• 19 اپریل, 2024

وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت

اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقانِ حمید میں فرماتا ہے

وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾

اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

(الجمعہ: 4)

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ترجمہ قرآن کے صفحہ 1029 کے حاشیہ پر فرماتے ہیں:
اس آیت کریمہ میں جن آخرین کا ذکر کیا گیا ہے ان میں اسی رسول کی بعثت کا ذکر ہے جس کا گزشتہ آیت میں ذکر ہوا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا لیکن اس آیت کے آخر پر وہ چار صفات الٰہیہ بیان نہیں کی گئیں ہیں جو آیت نمبر 2 کے آخر پر بیان ہیں بلکہ محض عزیز و حکیم کی دو صفات دوہرائی گئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جس رسول کا آغاز میں ذکر ہے وہ دوبارہ خود مبعوث نہیں ہوگا بلکہ اس کا کوئی ظل مبعوث فرمایا جائے گا جو شرعی نبی نہیں ہوگا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں بھی یہی دو صفاتِ الٰہیہ بیان ہوئی ہیں جیسا کہ فرمایا بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۵۹﴾ (النساء 159)

ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵﴾ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

(الجمعہ: 5)

اس آیت کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اپنے ترجمہ قرآن کے صفحہ 1030 کے حاشیہ پر فرماتے ہیں:
’’اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات رسول اللہؐ کی پہلی بعثت سے متعلق نہیں ورنہ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ کہنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس سے مراد آپؐ کی بعثت ثانیہ ہے جو آپؐ کی غلامی میں ظاہر ہونے والے ایک امتی نبی کی صورت میں ہو گئی اور یہ اعزاز ایک فضل ہے جو اللہ جسے چاہے گا عطا کر دے گا۔ وہ بہت فضل اور احسان کرنے والا ہے۔ اس استنباط کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ اس آیت کی تلاوت پر صحابہؓ نے عرض کیا کہ مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون نازل ہوگا بلکہ یہ پوچھا کہ وہ کن کی طرف مبعوث ہوگا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے تو ان لوگوں میں سے ایک مرد یا بعض مرد ہوں گے جو اسے واپس ثریاسے زمین پر لے آئیں گے۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنفسہٖ دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ آپؐ کا ایک غلام مبعوث ہوگا جو رجل فارسی الاصل یعنی اہلِ عجم میں سے ہوگا۔‘‘

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام 12؍فروری 1835ء کو قادیان انڈیا میں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور چراغ بی بی صاحبہ کے گھر پیدا ہوئے۔ آپؑ کا تعلق ایک مشہور و معروف فارسی قبیلہ برلاس سے تھا اس لئے آپؑ فارسی النسل تھے۔ آپؑ کے دادا مرزا گل محمد بہت متقی انسان تھے اور اپنی دیانت داری کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور اپنے علاقے کے رئیس تھے۔

آپؑ کی والدہ چراغ بی بی صاحبہ بہت مہمان نواز اور غریب پرور تھیں۔ آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قادیان کے رئیس تھے۔ قرآن کریم اور رسولِ کریمؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ ہی وہ رجلِ فارس ہیں جس کا قومیں انتظار کر رہی تھیں۔ آپؑ ہی ہیں جو اسلام کو ثریا ستارے سے واپس لانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ ہاں ہاں آپؑ ہی تو وہ وجود باجود ہیں جنہوں نے جہاد بالسیف کا خاتمہ کر کے جہاد بالقلم کا آغاز کرنا تھا۔آپؑ اپنے منظوم کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے

(درِ ثمین)

آپ علیہ السلام کو ماموریت کا پہلا الہام مارچ 1882ء کو ہوا

قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْن

ترجمہ: تو کہہ دے مجھے حکم ہے اور میں مومنوں میں سب سے پہلے ہوں۔

حضورؐ کی غلامی اور مکمل اطاعت میں آپؑ تمام سابقہ انبیاء کے کامل بروز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہامًا فرمایا: جَرِی اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَاءُ ترجمہ: اللہ کا پہلوان نبیوں کے لِبادے میں۔

آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار

(درِ ثمین)

حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ ﷺ ایک عالمگیر نبی تھے۔ آپ پر نازل ہونے والی شریعت بھی عالمگیر ہے۔ آپؐ سب مذاہب اور قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ اب آپؐ کی غلامی اور مکمل و کامل اطاعت میں آپ ﷺ کا مسیح بھی سب مذاہب اور قوموں کو ببانگِ دُہل یہ آواز دے رہا ہے۔

قوم کے لوگو! ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب
وادیٔ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار

(درِ ثمین)

آپ علیہ السلام ظلمات میں گری ہوئی مخلوق کو، اندھیروں اور تاریکیوں میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کو روشنیوں کی طرف لے جانے کے لئے آئے ہیں۔ راہِ حق سے دور افتاں و خیزاں قوموں کو روحانی پانی سے سیراب کرنے آئے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نورِ خدا جن سے ہوا دن آشکار

(درِ ثمین)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’وہ کام جن کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتے میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض قتال سے ان کی کیفیت بیان کرو ں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید، جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے، جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ180)

آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ کیا ایشیا، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو بلکہ نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306-307)

’’مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں آنحضرت ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوئم جدید ایڈیشن صفحہ9)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں آئے روحانی خزائن بانٹ کر اپنے مولٰی کے حضور حاضر ہو گئے۔ وہ تمام سعید روحیں جو آپ سے اور آپ کی جماعت سے وابستہ ہو گئیں ان میں عظیم روحانی انقلاب برپا ہو گیا۔ برائیوں، بدیوں اور بدکرداریوں کی جگہ حسنِ عمل اور اعمالِ صالحہ نے لے لی۔ کھوٹے سکوں کو کھرے سکے بنا دیا۔ دنیا کے پجاریوں کو خدائے واحد کے پجاری بنا دیا۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد ان کے عملی حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور میں صدہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کس طرح وہ جذباتِ نفسانیہ سے پاک ہوں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ86 حاشیہ)

(بشریٰ نذیر آفتاب۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2023