• 10 اکتوبر, 2024

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور نہرو رپورٹ

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور نہرو رپورٹ

آپؓ کی خدمتِ دین وملت کے لوگ معترف ہوئے اور زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا

نہرو ر رپورٹ ایک ایسی دستاویز تھی کہ جس میں سارے کے سارے حقوق کے حق دار ہندوؤں کو قرار دیا گیا تھا اور تمام قسم کے مسلمانوں کے حقوق کو پامال کر دیا گیا تھا اس رپورٹ کی تیاری کا پیش خیمہ سائمن کمشن کا بائیکاٹ تھا۔

دراصل ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل کے لئے حکومت برطانیہ نے 8 نومبر 1927ء میں ایک کمشن مقرر کیا یہ کمشن 1918ء کے چیمسفورڈ سکیم کے مطابق حکومت برطانیہ نے فیصلہ کیا تھا کہ۔ ہر دس سال بعد ایک کمشن ہندوستان بھیجا جایا کرے جو کہ اس بات کا اندازہ لگائے کہ کیا ہندوستان مزید ذمہ داریوں کا اہل ہو چکا ہے اور یہ بھی اندازہ لگایا جائے کہ کیا ہندوستان کے لئے جو حقوق تفویض کئے گئے ہیں ان کا صحیح استعمال بھی کر رہا ہے کہ نہیں اگر استعمال صحیح نہیں کر رہا تو یہ حقوق واپس لے لئے جائیں؟ اس سلسلہ میں حکومت برطانیہ نے 1927ء کے آخر میں ایک کمشن ہندوستان بھجوانے کا اعلان کیا جس کے سربراہ انگلستان کے مشہور بیرسٹر سر جان سائمن مقرر ہوئے مگر چونکہ اس کمشن میں کوئی ہندوستانی شامل نہ تھا اس لئے تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے اس کمشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس وقت میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے ایک کتابچہ بعنوان ’’مسلمانِ ہند کے امتحان کا وقت‘‘ شائع فرمایا اور مسلمانوں کو مرحلہ پر تجاویز دیں۔

اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لئے کانگریس نے ایک نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ہندوستان کا دستور اساسی تشکیل کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی مقرر کی گئی یہ سب کمیٹی مندجہ ذیل دس افراد پر مشتمل تھی۔

1۔ پنڈت موتی لال نہرو 2 ۔مسٹر سبھاش چندر بوس (نما ئندہ کانگریس) 3۔مسڑ ر اینی 4۔مسٹر جیا کار (نمائندہ ہندو مہا سبھا) 5۔سر تیج بہادر سپرو (نمائندہ لیبرل فڈریشن) 6۔ مسٹر پردھان (غیر برہموں کے نمائندہ) 7۔ سر علی امام 8۔ مسٹر شعیب قریشی (نمائندہ مسلمان ہند) 9۔ سردار منگل سنگھ (نمائندہ سنگھ لیگ) 10۔ مسٹر جوشی (مزدوروں کی طرف سے)

کمیٹی کے دس افراد میں سے صرف 2 مسلمان نمائندگان تھے مگر ان دو میں سے بھی سر علی امام صاحب اپنی بیماری کی وجہ سے سرف ایک اجلاس میں ہی شامل ہو سکے مگر مسٹر شعیب قریشی برابر شریک ہوتے رہے لیکن اسی اثناء میں ان پر اس بات کا بھید کھلا اور سخت مایوسی ہوئی کہ اس دستور میں سارے کے سا رے حقوق ہندوؤں کو مل جائیں گے اور مسلمان اقلیت ہو جائیں گے حتیٰ کہ اس رپورٹ میں ان مطالبات کو بھی رد کر دیا گیا جو کہ کانگریس پہلے ہی منظور کر چکی تھی ۔ یہ رنگ دیکھ کر شعیب قریشی صاحب الگ ہو کر بیٹھ رہے اور انہوں نے رپورٹ پر دستخط تک نہیں کئے پنڈت موتی لال صاحب نہرو نے ، ان کی جگہ چوہدری خلیق الزماں صاحب اور تصدق احمد خان صاحب شروانی لے لئے۔

یہ تھی جناب پنڈت موتی لال صاحب نہرو کی نہرو رپورٹ کی تیاری جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ہندوؤں کے محکوم اور غلام بن کر رہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیش نگاہ نے اس سازش کو بھانپ لیا تھا چنانچہ آپ نے الفضل کے ذریعہ سے اپنی رائے کا باقساط اظہار شروع کردیا جو ’’نہرو رپوٹ اور مسلمانوں کے مصالح‘‘ کے عنوان سے 2۔

اکتوبر1928ء سے 2 نومبر 1928ء تک سات اقساط میں مکمل ہوا تھا ۔ اس تبصرہ کے آغاز میں سب سے پہلے آپ نے رپورٹ کی اندرونی شہادتوں کے ذریعہ سے ثابت کیا کہ کسی طرح بھی یہ نہرو کمیٹی برصغیر کی نمائندہ کمیٹی نہیں ہے پھر آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کے سات بنیادی مطالبات پر روشنی ڈالی جو مندرجہ ذیل تھے۔

  1. حکومت کا طریق فیڈرل یا وفاقی ہو
  2. جن صوبوں میں کسی قوم کی اقلیت کمزور ہو اسے اپنے حق میں زیادہ ممبریا ں دی جائیں۔
  3. کم از کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق انتخاب جاری رہے۔
  4. صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے برابر حقوق دئیے جائیں اور سندھ کو الگ صوبہ بنایا جائے۔
  5. کسی صوبہ میں بھی اکثریت کا اقلیت کی زبان یا اس کی طرزِ تحریر میں مداخلت کا حق حاصل نہ ہو ۔
  6. حکومت مذہب یا مذہب کی تبلیغ میں دخل دینے کی مجاز نہ ہو ۔
  7. ان حقوق کو دستورِ اساسی میں اس وقت تک نہ بدلا جاسکے جب تک منتخب شدہ ممبران میں سے دو تہائی اس کے بدلنے کی رائے نہ دیں ۔

نیز آپ نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کی کوشش نہ کرو جب کہ انگلستان نے فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا حق ہے اس کے لئے جو جائز کوشش کی جائے اس میں دوسرے بھائیوں کو شریک کریں ، مگر جو جو چیز مجھ پر گراں ہے اور میرے دِل کو بٹھائے دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریقِ حکومت پر راضی ہو جائیں ۔ اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ جب تک کہ وہ دونوں مسلم لیگ کی پیش کردہ تجاویز کو قبول نہ کرلیا جائے اس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پرراضی نہ ہوں، ورنہ بہت خطرناک صورت پیدا ہو گی اس کا تصّور کر کے بھی دِل کانپتا ہے‘‘

بلکہ آپ نے مسلمانانِ ہند کے سامنے ایک مفصل طریقِ عمل رکھا کہ اب اس صورتِ حال میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے اس سلسلہ میں آپ نے چار نہایت اہم تجاویز پیش کیں کہ اب ہم نے اس طریقِ پر عمل کرنا ہے اور اس تبصرہ میں حضور نے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ۔

’’میں اور جماعتِ احمدیہ باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں اور میں احمدیہ جماعت کے مضبوط اور وسیع نظام کو اس (دینی) کام کی اعانت کے لئے تمام جائز صورتوں میں لگا دینے کا وعدہ کرتا ہوں‘‘

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ نہرو رپورٹ پر تبصرہ ’’مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع بھی کیا گیا اور کلکتہ اور دہلی جو کہ ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کے مرکز تھے ان شہروں میں خاص طور پر شائع کیا گیا تھا کیونکہ کانگریس، مسلم لیگ، مجلس خلافت، اور دوسری جماعتوں کے اجلاسات منعقد ہوتے تھے اس کتاب کو تمام حلقوں نے بہت سراہا اور اس تبصرہ کو بنگالی زبان میں بھی شائع کیا گیا تھا جو کہ اہل بنگال میں بہت مقبول ہو ا۔ چنانچہ سیّدنا حضرت مصلح موعود کی اس خدمتِ دین و ملت کے لوگ معترف ہوئے اور زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔

اس زمانہ کے رئیس الاحرار مو لانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ نے26 مئی 1927 ء میں لکھا کہ
’’ناشکری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں… اور وہ وقت دور نہیں جب مسلمانوں کے اس منظم فرقے کا طرز عمل سوادِ اعظم کیلئے با لعموم اور ان اشخاص کے لئے با لخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند و بانگ ورد باطن ہیچ دعاوی کے خو گر ہیں مشعلِ راہ ثابت ہوگا جن احباب کو جماعتِ قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مرزا صاحب موصوف نے اپنے عزائم اور طریقِ کار پر اظہار خیالات فرمایا شرکت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ ہمارے خیال کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکتے‘‘

(ہمدرد دہلی 26 ستمبر1927ء)

جناب سید حبیب مدیر روزنامہ سیاست نے لکھا
’’مذہبی اختلاف کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب مرزا بشیر الدین محمود صاحب نے میدانِ تصنیف و تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ تعریف کا مستحق ہے… آپ کی سیاست کا ایک زمانہ قائل ہے اور نہرورپورٹ کے خلاف تمام مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں مسائل حال پراسلامی نقظہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابلِ تعریف کام کیا ہے‘‘

(سیاست 2 نومبر 1930ء)

مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ۔
’’جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اس تبصرہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے جو کام بڑی بڑی اسلامی جماعتوں کا تھا وہ مرزا صاحب نے انجام دیا‘‘

(انقلاب 16 نومبر 1930ء)

اخبار مشرق گور کھپور نے لکھا کہ ۔
جناب مرزا صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا ، سر فروشی کی اور جیل خانے جانے سے خوف نہیں کھایا، آپ ہی کے پمفلیٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو عدل و انصاف کی طرف مائل کیا آپ کا پمفلیٹ ضبط کر لیا گیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کے اس پوسٹر کی بندش محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے اور اس کا تدارک نہایت عادلانہ فیصلے سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں کے ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں کا یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف اب تک احمدی جماعت ہے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا کسی جمیعت سے مرعوب نہیں ہے اور خالص (۔) کام سر انجام دے رہی ہے‘‘

(مشرق 22 ستمبر 1927ء)

ایک معزز تعلیم یافتہ غیر احمدی نہرو، رپوٹ کا مطالعہ کرنے کہ بعد اس قدر متأثر ہوئے کہ انہوں نے سیکرٹری ترقی اسلام کے نام خط میں لکھا۔

’’میری طبیعت بہت چاہتی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب کو دیکھوں اور ان کی زیارت کروں کیونکہ میرے دِل میں ان کی بہت وقعت ہے… آپ براہِ مہربانی حضرت صاحب کی خدمت میں اس احقر کا سلام عرض کر دیجئے اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ ایک خادم کی طرف سے مبارک باد قبول فرمائیں کہ آپ نہایت خوش اسلوبی سے ایسے خطرناک حالات میں جس سے (۔) اس وقت گزر رہا ہے اس کو بچا رہے ہیں اور نہ صرف مذہبی خبر گیری کر رہے ہیں بلکہ سیاسی معاملات میان بھی رہنمائی فرمارہے ہیں۔ میں نے جنابِ والا کے خیالات کو نہرو رپورٹ کے متعلق جس نے آپ کی وقعت کو میری آنکھوں میں اور بڑھا دیا ہے اور میں جہاں آپ کو ایک زبر دست مذہبی عالم سمجھتا ہوں اس کے ساتھ ہی ایک ماہر سیاستدان بھی سمجھنے لگا ہوں‘‘

ہے اکیلا کفر سے زور آزما
احمدی کی روحِ ایمانی تو دیکھ

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ