂

وہ میری ناصرہ وہ نیک اختر
عقیلہ باسعادت پاک جوہر

(الفضل نمبر 3 جلد 19، مورخہ 7 جولائی 1931ء صفحہ 2 و کلام محمود مع فرہنگ صفحہ 206 مطبوعہ قادیان 2008ء)

یہ خصوصیات صرف باپ کے پیار کی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نظر نہیں آئیں بلکہ میری والدہ کے ساتھ کام کرنے والیاں لجنہ اماء اللہ کی بہت ساری ممبرات ہیں، جنہوں نے لمبا عرصہ اُن کے ساتھ کام کیا ہے، وہ بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک کام کرنے والی پرانی صدر نے لکھا کہ لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں۔ نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں۔ یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیارکی ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اگر پردہ کے معیار کو گرا ہوا دیکھا تو سڑک پر چلنے والی کو، عورت ہو یا لڑکی یا لڑکیوں کو اس طرح چلتے دیکھا جو کہ احمدی لڑکی کے وقار کے خلاف ہے تو وہیں پیار سے اُس کے پاس جا کر اُسے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ بتاتیں کہ ایک احمدی بچی کے وقار کا معیار کیا ہونا چاہئے۔ پردے کے ضمن میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کا ایک حصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی خلافت کا جو پہلا جلسہ تھا اس پر لجنہ کے جلسہ گاہ میں آپ نے جوتقریر فرمائی، اُس میں پردے کا بھی ذکر فرمایا۔ اُس ضمن میں ہماری والدہ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری ایک باجی جان ہیں، اُن کا شروع سے ہی پردہ میں سختی کی طرف رجحان رہا ہے، کیونکہ حضرت مصلح موعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی تربیت میں جو پہلی نسل ہے اُن میں سے وہ ہیں۔ جو گھر میں مصلح موعود کو اُنہوں نے کرتے دیکھا جس طرح بچیوں کو باہر نکالتے دیکھا ایسا اُن کی فطرت میں رَچ چکا ہے کہ وہ اس عادت سے ہٹ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے متعلق بعض ہماری بچیوں کاخیال ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو۔ پاگل ہو گئے ہیں، پُرانے وقتوں کے لوگ ہیں۔ ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اگلے وقت کونسے؟ مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں، (فرماتے ہیں کہ) مَیں تو اُن اگلے وقتوں کو جانتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے وقت ہیں۔ اس لئے ان کو اگر اگلے وقتوں کا کہہ کر کسی نے کچھ کہنا ہے تو اُس کی مرضی ہے وہ جانے اور خدا کا معاملہ جانے، لیکن یہ جو میری بہن ہیں واقعۃً تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس بات پر سختی کرتی تھیں۔‘‘

(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ بر موقع جلسہ سالانہ مستورات فرمودہ 27، دسمبر 1982ء۔ بحوالہ الازھار لذوات الخمار جلد دوم حصہ اول صفحہ 8)

پھرجب لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہی ہیں تویہ کوشش تھی کہ ربوہ کی پوزیشن ہمیشہ پاکستان کی تمام مجالس میں نمایاں رہے، اس کے لئے بھرپور کوشش کرتی تھیں۔ صرف نمبر لینے کے لئے نہیں، جس طرح کہ بعض صدرات کا یا ذیلی تنظیموں کے قائدین و زعماء کاکام ہوتا ہے بلکہ اس سوچ کے ساتھ کہ ربوہ میں خلیفۂ وقت کی موجودگی ہے اس لئے بھی کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ کہ خلیفہ وقت کی موجودگی کے باوجود ان کا معیار دوسروں سے نیچے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود تھی۔

ایک لکھنے والی مجھے لکھتی ہیں کہ آپ کے فیصلے بڑے دوررَس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ مشورے ضرور لیتی تھیں اور ہر صاحبِ مشورہ کا بہت احترام کرتی تھیں۔ مولانا ابو المنیر نورالحق صاحب کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ مَیں بڑا عرصہ اپنے محلے کی صدر لجنہ رہی۔ تعلیم و تربیت اور علم میں اضافے کے لئے ایک یہ بھی آپ نے اپنے ہر ممبر کو کہا ہوا تھا کہ درّثمین یا کلامِ محمود سے ہر اجلاس میں دو شعر یاد کر کے آؤ۔ تو لکھتی ہیں اس سے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں شعروں کے ذریعہ علم و عرفان اور روحانیت میں اضافہ ہوتا تھا وہاں اجتماعوں کے موقعوں پر بیت بازی میں ربوہ کی لجنہ اول آیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں خود بھی بہت شعر یاد تھے اور یقیناً مجھے بھی اس بات کا علم ہے کہ اُمی کو بہت شعر یاد تھے۔ غالباً امام صاحب کی اہلیہ نے مجھے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چند خواتین کے ساتھ جماعتی دورے پر اُنہیں بھی میری والدہ کے ساتھ غالباً سیالکوٹ کے سفر کا موقع ملا تو آپ نے کہا کہ بجائے اس کے کہ ہم بیٹھ کر ادھر اُدھر کی باتیں کریں، گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کار میں یا جو وین تھی، اس میں بیت بازی کرتے ہیں، سفر بھی اچھا گزر جائے گا اور ہم فضول گفتگو سے بھی بچ جائیں گے۔ تو اس طرح پھر بیت بازی ہوتی رہی اور سب نے بڑا enjoy کیا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد حضرت مرزا منصور احمد صاحب کو بھی خاص طور پر درّثمین کے بہت سے شعر زبانی یاد تھے اور یہ جو درّثمین کی ایک لمبی نظم ہے ’’اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار‘‘ یہ تو مجھے لگتا تھا کہ پوری نظم یاد ہے اور سفر میں جب بھی ہم جاتے تھے بیت بازی کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا۔ ایک ٹیم ابا کی بن جاتی تھی ایک اُمی کی اور ہم بچوں کو بھی شوق پیدا کرنے کے لئے اپنے ساتھ ملا لیا کرتے تھے۔ اسی طرح اُمی کو قصیدہ یاد تھا۔ آخری عمر میں جب یہ محسوس کیا کہ یادداشت میں کمی ہو رہی ہے، بعض شعر یا الفاظ فوری طور پر یادنہیں آتے تو میرے والد صاحب کی وفات کے بعد اپنی نواسیوں میں سے جو بھی ساتھ سوتی تھیں، اُسے قصیدہ والی کتاب پکڑا دیتی تھیں اور خود (زبانی) پڑھتی تھیں اور یہ روزانہ کا معمول تھا کہ ستّر اشعار والا جو قصیدہ ’’یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ‘‘ وہ مکمل ختم کر کے سوتی تھیں۔

آخر عمر تک بھی کہیں کوئی ایک آدھ مصرعہ بھول جاتی ہوں گی عموماً تمام شعر یاد تھے۔ اسی طرح مَیں نے دیکھا ہے کہ قرآنِ کریم جیسا کہ میں نے کہا، بڑے اہتمام سے غور کر کے پڑھتی تھیں۔ بسا اوقات دن کے وقت جب کام سے فارغ ہوتی تھیں، یہ نہیں کہ گھر کے کام نہیں تھے، گھر میں کام کرنے والیوں کے بھی ہاتھ بٹاتی تھیں، مختلف کاموں میں دلچسپی لیتی تھیں، لجنہ کے کام بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے تھے۔ جب کام سے فارغ ہوتی تھیں تو علاوہ اس تلاوت کے جو صبح کی نماز کے بعد کیا کرتی تھیں، دس گیارہ بجے بھی مَیں نے دیکھا ہے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قرآن کریم پڑھ رہی ہوتی تھیں اور اُن کو غور کرتے دیکھا ہے۔ لیکن یہ بھی تھا کہ یہ عادت بالکل نہیں تھی کہ بلا وجہ اپنی علمیت کا اظہار کریں لیکن مطالعہ بڑا گہرا تھا۔

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بھی گہرا تھا جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا تھا، عربی پڑھی ہوئی تھی، عربی کتب بھی پڑھ لیتی تھیں اور اچھی عربی آتی تھی۔ پھر دوسروں کے لئے ہمدردی کا جذبہ بہت تھا۔ اپنے وسائل کے لحاظ سے جس حد تک مدد ہو سکتی تھی کرتی تھیں۔ نقدبھی اور جنس کی صورت میں بھی۔ دوسروں کو بھی توجہ دلاتی تھیں کہ فلاں قابلِ مدد ہے اس کی مدد کرو۔ اس وجہ سے بعض مخیر لوگ جن کا آپ کے ساتھ قریبی تعلق تھا وہ آپ کو ہی رقم دے دیتے تھے کہ خود ہی تقسیم کر دیں۔ ربوہ کی کیونکہ لمبا عرصہ صدر رہی ہیں اور محلوں میں جا کر وہاں اجلاسوں میں شامل ہوتی تھیں تو اس لئے مختلف محلوں کے غریبوں سے ذاتی واقفیت بھی تھی اور اُن کے حالات کا علم بھی تھا۔

چوہدری حمید اللہ صاحب نے مجھے بتایا۔ وہ لمبا عرصہ امداد گندم کمیٹی کے صدر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ صدر لجنہ ربوہ کی طرف سے جو سفارش امداد کی آتی تھی وہ یقین ہوتا تھا کہ مکمل تحقیق کے بعد آئی ہے اور جائز سفارش ہے۔ مزید تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی صدارت صرف انتظامی اور دفتری حد تک نہیں تھی، بلکہ لجنہ ربوہ کی صدر ہونے کے ناطے تقریباً ہر گھر سے ذاتی رابطہ بھی تھا۔ ربوہ کی لجنہ کی تنظیم پہلے مرکزی لجنہ کے زیرِ انتظام تھی۔ جنوری 1953ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ لجنہ ربوہ کی تنطیم کو مرکز سے، مرکزی لجنہ سے علیحدہ کر دیا جائے لیکن صدر لجنہ ربوہ مرکزی عاملہ کی ممبر ہو گی۔ بہر حال اس فیصلہ کے مطابق ربوہ کے محلہ جات کی طرف سے جب یہ رائے لی گئی کہ کس کو صدر بنایا جائے تو متفقہ طور پر صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کو صدر بنانے کی تجویز آئی۔ یہ تاریخ لجنہ میں لکھا گیا ہے۔ اور ان آراء کی روشنی میں پھر آپ کو صدر لجنہ ربوہ مقرر کیا گیا۔ غالباً 1988ء یا 89ء تک آپ صدر رہی ہیں اُس کے بعد آپ نے اپنی کمزوری صحت کی وجہ سے معذرت کی لیکن تب بھی عاملہ کے ایک ممبر کی حیثیت سے لجنہ کے کام کرتی رہی ہیں۔ غالباً سیکرٹری خدمتِ خلق رہی ہیں۔

آپ کی صدارت کے دور میں لجنہ ربوہ تقریباً ہر شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھاتی رہیں۔ مجھے واقف کاروں کی طرف سے تعزیت کے جوخط آ رہے ہیں اُن میں تقریباً ہر خط میں ایک بات مشترک ہے کہ جب بھی ملنے گئے بڑی خندہ پیشانی سے ملتی تھیں۔ مہمان نوازی کرتی تھیں۔ موسم کے لحاظ سے جو بھی چیز ہوتی تھی پیش کرتی تھیں۔ بچوں سے حسنِ سلوک ہوتا تھا۔ فراست اور قیافہشناسی بھی بڑی تھی۔ چہرے دیکھ کر حالات کا اندازہ کر کے پھر حالات پوچھتیں اور دعاؤں اور نیک تدبیروں کی طرف توجہ دلاتیں۔ اولاد کی تربیت کے بارے میں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دلاتیں۔

یہاں مہمان نوازی کا ذکر ہوا ہے تو بتا دوں کہ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہیں۔ تو ربوہ کے مختلف محلہ جات کی صدرات تھیں اور عاملہ ممبرات کے اجلاس بڑا لمبا عرصہ ہمارے ہی گھر میں ہوتے تھے۔ ہمارے گھر کا ایک بڑا وسیع برآمدہ تھا، پینتیس چالیس فٹ لمبا تو کم از کم ہو گا اُس میں انتظامات ہوتے تھے۔ اور اجلاس والے دن ہمیں عصر کے فوراً بعد گھر سے نکلنا پڑتا تھا کیونکہ پھر تمام کمروں کے راستے بند ہو جاتے تھے اور گھر پر لجنہ کا قبضہ ہوتا تھا۔ اگر اندر ہیں تو پھر دو گھنٹے کمرے کے اندر ہی رہنا پڑتا تھا کیونکہ راستہ کوئی نہیں۔ اور پھر یہ کہ اتنے بڑے مجمع کی عورتوں کی جو تعداد تھی ڈیڑھ دو سو عورت ہوتی تھی ان کو چائے یا شربت جو بھی موسم کے لحاظ سے ضروری چیز ہوتی تھی وہ پیش کی جاتی تھی، ساتھ کھانے کے لئے کچھ پیش ہوتا تھا۔ اور یہ سب کچھ وہ اپنے طور پر کرتی تھیں۔ مہمان نوازی کے بارہ میں میرے ایک کلاس فیلو سعید صاحب تھے انہوں نے لکھا کہ مَیں ایک دفعہ تمہارے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک حاجی صاحب ہوتے تھے جو کبھی کبھی آیا کرتے تھے۔ وہ آئے تو آپ صحن میں پھر رہی تھیں۔ باہر سے ہی ان کی آواز سن لی، تو میری والدہ نے مجھے آواز دی کہ جاؤ حاجی صاحب آئے ہیں۔ اُنہیں اندر بٹھاؤ اور کھانے کا وقت ہے پوچھو کہ کھانا تو نہیں کھانا؟ تو اس طرح مہمان نوازی کی طرف بہت توجہ تھی۔

دوسروں کی ہمدردی کا ذکر ہے تو ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ اُن کے علم میں (میری والدہ کے علم میں) آیا کہ اُن کے حالات اچھے نہیں ہیں اور پھر بچوں کو بھی باہر بھجوانے کی کوشش ہے تو انہوں نے ایک دن کسی کے ہاتھ اپنی جائے نماز بھجوائی کہ اس پرمَیں نے تمہارے لئے اور تمہارے بچوں کے لئے بہت دعا کی ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ تمہارے سارے بچوں کے باہر جانے کا انتظام ہو جائے گا۔ اور وہ لکھتے ہیں چنانچہ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر معمولی سامان پیدا فرمائے کہ تمام کا انتظام ہو گیا اور جو ایک آدھ بچے کا نہیں تھا اسے بھی کچھ عرصہ پہلے ویزہ مل گیا۔ تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر کہو تو دعا تو کرتے ہی ہیں لیکن ہمدردی ایسی ہے کہ بغیر کہے کہیں سے سُن لیا کہ اس کے حالات ایسے ہیں تو خاص طور پر دعا کی اور پھر پیغام بھجوایا۔

ایک دفعہ میری والدہ نے خود ذکر فرمایا۔ ایک خواب سنائی تھی، اس کا کچھ حصہ بتاتاہوں خواب تو یادنہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے۔ اس طرح ایک دفعہ مجھے بتایا کہ جرمنی کے روشن مستقبل یعنی جرمنی میں جماعت کے روشن مستقبل کے بارے میں بھی ایک خواب میں ذکر تھا۔ اس مرتبہ جب مَیں دورہ پہ جرمنی گیا ہوں تو جماعت کے رابطے اور اثر دیکھے ہیں تو مجھے اپنی والدہ کی خواب بھی یاد آ جاتی رہی۔ خدا کرے کہ یہ روشن مستقبل کی طرف قدم ہو اور راستے کھلتے چلے جائیں۔

اُمّی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ چندوں کا حساب بڑی باقاعدگی سے رکھا کرتی تھیں۔ جائیداد سے جو بھی آمد ہوتی تھی پہلے چندہ وصیت اور جلسہ سالانہ پورا حساب سے، تحریکِ جدید، وقفِ جدید جو بھی وعدے ہوتے تھے اور اس کے علاوہ مختلف تحریکات میں اُن کا جو بھی حصہ ہوتا تھا، اُن کی ادائیگی کرتی تھیں اور جب تک میں وہاں رہا ہوں یہ چندوں کی ادائیگی کا حساب مجھ سے کروایا کرتی تھیں۔ ادائیگی مجھ سے کروایا کرتی تھیں اور بار بار پوچھتی تھیں کہ حساب صحیح ہو کہیں کم ادائیگی نہ ہو جائے۔ بڑی فکر رہتی تھی۔ اُن کی مختلف جائیدادوں سے متفرق آمدنیاں تھیں، بعض دفعہ حساب میں اگر کہیں غلط فہمی ہوگئی اور جب بھی اُن کو دوبارہ حساب کر کے کہا کہ اس میں مزید اتنا چندہ ادا کرنا ہے تو فوراً ادا کر دیا کرتی تھیں۔ اور اسی طرح چندہ مجلس عام طور پر اس میں لوگ سستی دکھا جاتے ہیں اُس کو بھی اپنی جو آمد تھی اس کے مطابق باقاعدہ دیا کرتی تھیں اور میرا خیال ہے شاید اس آمد کے حساب سے سب سے زیادہ ادائیگی اُنہی کی طرف سے ہوتی ہو کیونکہ بڑی باریکی میں جا کے حساب کیا کرتی تھیں۔

ڈاکٹر نوری صاحب نے مجھے تعزیت کا خط لکھا تو اس میں اُن کا ایک خط بھجوایا۔ 1999ء میں جب مَیں جیل گیا ہوں تو نوری صاحب نے جیل سے میری رہائی کے بعد ان کو جب مبارکباد کا خط لکھا تو اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ

عزیزم نوری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا خط ملا جس پر عزیزم مسرور کی بخیریت واپسی پر خوشی کا اظہار تھا۔ خدا تعالیٰ نے بہت فضل کیا ورنہ دشمنوں کے منصوبے تو بہت خطر ناک تھے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنی قدرت کا اظہار فرمایا۔ جتنا بھی شکر کریں، کم ہے۔ قریباً ربوہ کے ہر فردنے اور ربوہ سے باہر بھی لوگوں نے بہت دردمنددانہ دعائیں کیں۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو قبول فرمایا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے۔

تو یہ بھی اُن کی عاجزی ہے اور شکرانے کا بہت بڑا اظہار ہے کہ ماں کے ناطے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے بھی بہت دعائیں کیں۔ یقینا میرے لئے بہت دعائیں کی ہوں گی لیکن جماعت کے افراد کی دعاؤں کو بہت اہمیت دی۔ اور پھر صرف دعا میں خودغرضی نہیں دکھائی، یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ میری یا میرے بچوں کی حفاظت فرمائے بلکہ لکھا کہ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

تو یہ وہ خوبی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہے۔ اور جس کا اظہار آپ نے اس اعلیٰ تربیت کی وجہ سے کیا جو آپ کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں سے ہوئی۔

آپ کے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی بہت سے واقعات ہیں جو طوالت کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکتے۔ آپ کے انٹرویو بھی آ گئے ہیں، جنہوں نے سننا ہے اُس میں بھی سن لیں گے یا پڑھ لیں گے۔ آپ کی طبیعت میں اپنے اوپر بڑا ضبط اور کنٹرول تھا، لیکن میرے بیٹے نے بتایا کہ دو تین سال پہلے جب وہاں وہ گیا ہے تو میرے ذکر پر بڑی جذباتی ہو گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی تمام دعائیں میرے لئے اور میرے بہن بھائیوں کے لئے اور ہماری اولادوں کے لئے پوری فرمائے۔

خلافت کے بعد میرے ساتھ تعلق میں ایک اور رنگ ہی آ گیا تھا۔ جب بھی فون پر بات ہوتی تھی تو مَیں اس کو محسوس کرتا تھا۔ جب دورے پر جانے سے پہلے فون کرتا تھا، اُن کو میری حالت کاپتہ تھا۔ ماں سے زیادہ تو کوئی نہیں جانتا، میرے انداز کا بھی پتہ تھا کہ بات مختصر کرتا ہوں، تھوڑی کرتا ہوں، کم بولتا ہوں۔ تو ہمیشہ یہی کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری زبان میں تمہاری تقریروں میں برکت ڈالے اور خاص طور پر یہ کہتیں کہ مَیں نفل بھی پڑھ رہی ہوں اور ہر نماز پر کم از کم ایک سجدہ میں دعا بھی کرتی تھی، لیکن جب 2005ء میں قادیان میں خلافت کے بعد میری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی ہے اُن سے تو میرے لئے ایک عجیب صورتحال تھی، ایک عجیب انوکھا تجربہ تھا۔

خلافت سے وہ تعلق جو مَیں نے اُن کی آنکھوں میں پہلے خلفاء کے لئے دیکھا تھا وہ میرے لئے بھی تھا۔ وہ بیٹے کا تعلق نہیں تھا وہ خلافت کا تعلق تھا جس میں عزت و احترام تھا۔ عزیزم ڈاکٹر ابراہیم منیب صاحب جو میر محمود صاحب کے بیٹے ہیں اُنہوں نے، اُن کا وہاں انٹر ویو بھی لیا۔ مختلف پرانی باتوں کا انٹرویو لیا اُس میں میرا بھی ذکر آ گیا۔ انہوں نے بتایا بلکہ مجھے کیسٹ بھیجی ہے، اُس میں اُن کو وہاں ریکارڈ کروایا اور میرے متعلق بتایا کہ مَیں اب عزت و احترام اس لئے کرتی ہوں کہ وہ خلیفۂ وقت ہے۔ میری پیاری والدہ نے دین کے رشتے کو ہر رشتے پر مقدم رکھا۔ یہاں بھی خلافت کا رشتہ بیٹے کے رشتے پر حاوی ہو گیا۔ جب ملنے جاتا تو ان کی آنکھوں میں ایک خوشی اور چمک ہوتی تھی۔ چہرے پر خوشی پھوٹ رہی ہوتی تھی۔

قادیان میں جو دن گزرے اُس عرصے کے دوران جلسے کی مصروفیات سے جتنا وقت مجھے ملتا تھا، مَیں جاتا تھا تو پیار کرتیں اور ساتھ بٹھا کر کافی دیر تک باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن قادیان کا یہ عرصہ صرف پندرہ دن کا تھا۔ آخر میں بھی جب رخصت ہوئی ہیں۔ وہاں سے پہلے پاکستان واپس چلی گئی تھیں تو دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوئیں۔ ڈاکٹر فرخ یہ بھی میر محمود احمد صاحب کے بیٹے ہیں (چھوٹے بیٹے) انہوں نے مجھے لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات پر جب مَیں گیا اور مَیں نے تعزیت کی تو نصیحت کی اور دعا کی تحریک کی، ساتھ یہ فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ جو بھی نیا خلیفہ ہے اُس کی بیعت کی توفیق ملے اور جذباتی وابستگی اور تعلق بھی اُس سے پیدا ہو جائے۔ پس اُن کا تعلق خلافت سے تھا جس کے لئے دعا بھی کی اور نصیحت بھی کی۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

واقعات تو بہت ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ آخر میں ایک بات میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 1913ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت اُم ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمایہ کے طورپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے دل میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اُس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو (یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی) جو اُس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا، (آپ نے) اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں، اُن میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے (سونے کے)، اور دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے سونے کے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے، مَیں زیورات کو لے کر اُسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے ’’اور اُس سے پھر یہ اخبارالفضل جاری ہوا۔‘‘

(الفضل نمبر 1 جلد 12 مورخہ 4 جولائی 1924ء صفحہ 4 کالم 3)

قارئین الفضل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بیشک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا، اور یہ الفضل جو ہے آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اُن کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔

(خطبہ جمعہ5۔اگست2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26۔اگست2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ