• 27 اپریل, 2024

مصلح عالم مسیح محمدی کی اعجازی برکات

مصلح عالم مسیح محمدی کی اعجازی برکات
حضرت مسیح پاکؑ کی قوت قدسیہ کی بدولت لقائے الٰہی و دیدار الٰہی

اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین درحقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے۔اس کے بغیر مذہب کا تصور ہی کالعدم ہوجاتاہے۔ اسلام نے خداتعالیٰ کی ہستی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔اس خدا کا دیدار اس دنیا میں ممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ جب اس دور آخرین میں مسلمانوں پر عقائد و اعمال میں کمزوری کا دور آیا تومجیب الدعوات زندہ خدا پر ان کا ایمان اٹھ گیا۔اللہ تعالیٰ کی لقاءاور وحی والہام کے منکر ہوگئے۔کوئی نہ تھا جو خدا تعالیٰ کے زندہ کلام کی بات کرتا۔ اس انتہائی تاریکی اور مایوسی کے عالم میں قادیان کی گمنام بستی سے یہ نعرۂ تو حید بڑے جلال سے بلند ہوا

وہ خدا اب بھی بناتاہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتاہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

یہ پر شوکت اعلان حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہودد علیہ السلام کا تھا۔آپ نے دل شکستہ مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جس کی پیاری صفات حسنہ میں سے کوئی صفت بھی مرور زمانہ سے معطل نہیں ہوتی۔وہ آج بھی سنتاہے جیسے پہلے سنتا تھا۔ وہ آج بھی بولتاہے جیسے پہلے بولتا تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خداملے۔ زندہ خداوہ ہے جو ہمیں بلاواسطہ ملہَم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہِم کو دیکھ سکیں۔سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتاہوں کہ یہ زندہ خدااسلام کا خدا ہے۔ (مجموعہ اشتہارات مطبوعہ لندن 1984ء جلد2 صفحہ311) آپ علیہ السلام نے اپنی ذات اور ذاتی تجربہ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ خوشخبری عطا کی کہ دیکھو خدانے مجھے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’آؤ! میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے۔وہ اسلام کے ساتھ ہے۔اسلام اس وقت موسیٰؑ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے۔وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتاتھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے۔

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ62)

آپ علیہ السلام کا یہ اعلان ایک انقلاب آفرین اعلان تھا جس نے مذہب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یہ نقیب اور شاہد ایک مقناطیسی وجود ثابت ہواجس کی طرف سعید فطرت لوگ قافلہ درقافلہ آنے لگے اور اس وجود کے فیضان سے سیراب ہوکر باخدا انسان بن گئے۔یہ وہ گروہ قدسیاں تھا جو ایک عالم کے لئے خدانمائی کا وسیلہ بن گیا۔آپ علیہ السلام نے ایسے خدا نما قدوسیوں کا ایک گروہ کثیر دنیا کو عطا فرمایا جن کے زندگی بخش تجربات ہمیشہ نسلِ انسانی کے لئے خدا نمائی کے راستوں کو منور کرتے رہیں گے۔ان ہزاروں مثالوں میں سے چند ایک بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:

مرزا غلام احمد قادیانی کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتاہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ریاست قلات کے قاضی القضاة عبدالعلی اخواندزادہ نے مستونگ کے ایک بڑے مجمع میں علی الاعلان آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا سارے صوبہ سرحد میں آپ کو کوئی روحانی پیر نہیں ملا جو آپ نے پنجاب جا کر ایک پنجابی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کر لی ہے؟حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے برجستہ فرمایا دراصل بات یہ ہے اخواندزادہ صاحب مجھ سے میرا خدا گم ہوگیا تھا میں ہر مذہب میں اس کو ڈھونڈتارہا۔ہر مذہب مجھے پرانے قصوں کی طرف لے جاتا۔میں ہر ایک سے پوچھتا کہ وہ خدا اب بھی بولتاہے؟ تو وہ کہتے اب نہیں بولتا۔میں مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس گیا،تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب خدا نہیں بولتا۔ وحی کا دروازہ مطلق بند ہے۔تب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے۔جو پرانے قصوں پر منحصر ہے،ورنہ اللہ تو وہ ہونا چاہیے،جس کی تمام صفات حسنہ کی کان ہو کوئی صفت بھی معطل نہ وہو۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ پہلے بولتا تھا اور اب اس کی صفت تکلم پر مہر لگ جائے۔میں عنقریب دہریہ ہونے والا تھا۔پیچھے سے ایک نرم ہاتھ نے میرے کندھے کو پکڑااور کہا:کیوں محمد الیاس کیا بات ہے۔کیوں پریشان ہے۔میں نے کہا کہ خدا کی حقیقت معلوم ہو گئی۔وہ ایک فلسفہ ہے۔حقیقت میں نہیں ہے کیونکہ جس سے پوچھتا ہوں وہ یہی کہتاہے کہ خدا پہلے بولتا تھا۔اب نہیں بولتا۔اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تھے اور کہا آؤ! میں تمہیں بتاتاہوں۔وہ خدا اب بھی بولتاہے۔شرط یہ ہے کہ تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی ہوں وہ خدا تم پر بھی نازل ہوجائے گا۔اگر چاہے تو تم سے بھی کلام کرے گا۔اب عبدالعلی اخواندزادہ صاحب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتاہے۔میں آ پ سے پوچھتا ہوں کوئی ہے جو دعوی سے کہے کہ خدا اس سے بولتاہے؟ تمام مجمع پر سناٹا چھا گیا اور کچھ دیر خاموشی رہی اور کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو مولوی صاحب نے فرمایا:میں ایسے مسلک اور ایسے فرسودہ اسلام کو جو صرف رسوم وبدعات کا اسلام رہ گیا ہے کیا کروں؟ جس میں خدا کلام نہیں کرتا اور کیوں نہ مرزا غلام احمد قادیانی کے اسلام کو قبول کروں جو حقیقی اسلام ہے جس سے خدا ملتاہے اور پیار ومحبت سے کلام سے نوازتاہے۔

(حیات الیاس مصنفہ عبدالسلام خان صفحہ 118)

صادق! یقین کرو یہ جہاز صحیح سلامت پہنچے گا

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں 1917ء میں جب جنگ عالمگیر اپنے پورے شباب پر تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجھے حکم دیا کہ تبلیغ اسلام کے لئے انگلستان جاؤ۔عورتوں نے حضور رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی حضور سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں۔لوگ گیہوں کی طرح پِس رہے ہیں۔اگر حضرت مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جائے تو بہتر ہے۔اس کے جواب میں حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں۔مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتے ہیں جو نہیں پستے۔تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں پسنے والے نہیں۔جب ہمارا جہاز بحرہ روم میں داخل ہوا تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام مسافروں کو اوپر ڈیک پر بلایا اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہا۔یہ سمندر جس میں ہم داخل ہوئے ہیں۔ ۔۔معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہاز ان کے نشانے سے ڈوب جائے۔ اگر ایسا ہوا تو جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے گی۔چنانچہ کپتان نے سیٹی بجا کر سنائی۔پھر کہا کہ جب یہ سیٹی بجے تو یہ کشتیاں جو جہاز کے دونوں طرف لٹک رہی ہیں۔آپ لوگوں کے لئے ہیں پھر اس نے نام بنام کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقعہ پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں۔پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ لوگوں کو لے جائیں آپ کی قسمت۔ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔کپتان کے اس لیکچر کو سننے کے بعد میں اپنے کمرے میں آیا اور اس خطرے سے بچنے کے لئے اللہ کریم سے گڑگڑا کر دعا کی۔اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے۔صادق! یقین کرو یہ جہاز صحیح سلامت پہنچے گا۔ اس خوشخبری کو پاکر میں نے تمام مسافروں اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی ہوا۔ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا۔کئی جہاز ہمارے سامنے آگے پیچھے دائیں بائیں ڈوبے اور جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں مگر خدا وند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچادیا۔

(کتاب لطائف صادقؓ 130-131 کتاب حضرت مفتی محمد صادقؓ 166-167)

تم اس کمیٹی کے سربراہ ہو

چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ افریقہ میں تشریف لائے تو مجھے بھی حضور رحمہ اللہ کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔وہاں سیرالیون میں ایک بزرگ احمدی جن کا نام علی روجرز تھا وہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ احمدی کیسے ہوئے۔کہنے لگے کہ میں تو خدا کا نشان دیکھ کر احمدی ہوا ہوں۔میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب مولانا نذیر احمد صاحب علی ہمارے گاؤں میں پہلی بار آئے تو اُن کی ایک غیر از جماعت مولوی سے لوگوں کے سامنے احمدیہ عقائد پر گفتگو ہوئی جس کو سن کر مولوی نے فتوی دیا کہ آپ کافر ہیں۔جب وہ اجلاس منتشر ہوا تو شام پڑچکی تھی۔میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب نے ایک دروازہ کھٹکھٹایا اور پوچھا کہ کیا میں آج رات آپ کے ہاں بسر کر سکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ نہیں آپ کافر ہیں۔پھر دوسرے گھر گئے تو وہاں سے بھی ایساہی جواب ملا پھر انہوں نے تیسرا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے بھی رات ٹھہرانے سے انکار کر دیا۔میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے ان پر ترس آیا کہ چلو یہ شخص کافر ہی سہی پر انسان تو ہے میں ان کو اپنے گھر ٹھہرا لیتا ہوں۔چنانچہ اپنے گھر لے جانے کی نیت سے جب ان سے پوچھا تو وہ جنگل کی طرف جارہے تھے۔میں نے انہیں اپنے گھر ٹھہرنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ نہیں اب میں نے رات جنگل میں ہی بسر کرنی ہے اور دعا میں گزارنی ہے۔چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔جنگل میں پہنچ کر انہوں نے ایک جگہ سے پتے وغیرہ صاف کر کے اپنی چادر بچھا دی اور اس پر نماز پڑھنی شروع کر دی نماز میں ان کی رقت اور انہماک دیکھ کر میں حیران ہوتا رہا کہ اس شخص کو اتنی سخت کیا تکلیف ہے۔ پھر انہیں سخت درد گردہ شروع ہو گئی۔میں نے کہا کہ گھر چلتے ہیں شاید کوئی اسپرو وغیرہ مل جائے۔لیکن انہوں نے کہا میں اسی تکلیف کی حالت میں دعا کروں گا۔ پھر حضرت مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ ابھی خدا نے مجھے کشفاً بتایا ہے کہ جس جگہ تم بیٹھے ہوئے ہو وہاں ایک جماعت کا سکول ہے اس سکول کا انتظام چلانے والی ایک کمیٹی ہے اور میں نے دیکھا پے کہ تم اس کمیٹی کے سربراہ ہو۔یہ بیان کرتے ہوئے علی روجرز صاحب پر رقت طاری ہوگئی اور فرمایا کہ بعد میں ہمارے علاقہ میں احمدیت پھیلی اور عین اسی جگہ پر جہاں حضرت مولوی صاحب نے درد اور شکستہ دلی کے ساتھ رات گزاری تھی آج ہمارا سکول ہے اور اس کی انتظامیہ کمیٹی کا میں صدر ہوں پھر فرمایا کہ ہم تو زندہ خدا کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے ہیں۔

(کتاب چوہدری ظہور احمد باجوہ مرتبہ حنیف محمود صفحہ138-139)

مجید کو کہوکہ پرچوں پررول نمبر تولکھ آئے

عبدالمجید صاحب سیال بی اے ایل ایل بی بیان کرتے ہیں کہ 1943ء کا ذکرہے کہ مجھے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوناتھا۔ لیکن5-6 سا ل کا طویل عرصہ بے حد مصروف گزرجانے کے باعث میری ہمت جواب دے رہی تھی اور میں عجیب قسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ان دنوں میری رہائش بیت الظفرکوٹھی چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب میں تھی اورحضرت مولوی (شیر علی) صاحبؓ Guest House میں انگریزی ترجمة القرآن کاکام کرتے تھے۔ حضر ت مولوی صاحب کے ساتھ قرابت،نیز مہربانی وتلطف کے تعلق خاص کی وجہ سے ان کو میرے تمام حالات کابخوبی علم تھا۔آپ چاہتے تھے کہ میں میٹرک کے امتحان میں ضرور شریک ہوں۔ چنانچہ آپ کے ہمت دلانے پر میں نے لیٹ فیس کے ساتھ داخلہ بھیج دیا۔ آپ نے مجھے تاکید فرمائی کہ جب پہلا پرچہ ہوجائے تومجھے بتانا کیساہواہے۔ میں ان شاءاللّٰہ دعاکروں گا۔ تم بغیر کسی فکر کے دلجمعی کے ساتھ امتحان دیتے جاؤ۔ جب میں انگلش کاپرچہ دے کرآیا تونہایت مایوسی کے لہجہ میں حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ صرف دوچار نمبر کاپرچہ کرسکاہوں۔ آپ اس وقت اپنے گھر کے چبوترہ پر تشریف رکھتے تھے۔میری کارگزاری سن کر مسکرائے اور فرمایامیں نے تمہارے لئے خاص طورپردعاکی ہے مجھے بتایا گیاہے کہ ’’مجید سے کہو کہ پرچوں پررول نمبر تولکھ آئے باقی ذمہ داری ہم لے لیں گے۔‘‘ نیز یہ بھی فرمایاجب تک نتیجہ نہ نکلے اس بات کاکسی سے ذکر نہ کرنا۔ یہ حقیقت ہے کہ میرے تمام پرچے نہایت ہی خراب ہوئے تھے جن میں سے کسی ایک میں بھی کامیابی کی امید نہیں تھی۔ لیکن میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی جب میٹرک کانتیجہ نکلا تومیں 444 نمبر لے کر سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہوا۔

(سیرت حضرت مولانا شیر علیؓ صفحہ253-254)

ڈھونڈو! تو خدا کو پا لوگے

حضرت ماسٹرعبدالرحمان صاحب جالندھریؓ اپنے زندہ خداکے لطف وکرم کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1908ء میں جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا تومیرے ساتھ ہندو، مسلمان اور چارپانچ عیسائی بھی ایس۔اے۔ وی کلاس میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے۔ ان عیسائیوں میں ایک پٹھان کالڑکایوسف جمال الدین بی۔اے ہیڈماسٹر مشن اسکول جالندھر بھی تھا۔ان عیسائیوں نے مجھے عصرانہ پر مدعوکیا اور کہاکہ آپ نے اچھا کیاکہ سکھوں کامذہب ترک کرکے اسلام اختیار کیا۔اب ایک قدم اور آگے بڑھاؤاورعیسائی بن جاؤ۔ٹرینڈ ہوکر آپ کو مسلمانوں سے کیاتنخواہ ملے گی۔ ہم توجاتے ہی تین تین صدروپے تنخواہ پر متعین ہو جائیں گے۔مسلمانوں سے آپ کو 50۔60 یاسوروپے ماہوار ملے گا۔ میں نے کہا کہ میں زندہ خداکاشائق ہوں۔اگرتم زندہ خداسے میراتعلق پیداکردو تو میں عیسائی ہو جاؤں گا۔یوسف جمال الدین نے پوچھاکہ زندہ خداسے کیا مراد ہے۔ میں نے کہا کہ انجیل میں لکھاہے کہ دروازہ کھٹکھٹاوتوکھولا جائے گا۔ڈھونڈو!توخداکو پالو گے اور قرآن مجید میں بھی لکھاہے کہ بحالت اضطرار دعاکی جائے تواللہ تعالیٰ جواب د یتا ہے اگریہ نعمت عیسائیت میں دکھادو تومیں عیسائی ہوجاؤں گا۔طلبہ نے کہاکہ وید، انجیل اورقرآن مجیدکے بعدالہام ووحی کا دروازہ بندہے۔اب الہام نہیں ہوسکتا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا تو ہے لیکن بولتا نہیں۔میں نے کہاجوذات سنتی اور دیکھتی ہے وہ بول بھی سکتی ہے۔ پہلے سوال کے متعلق میں نے کہاکہ ابھی اس مجلس میں مجھے الہام ہوگیاہے کہ پہلے سوال بتادیا جائے گا۔ طلبانے کہاکہ ہم نے توالہام نہیں سنا، میں نے کہاکہ تمہاراخون خراب ہو گیاہے اسے قادیان میں درست کرالوتوتم کوبھی الہام کی آواز سنائی دے گی۔ دوسرے تیسرے روز رات کو سونے کے لئے سرہانے پر سر رکھنے ہی لگاتھاکہ کشفی حالت میں مجھے ریاضی کاپرچہ دکھایا گیاجسے میں نے پڑھ لیا مگر مجھے صرف پہلا سوال ہی یادرہا۔ جسے میں نے نوٹ کر لیاتین ہفتہ کے بعد ہماراسہ ماہی امتحان ہوااوراس میں ریاضی کاپہلا سوال وہی تھا جو میں نے بتایاتھا۔ یہ دیکھ کر یوسف وغیرہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے۔ایک شخص عبدالحمید(ایم۔اے)سکنہ کٹرہ بھنگیاں امرتسر دہریہ تھاوہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہو گیا۔اس کی تحریرمیرے پاس موجود ہے۔ ایک شخص ممتاز علی نے کہاکہ یہ اتفاق ہو گیا کہ آپ کوپہلے سوال کا پتہ لگ گیاہے۔میں نے کہاکہ آپ چالیس گریجویٹ ہیں اور مجھ سے لائق ہیں تین ماہ بعد پھر امتحان ہوگا سارے مل کر میر ی طرح پہلا سوال بتادو۔ وہ کہنے لگاکہ ہم چیلنج نہیں کرسکتے۔ میں نے کہایہی تومعجزہ ہے جسے تم چالیس افراد نوے دن میں نہیں کرسکتے۔میں نے دوتین دن میں کردکھایا۔اس پر سب طلبہ نے کہا کہ اگر کوئی اورامرِغیب ظاہر ہوجائے تواتفاق والا ہماراعذرلنگ بھی جاتارہے۔میں نے کہااچھا میں دعاکروں گااللہ تعالیٰ قادر ہے کہ کوئی اورغیب قبل ازوقت بتادے۔ انہیں ایام میں مجھے الہام ہوا: ’’بچہ ہے بچہ ہے بچی نہیں ہے‘‘۔ یعنی امسال ہمارے گھر اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائے گا۔وہاں مکرم صوفی غلام محمدصاحب (بی۔اے) مرحوم (بعدہ مبلغ ماریشس) بھی ٹریننگ لے رہے تھے۔یوسف وغیرہ نے بالائی طور پر ان کے ذریعہ قادیان سے پتہ منگوایاتوان کی اہلیہ صاحبہ کا خط آیاکہ ماسٹرصاحب کے ہاں ابھی دوتین ماہ کی امیدواری ہے۔جب لڑکا پیدا ہوگا تو اطلاع دوں گی۔چنانچہ سالانہ امتحان اپریل 1909ء کے قریب اطلاع بھیجی چنانچہ یوسف بورڈ پر سے کارڈ لایااور کہاکہ صوفی صاحب کی اہلیہ نے آپ کو دوہری مبارکباد لکھی ہے کہ لڑکابھی پیداہوگیا اور پیشگوئی کا الہام بھی پورا ہوگیا۔اس پر میں نے جلیبیوں کی دعوت دے کربتایا کہ اگرتم پندرہ سال گرجے یامندر یاٹھاکر دوارے میں پوجاپاٹھ کرتے رہواوروہاں سے کوئی جواب نہ آئے توتم سمجھو کہ تم خداکی عباد ت نہیں کررہے بلکہ مصنوعی خداکی خودساختہ تصویر ہے جس کی عبادت کررہے ہو۔وہ بت ہے بت پرستی چھوڑ دواے مسٹر یوسف! اگرتم پرنسپل کی کوٹھی پر جاؤاور اسے سلام کرواور وہ تمہیں سلام کا جواب نہ دیا کرے توکیاپھر بھی تم اس کی کوٹھی پر سلام کرنے جایاکروگے؟ اس نے کہاہر گزنہیں۔ میں نے کہاکہ اگر تم لوگ زندہ خداکی عبادت کروتووہ ارحم الراحمین ضرورجواب دے گا۔ بعدازاں میں نے یوسف مذکور اور مسٹرچیڑ جی عیسائیوں سے کہا کہ آپ لوگوں نے دوتین امور کے متعلق پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھی ہیں۔اس لئے حسبِ وعدہ مسلمان ہوجاؤ۔مگروہ عذر کرتے رہے۔آخر میں نے کہاکہ کم ازکم ان امور کی تحریری شہاد ت دے دو۔انہوں نے عذرکرکے اس سے بھی انکار کردیا۔اس پر میں نے کہاکہ اگر تم یہ شہادت لکھ دوتوتم دونوںپاس ورنہ فیل ہوجاؤگے یہ امر بھی الہام ہی (کی طرح یقینی) سمجھو۔ اللہ تعالیٰ کا کرناکیا ہواکہ جب نتیجہ نکلا۔ہم سب کامیاب او ر وہ دونوں فیل اس پر بعض غیر احمدی ہم جماعتوں نے شہادتیں تحریر کردیں جو میرے پاس موجود ہیں۔

(اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ73-75 نیاایڈیشن)

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِ اللّٰہِ

حضرت چوہدری امیر محمد خانصاحبؓ فرماتے ہیں: ’’جب مجھے شفاخانہ ہوشیار پور میں علاج کراتے ایک عرصہ گزر گیا اور باوجود تین دفعہ پاوٴں کے آپریشن کرنے کے پھر بھی پاوٴں اچھا نہ ہوا۔ تو ایک دن مِس صاحبہ نے جو بہت ہی رحم دل اور خلیق تھیں مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پاوٴں کو ٹخنے سے کاٹ دیا جائے تا کہ مرض ٹخنے سے اوپر سرایت نہ کر جائے۔ میں نے گھر والوں سے مشورہ کر کے اجازت دے دی۔اس پر مس صاحبہ نے بیوی کو جلاب دے کر اس کمرے میں لے گئی۔ جس کمرہ میں پاوٴں کاٹنا تھا۔ میں نے ساتھ جانے کےلئے مس صاحبہ سے اجازت چاہی۔ مگر اس نے کہا کہ آپ یہیں رہیں۔ لہٰذا میں وہیں وضو کر کے نفلوں کی نیت باندھ کر دعا میں مصروف ہو گیا اور دل اس خیال کی طرف چلا گیا کہ اے خدا تیری ذات قادر ہے۔ تُو جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ پس تو اس وقت پاوٴں کو کاٹنے سے بچا لے۔ کیونکہ اگر پاوٴں کٹ گیا تو عمر بھر کا عیب لگ جائے گا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور اسی خیال میں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا میں انتہائی سوزوگداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالم محویت میں ہی ندا آئی۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِ اللّٰہِ اور جب اس آواز کے ساتھ ہی میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مس صاحبہ میری طرف دوڑی آرہی ہیں اور آتے ہی کہا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہیں کہ اس دفعہ میں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاوٴں نہیں کاٹتا اس لئے کہ پاوٴں کو کبھی بھی کاٹا جا سکتا ہے مگر کاٹا ہوا پاوٴں ملنا محال ہے۔ میں خدا کی اس قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کے سو جان (سے) قربان جاوٴں کہ جس نے کرم خاکی پر ایسے نازک وقت میں لَا تَقْنَطُوْا کی بشارت سے معجز نمائی فرمائی۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد6 صفحہ121-122 روایات حضرت امیر خانؓ)

آندھی یکدم بند ہوگئی

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ:ایک دفعہ خاکسار راقم حضرت اقدس کی زیارت اور صحبت چند روز کے بعد قادیان مقدس سے واپس اپنے وطن کو آرہا تھا اور جا مکے کا مشہور پتن (جو وزیر آباد کے قریب ہے) جہاں کشتیوں کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے وزیر آباد سے میں بھی جامکے کے پتن پر پہنچا۔ اس وقت عصر کا آخری وقت تھا۔یعنی شاید ایک گھنٹہ یا کچھ کم و بیش وقت سورج غروب ہونے میں باقی تھا۔ جب پتن پر پہنچا تو ایک بہت بڑی برات بھی وہاں پہنچی۔ برات واپس آرہی تھی اور ڈولی میں بیاہ والی لڑکی بھی ساتھ تھی اور کبوتریاں اور کچھ مویشی بھی تھے اور برات کے سواروں اور پیادوں کے علاوہ میرے جیسے کچھ مسافر افراد بھی تھے جو دریائے چناب سے پار جانے والے تھے۔ برات والوں نے ملاحوں سے کہا کہ آپ کشتی کو تیار کریں جو بہت بڑی ہو کیونکہ کشتی پر سوار ہونے والے کثیر التعداد افراد ہیں۔ ملاحوں نے کہا۔ ساون بھادوں کا موسم ہے،دریا زوروں پر ہے اور پھر وقت بھی تھوڑا باقی ہے اور سورج غروب ہونے کے قریب ہے مطلع بھی کچھ گرد آلود معلوم ہوتا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں آندھی کی صورت نہ بن جائے اور ایسے حالات میں ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہدایت ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں۔ باوجود ملاحوں کے ان عذرات کے برات والوں کے حیلے جو نرم گرم الفاظ کے علاوہ منت سماجت کا نمونہ بھی اپنے اندر رکھتے تھے ان سے آخر ملاحوں کو کشتی تیار کرنی پڑی اور کشتی پر برات اور دوسرے لوگ سوار ہوگئے۔ خاکسار بھی سوار ہوگیا۔ کشتی بہت بڑی تھی۔جب سب لوگ سوار ہوگئے تو ملاحوں نے کشتی کو چلانا شروع کیا۔ جب کشتی دریا کے نصف کے قریب پہنچی تو سورج بھی بہت ہی تھوڑا رہ گیا یعنی بالکل قریب الغروب تھا کہ آندھی چلنی شروع ہوگئی اور آنا فاناً تیز ہوگئی۔کشتی ہچکولے کھانے لگی اور کچھ پانی بھی اس میں داخل ہونے لگا۔ اس وقت ملاحوں کو ان حالات سے بڑی تکلیف محسوس ہوئی اور باحساس تکلیف انہوں نے برات والوں کے متعلق تلخ سے تلخ ترکلمات بھی استعمال کئے اور نہایت غضب آلود اور حسرتناک الفاظ سے سب کشتی والوں کو سنا دیا کہ یہ آندھی جو اب سخت تیز ہو چکی ہے یہ نہایت ہی مہلک منظر اور مہیب نظارہ دکھلانے والی ہے۔ جس کے مقابل اب ہم بے بس ہیں اور اس بے بسی کے عالم میں اب ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب ہر ایک کشتی والا خدا کی تقدیر کے حوالے ہے۔ چاہے تو خداتعالیٰ کشتی والوں کو غرق کرکے ہلاک کرے چاہے تو کوئی صورت بچاوٴ کی پیدا کر ے لیکن ہم ملاح اس موقعہ پر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ملاحوں کا یہ کہنا تھا کہ کشتی والوں کی چیخیں بلند ہونے لگیں اور رونے اور چیخنے چلانے کی صدائیں بلند ہو کر ہوا کی مہیب آواز سے مل کراور بھی وحشت اور دہشت کے اثرات دکھلا رہی تھیں اور وہ شور اور چلاہٹ کا سماں اس قدر دردناک اور حشر بپا کرنے والا تھا کہ اس وقت ہر طرف رونا ہی رونا اور چیخیں ہی چیخیں سنائی دے رہی تھیں اور ابتداءمیں تو ملاحوں نے خواجہ خضر کا بھی نام بھی لیا اور پیر بخاری اور پیر جیلانی کو بھی امداد کے لئے یاد کیا اور باربار ان کے نام کا ذکر کیا۔ لیکن جب بالکل بے بسی کا عالم پیدا ہوگیا اور سب نے محسوس کر لیا کہ ہیبت اور دہشت کے بھیانک نظاروں کے ساتھ موت کشتی والوں کے سر پر منڈلارہی ہے اس وقت ہرطرف سے تو ہی تو ہے، تو ہی تو ہے۔ لااِلٰہ الااللّٰہ، لااِلٰہ الا اللّٰہ۔ تیرے سوا کوئی نہیں جو اس وقت بچا سکے۔ تیرے بغیر کوئی نہیں جو اس کشتی کو کنارے لگا سکے تو ہی تو ہے ہاں تو ہی تو ہے، کے الفاظ منہ پر جاری تھے اور شرک آلود اسباب کی جگہ فطرت کے اندر سے خالص توحید کی آواز آرہی تھی۔اس وقت میرے پاس حضرت اقدس سیدنا المسیح الموعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب تھیں جو میں قادیان مقدس سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس قیامت خیز منظر اور شور محشر کے مہیب نظارہ کے وقت میں نے بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب مقدسہ کو ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے مولا کریم! اگر ہم سب اس قابل ہی ہیں کہ غرق ہونے کے ساتھ ہلاک کردئیے جائیں اور اس وقت اگر کسی کا عجز بھی باعث نجات نہیں ہوسکتا تو آپ اپنے پیارے اور مقدس مسیح کے منہ کی برکت کے طفیل اور آپ کی ان کتب مقدسہ کے طفیل جو حضور اقدس نے لوگوں کی ہدایت اور نجات ہی کے لئے لکھ کر شائع فرمائی ہیں اس آندھی کو جلد از جلد ٹھہرا دے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اس سے بہتر اور بڑھ کر کون جانتا ہے کہ ابھی میں نے ایک یا دو مرتبہ ہی ان دعائیہ کلمات کو دہرایا ہوگا کہ آناً فاناً آندھی فوراً تھم گئی اور گو اس مہلک اور مہیب منظر کے تبدیل ہونے میں دوسرے لوگوں کی آہ و زاری اوررو رو کر دعا کرنے کا بھی اثر اور دخل ہو لیکن میری دعا سے پہلے اس آندھی کی تیزی میں کچھ بھی فرق ظاہر نہ ہوا۔ مگر جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور حضرت اقدس کی کتب مقدسہ کو ہاتھ میں لے کر اور انہیں پیش کرتے ہوئے دعا کرنی شروع کی تو ادھر ہاتھ اٹھائے اور دعا شروع کی تو ادھر آندھی جو قوت کے ساتھ تیزی دکھاتے ہوئے موت کو دعوت دے رہی تھی فوراً بند کردی گئی مجھے اس وقت یوں محسوس ہوا کہ آندھی کا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے یکدم اور فوراً بند ہوجانا محض حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰة والسلام کی روحانی برکات اور اعجازی نجات کا نشان ہے جو اس وقت ظاہر ہوا جب آندھی یکدم بند ہوگئی۔ اس کے ہم سب نے شکر ادا کیا اور کشتی محض خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے سلامتی کے ساتھ کنارے آلگی۔

(الفرقان مئی 1960ء صفحہ15-16)

دینے والے کے نام کاکسی سے ذکرنہ کریں

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریر فرماتے ہیں: ایک دفعہ کاذکرہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی اور میری بیوی کہہ رہی تھی کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادانہیں ہوسکی۔ سکول والے تقاضہ کر رہے ہیں بہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھی کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوکر ابھی دفتر میں آجائیں۔ جب میں دفتر جانے لگا تومیری اہلیہ نے پھر کہاکہ آپ لمبے سفر پر جارہے ہیں اورگھر میں بچوں کے گزارے اوراخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟میں نے کہاکہ میں سلسلہ کاحکم ٹال نہیں سکتا اور جانے سے رک نہیں سکتا۔ کیونکہ میں نے دین کو دنیاپر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل وعیال کو گھروں میں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کویہ بھی خطرہ ہوتاتھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یاشہادت کامرتبہ پاکر ہمیشہ کے لئے ہم سے جد ا ہوتے ہیں اوربچے یتیم، بیویاں بیوہ ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل وعیال سے نرم سلوک کیاگیاہے اور ہمیں قتال اور حرب درپیش نہیں بلکہ زندہ سلامت آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ پس آپ کو نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا چاہئے اس پر میری بیوی خاموش ہوگئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میںمیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ ’’اے میرے محسن خد!اتیرایہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہاہے اورگھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیں۔ توخود ہی ان کا کفیل ہواور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبد ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کاکوئی سامان نہیں کرسکتا’’۔میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی جب میں نے آگے بڑھ کر دروزاہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہافلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلاکر مبلغ یک صد روپیہ دیاہے اور کہاہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیاجائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں نے وہ روپیہ لے کر انہیں صاحب کو اپنے ساتھ لیااور کہاکہ میں تواب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دے دیا اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوادی۔ فالحمد للّٰہ علی ذالک

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ5-4)

واقعی یہ رقم خداتعالیٰ کی طرف سے ہے

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریر فرماتے ہیں:
1929ء میں میں تبلیغی سفر کے سلسلہ میں مختلف مقامات سے ہوتاہوا مردان شہر میں جو سرحدی علاقہ ہے پہنچا دوسرے دن عیدالاضحیہ کی عید کا مبارک دن تھا۔ مجھے وہاں جانے سے ایک دودن پہلے عزیز اقبال احمد کی طرف سے ایک خط ملاتھاکہ آپ سفر پر ہیں اور مجھے کالج کی تعلیمی کتب اور فیس وغیرہ کے اخراجات کے لئے اس وقت کم از کم ایک سور وپیہ جلد از جلد ملنا از بس ضروری ہے۔ میرا ورو د مردان میں اس موقعہ پر پہلی دفعہ تھا۔ چنداں تعارف اور شناسائی نہ تھی کہ کسی دوست سے قرض حاصل ہوسکتا صرف اللہ تعالیٰ کی خیر الراحمین اور خیرالمحسنین اور واہب المواہب ذات پر بھروسہ تھا۔ دوسرے دن احباب کی فرمائش پرمیں نے نمازِ عید پڑھائی۔ جب میں بحالتِ سجدہ دعا کررہا تھا تومجھ پررِقّت طاری ہوگئی اور رِقّت کا باعث یہ امر ہواکہ نماز سے پہلے بعض احمدی بچے جو اپنے باپوں کے ساتھ مسجد میں آئے ہوئے تھے اپنے باپوں سے عیدی کے لئے کچھ طلب کرتے تھے اور ان کے باپ اپنے بچوں کو بقدر مناسب عیدی دے رہے تھے۔ مجھے بحالت سجدہ دعاکی تحریک انہی بچوں کی عیدی طلب کرنے پر ہوئی اور میں نے اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیاکہ میرے مولیٰ آج عید کا دن ہے بچے اپنے والدین سے عیدی طلب کررہے ہیں اور میر ابچہ بھی مجھ سے بذریعہ خط ایک سو روپیہ کی ضرورت پیش کرچکاہے۔ سو میں اپنے بچہ کے لئے حضو رکی خدمت میں اس رقم مطلوبہ کے متعلق ہاتھ پھیلاتاہوں کہ میرے بچے کی شدید ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی صورت محض اپنے فضل وکرم سے مہیا فرمادے تا اس پریشانی سے مخلصی ہو۔ نماز عید، کھانے اور نماز ظہر سے فارغ ہونے پر ہم نے مردان سے چارسدہ جانے کے لئے تیاری کی کیونکہ چارسدہ میں جماعت احمدیہ کے ہاں جانابھی ہمارے پروگرام میں داخل تھا۔ جب ہم مردان سے باہر ٹانگے پر سوا رہونے کے لئے احباب سے رخصت ہوئے توکئی احباب ہماری مشایعت کے لئے اڈے تک آئے۔ ان میں سے اچانک ایک صاحب جن کو اس وقت میں قطعًا نہ جانتا تھامیرے پاس سے گذرے اور گذرتے ہوئے کوئی چیز میرے کوٹ کی بیرونی جیب میں ڈال دی۔ جب ہم مردان سے سوار ہوکر چار سدہ پہنچے اور میں نے جیب میں ہاتھ ڈالاتومجھے ایک لفافہ ملا جس میں کوئی کاغذ ملفوف تھا۔ جب میں نے لفافہ کو کھولا تواس میں ایک صد روپیہ کا نوٹ تھاجس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا جس میں یہ لکھا ہواتھا کہ آپ جب نماز عید پڑھا رہے تھے تومیرے قلب میں زور سے یہ تحریک ہوئی کہ میں سو روپیہ کی رقم آپ کی خدمت میں پیش کروں۔لیکن اس طریق پر کہ آپ کویہ پتہ نہ لگ سکے کہ یہ کس نے دی ہے اس لئے میں نے سور وپیہ کا نوٹ آپ کی جیب میں ڈال دیاہے او رپتہ نہیں لکھاتامیر اعمل بھی مخلصانہ محض اللہ تعالیٰ کے علم تک رہے اور آپ بھی اس سو روپیہ کی رقم کا عطیہ اللہ تعالیٰ کی معطی اور محسن ہستی کی طرف سے ہی محسو س کریں۔یہ وہی عیدی تھی جو بحالتِ سجدہ نماز عید میں میں نے اپنے بچے کے لئے اپنے محسن مولیٰ سے مانگی تھی اور جو حضرت خیرالراحمین اور خیر المحسنین مولیٰ کریم کی فیاضانہ نوازش سے مجھے عطا فرمائی گئی تھی۔ اس رقعہ کے پڑھنے سے مجھے اور بھی اس بات کا یقین ہوا کہ واقعی یہ رقم مجھے خداتعالیٰ ہی کی طرف سے بغیر کسی کے منّت واحسان کے عطا ہوئی ہے اور میری روح جذبہ ٔتشکرات سے بھر کر اپنے محسن خدا کے حضور ایک وجد نماجوش کے ساتھ جھک گئی۔ میرے قلب میں اس مخلص دوست کی اس نیکی کابھی بہت احساس ہوا او ر میں نے اس کے لئے دعاکی کہ مولیٰ کریم اپنی کرم فرمائی سے اسے جزائے خیر دے او راس کی آل اورنسل کو اپنے فیوض خاصہ سے نوازے۔میں نے وہ رقم عزیز اقبال احمد سلمہ کوبھجوادی۔یہ سیدنا حضرت مسیح پاک کی اعجاز نما برکت ہے کہ ایک طرف میرے جیسے حقیر خادم کو حضور کے روحانی اور بابرکت تعلق سے دعا۔ ہاں قبول ہونے والی دعا۔ کی توفیق نصیب ہوئی اور پھر اس دعاکی استجابت کا اثر ایسے طور سے نمایاں ہوا جو احتیاج خلق سے بالاتر نظر آتاتھا۔ اس قسم کا مخلصانہ عمل جس میں نمود ونمائش کاکوئی شائبہ نہیں پایاجاتا دنیابھر میں مشکل سے مل سکتاہے۔ ہاں صرف احمدی جماعت کے افراد میں پایا جاتاہے جہاں تک بتحریک اخلاص و للّٰہیت رقم کے عطیہ کے ساتھ رقعہ میں نام وپتہ تک کا نہ لکھنا حد درجہ کا اخلاص ہے لیکن یہ اخلاص کس کی قوت قدسیہ اور روحانی کشش اور مؤثر توجہ سے پیدا ہوا؟ میں خداتعالیٰ کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ ایسااخلاص اور بے ریاءعمل میرے پیارے اور پاک مسیح ہاں میرے مولیٰ کے محبوب اور مصلح عالم مسیح محمدی کی اعجازی برکات کا نمونہ ہے اورایسے نمونے جماعت احمدیہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ احبابِ جماعت کے اخلاص اور ایمان میں برکت پر برکت دے۔ ان کی زندگی اور موت رضائِ الٰہی کے ماتحت ہو او ران کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کے قیام کی غرض پوری ہو‘‘۔ آمین یارب العالمین

(حیات قدسی حصہ چہارم 177-179)

میں اللہ قادر مقتدر ہوں

حضرت مولانا ابراہیم بقاپوری صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
28؍نومبر 1950ء کا واقعہ ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے قرضہ کی رقم جو مبلغ بارہ صد روپے میرے ذمہ واجب الادا تھی۔ مولوی صاحب نے مجھے لکھاکہ آپ اس رقم کی ادائیگی کاجلد انتظام کریں میں نے ان سے مل کر ماہوار اقساط کی صورت میں ادائیگی کاوعدہ کیامگر اسے آپ نے منظور نہ کیا اور یکمشت وصولی پر اصرار کرتے ہوئے فرمایاکہ جب آپ یکمشت رقم اداکریں گے توا س میں کچھ رقم چھوڑ دوں گا۔ اس موقعہ پر میں نے انہیں آنحضرت ﷺ کے فیصلہ کی طرف توجہ دلائی جو حضور ﷺ نے قرض خواہ کو فرمایاکہ نصف رقم قرضہ تم چھوڑ دو اور مقروض کو فرمایاکہ نصف کی ادائیگی کا تم انتظام کرو۔ اس فیصلہ نبوی کو میں نے یاد دلاکر کہا کہ اگر آپ نصف رقم چھوڑ دیں تو بقیہ نصف کی جلد ادائیگی کے متعلق میں کوشش کروں گا۔ اس پر آپ نے نہایت خوش اخلاقی کا نمونہ دکھلاتے ہوئے بخوشی منظور فرمالیا مگر شرط یہ کی کہ 15؍دسمبر 1950ء تک رقم اد اکردی جاوے۔ بشری کمزور ی کے باعث اس پر مجھے سخت فکر ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں اتنی رقم کہاں سے مہیا کروں گا۔ آخر آستانہ الٰہی پر گر کر دعا کی تو اثنائے دعامندرجہ ذیل الفاظ زبان پر جاری ہوئے ’’میں اللہ قادر مقتدر ہوں‘‘۔ جس سے مجھے یقین ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ جلد ہی غیب سے ادائیگی کی کوئی صورت پیدا فرمادے گا۔ چنانچہ ایساہی ہواچند ہی دنوں میں تین صد روپے کی رقم ایک طرف سے اور تین صد کی رقم دوسری طرف سے مجھے مل گئی اور مقررہ تاریخ سے بہت پہلے یعنی 10 دسمبر کو میں نے مبلغ چھ صد روپیہ خان صاحب کی خدمت میں لے جا کر قرضہ بے باق کر دیا۔ فالحمد للّٰہ علی ذالک

(حیات بقاپوری جلد سوم صفحہ88-89)

خدانے مجھے ابھی ابھی ایک بات کہی ہے

حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
ایک دفعہ سیالکوٹ میں اپنے سکول کے مینجر (جوکہ پادری تھا) سے تبلیغ کرتے میرا جھگڑا ہو گیا۔ مینجر نے کہا کہ خدا کس سے باتیں کرتاہے؟ فرمایاکہ اگر میں نے کہاحضرت مسیح موعودؑ سے، تویہ کوئی اور اعتراض کردے گا۔ میں نے کہامجھ سے کرتاہے اور اپنے چند واقعات بتائے۔ چند دنوں کے بعد وہ پادری کسی لڑکی کو عیسائی بناکر لے گیا۔ اس کے رشتہ دار اس کی کوٹھی پرگئے اور اس کو مارا۔ میں نے دوپہر کوسوتے ہوئے دیکھا کہ پادری کو مار پڑ ی ہے او روہ کہتا ہے کہ دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ اسی وقت اٹھا اور اس کی کوٹھی پر گیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟ کہاکہ خدا نے مجھے ابھی ابھی ایک بات کہی ہے۔ وہ آپ کو بتانے آیاہوں اوروہ یہ کہ آپ کو مار پڑی ہے اور دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ اس نے اس کی تصدیق کی۔(اس نے ناراض ہوکر منشی صاحب کی ترقی روک رکھی تھی) دوسرے دن سکول میں میرے کمرے میں آیا او رکہنے لگا ہم اس ماہ آپ کو ترقی دیں گے۔میں نے کہا ہم نہیں لیتے۔وہ یہ کہہ کر کہ ہم دیں گے چلا گیااو رترقی دےدی اور دوسرے ماہ مزید ترقی دے دی۔

(اصحاب احمد جلد2 صفحہ198-199)

مجھے دوپاؤنڈ دے دے

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں:
جب میں ہندوستان سے انگلینڈ کے لئے روانہ ہواتو پاسپورٹ کی روسے راستہ میں فرانس نہیں اتر سکتاتھا لیکن میرا بڑا دل چاہتاتھاکہ فرانس میں اتروں۔ اس کا ذکر میں نے افسر جہاز سے کیا۔اس نے کہا تم فرانس میں صرف اس صورت میں اتر سکتے ہوجب تمہارے پاس اتنا خرچ ہو۔جب میں نے اپنے سرمایہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جس قدر کپتان کہتاہے کہ خرچ ہوگا۔میرے پاس اس سے دوپونڈ کم تھے۔میں نے سوچاکسی سے یہ رقم قرض لے لوںمگر جہاز میں میر ا کوئی بھی شناسانہ تھا۔کس سے لیتا؟ آخر جب بالکل مایوس ہوگیاتو میں نے دعاکی کہ اے زمین وآسمان کے مالک۔اے خشکی اور تری کے خالق!توہر چیز پر قادرہے اور تجھے ہر قسم کی قدرت اورطاقت حاصل ہے۔ تو جانتاہے کہ مجھے اس وقت دوپونڈ کی ضرورت ہے تومجھے یہ دوپونڈ دے دے۔خواہ آسمان سے گر ایاسمندر سے نکال دے۔ مگر دے ضرور۔میں نے بہت الحاح اور زاری کے ساتھ خد اسے دعامانگی اور دعامانگنے کے بعد مجھے پختہ یقین ہوگیا کہ مجھے دوپونڈ ضرور مل جائیں گے۔مگر میری سمجھ میں نہ آتاتھاکہ بالکل اجنبی جگہ اور بالکل اجنبی آدمیوں میں یہ دوپونڈ کس طرح ملیں گے؟ یہ جنگِ یورپ کازمانہ تھا۔ جہاز چلتے چلتے یکدم ایک ایسی جگہ ٹھہرگیا جہاں پہلے کبھی نہیں ٹھہرا تھا میں نے اس خیال سے کہ جنگ کا زمانہ ہے ممکن ہے اس جگہ ہمارے کچھ احمدی دوست ہوں کپتان جہاز سے کہاکہ مجھے خشکی پر جانے کی اجازت دیں لیکن اس نے صاف انکار کردیااورکہاآپ یہاں ہرگز نہیں اتر سکتے۔ ہم تو ویسے ہی یہاں محض سمندر کی حالت معلوم کرنے کے لئے اتفاقًا کھڑے ہوگئے ہیں ورنہ اس سے پہلے یہاں آج تک کبھی کھڑے نہیںہوئے۔ تھوڑی دیر میں میں نے دیکھاکہ ایک کشتی جہاز کی طرف آرہی ہے میں نے کپتان سے کہاکہ یہ کشتی یہاں کیوں آرہی ہے۔جب یہاں اترنے کی اجازت ہی نہیں؟کپتان نے کہامجھے پتہ نہیں کہ کیوں آرہی ہے پاس آئے توحالات کا علم ہو۔جب کشتی جہاز کے قریب آ ئی تو میں نے پہچانا کہ اس میں ہمارے بھائی حاجی عبدالکریم صاحب تھے۔انہوں نے کسی طرح سن لیاتھاکہ میں فلاں جہاز سے انگلستان جارہاہوں اورفلاں وقت جہاز یہاں سے گزرے گا۔ ان کو معلوم تھاکہ جہاز یہاں نہیں ٹھہرے گاپھر بھی وہ ساحل پر آ گئے تھے لیکن جب جہاز جزیرہ کے سامنے آکر اچانک ٹھہر گیاتووہ فورًا کشتی لے کر جہازکے پاس آگئے۔ کپتان نے ان کو دریافتِ حال کے لئے اوپر آنے کی ا جازت دے دی خیروہ مجھ سے ملے اورادھر ادھر کی باتوں کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو یہ کہہ کر دوپونڈ میری جیب میں ڈال دیے کہ مجھے کچھ مٹھائی آپ کے ساتھ کے لئے لانی چاہئے تھی مگر مجھے تواس کاوہم بھی نہ تھا کہ جہاز ٹھہر جائے گا اور میں آپ سے مل سکوں گا۔ اس لئے یہ دوپونڈ مٹھائی کے ہیں رکھ لیں۔

(لطائف صادق صفحہ65-66)

ان میں سے کوئی بھی نہ مرا

مکرم محمد احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: علاقہ کپورتھلہ میں ایک گاؤں شیرانوالی ہے۔ اس جگہ مسمی مہتاب احمدی رہتا تھا۔ ایک سال اس گاؤں میں طاعون پڑا اس نے کوٹھے پر کھڑے ہوکر آوازدی کہ اے لوگو!جس نے طاعون سے بچنا ہے وہ میرے گھر میں داخل ہوجائے۔ اس آواز پر بہت سے غیر احمدی مسلمان اس کے گھر آ گئے اور اس نے دعاکی کہ اے اللہ تعالیٰ! تو اور تیرا مسیح سچا ہے تو ان کو طاعون سے بچالے۔ خدا کی قدرت جو لوگ اس کے گھر میں آئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ مرا اور نہ بیمار ہوا اور لوگ بہت مرے۔

(رجسٹر روایات نمبر1 صفحہ213)

نہ گھبرا میں رب تیرا غفوررحیم ہوں

حضرت مولانا محمدابراہیم صاحب بقاپوریؓ اپنی انشراح صدری کاواقعہ تحر یر فرماتے ہیں:
9؍جنوری 1958ء کا واقعہ ہے کہ میں انفلوئینزا میں مبتلا تھا کہ کچھ گھبراہٹ کے کلمات منہ سے نکل گئے گومیں خدا تعالیٰ کے پا س جانے کے لئے تیا رتھا۔اتنے میں اونگھ آگئی۔ غنودگی میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوتاہوں اور ایسا نظر آتاہے جیسے پہاڑمیں سرنگیں ہوتی ہیں۔ اسی قسم کی ایک سرنگ ہے جس کے باہرکے سرے پر میں ہوں اور اندر اللہ تعالیٰ جل شانہ سفید شاہانہ لباس میں ملبوس نورانی منبر پرجلوہ افروز ہیں۔ میرے گھبراہٹ کے کلمات سن کر فرماتے ہیں ’’نہ گھبر امیں رب تیر ا غفور رحیم ہوں‘‘ یہ سن کر میری آنکھ کھل گئی تو گھبراہٹ دور ہوچکی تھی اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہوچکی تھی۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک

(حیات بقاپوری جلدسوم صفحہ144)

پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا

حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ فرماتے ہیں:
بعد حضورؑ کی پاک صحبت کی برکت سے یہی فائدہ ہوا کہ ایک روز بعدنماز تہجد خاکسار سجدہ میں دعائیں کررہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہوئی جوایک کشفی رنگ تھا ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا۔ جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت کوزہ پانی کا بھر اہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت کارد (چھری) تھی۔ مجھے کہنے لگا کہ میں تمہاری اندرونی صفائی کے لئے میں آیا ہوں۔ اس پر میں نے کہا کہ بہت اچھا۔ آپ جس طرح چاہیں صفائی کریں۔ چنانچہ اس نے پہلے چھری سے میرے سینہ کوچاک کیا۔ کوزہ کے مصفیٰ پانی سے اس کو خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیدا ہوئی۔ جب وہ چلے گئے تومیں نے خیال کیا کہ اب میں نے توصبح کی نماز ادا کرنی ہے اور میرا بدن چیرا ہوا ہے۔ نماز کس طرح ادا کرسکوں گا اس لئے پاؤں کوہلا نا شروع کیا۔ توکوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ حالت بیداری پیدا ہوگئی اس کے بعد نماز فجر ادا کی۔ اس کے بعد حضور کی فیض محبت سے بہت روحانی فوائد حاصل ہوئے جو قبل اس کے کبھی نہیں ہوئے۔

(رجسٹرروایات نمبر12 صفحہ322-323)

تاریخی حیثیت اختیار کر گیا

مکرم بشیراحمدرفیق صاحب تحریر کرتے ہیں:
حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب اپنی قبولیت دعاکے واقعات بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک اہم دعاجس کی قبولیت کا آپ نے مجھ سے بھی ذکر کیایوں ہے فرمایا۔کہ جب میں اقوام متحدہ کے ساتویں سیشن کاصدر منتخب ہوا تومیرے دل میں اس بات پرتشویش پیداہوئی کہ میں نے تواسمبلی کے قواعد وضوابط کا مطالعہ بھی نہیں کیا۔ جبکہ افغانستان کے سفیر متعینہ اقوام متحدہ دن میں کئی کئی بار پوائنٹ آف آرڈر اٹھانے میں مشہورتھے اور باربارصدر کو قواعد کی طرف متوجہ کرکے ان کو آگے نہیں چلنے دیتے تھے۔حضرت چوہدری صاحب نے فرمایامیں نے بڑی تضرع سے اپنے مولیٰ سے دعا کی خدایا!ایسے معاملات میں اپنی قدرت کا جلوہ دکھاکر میری مدد فرما۔ حضرت چوہدری صاحب بعدمیں بہت جذباتی اندازمیں فرمایا کرتے تھے کہ میرے مولیٰ نے میری تضرعات کویوں شرف قبولیت بخشا کہ میری صدارت کے دوران ایک سال کے عرصہ میں ایک بھی پوائنٹ آف آرڈرنہیں اٹھایاگیا اوریوں یہ سیشن اس لحاظ سے بھی ایک تاریخی حیثیت اختیارکرگیا۔

(چندیادیں صفحہ51-52)

اللہ تعالیٰ کو ایسا دیکھا گویا وہ قریب آگیا ہے

حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقا پوری بیان فرماتے ہیں۔ یکم جولائی 1938ء محمد اسحٰق کو میڈیکل سکول امرتسر میں داخل کروانے کے لئے میں اُس کے ہمرا ہ گیا،تو معلوم ہوا کہ سکول میں داخل ہونے کے لیے کئی ایف۔ اے اور بی۔اے پاس طالب علم آئے ہوئے ہیں اور بڑے بڑے امیروں کے لڑکے بڑے بڑے آدمیوں کی سفارشیں لے کر آئے ہیں۔اس سے مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی،اور درخواستیں کرنے والے طالب علم200 تھے اور میرا سوائے خداوند کریم مسبّب الاسباب کے کوئی سفارشی نہ تھا اس لئے بڑے قلق اور کرب کے ساتھ رات کو دعا کر کے سو گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور محمد اسحٰق کے داخلے کے متعلق مجھے تسلی دیتے ہیں کہ عزیز داخل ہو جائےگا۔ آپ ایک نوجوان خوبصورت مضبوط انسان کی شکل میں متمثل ہیں جس کی عمر30-32 سال ہوگی۔صبح میں نے عزیز کو تسلی دی اور میں اُس کےساتھ گیا۔ فیض اللہ چک کے ایک احمدی طالب علم عطاءالرحمٰن کو جو دوسرے سال کا طالب علم تھا،میں نے کہا کہ مجھے ایسی جگہ کھڑا کرو جہا ں سے میں انٹر ویو کرنے والوں کو دیکھ سکوں۔ چنانچہ اُس نے اُن کے کمرے کے پیچھے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا کر دیا، جہاں سے میں نے دیکھا کہ تین چار افسر بیٹھے انٹر ویو کر رہے ہیں اور کسی کوفٹ اور کسی کو ان فٹ کرتے جاتے ہیں۔ جب محمد اسحٰق کمرہ میں داخل ہوا،اُس وقت میں نے رقت سے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ایسا دیکھا گویا وہ قریب آگیا ہے اور مجھ پر ربودگی طاری ہو گئی۔محمد اسحٰق کی نظر درست ثابت ہوئی،لیکن جب کپڑے اُتار کر دیکھاتو کہا،یہ کمزور ہے او ر اسے فیل کر دیا۔ اُس وقت محمد اسحٰق بھی رو پڑا،اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا ! اب تیری قدرت دکھانے اور مجھ پر رحم فرمانے کا وقت ہے۔ چنانچہ اُسی وقت دوسرے ڈاکٹر نے پھر محمد اسحٰق کو واپس بلا لیا اور کہا کہ نہیں اسے لے لو،چنانچہ اُسے لے لیا گیا۔ اُس وقت جن لوگوں نے مجھے دعا کرتے دیکھا، وہ کہنے لگے کہ اس شخص نے دعا کر کے اپنے بیٹے کو داخل کر وا لیا ہے۔

(حیات بقا پوری حصہ اول صفحہ198)

خدا کے نور کی تجلی

حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے فرماتے ہیں:
1925ء میں ملکانہ کے علاقہ میں نگلہ کھنو ضلع ایٹہ اپنے ہیڈ کواٹر میں تھا۔رمضان شریف کے روزے رکھ رہا تھا اور بیس رمضان المبارک بعد نماز عصر وہاں کی بیت میں اعتکاف بیٹھ گیا۔جب ستائیسویں روزے کی گزشتہ شب نماز تہجد ادا کررہا تھا تو دعا ئے قنوت پڑھنے کے بعد مجھ پر کھڑے کھڑے ہی غنودگی طاری ہوگئی اور اسی حالت میں مجھے نور نکلتا ہوادکھائی دیا وہ ایسا خوشنما تھا کہ جس کی سفیدی میں کچھ سبز رنگ کی جھلک تھی۔وہ اتنا تیز ہوگیا کہ اگر اس نور میں کچھ اور تیزی آجاتی تو میں بےہوش ہو کر گر جاتا اور معاً بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا ’’بس بس بس‘‘ اس مسجد کا ایک محافظ میرا کھانا گھر سے لایا ہوا تھا ’’بس بس بس‘‘ کے میرے یہ الفاظ سن کر وہ بے تاب ہوگیا کہ مولوی صاحب کو کیا ہوگیا ہے؟ جب اس نے پردہ اٹھا کر اندر مجھے دیکھا تو میں سجدہ میں جاچکا تھا۔ذرہ ہوش قائم ہونے پر میں سجدہ میں گیا تھا۔سلام پھیرنے پر اس نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ یہ ’’بس بس بس‘‘ کس کو کہہ رہے تھے۔میں نے اسے بتایا کہ میاں صاحب میری بڑی مدت سے خواہش تھی اور میں دعا کیا کرتا تھا کہ مولا کریم جب ہم دعا کرتے ہیں تو کس چیز کو سامنے رکھیں۔آپ نے اپنے کسی بندے (یعنی حضرت موسیٰؑ) کو تو اپنا نور دکھا کر اور اس کا جلوہ دکھا کر اپنا آپ اس پر ظاہر کیا جس کو وہ برداشت نہ کر سکا اور کسی کو انجیر کے درخت سے اپنے وجود کا اظہار کر کے دکھایا (یعنی حضرت عیسیٰؑ پر) تو میرے مولا! اگر آپ ہمیں بھی ایسی تجلی دکھادیں تو آپ کا کوئی حرج نہیں اور ہمارا ایمان بڑھ جائے گا۔لہٰذا ایک مدت کی دعا کے بعد آج خدا تعالیٰ نے یہ تجلی دکھا کر ظاہر کر دیا ہے کہ میں صرف نور ہی نور ہوں جو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ واقعی خدا کے پورے نور کو یہ فانی وجود برداشت نہیں کر سکتا۔اسی لئے وہ اپنے پیارے بندوں سے وراء حجاب ہی باتیں کرتا رہا۔یہ نور دیکھ کر میرے دل کو اتنی فرحت پہنچی کہ آج بھی جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہی مزا حاصل ہو رہا ہے۔میں نے دعائیں کرتے ہوئے اس لاثانی نور کو سامنے رکھتے ہوئے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

(میری یادیں حصہ اول صفحہ237-238)

جس کے ساتھ خدا بولتا نہیں وہ مسلمان نہیں

حضرت خیردین صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں:
میں نے ایک دفعہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرا قرب پانے کے لئے کون سا طریق اچھا ہے؟ توخاکسار کو اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیاکہ ہمارا قرب شامل کرنے کے دوطریق ہیں۔ یاچندہ دویا تبلیغ کرو۔ یہ دوطریق ہم کو پسند ہیں۔ تومیں نے عرض کی کہ اے اللہ تعالیٰ میں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں۔ میں تبلیغ کس طرح کروں؟ اللہ تعالیٰ نے پھر جواب دیا اور فرمایا کہ قرآن شریف توتم کوہم نے پڑھا دیا ہے۔ جب یہ فقرہ جنابِ الٰہی نے فرمایا تو مجھے اس وقت یہ آیت حل ملی کہ مارمیت اذرمیت ولکن اللّٰہ رمی۔ کیونکہ جب میں اپنے گاؤں میں تھاتواس وقت مجھے جناب حضرت مسیح موعودؑ خواب میں ملے تھے اور فرمایا تھا کہ تم قادیان آجاؤ۔ ہم تمہیں قرآن شریف پڑھادیں گے۔ اب دیکھئے کہ وعدہ تومسیح موعودؑ نے کیامگر جواب اللہ تعالیٰ نے دیاکہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیاہے۔ سوخاکسار دیکھ رہاہے کہ اپنی قابلیت کے مطابق اب خداتعالیٰ کے فضل سے جوقرآن شریف پڑھنا چاہے اسے پڑھا سکتاہوں۔ چنانچہ آج کل مہمان خانہ میں صبح کے وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قرآن شریف ترجمہ کے ساتھ پڑھاتاہوں۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہاتھا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھادیا توساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ تم نے عادوثمود کے قصے قرآن شریف میں نہیں پڑھے؟ ایک رکوع پڑھا اورلوگوں کو سنادیا کہ نبیوں کی نافرمانی کرنے والوں کا کیاحال ہوتاہے۔ اسی طرح ….جناب الٰہی نے یہ فرمایاکہ تم گھی بہت کھایاکرو۔ تومیں نے عرض کیا گھی کھانے سے کیامراد ہے؟ تو جنابِ الٰہی نے تیسرے دن جواب دیاکہ گھی کھانے سے ہماری مراد بہت دعا کرنا ہے۔ یہ فقرے پنجابی زبان میں عنایت فرمائے۔ کہ ’’جس گھر میں دعاہوتی ہے وہ گھر موجوں میں رہتا ہے‘‘۔ پھر یہ بھی آواز سنی کہ جس کے ساتھ خدا بولتا نہیں وہ مسلمان نہیں۔کیامیرے جیسا آدمی یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ یہ میری طاقت سے ہیں بلکہ صاف معلوم ہوجائے گا کہ یہ نورنبوت سے ہے چنانچہ میں حضرت اقدس کاہی فقرہ دہرا دیتا ہوں:

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

(رجسٹر روایات نمبر7 صفحہ155)

امیرالمؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی ایسے لوگ عطا فرماتا رہا ہے اور فرما رہا ہے جو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں…. پس آج روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں۔ جنہوں نے پہلوں سے مل کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بننا ہے اور آسمانی بادشاہت کو پھر سے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ ہر دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’پیر بنو۔ پیر پرست نہ بنو‘‘ اور ’’ولی بنو۔ ولی پرست نہ بنو۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خاتم الاولیاء اور خاتم الخلفاء کی پیروی کرتے ہوئے اپنی عبادتوں کو سنوارتے ہوئے، قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے چلے جائیں۔

(خطبات مسرور جلد4 صفحہ457)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2023