اللہ سے تعلق انسانی سرشت میں داخل ہے ۔ اسی سبب اپنی پیدائش سے بھی قبل اس نے یہ اقرار کیا کہ اللہ اس کا رب ہے ۔ یہ مکا لمہ قرآن کریم میں یوں مرقوم ہے کیا مَیں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں (اعراف:173) یہ تعلق محبت کا ہے: حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ
لفظ تعلق عَلَق سے ہے جس کے ایک معنی محبت بھی ہوتے ہیں پس (علق:3) کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے۔تعلق باللہ کاحصول انسان کا سب سے بڑا فرض ہے۔
اللہ سے محبت کے تعلق کو بڑھانے کے10 ممکنہ ذرائع درج ذیل ہیں۔
اللہ پر ایمان اور معرفت
حسنِ باری تعالیٰ اور اس کی صفات کا علم اللہ پر ایمان اور اس کی معرفت کو بڑھاتا ہے۔ اور نتیجتاً محبت کو بھی۔ کہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں ایک حسن جس کے مشاہدہ سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے اوردوسرے احسان۔ اللہ کے حسن و احسان کے اس ادراک کے لئے کھلی آنکھوں اور بیدار ذہن کے ساتھ ان بے شمار نعمتوں پر توجہ اور غور و فکر کرنا نکتہ ٔ آغاز ہے جو اللہ نے انسانی زندگی کی پیدائش، اس کے برقرار رکھنے، سہل کرنے اور انجام کار اس کی نجات کے لئے عطا کی ہیں اور جن کے بارے میں اللہ نے خود فرمایا ہے کہ اوراگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو کبھی ان کا شمار نہ کر سکو گے۔
(ابراہیم :35)
اللہ تعالیٰ کے محیطِ کل حسن و احسان کا بڑھتاہوا یہ ادراک بتدریج دلوں میں اللہ کی محبت بڑھانے کا ابتدائی ذریعہ ہے۔
ذکرِ الہٰی
محبت بالطبع محبوب کے ذکر کی متقاضی ہے۔ ذکرِ الہٰی کی طرف راغب رکھنے کے لئے اللہ فرماتا ہے کہ پس میرا ذکر کیا کرو مَیں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔
(بقرہ:153)
اللہ کا ذکر عبادتِ الہٰی کا مضمون ہے ۔ یہی انسان کی پیدائش کی غرض ہے۔ جیسا کہ فرمایا اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔
(الذاریات:57)
اسوہ ٔ رسول ﷺ میں اٹھنے، بیٹھنے، سونے، جاگنے، کھانے پینے غرضیکہ انسانی زندگی کی ہر حرکت اور سکون اورکارروائی کے مواقع پر دعاؤں کے ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذکر ِ الہٰی ایک ہمہ وقت شغل ہے۔ ان کے ساتھ نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض اوردیگر عبادات اور قربانیاں اس کے مزید ذرائع ہیں۔ ہر موقع پر اللہ کا ذکر اور نمازوں کی اس کے تقاضوں کے مطابق ہر روز ادائیگی انسان کو تعلق باللہ کی طرف متوجہ رکھتی ہے اور اس کو اس درجہ تک لے جانے میں ممدہے کہ جب اس کا دل مسجد سے اٹک جاتا ہے ۔یہ ذکر الہٰی اللہ سے تعلق کو بڑھانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
نوافل
نوافل مقر ر کردہ خدمت میں زیادتی ہے ۔ یعنی فرض نماز، روزہ اور مالی قربانی سے زائد کرنا ۔یہ زائد خدمت محبتِ الہٰی کو پانے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حدیث ِقدسی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ مَیں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے او اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو مَیں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ کسی (چیز) سے میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو مَیں اسے پناہ دیتا ہوں‘‘
(صحیح بخاری کتاب الرقاق)
پس نمازِ تہجد کی باقاعدہ ہر روز ادائیگی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں دو رکعات نفل روزانہ اور ہر پیر یا جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے اور دعاؤں کو بار بار دہرانے کی نصیحت فرمائی ہے۔ ان پرتواتر سے عمل کرنااوراسی طرح زائد مالی قربانی کرنا بھی نوافل ہیں اورتعلق باللہ کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔
مجاہدہ
مجاہدہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیاہے اس میں سے (خدا کی راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔ (البقرہ:4) اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں میں جان، مال، عقل ، علم ، فہم اور ہنر غرضیکہ سب طاقتیں شامل ہیں۔ ان سب کو دینی ضرورتوں اور اس کے بندوں کے فائدہ لئے خرچ کرنے کا یہ حکم جانی اور مالی قربانی اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم ہے۔
جان و مال کی قربانی الہٰی جماعتوں کا شعار رہا ہے۔ ان کے ایمان کی مضبوطی اور حق کے پھیلاؤ کے لئے ان سے قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے ۔ اس بارے میں یہ سنت اللہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے۔ (البقرہ:156)
دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی، ان کی خدمت اور ان کے کام آنا دین کا نصف ہے جبکہ دوسرا نصف حقوق اللہ کی ادائیگی ہے۔ لوگوں کے کام آنا اور ان کی خاطر اپنا وقت اور مال دینا اور تکلیف اٹھانا بسا اوقات دینی فرائض کی بجا آوری پر بھی بھاری ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فارسی زبان کا مقولہ ہے کہ
دل بہ دست آور کہ حجِ اکبر است
یعنی دلوں کو اپنا بناؤ کہ یہ حج ِ اکبر ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہم سنتے اور پڑھتے ہیں۔
غرضیکہ اپنی تمام موجود صلاحیتوں، اموال اور نعماء کو دینی اغراض اور اہل دنیا کی ضروریات کے لئے بھی خرچ کرنا اللہ سے تعلق کی راہیں کھولتا ہے ۔
صحبتِ صالحین
انسان طبعاً نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو اور زیادہ کرتا ہے۔ اللہ نے اچھوں کی صحبت اختیار کرنے کا یہ حکم فرمایا ہے کہ تم ان لوگوںکی صحبت اختیار کرو جو راستباز ہیں (التوبہ :119) قرب کا اثر ایک عام مشاہدہ کی بات ہے۔ وہ مٹّی بھی خوشبو دینے لگتی ہے جس پر گلاب کے پھول کھلتے ہیں۔
آنحضور ﷺ کی درج ذیل حدیث میں بھی اسی کا اظہار ہے فرمایا:
’’برے ہم نشین اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار اور لوہار کی مثال ہے ۔ عطار کے پاس اگرتو بیٹھا ہو گا تو یا وہ تجھے تحفہ دے گا ۔یا تو اس سے خوشبودار چیز مول لے گا۔ ورنہ کم سے کم خوشبو تو تجھے پہنچے ہی گی اور لوہار کے پاس بیٹھنے کی صورت میںتیرے کپڑے جلیں گے ۔ورنہ دھوئیں کی بو توتجھے دکھ دے گی ہی‘‘
احمدیوں کی آپس کی دوستیاں،جماعتی پروگراموں اور اجتماعات میں شرکت اسی غرض سے ضروری ہے۔ اب تو MTAکے ذریعہ دنیا میں موجود سب سے راستبازوجود کے ساتھ بھی وقت گزارنا ممکن ہو گیا ہے۔ پس ایم ٹی اے کے ساتھ وقت گزارنا اور اس کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے روحانی مائدہ کازیادہ سے زیادہ حصول تعلق باللہ بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔
اس حکم میں بد صحبت سے اجتناب بھی شامل ہے۔ یعنی دنیوی اور دینی ہر دو لحاظ سے بدوں سے دوستی نہ رکھی جائے۔ وہیں اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود گند کو بھی بد صحبت شمار کر کے اس سے دور رہا جائے اور پورے طور پر بچا جائے ۔
ویسا بننا جن سے اللہ محبت کرتا ہے
قرآنِ کریم میں اللہ نے کئی جگہ ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے ۔تعلق باللہ بڑھانے کے لئے ان جیسا بننا یقینا ایک مفید ذریعہ ہے ۔ قرآن کریم میں علی الترتیب ایسے درج ذیل گروہوں کا ذکر ہے:
توّابین (البقرہ :223) متطھّرِین (بقرہ:223) متقین (آلِ عمران:77) صابرین (آلِ عمران :147) محسنین (آلِ عمران :149) متوکّلین (آلِ عمران 149:) مقسطین (مائدہ :43 ) اور اتباع رسول کرنے والے (آلِ عمران:23) ان سب سے اللہ محبت کرتا ہے۔
ان ناموں کی کسی قدر وضاحت درج ذیل ہے:
توابین: یہ گناہ پر ندامت کرنے والے اور اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والے ہیں۔
متطہرین: اللہ کی خاطر ظاہری پاکیزگی اختیار کرنے والے کہ یہ باطنی طہارت کی راہ ہے۔
متقین: تقویٰ اختیار کرنے والے۔ اللہ سے ڈرنے والے۔یہ وہ خوف ہے جو اپنے پیاروں کی ناراضگی کا ہوتا ہے۔ اور جس کی بنیاد محبت ہوتی ہے۔ متقی اللہ کے لئے اچھے کام کرتے اور بُرے کام اور چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچتے ہیں۔ مخفی امور میں بھی رضائے الہٰی کو مقدم کرتے ہیں اور ہر معاملہ میں اللہ کو ڈھال بناتے ہیں ۔ تقویٰ کے بارے میں حضرت مسیح موعود نے بہت توجہ دلائی ہے ۔آپ کے منظوم کلام میں سے تین مصرعے
ہر اک نیکی کی جڑھ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے
وہ دور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دور ہیں
صابرین: قبولیت ِ حق کے سبب مخالفین کے ہاتھوں دکھ، تکلیف اور حق تلفیاں، مضبوطیٔ ایمان کے لئے تقدیرِ الہٰی کے تحت ابتلا، قضا و قدر کے ہاتھوں آزمائش اور قانون ِ قدرت کے نتیجہ میں نقصان اور قریبیوں سے بچھڑنا، ان سب مواقع پر دلی بشاشت سے صبر کرنے والے اس زمرہ میں آتے ہیں۔
محسنین: احسان کرنے والے۔ یہ خدمتِ خلق کا میدان ہے ۔ ضرورت منداور حاجت مند کو اللہ نے اپنے سے قریب جانا ہے ایک حدیثِ قُدسی کے مطابق بھوکے کو کھانا نہ کھلانا ، ننگے کو کپڑے نہ پہنانا ، ضرورت مند کی حاجت پوری نہ کرنے کو اللہ نے خود اپنے آپ کو نہ کھلانا ، نہ پہنانا ، اور خود کی حاجت روائی نہ کرنا فرمایا ہے ۔
حدیثِ مبارکہ اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہ ِ کے تحت تمام مخلوق کو اللہ کی عیال جاننا ،پھر اس عیال کی محبت ،قربانی اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ خیر خواہی کرنا ، ان کے کام آنا اور جو کچھ اللہ نے ہمیں دیا ہے اس میں سے ان کے لئے خرچ کرنا اور آنحضرت ﷺ کی اتباع میں ان کی ہدایت کے لئے بے چین رہ کر کوشش کرنا سب احسان میں داخل ہے ۔
متوکلین: اللہ پر توکل کرنے والے ۔ ہر طرح پوری تدبیر کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا توکل ہے ۔ اس میں اسباب رعایت کی ترتیب ہے یعنی پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھناپھر خدا پر توکل کر کے اسے چھوڑ نا۔ یہ اپنی کوشش کو کافی نہ سمجھنے اور نتیجہ ہر حال میں اللہ کے ہاتھ میں ہونے کا درس ہے ۔ یہ سوچ اللہ کے قریب کرنے والی ہے۔
مقسطین: انصاف کرنے والے۔ ہر حال میں انصاف سے کام لینا۔ خواہ فیصلہ اپنے دوست اور عزیز کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اخلاق کا اعلیٰ معیار ہے کہ انصاف کے معاملہ میں اپنے پرائے میں کوئی فرق نہ کیا جائے ۔یہ اللہ کے قریب کرنے والا ہے ۔
اتباع ِرسول کرنے والے: ان چند گروہوں کے علیحدہ ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی خوشخبری ان سب لوگوں کو بھی دی ہے جو آنحضرت ﷺ کی اتباع کریں ۔ جیسا کہ فرمایا : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔
(آل عمران:32)
آنحضرت ﷺ تعلق باللہ کے انتہائی مقام تک پہنچے ۔ اس لئے آپ ﷺ کی کامل پیروی اور اپنے ہر فعل ، قول ، حرکت اور سکون میں آپ ﷺ کے نمونہ کے مطابق کرنا اللہ کے تعلق کا ایک یقینی ذریعہ ہے ۔
ایسا نہ بننا جن سے اللہ محبت نہیں کرتا
قرآنِ کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جن سے اللہ محبت نہیں کرتا ۔ جب ہم اللہ سے تعلق کو بڑھانا چاہتے ہیں تو یہ لازم ٹھہرتا ہے کہ ہم ان سب باتوں سے مکمل احتراز کریں جن کے کرنے والوں سے اللہ محبت نہیں کرتا۔ ان لوگوں میں یہ شامل ہیں:
مُخْتَالاً (نساء :37) متکبر : جو اپنی شان بڑی سمجھیں اور اس پر تکبر کر کے دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھیں ۔
فَخُوْراً (نساء :37) بے جا فخر کرنے والے:جو اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اپنا ذاتی وصف سمجھ کر اس پر بے جا فخر کریں ۔
المُفْسِدِیْنَ (مائدہ :65) جو زمین پر فساد کرتے ہیں اور ناانصافی سے حق تلفی ۔
المُعْتَدِیْنَ (مائدہ:88) حد سے گزرنے والے۔ جو خدا تعالیٰ کی مقررکردہ حدود و قیود کو توڑیں۔ خواہ افراط سے خواہ تفریط سے ۔
المُسْرَفِیْنَ (انعام:142) فضول خرچی کرنے والے ۔ ضرورت سے زیادہ لینا ، زیادہ کھا لینا، ضائع کر دینا اہل و عیال کی پرواہ کئے بغیر خیرات کر دینا سب اس میں شامل ہے ۔
خَوَّان (حج :39) جو اپنے میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو ۔
کَفُوْرٍ (حج :39) ناشکرا : جو نا شکر گزار ہو۔ یہ احسان فراموشی ہے جو نا پسندیدہ ہے کیونکہ حکم یہی ہے کہ: لَئِنْ شَکَرْتُمْ… (ابراہیم :8) اگر تم شکر ادا کرو گے تو مَیں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔
الفَرِحِیْنَ (قصص:77) اِترانے والا : جو عارضی لذات اور چھوٹی کامیابیوں پر شیخی بگھارے اور اترائے۔
الظٰلِمِیْنَ (شوریٰ :141) ظالم : جو ابتداً زیادتی کرتے ہیں یا وہ جو بدلہ لینے میں زیادتی کرتے ہیں اور جوش انتقام میں خود ظالم ہو جاتے ہیں۔
استقامت
تعلق باللہ کی منزل استقامت کو چاہتی ہے ۔ راہ کی مشکلات اور آزمائشوں پر ثابت قدم رہنا پیچھے نہ ہٹنابلکہ ہر چہ باداباد کہہ کر گردن رکھ دینا اور قضاء و قدر کے آگے دَم نہ مارنا ہی وہ استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے ایسا کرنے والوں پر قرآنِ کریم نے فرشتے اترنے کی نوید دی ہے :
یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ یہ تعلق باللہ بڑھانے کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔
(حٰم سجدہ :31)
یقین
یہ یقین کہ تعلق باللہ میں بڑھنا ایک ممکن بات ہے۔ انسان کو جدوجہد پر اکساتا ہے اور ان کوشش کرنے والوں کو اللہ راہ دکھا تا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔ (العنکبوت:70) جیساکہ اصول ہے کہ جویندہ یابندہ یعنی جو ڈھونڈتا ہے سو پاتا ہے ۔ اس بارے میں آنحضرت ﷺ نے یہ خبر دی ہے :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا ۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا، اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آؤں گا۔
(ترمذی ابواب الدعوات)
دعا
تعلق باللہ میں بڑھنے کا وہ آخری ذریعہ جس کا اس وقت ذکر کرنا ہے وہ دعا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قبولیتِ دعا کی بشارت دی ہے جیسا کہ فرمایا ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن:61) تم دعا کرو میں قبول کروں گا۔ دعا کی طرف بار بار رغبت دلائی گئی ہے کیونکہ خدا کو پانا خدا کی مدد کے ساتھ ممکن ہے۔ خود آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اللہ سے تعلق میں تمام مخلوق سے آگے تھے ۔ دعائیں کرتے تھے ۔ ایسی دو دعائیں یہ ہیں۔
i۔ترجمہ: اے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت بھی جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری محبوب چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جو پیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا کر دے۔
ii۔ترجمہ:اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان کی محبت جو تجھ سے محبت کرتے ہیں۔اور اس عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے خدا ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان، اپنے مال، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو جائے۔
(ترمذی کتاب الدعوات)
حرف ِ آخر
انسانی زندگی کاحاصل یہی ہے کہ دل میں موجود اللہ سے تعلق کی چنگاری کو ہوا دے کر اس درجہ کو پہنچایا جائے کہ اس کا سب کچھ اللہ کا ہو جائے اور دل کی پنہانیوں سے یہ صدا بلند ہو کہ یقیناً میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے۔
(انعام :163)
اللہ کرے کہ ہم سب تعلق باللہ میں اس درجہ بڑھنے والے ہو جائیں۔ آمین
(جمیل احمد بٹ)