• 26 اپریل, 2024

آپؐ اور مومنوں کو صبر، حمد اور دعا کی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو نظامِ نو آپ کی آمد سے جاری ہونا تھا وہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے وہ جاری ہو چکا ہے۔ لیکن کامیابیوں کا بھی ایک وقت ہے۔ اس لئے صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے اور اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بھی اور آپ کے ماننے والوں نے بھی اسی صبر و برداشت سے کام لینا ہے کہ یہی اولوالعزم نبیوں اور ان کے ماننے والوں کا شیوہ ہے۔ یہ سختیاں، مشکلات اور ان پر برداشت اور صبر ہی کامیابیاں دلانے کا باعث بنتا ہے اور جب کامیابیاں آئیں گی، دشمن کی پکڑ ہو گی تو تب وہ سوچے گا کہ مَیں کیا کرتا رہا، تب اسے خیال آئے گاکہ یہ دنیاوی زندگی جسے میں سب کچھ سمجھتا رہا یہ تو ایک گھڑی یا ایک گھنٹے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔ پس جہاں تک انبیاء کے مخالفین کی پکڑ کا سوال ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کریہی سلوک دکھایا اور آپ کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کے نام و نشان کومٹا دیا۔ پس کہاں گئے وہ آپ کے بڑے بڑے دشمن جو سردارانِ مکّہ کہلاتے تھے۔ کہاں گیا وہ بادشاہ جس نے آپ کے پکڑنے کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تھے۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تا قیامت ہے تو خدائی وعدے کے مطابق آپ کے دشمنوں کی پکڑ بھی ہر زمانے میں نشان بنتی چلی جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس کس طرح تنگ کیا۔ آپ کے کیا کیا نام رکھے۔ آپ کو کس طرح بدنام کرنے کی کوشش کی اس بارہ میں قرآنِ کریم ہمیں بتاتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۷﴾ (الحجر: 7) اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے، یقینا تو مجنون ہے۔

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر استہزاء ہے بلکہ کھلی کھلی ایک گالی ہے۔ مکّہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس وقت وہاں کی تقریباً ساری آبادی آپ سے یہ سلوک کرتی تھی، سوائے چند ایک نیک فطرت لوگوں کے جو ایمان لے آئے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ فتح کرتے ہیں تو سب سے محبت اور شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں۔ یہ لوگ صرف گالیاں دینے والے ہی نہیں تھے۔ یہ لوگ ظلم کی انتہا کرنے والے تھے۔ زبردستی جنگیں ٹھونسنے والے تھے۔ لیکن آپ نے ہر ایک سے شفقت کا سلوک فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ خود مَیں بدلے لوں گا۔

پھر قرآنِ کریم میں سورۃ فرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُ ۣافۡتَرٰٮہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۚۛ فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّزُوۡرًا ۚ﴿ۛ۵﴾ (الفرقان: 5) اور جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے کہا یہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں جو اس نے گھڑ لیا ہے اور اس بارہ میں اس کی دوسرے لوگوں نے مدد کی ہے۔ پس یقینا وہ سراسر ظلم اور جھوٹ بنانے والے ہیں۔ گو اس آیت میں بڑے وسیع مضمون بیان ہوئے ہیں لیکن یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ آپؐ کو دعویٰ کے بعد وہی لوگ نعوذ باللہ جھوٹا کہنے لگ گئے جو آپؐ کو سچا کہتے تھے اور ان کی زبانیں اس سے نہیں تھکتی تھیں۔ آپؐ کی سچائی اور امانت کے قائل تھے۔ پھر آپﷺ کے بارہ میں ظالموں کی ہرزہ سرائی کا قرآنِ کریم میں یوں ذکر آتا ہے۔ فرمایا کہ وَقَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ﴿۹﴾ (الفرقان: 9) اور ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے۔

پھر ایک آیت میں کافروں کی بیہودہ گوئی کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ ۫ وَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ ۖ﴿ۚ۵﴾ (سورۃ صٓ: 5) اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے کوئی ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ سخت جھوٹا جادوگر ہے۔

پس کبھی جھوٹا، کبھی جادوگر، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور کبھی کسی نام سے یہ کافر آپؐ کوپکارتے رہے اور آپؐ کے بارہ میں باتیں کہتے رہے اور مختلف رنگ میں استہزاء کرتے رہے۔ لیکن آپؐ کو صبر اور حمد اور دعا کی ہی اللہ تعالیٰ نے تلقین فرمائی اور یہی تلقین اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَمِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿۱۸۷﴾ (آل عمران: 187) اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقینا ایک بڑا ہمت کا کام ہے۔

اب ایک مومن کے لئے، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے، اُس کے لئے اس سے زیادہ دل آزاری کی اور تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے آقا کے بارے میں ایسی بات سنے جس سے آپ کی شان میں ہلکی سی بھی گستاخی ہوتی ہو۔ کوئی کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ ایسی باتیں تم سنو تو صبر کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مَیں نے گزشتہ خطبہ میں مثال دی تھی کہ کس طرح آپ نے ردّعمل دکھایا۔ تو حقیقی ردّعمل یہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا لیکن اس کے لئے بھی تقویٰ شرط ہے۔ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل اور دعاؤں سے جو اس کا جواب دو گے تو وہی اس محبت کا صحیح اظہار ہے اور جب ہم دشمنوں کی باتیں سن کے تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی دعاؤں سے خدائے ذوالانتقام کے آگے جھکیں گے تو ان دشمنانِ اسلام کے بد انجام کو بھی ہم دیکھیں گے۔ لیکن ہمارا اپنا تقویٰ شرط ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍جنوری 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2023