• 10 اکتوبر, 2024

’’یومِ مسیح موعود علیہ السلام‘‘ مارچ 23

’’یومِ مسیح موعود علیہ السلام‘‘
مارچ 23

پاکستان میں 23؍مارچ کا دن ’’یوم پاکستان‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں جماعت احمدیہ ہر سال 23؍مارچ کا دن ’’یوم مسیح موعود‘‘ کے طور پر مناتی ہے۔اس دن اللہ تعالیٰ کے حکم پر اس زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےجماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور اس دن پہلی بیعت لی گئی۔

بیعت کیا ہوتی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ ان امور کو ذیل میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیعت سے مراد انسان کا خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو اس ہستی کے سپرد کر دینا ہے جو اس کی زندگی میں اصلاح نفس اور تقویٰ کے حصول کے لیے رہنمائی کرتی ہے بیعت اس عہد کو بھی کہتےہیں جو انسان اپنی زندگی میں تبدیلی کے لیے خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظرجان کر کرتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ29)

بیعت کا آغاز کب ہوا؟ اس کے لیے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں پہلی بیعت یعنی ’’بیعت عقبہ‘‘ کا ذکر ملتا ہے جو سنہ 12 نبوی میں اس وقت ہوئی جب کہ سردارانِ مکہ،رؤساءِ طائف اور قبائل عرب نے نہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو سختی سے ردّ کیا بلکہ آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر مظالم کی انتہاء کر دی۔ حج کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے۔منیٰ کے قریب آپ نے یثرب (مدینہ) سے آئے ہوئے افراد کو پہچان لیا یہ لوگ مدینہ کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج سے تعلق رکھتے تھے ان سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس بات کا عہد کیا کہ کہ وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے۔ نہ چوری کریں گے اور نہ زنا کریں گے اور نہ ہی اپنی اولاد کو قتل کریں گے نہ بہتان طرازی کریں گے اور نہ ہی کسی معروف بات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فر مانی کریں گے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آسائش میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہونگے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔

(بخاری کتاب البیعیہ)

یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ جس مقام پر یہ بیعت لی گئ تھی وہ جگہ ’’عقبہ‘‘ کہلاتی تھی۔ یہ جگہ مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے مطابق عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے:۔
ترجمہ: ’’اے نبی!جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں اس شرط پر کہ وہ اللہ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی اور نیک باتوں میں تیری نا فرمانی نہیں کریں گی تو تُو ان کی بیعت لے لیا کر اور ان کے لیے استغفار کیا کر اللہ بہت بخشنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے

(الممتحنہ: 13)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مَس نہ ہو تا تھا۔

(بخاری)

جب اس دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے عاشق صادق حضرت امام الزماں علیہ السلام کا ظہور ہوا، نیک اور مخلص لوگوں نے آپ کو پہچان لیا اور پھر آپ سے درخواست کی کہ حضور! ہم سے بیعت لیں اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بیعت کے بارے میں ابھی تک اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں ہوا۔ آپ کو الہام ہوا جس کے الفاظ مندرجہ ذیل تھے:۔ اِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ وَاصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَوَحۡیِنَا الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ترجمہ: جب تو نے اس خدمت کے لیے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے روبرو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے۔خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہا تھوں پر ہو گا۔

(روحانی خزائن جلد3 صفحہ5)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہر قسم کے لوگ اس جماعت میں شامل ہو جائیں۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ صرف وہ لوگ اس سلسلہ میں شامل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری اور نیکی کا مادہ ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ بیعت کا اعلانِ عام کر دیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ احباب استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لیے حاضر ہوں یعنی پہلے دعا کریں، استخارہ کریں اور جب اطمینان ہو تو پھر بیعت کریں۔ آپ نے اسی سال ایک اشتہار شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’تکمیل تبلیغ و گزارش ضروری‘‘ جس میں آپ نے بیعت کے اغراض و مقا صد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لیے ہے تا ایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لیے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو‘‘

نیز فرمایا:
’’وہ (اللہ تعالیٰ) اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی‘‘

(تبلیغ رسالت جلد اوّل)

اسی طرح فرمایا:
’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہواور اپنےمولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائےجس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو‘‘

(روحانی خزائن جلد4 صفحہ351)

حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر خطبات دیئے تھے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ ہمارے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خطبات کا بار بار مطالعہ کریں اور اپنی زندگیوں کو ان شرائط بیعت کے عین مطابق بنانےکی کوشش کریں۔ اسی طرح حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ کے مطالعہ کی تلقین بھی فرمائی تھی اس کے بھی بار بار مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے بچنے کے لیے کشتی تیار کرنے کا حکم دیا تھا اس کشتی میں سوار ہونے والے سب بچائے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے نظام جماعت کی کشتی تیار کی ہے اس نظام میں شامل ہونے والے، اطاعت کرنے والے اور مسیحِ پاک کے ارشادات پر عمل کرنے والے سب احمدی مسلمان دجال کے تباہ کن مادّی طوفان اور دنیا میں پھیلی ہوئی وباؤں اور تیسری عالمگیر جنگ کے بد اثرات سے بچائے جائیں گے۔ ان شاء اللّٰہ

(زرتشت منیر احمد خان۔ ناروے حال ورجینیا۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ