• 9 دسمبر, 2024

جری اللہ فی حلل الانبیاء (قسط 1)

جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء
مسیح موعودؑ تمام انبیاء کے مظہر
قسط 1

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ہمارا نام آدمؑ بھی رکھا ہے۔ نوحؑ بھی رکھا ہے۔ موسیٰؑ بھی رکھا ہے۔ داؤدؑ ۔ سلیمانؑ ۔عیسیٰؑ ۔محمدؐ غرض بہت سے انبیاء کے نام ہم کو دیئے ہیں اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جس میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود تمام انبیاء گزشتہ کا مظہر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ392-393 ایڈیشن 1984ء)

یہ مضمون ایک الہام ’’جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء‘‘ میں بہت عمدہ معنوں میں بیان ہوا ہے۔ جس کے معانی ہیں کہ اللہ کا پہلوان انبیاء کے لبادے میں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو اپنے ایک منظوم کلام میں یوں بیان فرمایا ہے:

؎ میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار

میں آج کوشش کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے الفاظ مبارک سے یہ ثابت کروں کہ آپؑ کوانبیاء کے جن ناموں سے پکارا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی کیا وجہ تسمیہ بیان فرمائی ہے۔ چونکہ جو خصوصیات، اوصاف اور خوبیاں کسی نبی میں موجود ہوں تو اس کے متبعین کو بھی اپنے اندر وہ اوصاف روشن کرنے چاہئیں۔

لیکن وجہ تسمیہ بیان کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کو یکجا کر دیا جائے جن میں آپؑ نے انبیاء کو مختلف ناموں سے پکارنے کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’نام تو وہی ہوتا ہے جو آسمان پر رکھا جاتا ہے کسی کے ظالم، کافر کہنے سے کیا بنتا ہے۔ زمینی ناموں کا آخر خاتمہ ہو جاتا ہے اور آسمانی نام ہی رہ جاتے ہیں۔ پس دنیا کے کیڑوں کے ناموں کی کیا پرواہ؟ اس نام کی قدر کرو جو آسمان پر نیک لکھا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ19 ایڈیشن2016ء)

پھر اسی مضمون کے حوالہ سے آپؑ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو کہ نبیوں کا ایک اور نام آسمان پر ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ آشنا بھی نہیں ہو تے اور بعض وقت جب وہ آسمانی نام دنیا میں پیش ہوتا ہے تو لوگوں کو ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ مثلاً میرے ہی معاملہ میں خدا نے میرا نام مسیح ابن مریم بھی رکھا ہے بعض نادان اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا نام تو غلام احمد ہے وہ اس راز کو سمجھ نہیں سکتے۔ یہ اسرار نبوت میں سے ایک بات ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ330 ایڈیشن2016ء)

انبیاء کے اسماء کی وجہ تسمیہ
آدم ،نام دیئے جانے کی وجہ تسمیہ

آپؑ فرماتے ہیں:
’’میرا نام اس نے خلیفۃ اللہ رکھا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَ حْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ اٰ دَمَ اس میں آدم میرا نام رکھا گیا ہے۔ یہ حقیقت اس الہام کی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ109 ایڈیشن2016ء)

’’میں دیکھتا ہوں کہ جیسے ظہر و عصر جمع ہوئے ہیں کہ ظہر آسمان کے جلالی رنگ کا ظل ہے اور عصر جمالی رنگ کا اور خدا تعالیٰ دونوں کا اجتماع چاہتا ہے اور چونکہ میرا نام اس نے آدم بھی رکھا ہے اور آدم کے لئے بھی یہ فرمایا ہے کہ اس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے یعنی جلالی اور جمالی رنگ دونوں اس میں رکھے اس لئے اس جگہ بھی جلال اور جمال کا اجتماع کر کے دکھایا۔

جمالی رنگ میں طاعون وغیرہ اللہ کی گرفتیں ہیں اور انہیں سب دیکھتے ہیں اور جمالی رنگ میں اس کے انعامات اور مبشرانہ وعدے ہیں اور پھر میری دانست میں اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ ایک اور جمع کی خبر بھی رکھی ہے جس کی خدا نے مجھے اطلاع دی اور وہ یہ ہے کہ میری پیدائش میں میرے ساتھ ایک لڑکی بھی اس نے رکھی ہے اور پھر قومیت اور نسب میں بھی ایک جمع رکھی اور وہ یہ کہ ہماری ایک دادی سیدہ تھی اور دادا صاحب اہل فارس تھے۔ اب بھی خدا نے اس قسم کی جمع ہمارے گھر میں رکھی کہ ایک صحیح النسب سیدہ میرے نکاح میں آئی اسی طرح جیسے خدا نے ایک عرصہ پہلے بشارت دی تھی اب غور تو کرو کہ خدا نے کس قدر اجتماع یہاں رکھے ہوئے ہیں ان تمام جمعوں کو خدا نے مصلحت عظیمہ کے لئے جمع کیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ406 ایڈیشن 2016ء)

‘‘پھر آخری سورۃ میں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورۃ فاتحہ کو اَلضَّآلِّیْنَ پر ختم کیا تھا۔ ویسے ہی آخری سورۃ میں خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور اَلضَّآلِّیْنَ کا تعلق معلوم ہو اور آدم کے وقت میں بھی خناّس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں جنگ کے لئے آیا تھا اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے۔ ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لئے عیسائیوں اور مسلمانوں نے با تفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی جس میں شیطان ہلاک کیا جاوے گا۔ اب ان تمام امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جاتا ہے۔ کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دئیے ہیں۔

کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے۔

وَلَا الضَّآ لِیْنَ پر سورۃ فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورۃ فاتحہ کے انجام سے ہے۔ ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرائی اور مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ30-31 ایڈیشن2016ء)

ابراہیم، نام دئیے جانے کی وجہ تسمیہ

فرمایا:
’’کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے۔ وہ سب حضرت رسول کریمؐ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریمؐ سے ظلّی طور پر ہم کو عطا کیے گئے اور اسی لئے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، داؤد، یوسف، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ ہے۔ چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیالی اور وہمی بتوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور وحدانیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پہلے تمام انبیاء ظّل تھے نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ69-70 ایڈیشن 2016ء)

جماعت میں سے ایک ہمارے مکرم دوست نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے متعلق دریافت کیا کہ آریہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
’’ان لوگوں کے اعتراض کی اصل جڑ معجزات اور خوارق پر نکتہ چینی کرنا ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں ان کو خود دکھا کر قرآن کی حقانیت کا ثبوت دیں۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا۔‘‘

بعد اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات اور اپنے بندوں کو عجیب طرح ہلاکت سے نجات دینے کی مثالیں دیتے رہے اور اسی کے ضمن میں فرمایا۔
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں سیالکوٹ میں تھا۔ ایک مکان میں مَیں اور چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ بجلی پڑی اور ہمارا سارا مکان دھوئیں سے بھر گیا اور اس دروازہ کی چوکھٹ جس کے متصل ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ایسی چیری گئی جیسے آرے سے چیری جاتی ہے۔ مگر اس کی جان کو کچھ بھی صدمہ نہ پہنچا لیکن اسی دن بجلی تیجا سنگھ کے شوالہ پر بھی پڑی اور ایک لمبا راستہ اس کے اندر کو چکر کھا کر جاتاتھا جہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ تمام چکر بجلی نے بھی کھائے اور جا کر اس پر پڑی اور ایسا جلایا کہ بالکل ایک کوئلے کی شکل اسے کر دیا پھر یہ خدا کا تصرف نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک شخص کو بچا لیا اور ایک کو مار دیا۔ خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَاللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کا ہے۔

پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہر گز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے موافق بچا لے گا۔ لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں۔ یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے۔ بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہر گز نہ جلیں گے۔ اس لئے میرا ایمان تو یہ ہے کہ ہمیں تکلف اور تاویل کی ضرورت نہیں ہے جیسے خدا کے باطنی تصرفات ہیں ویسے ہی ظاہری بھی ہم مانتے ہیں بلکہ اسی لئے خدا نے اول ہی سے الہام کر دیا ہوا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ209-210 ایڈیشن1984ء)

نوح، نام دئیے جانے کی وجہ تسمیہ

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کا نام بھی کشتی رکھا ہے۔ چنانچہ بیعت کے الہام میں اِصْنَعِ الْفُلْکَ ہی فرمایا ہے۔ صاف کہہ سکتا تھا کہ بیعت لے لو مگر یہ الہام بتاتا ہے کہ یہاں بھی نوح کے زمانہ کی طرح کچھ ہونے والا ہے۔ چنانچہ طاعون کے طوفان نے بتا دیا کہ یہ وہی طوفان ہے قصیدہ الہا میہ کے ایک شعر میں بھی ہے۔

واللہ کہ ہمچو کشتی نوحم زِ کردگار
بیدولت آنکہ دور بماند زِ لنگرم

میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔ توحید سے مراد خدا تعالیٰ ہی کو اپنا مطلوب، مقصود اور محبوب اور مطاع یقین کر لیا جاوے۔ موٹی موٹی بت پرستی اور شرک سے لے کر اسباب پرستی کے شرک اور باریک شرک اپنے نفس کو بھی سمجھا لینے تک دور کر دیا جاوے۔ جس میں دنیا گرفتار ہے۔

اور اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے ان کو اپنے محل اور موقع پر خرچ کیا جاوے یہ نہیں کہ بعض کو بالکل بیکار چھوڑ دیا جاوے اور بعض پر بہت زور دیا جاوے مثلاً اگر کوئی ہاتھ کو بالکل کاٹ دے تو کیا اس سے کوئی خوبی پیدا ہو سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں بلکہ سچے اور کامل اخلاق یہی ہیں کہ جو قوتیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہیں ان کو اپنے محل پر ایسے طور پر خرچ کیا جاوے کہ جس میں افراط اور تفریط پیدا نہ ہو۔ افراط یہ ہے کہ مثلاً جس کو قوت شامہ میں افراط ہو تو حدّت الحس کی مرض ہو جاوے گی اور پھر اس سے اور امراض شدیدہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ تفریط یہ ہے کہ اس کی حس بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اعتدال یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے محل اور مقام پر رہیں اور یہی وہ درجہ اور مقام ہے جہاں اخلاق اخلاق کہلاتے ہیں اور اسی کو میں قائم کرنے آیا ہوں۔

روحانیت سے مراد وہ آثار اور علامات ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہونے پر مترتّب ہوتے ہیں اور یہ کیفیتیں ہیں جب تک پیدا نہ ہوں انسان سمجھ نہیں سکتا۔ مگر اصل غرض یہی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ296-297 ایڈیشن2016ء)

پھر فرمایا: ’’میرے الہام میں جو اُجَھِّزُ جَیْشِیْ ہے اس سے مراد طاعون ہی ہے اور ایسا ہی حضرت مسیح نے اپنی آمد کا زمانہ نوح کے زمانہ کی طرح قرار دیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے میرا نام بھی نوح رکھا ہے اور وَاصْنَعِ الْفُلْکَ کا الہام ہوا اور لَا تُخَاطِبْنِیْ فِیْ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْااِنَّھُمْ مُغْرَقُوْنَ بھی فرمایا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عظیم الشان طوفان آنے والا ہے اور پھر اس طوفان میں میری بنائی ہوئی کشتی ہی نجات کا ذریعہ ہوگی۔ اب طاعون وہی طوفان ہے اور خدا کا زور آور حملہ اور اس کی چمکار ہے یہی وہ سیف الہلاک ہے جس کا براہین میں ذکر ہوا ہے۔ طبیبوں اور ڈاکٹروں کو اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس کا کوئی نظام مقرر نہیں ہے کہ گرمی میں کم ہوتی ہے یا سردی میں۔کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہوں میں گرمیوں میں بھی اس کی کثرت میں فرق نہیں آیا۔ غرض اس کا علاج بجز استغفار اور دعا اور اپنے اعمال میں پاکیزگی اور طہارت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ288 ایڈیشن 2016ء)

داؤد ،نام دئیے جانے کی وجہ تسمیہ

آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہر اک نبی کی نسبت جو پہلے نبیوں نے پیشگوئیاں کیں ان کے ہمیشہ دو حصے ہوتے رہے ہیں۔ ایک بیّنات اور محکمٰت جن میں کوئی استعارہ نہ تھا اور کسی تاویل کی محتاج نہ تھیں اور ایک متشابہات جو محتاج تاویل تھیں اور بعض استعارات اور مجازات کے پردے میں محجوب تھیں۔ پھر ان نبیوں کے ظہور اور بعثت کے وقت جو اُن پیشگوئیوں کے محتاج تھے دو فریق ہوتے رہے ہیں۔ ایک فریق سعیدوں کا جنہوں نے بیّنات کو دیکھ کر ایمان لانے میں تاخیر نہ کی اور جو حصہ متشابہات کا تھا اس کو استعارات اور مجازات کے رنگ میں سمجھ لیا۔ آئندہ کے منتظر رہے اور اس طرح پرحق کو پا لیا اور ٹھوکر نہ کھائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پہلی کتابوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو طور کی پیشگوئیاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ مسکینوں اور عاجزوں کے پیرایہ میں ظاہر ہو گا اور غیر سلطنت کے زمانہ میں آئے گااور داؤد کی نسل سے ہوگا اور حلیم اور نرمی کام لے گا اور نشان دکھلائے گا اور دوسری قوم کی یہ پیشگوئیاں تھیں کہ وہ بادشاہ ہو گا اور بادشاہوں کی طرح لڑے گا اور یہودیوں کو غیر سلطنت کی ماتحتی سے چُھڑا دے گا اور اس سے پہلے ایلیاء نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور جب تک ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ نہیں آئے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ202 ایڈیشن1984ء)

حضرت یحییٰ ؑسے نسبت

حضرت اقدسؑ نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا۔ یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَالْخَیْرُ کُلُّہ فِی الْقُرْانِ اور فرمایا کہ:
اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحییٰؑ کویہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ جو کتاب اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ71-72 ایڈیشن 2016ء)

حضرت سلیمانؑ نام رکھا

آپؑ فرماتے ہیں:
’’دیکھو! براہین احمدیہ میں باوجود یکہ خدا تعالیٰ نے وہ تمام آیات جو حضرت مسیحؑ سے متعلق ہیں میرے لیے نازل کی ہیں اور میرا نام مسیح رکھا اور آدم، داؤد،سلیمان غرض انبیاء کے نام رکھے مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ جب تک خود اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت پر یہ راز نہ کھول دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ122 ایڈیشن2016ء)

(ابو سعید)

(باقی آئندہ کل ان شاء اللّٰہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2023