• 12 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر41)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر41

ہم گزرے ہوئے زمانے یعنی ماضی کے اعتبار سے فعل کی مختلف اقسام اور حالتوں پہ بات کررہے ہیں اور اسی مناسبت سے سوالیہ اور منفی جملے بھی بنائے جارہے ہیں۔ تا کہ مختلف مثالوں سے وضاحت کی جاسکے۔

ماضی احتمالی(یا شکیہ): اس میں احتمال یا شک پایا جاتا ہے۔ اس حالت کے جملوں کے آخر میں ہوگا کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے آیا ہوگا، لایا ہوگا۔ مگر کبھی گا ہٹادیا جاتا ہے۔ جیسے ہوسکتا ہے وہ آیا ہو اور تم نہ ملے ہو۔ پہلی صورت میں یعنی جب گا کا اضافہ کردیا جاتا ہے شک یا احتمال بہت مضبوط ہوتا ہے۔ جیسے وہ ضرور آیا ہوگا۔ جبکہ دوسری صورت میں شک یا احتمال کمزور ہوتا ہے جیسے ممکن ہے وہ آیا ہو۔

جملے

وہاں بارش ہوئی ہوگی۔ رات کو چاند نکلا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کسی نے دستک دی ہو تم نے سنی نہ ہو۔ اس زمانے میں بہت مخالفت ہوئی ہوگی۔ لوگ اپنے رہنما کو دیکھ کر جھوم اٹھتے ہوں گے۔

دوسری صورت

شاید بارش ہوئی ہو۔ ممکن ہے اس نے درخواست دی ہو مگر اس کی دادرسی نہ ہوئی ہو۔ شاید وہ آیا ہو اور ہم سے نہ ملا ہو۔

منفی جملے

اس ملک میں قحط ہے شاید وہاں بارشیں نہیں ہوئی ہوں گی۔ وہ سب سے ناراض تھا مجھے نہیں لگتا کہ وہ تقریب میں آیا ہوگا۔ آپ کو وہاں مزہ نہیں آیا ہوگا۔ وہ جلد لوٹ آیا ہے شاید دفتر بند ہوگیا ہوگا۔

سوالیہ جملے

کیا پتا وہاں کیا ہوا ہوگا؟ کون جانے اس نے کیا سوچا ہوگا؟ کبھی تم نے سوچا ہے کہ تمھاری نااہلی کے باعث کیا کیا نقصانات ہوئے ہوں گے؟

ماضی شرطیہ (یا تمنائی)

جس میں شرط یا تمنا پائی جائے۔ اس میں فعل کے مادے کے بعد تا بڑھایا دیا جاتا ہے۔ یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح کردیتے ہیں کہ فعل یعنی Verb کے آخر سے نا ہٹا دیں تو باقی رہ جانے والا حصہ فعل کا مادہ کہلاتا ہے۔ جیسے آنا سے آ اور جانا سے جا۔ پس ماضی شرطیہ میں آنا سے آتا اور جانا سے جاتا اور کرنا سے کرتا بن جاتا ہے۔

جملے

بارش ہوتی تو مزہ آجاتا۔ تم تقریب میں آتے تو لطف دوبالا (doubled) ہوجاتا۔ اس کو بھی کوئی مدعو کرتا تو وہ چلا جاتا۔ یہ کھانا آپ بناتے تو اچھا ہوتا۔

احتمال: ماضی شرطیہ سے بھی احتمال کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ بن بلائے آجاتا۔ میرا خیال ہے کہ وہ آجاتا۔

وقوع فعل

کبھی ماضی شرطیہ صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک کام ماضی یعنی گزرے زمانے میں ہوا ہوتا۔ جیسے تمہیں کیا وہ اپنا کام کرتا یا نہ کرتا۔ یہ بہت مشکل تھا کہ میں پہلے تمہارے پاس آتا اور پھر وہاں جاتا۔

یہاں ماضی کا زمانہ ختم ہوتا ہے اور اب ہم زمانہ حال پہ بات کریں گے۔

فعل حال

فعل یعنی کام یا Verb اور حال یعنی موجودہ زمانہ۔ یعنی جب بات کرنے کسی کام کے بارے میں بات کرے تو وہ کام اسی وقت ہورہا ہو۔ اسے انگریزی میں Present اور Progressive کہا جاتا ہے۔ اردو زبان میں اس کی چھ اقسام ہیں۔

1۔ مضارع
یہ حالت ہوتی تو زمانہ حال ہی کی ہے مگر صاف صاف زمانہ حال کو ظاہر نہیں کرتی۔ اس میں کئی قسم کے معنی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ بعض اردو زبان کے ماہرین اسے مضارع کہتے ہیں اور ماضی، حال مستقبل تینوں زمانوں سے باہر سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک فعل یعنی Verb کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تینوں میں سے کسی ایک زمانے میں ہو۔ سمجھنے اور پکارنے کی خاطر ہم اسے مضارع ہی کہیں گے مگر اس کو حال ہی کے تحت رکھا جائے گا۔

بنانے کا طریقہ: فعل کے مادے کے آخر میں ’’نے‘‘ بڑھانے سے مضارع بنتا ہے۔ ’’نے‘‘ کو اردو میں یائے مجہول کہا جاتا ہے۔

مثالیں: کھا سے کھائے۔ لا سے لائے،۔بنا سے بنائے۔ دکھا سے دکھائے۔ اٹھ سے اٹھائے۔ لکھ سے لکھائے وغیرہ۔ جمع کی صورت میں کھا سے کھائیں۔ جا سے جائیں۔ مخاطب میں یعنی جب second person ہو توتم لاؤ اور جمع کے لئے آپ لائیں۔ خود اپنے آپ کے لئے یعنی متکلم کے لئےمیں لاؤں اور ہم لائیں۔

استعمال: جب زمانہ حال میں زمانہ شرطیہ بیان کرنا ہو تو مضارع سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا کام، خواہش یا خیال جس کے بارے میں یقین نہ ہو کہ ہوگا یا نہیں مگر امید، اندیشہ، خوف،گمان وغیرہ ہو۔ جیسے میں اس قابل تو نہیں وہ اگر قبول کرلے تو میرا نصیب۔ پھر اگر بارشیں ہوں تو خشک سالی جاتی رہے۔ شرط یا تمنا کے اس اظہار کے دو طریقے ہیں یا تو اسے حال مطلق میں بیان کرتے ہیں جیسے بارش ہوتی ہے تو فصلیں سیراب ہوتی ہیں۔ تو یہ فقرہ Simple Present/ Present Indefinite Tense میں ہے لیکن اس کی دوسری حالت ایک طرح سے future tense میں ہوتی ہے تاہم اسے اردو میں حال ہی سمجھا جاتا ہے اور اسے مضارع کہا جاتا ہے جیسے۔ بارش برسے تو کھیت پھولے۔ وہ دعا سنے تو نصیب کھلے۔ تم آؤ تو ہم جئیں۔ وغیرہ۔پہلی حالت ایک حقیقت ہے جسے شرطیہ صورت دی گئی ہے جبکہ دوسری صورت اصلی شرطیہ حالت ہے جس میں امیداور توقع یا تمنا پائی جاتی ہے۔

حیرت و استعجاب

مضارع کبھی حیرت اور عجیب شے دیکھ کر اس پہ احساسات کے اظہار کے لئے بھی آتا ہے اور بعض اوقات یہ افسوس ا کا اظہار بھی کرتا ہے۔ جیسے افسوس، وہ اتنی دور آئے اور بے مراد چلا جائے۔آپ اور ہمارے گھر، یقین نہیں آتا۔

اجازت اور طلب مشورہ

مضارع بعض اوقات اجازت اور مشورہ طلب کرنے کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے اجازت ہو تو اندر آجاؤں۔ آپ فرمائیں تو وہ جائے۔ یعنی اس قسم کی باتیں بھی زمانہ حال میں سمجھی جاتیں ہیں۔ بعض اوقات انسان اپنے دل میں مشورہ کرتا ہے اور متکلم کا صیغہ استعمال کرتا ہے یعنی First Person جیسے کیا کروں کیا نہ کروں۔ کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتی۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اصل بات یہ ہے کہ جب تک انسان کسی بات کو خالی الذہن ہوکر نہیں سوچتااور تمام پہلوؤں پر توجہ نہیں کرتا اور غور سے نہیں سنتا اس وقت تک پرانے خیالات نہیں چھوڑ سکتا اس لئےجب آدمی کسی نئی بات کو سنے تو اسے یہ نہیں چاہیے کہ سنتے ہی اس کی مخالفت کے لئے طیار ہوجاوےبلکہ اس کا فرض ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں پر پورا فکر کرے اور انصاف اور دیانت اور سب سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے خوف کو مدّنظر رکھ کر تنہائی میں اس پر سوچے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ231 ایڈیشن 2016ء)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

خالی الذہن: ہر تعصب، نفرت، حسد سے بچتے ہوئے کسی بات پر توجہ دینا۔ بات سننے سے پہلے ہی سنی سنائی بات پہ یا اپنے پرانے علم پہ اڑے رہ کر انسان کوئی نئی علمی بات نہیں سیکھ سکتا پس جہاں سیکھنا اہم ہے وہاں پرانے سیکھے ہوئے کو غلط یا ناقص پا کر اسے ان سیکھا کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

تمام پہلوؤں پرتوجہ کرنا: کسی بات، دعویٰ، دلیل،نظریے کی تمام تر تفصیلات جاننااور ان پر غور کرنا۔

فکر کے اصول: تمام تفصیلات پر غور کرنا، انصاف سے کام لینا یعنی کسی تعصب، مفاد، حسد، نفرت کو راہ نہ دینا۔ دیانت یعنی Integrity سے کام لینا سیاہ کو سیاہ کہنا اور سفید کو سفید کہنا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔خدا تعالیٰ کا خوف اور تنہائی میں سوچنا۔ اس اصول سے ایک متقی عالم دنیاوی علما سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ وہ صرف علمی اصولوں کو ہی نہیں مانتا بلکہ وہ بیان کرنے والے کی صحت نیت پر بد ظنی نہیں کرتا۔

سنتے ہی مخالفت کے لئے تیار ہوجانا: یہ بھی علمی ترقی میں ایک بہت بڑی روک ہے کہ انسان غیر ضروری خود اعتمادی کا شکار ہو اور نتائج نکالنے میں جلدی کرے۔ اور نہ صرف نتائج نکالنے میں جلدی کرے بلکہ فوراً ہی اس نظریے کی مخالفت شروع کردے۔حضور ؑ کے بیان فرمودہ یہ اصول حصول علم کی دنیا میں عالمگیر سچائیاں ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

غور سے سننا: جب انسان اپنے پرانے خیالات پر بضد ہو تو وہ نئی بات سنتا تو ہے مگر نہیں سنتا۔ علم کی دنیا میں سچائی تک پہنچنے کے لئے یہ انتہائی اہم اصول ہے کہ کسی دعویٰ، دلیل یا نظریے کو غور سے سنا یا پڑھا جائے اور اس کی تمام تر تفصیلات جاننے سے قبل کسی بھی نتیجے تک پہنچنے سے گریز کیا جائے۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ