تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت حکیم محمد عبد الجلیل بھیروی رضی اللہ عنہ
حضرت حکیم محمد عبدالجلیل رضی اللہ عنہ ولد محترم حکیم شیخ احمد صاحب اصل میں بھیرہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد ازاں روزگار کے سلسلے میں پہلے راولپنڈی میں مقیم رہے اور پھر شیخوپورہ میں سکونت پذیر ہوگئے۔ آپ 1870ء میں پیدا ہوئے اور 1898ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر جہلم 1903ء کے موقع پر آپ راولپنڈی سے جہلم آئے اور خدمت اقدسؑ میں حاضری دی، آپ بیان کرتے ہیں:
’’تاریخ و سن یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعود جہلم کرم دین والے مقدمہ میں تشریف لے گئے تھے، یہ عاجز راولپنڈی سے جہلم گیا تھا۔ شام کی روٹی حضرت صاحب کی بمعہ تمام جماعت احمدیہ (شیخ) میاں احمد دین صاحب قصاب کے گھر تھی، روٹی کھاتے وقت میاں احمد دین صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے حضرت صاحب سے کسی تکلیف کے لیے تعویذ لینے کے لیے عرض کی، حضور نے فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی تعویذ نہیں لکھا اور نہ ہی حضرت رسول کریم ﷺ نے کبھی تعویذ لکھا تھا، استغفار اور درود شریف کثرت سے پڑھا کریں اور میں دعا کروں گا۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 243)
آپ ایک مخلص اور خدمت دین کرنے والے وجود تھے، ابتدائی سالوں میں بھیرہ میں آپ کی خدمات کا ذکر ملتا ہے، حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ کے ایک دورے کی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’حکیم عبدالجلیل صاحب کا شکر گذار ہوں جو اکثر اوقات میری خاطر داری میں میرے ساتھ رہے۔‘‘
(بدر 2؍اپریل 1908ء صفحہ 9)
اپنے کاروبار کے سلسلے میں جب راولپنڈی چلے گئے تو وہاں احمدیت کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور احباب جماعت کو دعا کے لیے کہتے رہے، اخبار الفضل میں ایک جگہ لکھا ہے ’’راولپنڈی سے حکیم محمد عبدالجلیل صاحب اپنے کاروبار میں برکت کے واسطے دعا کے خواستگار ہیں، اللہ تعالیٰ مددگار ہو۔‘‘ (الفضل یکم دسمبر 1915ء صفحہ 2) ایک اور جگہ لکھا ہے ’’راولپنڈی سے محمد عبدالجلیل صاحب …. لکھتے ہیں کہ ہم بعض ابتلاؤں میں ہیں، احباب دعا کریں۔‘‘
(الفضل 9؍ستمبر 1915ء صفحہ 2)
جب آپ نے ان مخالفانہ حالات کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے کیا تو حضور نے فرمایا کہ آپ شیخوپورہ چلے جائیں چنانچہ آپ شیخوپورہ آگئے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت فضل کیا اور بے شمار برکتوں سے نوازا۔ آپ ایک شریف اور نیک سیرت بزرگ تھے، دینی کاموں سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے مشہور بزرگ محترم شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل 1940ء تا 1945ء فیصل آباد (اُن دنوں لائل پور نام تھا) میں مربی مقرر ہوئے ان دنوں لائل پور کے تحت شیخوپورہ، جھنگ، سرگودھا اور خود لائل پور اضلاع شامل تھے۔ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے تابعین اصحاب احمد کے تحت محترم شیخ عبدالقادر صاحب کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان دنوں جماعت شیخوپورہ کے صدر حضرت حکیم عبدالجلیل صاحب بھیروی تھے۔ جس قدر اخلاص، محبت اور لطف کے ساتھ حضرت حکیم صاحب آپ کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے، آپ اسے بھول نہیں سکتے۔ جب بھی آپ شیخوپورہ جایا کرتے آپ کا قیام ہمیشہ ہی حضرت حکیم صاحب کے ہاں ہوا کرتا تھا۔ آپ کو یہ بات نہیں بھولتی کہ ایک مرتبہ آپ نے عصر کے بعد بازار سے چائے پی لی، جب حضرت حکیم صاحب کو اس کا علم ہوا تو اس قدر ناراض ہوئے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ فرمایا آپ نے تو ہماری ناک کاٹ دی، جن لوگوں نے آپ کو بازار سے چائے پیتے دیکھا ہوگا انہوں نے جماعت کے متعلق کیا خیال ہوگا؟ آپ نے مجھے کیوں نہ فرما دیا وغیرہ وغیرہ، بہت دنوں تک ناراضگی کا اظہار فرماتے رہے۔ آپ صحابی تھے، عمر بھی کافی تھی اور جسم بھی بھاری تھا مگر اپنی دکان کے سامنے کی مسجد میں شیخ صاحب مکرم کو لے جاتے اور بسا اوقات ان کے غسل کے لیے خود پانی نکال کر غسل خانہ میں ڈالا کرتے تھے اور ان کی خاطر صابن، تیل، تولیہ ہمیشہ دکان پر رکھتے۔ اللہ اللہ وہ کیسے برکتوں والے ایام تھے۔
حضرت ممدوح فرمایا کرتے تھے کہ بھیرہ سے ہم راولپنڈی گئے وہاں احمدیت کی وجہ سے سخت مخالفت ہوئی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ آپ شیخوپورہ چلے جائیں۔ شیخوپورہ آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آہستہ آہستہ ہماری حالت اچھی ہوتی گئی حتیٰ کہ آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں رہائش کے لیے بھی وسیع مکان عطا فرما دیا ہے، فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ مکرم شیخ صاحب کو چونکہ کئی کئی دن لگا تار اُن کے ہاں قیام کرنے کا موقعہ ملا اس لیے آپ ان کے خانگی حالات سے خوب واقف ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت حکیم صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں بلا ناغہ دو بجے تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے اور نماز میں دعائیں کرتے کرتے بعض اوقات خود بخود ان کی آوازیں اونچی ہو جایا کرتی تھی، ان دعاؤں میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح، حضرت اماں جان، خاندان حضرت مسیح موعود، مربیان سلسلہ اور پھر اپنے ہر بچہ کا نام لے کر دعائیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور خوب سنا، جو دعائیں وہ کیا کرتے تھے اُن کی زندگی میں قبول ہوگئیں۔ حکیم صاحب محترم مرکز سلسلہ کے احکام کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ جب تک ان کی تعمیل نہ ہو جاتی، چین سے کبھی نہ بیٹھتے۔ ان کے زمانے میں سیرت النبی ﷺ، سیرت حضرت مسیح موعود اور یوم مصلح موعود کے جلسے عمومًا بسوں کے اڈوں پر ہوتے تھے اور اس سلسلہ میں باوجود بڑھاپے کے وہ اکیلے حکام متعلقہ کو جاکر ملتے اور جلسوں کی منظوری اور قیام امن سے متعلق جملہ امور خود طے کرواتے تھے۔ آپ کی اولاد بھی ماشاء اللہ سلسلہ کی خوب فدائی ہے۔‘‘
(تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ 63،64 مرتبہ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
تاریخ احمدیت بھیرہ میں محترم فضل الرحمٰن بسمل صاحب سابق امیر جماعت بھیرہ آپ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’آپ مکرم حکیم شیخ احمد صاحب کے فرزند تھے جو کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے دوست تھے۔ حکیم عبدالجلیل صاحب کو حضرت مسیح موعود کا رفیق بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اگرچہ آپ مخالفین کے محلّہ میں رہتے تھے مگر بڑے مستقل مزاج اور مخلص تھے۔ آپ کی مالی حالت کمزور ہوگئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نقل مکانی کا مشورہ دیا، آپ شیخوپورہ چلے گئے وہاں آپ کا کاروبار خوب چمکا۔ آپ کے فرزندان مظفر احمد صاحب، عبدالرزاق صاحب، مرغوب اللہ صاحب وغیرھم اور ان کی اولاد میں سے سب مخلص احمدی ہیں۔ شیخوپورہ میں ان کی وجہ سے جماعت کو ترقی حاصل ہوئی ہے۔‘‘
(بھیرہ کی تاریخ احمدیت صفحہ 103)
آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل ہیں۔ آپ نے جنوری 1947ء میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 5505) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ اخبار الفضل نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’آج بعد نماز جمعہ حکیم عبدالجلیل صاحب آف شیخوپورہ اور میاں جان محمد صاحب ہیلانی کے جنازے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مہمان خانہ میں پڑھائے۔ مرحومین موصی اور صحابی تھے، بہشتی مقبرہ میں انہیں دفن کیا گیا۔ احباب بلندی درجات کے لیے دعا فرمائیں۔‘‘
(الفضل 18؍جنوری 1945ء صفحہ 1)
حضرت حکیم صاحب کی اہلیہ محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ بھی ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں، 12؍دسمبر 1958ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ نمبر 5 میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اولاد میں:
1. محترم مرغوب اللہ صاحب
(وفات: 24؍اپریل 1985ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
2. محترم ملک مظفر الحق صاحب
(وفات: 5؍اگست 1968ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
3. محترم ملک مظفر احمد عباسی صاحب
(وفات: 6؍جولائی 1971ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
4. محترم حکیم ظفر الدین صاحب
(وفات: 12؍نومبر 1985ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
5. محترم حکیم عبدالرزاق صاحب
(وفات: 9؍اپریل 1988ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
6. محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری محمد اسلم صاحب مزنگ لاہور
(وفات 26؍فروری 1993ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
7. محترمہ زینب بیگم صاحبہ
آپ کی اولاد بفضلہ تعالیٰ بیرونی ممالک میں آباد ہے۔ آپ کی نسل میں سے مکرم حامد ملک صاحب بطور مربی سلسلہ امریکہ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں، آپ کی تصویر انہوں نے ہی مہیا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمتوں کی چادر میں لپیٹ لے اور آپ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے، آمین۔
(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)