• 19 مئی, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (کتاب الصلوٰة جزو دوم) (قسط 18)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً
کتاب الصلوٰة جزو دوم
قسط 18

سوال: حضورؐ نے جنگ سے قبل خیبر کا جائزہ کس طرح لیا؟

جواب: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریمؐ نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریمؐ کی ران سے چھو جاتا تھا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو آپؐ نے فرمایا:

اَللّٰهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّآ إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ

اَللّٰهُ أَکْبَرُ خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔

سوال: خیبر کے یہود نے حضورؐ کو دیکھ کر کیسا اظہار کیا؟

جواب: انسؓ سے مروی ہے کہ جب حضورؐ خیبر پہنچے تو خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمدؐ اپنا لشکر لئےآن پہنچے۔

سوال: خیبر کس طرح فتح ہوا؟

جواب: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔

سوال: صفیہ بنت حیی کا کیا واقعہ ہے؟

جواب: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ دحیہؓ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔

انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انہیں آپؐ نے دحیہ کو دے دیا ہے۔ وہ تو صرف آپؐ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریمؐ نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ نبی کریمؐ نے صفیہ کو آزاد کیا اور پھر اپنے نکاح میں لے لیا۔

سوال: نبی کریمؐ نےاس نکاح کا مہر کیا رکھا تھا؟

جواب: انسؓ نے فرمایا کہ خود انہیں کی آزادی ہی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔

سوال: حضورؐ نے اس شادی کا ولیمہ کیسے، کب اور کہاں کیا؟

جواب: حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ راستے ہی میں ام سلیمؓ انسؓ کی والدہ نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریمؐ کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریمؐ دولہا تھے، اس لیے آپؐ نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپؐ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی اور ستو لائے۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ حضورؐ کا ولیمہ تھا۔

سوال: کیا عورت ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرسکتی ہے؟

جواب: عکرمہ نے کہا ہےکہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔

سوال: فجر کی نماز کی ادائیگی کس وقت شروع کرنی چاہیئے؟

جواب: حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ یعنی اچھا خاصا اندھیرا ہوتا تھا۔

سوال: کیا نقش و نگار والے کپڑے پہ نماز ادا کرسکتے ہیں؟

جواب: حضرت ام المؤمنینؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپؐ نے انہیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم یعنی عامر بن حذیفہ کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، (انبج ایک شہر کا نام ہے اور انبجانیہ کپڑے کی معروف قسم ہے)

سوال: کیا نمازی کے سامنے مورتیوں والا کپڑا بطور پردہ لٹکا ہو تو کوئی حرج ہے؟

جواب: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا ہوا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔

سوال: ریشم کے لباس میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب: حضرت عقبہ بن عامر سےمروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشم کی قباء تحفہ میں دی گئی۔ اسے آپؐ نے پہنا اور نماز پڑھی لیکن آپؐ جب نماز سے فارغ ہوئے تو بڑی تیزی کے ساتھ اسے اتار دیا۔ گویا آپؐ اسے پہن کر ناگواری محسوس کر رہے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔

سوال: سرخ رنگ کے لباس میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: حضرت وہب بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا۔ آپؐ نماز کے لئے نکلے تو سرخ رنگ کی چادر زیب تن فرمائی ہوئی تھی۔

سوال: نمازی کھلی جگہ نماز ادا کرے تو سترہ رکھنا چاہیئے؟

جواب: حضرت وہب بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ میں نے بلالؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انہوں نے گاڑ دیا۔ حضورؐ تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔

سوال: مختلف غیرمعمولی مقامات پر نماز پڑھنے کے بارے صحابہؓ کا کیا دستور تھا؟

جواب: امام بخاری نے روایت کیا ہےکہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی اور عبداللہ بن عمرؓ نے برف پر نماز پڑھی۔

سوال: حضورؐ کا منبر کس چیز کا تھا؟

جواب: حضرت سہل بن سعد ساعدی سے مروی ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ ایک عورت کے غلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔

سوال: حضورؐ منبر پر نماز کیسے ادا کی؟

جواب: حضرت سہل بن سعد ساعدی سے مروی ہے کہ جب منبر رکھا گیا تو حضورؐ اس پر کھڑے ہوئے اور آپؐ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپؐ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ پھر آپؐ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔

سوال: مذکورہ بالا حدیث سے امام بخاریؒ نے کیا استنباط کیا ہے؟

جواب: امام بخاریؒ نے دیگر کئی تابعین کے حوالہ سے استنباط کیا ہے کہ نماز میں امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پہ کھڑا ہوسکتا ہے۔

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2023

اگلا پڑھیں

قرآن، قرآن کے آئینہ میں