• 1 اگست, 2025

25اپریل 2021ء، مسجد ناصر سُرینام کے پچاس سال

سُرینام دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لخت جگر اور موعود خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دور میں احمدیت کا پیغام پہنچا۔ جنوبی امریکہ کے اس چھوٹے سے ملک کے ایک باشندے کو طویل سفر کے بعد ربوہ پہنچنے اورتقریباً چار سال خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سایہ شفقت میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ محترم عبد العزیز جمن بخش صاحب کی ذاتی ڈائری کے مطابق آپ اتوار 20 دسمبر 1953ء کی شام ربوہ پہنچے ۔اور 22دسمبر 1953ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔پھر بیعت کی توفیق پائی اور بذریعہ خط نمبر BF-381/25-1-1955 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بیعت کی قبولیت کی خوشخبری ملی۔ اس خط کی کاپی جماعتی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

جماعت کی پہلی مسجد

نومبر 1956ء میں مرکزی مبلغ مکرم شیخ رشید احمد اسحاق صاحب کی آمد کے بعد سُرینام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی اور آغاز میں جن لوگوں کو دعوت حق قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں ایک محترم حسینی بدولہ صاحب بھی تھے۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اوردین سے فطری لگاؤ کے باعث قبول احمدیت کے چند سال بعدانہوں نے اپنی ملکیتی زمین پر مسجد بنانے کی ٹھانی۔اس مقصد کے لئے تین ہزار مربع میڑ زمین جماعت کے لئے وقف کی اور مسجد کی تعمیر شروع کی۔مسجد کی تعمیر کے آغاز کے چند دن بعد مؤرخہ 18جون 1961ء بروز اتوارباقاعدہ افتتاحی تقریب منعقد ہوئی ۔ محترم مولانا بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سلسلہ گیانا اس تقریب میں شمولیت کے لئے خاص طور پر سُرینام تشریف لا ئے۔سنگ بنیاد رکھنے کے بعد مکرم حسینی بدولہ صاحب حسب توفیق خرچ اکٹھا کرکے مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے۔آپ اس مسجد کے معمار بھی تھے اورمزدور بھی ۔ ان کی اہلیہ محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ نے لمبا عرصہ کپڑوں کی سلائی کا کام کرکے مالی معاونت فراہم کی ۔روزمرہ امور کی انجام دہی کے بعد سہ پہر کے وقت مسجد کی تعمیر کا کام کیا جاتا۔ اس کار خیر میں ان کے بیٹوں نے بھی شانہ بشانہ حصہ لیا۔ جولائی 1969ء میں مشن ہاؤس کی تعمیر بھی شروع ہوئی اور یہ کام بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔مسجد کی تعمیر پیسے اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے تقریباً دس سال میں مکمل ہوئی۔ 1966 ء کے بعد سے ملک میں کوئی مبلغ نہیں تھا اس لئےمحترم مولانا غلام احمد نسیم صاحب اور مولانا فضل الہٰی بشیر صاحب نے ہمسایہ ملک گیانا سے سُرینام کا دورہ کر کے کام کی نگرانی کی۔

پہلی مسجد کا افتتاح

25اپریل1971ء بروز اتوار جماعت احمدیہ سُرینام کی تاریخ کا وہ یادگا ردن ہے جب مسجدناصر کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور وکیل التبشیر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا تحریری پیغام موصول ہوانیز افتتاح کے دن وکالت تبشیر کی طرف سے مبارک باد کا ٹیلی گرام بھی موصول ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا پیغام

حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں فرمایا: ’’جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہر ایک کے لئے برکات الٰہیہ کا سر چشمہ بنادے، آمین۔ جماعت کو یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ تمام برکتیں خدا کی فرما نبرداری اور خدا کے چنیدہ بندوں کی فرمانبرداری میں ہیں خواہ خدا کے نبی ہوں یا نبی کے خلفاء۔ خلافت اللہ تعالیٰ کی برکتیں لاتی ہے اس لئےاس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔‘‘

مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح
مکرم وکیل التبشیر صاحب کا پیغام

محترم صاحبزادہ مرزامبارک احمدصاحب نے اپنے پیغام میں تحریر کیا:
’’پیارے بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مجھے یہ معلوم کرکے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ سرینام میں بھی ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے جس کا آج افتتاح ہورہا ہے۔ میں تہہ دل سے اس شاندار کار نامہ پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ احمدی مسلمانوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوششوں میں برکت ڈالی ہے کہ ہم اس قابل ہوئے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی خدمت کر سکیں اور ایسے علا قو ں میں اسلام پہنچائیں جہاں پہلے نہ تھا۔ میں اس مبارک موقعہ پر آپ کویہ بات بھی یاد دلادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کی خدمت کا کام صرف مسجد بنا دینے پر ختم نہیں ہو جاتا،مسجد تو صرف ایک علامت ہے، اصل اور حقیقی چیز عبادت الٰہی ہے۔ جب ساری جماعت لگاتار باقاعدگی اور خلوصِ دل سے خدا کی عبادت کرے تب اصل مقصد پورا ہوگا۔ چاہیے کہ میرے بھائی اس فرض کو ہمیشہ پورا کریں۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ حقیقی عبادت الٰہی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ قرآ ن مجید کا پورا علم ہو۔ قرآن مجید ہی وہ پاک کتاب ہے جو ہمیں صحیح ہدایت دے سکتی ہے اور جس کے ذریعہ ہمیں روحا نی، دینی اور دنیاوی ترقیات مل سکتی ہیں، سو آؤ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہم نے قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر انگریزی کے علاوہ بہت سی زبانوں میں شائع کر دیا ہے۔ مثلاً جرمن ،ڈچ، ڈینش، سواحیلی، لوگنڈا، پس جو زبان آپ کو پسند ہو اس زبان کا ترجمہ پڑھو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد اسلام کے اعلیٰ مقصد کے حصول کا پیش خیمہ بنے اور بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوں۔

آپ کا مخلص مرزا مبارک احمد۔‘‘

افتتاحی تقریب

افتتاحی تقریب کے لئے باقاعدہ دعوتی کارڈ چھپوائے گئے۔ریڈیو پر تین بار اعلان کروایا گیا۔ اس موقعہ پرمکرم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے 36صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ بھی تیار کیاجس میں مسیح کی آمد کی پیشگوئیاں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور قرآن مجید سے اس کی تصدیق، جماعت احمدیہ اور لاہوری جماعت میں فرق،خلافت احمدیہ کی برکات، جماعت احمدیہ کے کام اور ان کے شیریں ثمرات، سلسلہ کی مختصر تاریخ کے ساتھ ساتھ رجل فارس کے متعلق رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کا بھی ذکر کیا گیا۔

پروگرام سے قبل بعض مخالفین نے گھر گھر جاکر لوگوں کو اس تقریب میں شمولیت سے روکامگر ہندو، عیسائی، مسلمان، لاہوری احمدی سب اس تقریب میں شامل ہوئے۔ مسجد کورنگا رنگ جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ دعا کے بعد مولانا فضل الہٰی بشیر صاحب نے مسجد کادروازہ کھولا اور عصر کی اذان دی گئی نماز کے بعد تلاوت قرآن مجید سے تقریب کا آغاز ہوا۔

سب سے پہلے محترم حسینی بدولہ صاحب نے کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا کہ: ’’میں بقائمی ہوش و حواس اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ میں نے اور میری بیوی نے صرف اور صرف اس نیت سے یہ زمین دی اور اس پر یہ مسجد تعمیر کی تا اس ملک سُرینام جنوبی امریکہ میں جماعت احمدیہ کی شاخ مضبوطی سے قائم ہو اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ ہو اور خدائے واحد لاشریک کی عبادت کی جاوئے۔جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں اور آپ کے بعد خلافت احمدیہ بر حق ہے۔ میں اور میری بیوی اسی عقیدہ پر قائم ہیں،اور خلا فت احمدیہ سے وابستہ ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں کہ اس نے ہماری نیت اور ارادہ کے مطابق اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ میں ان سب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد کی۔ آپ سب بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی میں مَیں اس مسجد اور اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حقوق سے دستبراد ہوتا ہوں۔ نہ میں اور نہ کوئی میرا وارث اس زمین اور مسجد کا حقدار ہوگا۔ آج سے اس کا مالک و مختار ہمارے آقا و مطاع حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ہوں گے۔ حضور جس طرح چاہیں اس قطعہ زمین اور مسجد کو سرینام گورنمنٹ کے قانون کے مطابق مجھ سے لکھوا لیں۔ مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔ آپ سب گواہ رہیں میں آپ سب کے سامنے چابی حضرت خلیفۃ المسیح کے نمائندے مولانا فضل الہٰی بشیر صا حب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سپرد کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے۔ مجھے میری بیوی اور ہماری اولاد کو ہمیشہ احمدیت پر قائم رکھے، اور دین کی خدمت کی توفیق دیتا رہے۔ العبد۔حسینی بدولہ‘‘۔ محترم مولانا فضل الہٰی بشیر صاحب اور ایک مقامی خادم عبد المطلب محمود صاحب نے اس تحریر پر بطور گواہ دستخط کئے۔

اس اعلان کے بعد محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے مسجد کی چابی وصول کی، اس سارے عمل سے حا ضرین بے حد متائثر ہوئے۔ پھر حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ اورمحترم وکیل التبشیر صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ آخر میں مولانا صاحب نے خطاب کیا۔ چند غیر از جماعت لوگوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نماز مغرب کے بعد تمام شاملین کو کھانا پیش کیا گیا۔ سُرینام میں یہ پہلی مسجد تھی جس کے نام کے ساتھ ’’احمدیہ‘‘ لفظ جوڑا گیا۔ اس موقعہ پر اخبار کا نمائندہ بھی موجود تھا اور مقامی اخبار میں اس تقریب کی خبر بھی شائع ہوئی۔

ایک ایسی جگہ جہاں غیر از جماعت مسلمان، لاہوری جماعت سے تعلق رکھنے والے دوست ، اور خواجہ اسماعیل صاحب کے گروہ ’’السابقون‘‘ سے تعلق رکھنے والے لوگ مسجد کی تعمیر میں مسلسل روڑے اٹکا رہے تھے اور اس جائیداد کی جماعت کے نام منتقلی کی مخالفت پر کمر بستہ تھے ایک تنہا شخص کا استقامت دکھانا، اپنے مقصد پرڈٹے رہنا اور اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانا محترم حسینی بدولہ صاحب کے اخلاص اور عزم و ہمت کا یادگار نمونہ ہے۔ محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب جو تعمیری کام کی نگرانی اور افتتاحی تقریب کی تیاری کے لئے فروری 1971ء میں ہمسائیہ ملک گیانا سے سرینام پہنچے انہیں بھی مخالفین کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 6اپریل کو ایک تبلیغی نشست میں چند افراد نے بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ افتتاحی تقریب سے صرف دو دن پہلے مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے اپنے ہاتھ سے مسجد کی پیشانی پر ’’احمدیہ مسجد ناصر‘‘ کے الفاظ لکھے اور افتتاح کی تاریخ کندہ کی۔

حضور انور کی خدمت میں رپورٹ

محترم مولانا فضل الہٰی بشیر صاحب نے مورخہ یکم مئی 1971ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ، محترم حسینی بدولہ صاحب کی قربانی اور اخلاص اور مسجد کی افتتاحی تقریب کی تفصیلی رپورٹ بجھوائی اور خاص طور پر اس بات کاذکر کیا کہ حضور سرینام میں اہل پیغام کی18 مساجد ہیں مگر اس ملک میں یہ پہلی مسجد ہے جس کانام ’’احمدیہ مسجد ناصر‘‘ رکھا گیا ہے۔ اور لاہوری جماعت کے افراد کو چہ مگو ئیاں کرتے سنا گیا کہ یہ جماعت جو عقیدہ رکھتی ہے برملا اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔اس رپورٹ کی کاربن کاپی جماعتی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

بعد ازاں محراب کے دائیں جانب 85مربع میٹر کے دوہال اور کچن تیار ہوا۔ان کی تعمیر کا سہرا بھی محترم حسینی بدولہ صاحب کے سر ہے۔

ایک غیر مسلم کا مسجد کے لئے تحفہ

جولائی 1987ءمیں مسجد کی بنیادوں کی حفاظت کے لئے اس کےساتھ ساتھ فرش بنوانے کا فیصلہ کیا گیا، اس مقصد کے لئےخدام وانصار نے ایک ہفتہ وقار عمل کیا،اور تین اطراف ایک، ایک میٹر زمین تین فٹ گہری کھود کر سیمنٹ بلاکس سے فرش بنایا، تاکہ بنیادیں پانی کی زد سے محفوظ ہو جائیں ۔ اس کام کے لئے رتن نامی ایک ہندو نے جس کی بلڈنگ میٹرئل کی دکان تھی،دو ٹرک ریت،20 بوری سیمنٹ اور 2100 بلاک تحفہ دئے۔سال 1991ء میں جماعتی پروگرامز کے لئے شیڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوا، مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا، اور 1997ء میں محترم مولانا حمید احمد ظفر صاحب نے 180مربع میڑ کا یہ شیڈ مکمل کروایا ، نیزمشن ہاؤس کی چھت کی ڈھلوان میں اضافہ کرکے ٹین مکمل طور پر تبدیل کروایا۔ دفتر اور گیسٹ روم تعمیر کروائے۔ اس کے علاوہ مسجد کے پورے پلاٹ کی چار دیواری بنوائی۔ ان کاموں کے لئے افراد جماعت نے دل کھول کر مالی قربانی کی ۔

خلیفہ وقت کا دورہ

مورخہ 29مئی تا 4جون 1991ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سرینام کا دورہ کیا ،اور 31مئی کو مسجد ناصر میں ’’شکر‘‘ کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اور ’’خطبات امام‘‘ براہ راست اور باقاعدہ سننے کی زبر دست تحریک فرمائی ۔حضور نے فرمایا: ’’آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں۔ کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دئیے جا رہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں، اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے خواہ فجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے احمدی ہوں، ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں، روس کے ہوں یا امریکہ کے، سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی۔ وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے، خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کافرق ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے ، مگر دل کا ایک ہی رنگ ہوگا۔ان کے حلیے اپنے ناک نقشے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے، لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہوگا۔ وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے ۔۔۔ اس رنگ میں آپ شکریہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گےکہ اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑ دیں، اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے، ان کو غیروں کے حملوں سے بچانے والے ہوں گے، ان کےاخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے، اور خدا تعالیٰ آپ کی جماعت کو بہت ترقی دے۔ میں نے یہاں آکر دیکھا ہےکہ سُرینام کی جماعت میں اللہ کے فضل سے بہت اخلاص کا مادہ ہے، یہاں اخلاص کی کان ہے لیکن اگر کانوں کو کھودا نہ جائے اور ان سے قیمتی جواہر نکالے نہ جائیں تو کیا فائدہ؟ وہ مٹی میں ملی رہتی ہیں، آپ لوگوں کے اندر خدا نے اخلاص کا وہ مادہ عطا کیا ہے کہ اگر مبلغ یا مربی اور آپ کے عہدیدار اس اخلاص کی کان سے فائدہ اٹھائیں اور ان جواہر کو باہر نکالیں تو آپ کے فیض سے سارا علاقہ اللہ کے فضل کے ساتھ اسلام اور احمدیت کے نور سے بھر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ۔23ستمبر 1991ء۔خطبات طاہر جلد 10،صفحہ 471،472)

سن 2006ء میں مسجد ناصر کی مکمل تزئین نو کی گئی۔ چھت کی تمام لکڑی نکال کر سٹیل کا فریم تیار کرکے لگایا گیا۔ PVC شیٹ کی سیلنگ لگوائی گئی۔تمام ونڈوز کا سائز یکساں کیا گیا ،اور المونیئم کے دروازے اور ونڈو لگوائی گئیں۔ فرش پر نیا میٹ بچھایا گیا۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر مسجد میں ائیر کنڈیشن لگوائے گئے۔ یوں مسجد کی ہیئت یکسر بدل گئی۔افراد جماعت کے اجتماعی وقار عمل سے اس کار خیر کو انجام دیا۔ محترم حسینی بدولہ صاحب کے تین نواسوں کو تزئین نو میں نمایاں حصہ لینے کی توفیق ملی۔کام مکمل ہونے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کی خدمت اقدس میں مفصّل رپورٹ بجھوائی گئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے جواب میں تحریر فرمایا: ’’آپ کی طرف سے مسجد سرینام کی RENOVATION کی رپوٹ ملی ہے، جس کے ساتھ تصاویر بھی ہیں۔ ماشا اللہ بڑی خوبصورت بن گئی ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ اس کا بہت سا کام وقار عمل سے ہوا ہے، اور حسینی بدولہ صاحب کے نواسوں کا Contribution بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کے اموال اور نفوس میں برکت ڈالے۔‘‘

خط محررہ T-10869/15-2-07.

اکتوبر 2011ء میں مسجد سے ملحقہ ہال کا فرش نیا بنا کر ٹائل لگائی گئی، اور جماعتی روایات کے مطابق یہ کام وقار عمل کے ذریعہ مکمل کیا گیا۔ سال 2014ء میں جماعت نے خطیر رقم خرچ کرکے مسجد کے لئے بجلی کا ٹرانسفارمر لگوایا، اسی سال مسجد کے ساتھ ایک اور گیسٹ روم کی تعمیر کی توفیق ملی۔ مسجد کے تین اطراف دو میٹر کا پختہ فرش بنا کر ٹائل لگوائی گئی۔ مسجد کے صحن میں چار سو مربع میڑ ایریا میں فرشی ٹائل لگوائی گئی، نیز بیرونی دیوار از سر نو تعمیر کی گئی۔ اس دیوار کی تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد اس پر گرل لگانے اور مین گیٹ کی تیاری کے لئے خاکسار نے جماعت کے ایک ناصر محترم فاروق جمن بخش صاحب جو ویلڈنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے بزرگ ہیں، اور جماعت کی دونوں مساجد کی چھتوں کے لئے سٹیل کا فریم تیار کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہم آپ کو میٹرئل خرید دیتے ہیں، آپ گرلز اور گیٹ تیار کر دیں۔ انہوں نے اس کام کی ہامی بھر لی۔ اگلے دن مسجد آئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا ہے۔ ہم اپنے خرچ پر یہ خدمت انجام دیں گے ۔ چنانچہ انہوں نے تمام سامان خرید کر پیمائش کے مطابق تمام گرلز اور گیٹ اپنے گھر پہ تیار کرکے مسجد میں لاکر فکس کر دئے۔ اسی طرح مسجد کی چھت کے لئے نیا ٹین خریدنے کی غرض سے خاکسار مجلس عاملہ کے ایک ممبر کے ساتھ ایک غیر از جماعت بزرگ کی دکان پر گیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے ٹین کا سائز اور تعداد پوچھنے کے بعد اپنے ملازم کو بلا یااور بل تیار کرکے لانے کاکہا۔ وہ بل انہوں نے میرے سامنے رکھا اور کہنے لگے اس میں سے جتنی رقم چاہیں کاٹ دیں، بل دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ نصف کاٹ دوں ، لیکن اگلے لمحے مَیں نے ان سے گذارش کی کہ آپ خود جتنا مناسب سمجھیں کاٹ دیں۔ چنا نچہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے نصف رقم کاٹ کے بل مجھے تھما دیا کہ جائیں ادائیگی کر دیں۔اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے آسانیاں پیدا فرمائیں ۔اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

حرف آخر

مسجد ناصر سُرینام کو یہ سعادت حاصل ہے کہ امام آخر الزّمان کے مقدس و مطہر خلیفہ نے یہاں نمازوں کی امامت کروائی اور جمعہ بھی پڑھایا۔ اس کے علاوہ جماعت ہائے احمدیہ امریکہ ، کینیڈا، ٹرینیڈاڈ اور گیانا کے مبلغ انچارج مختلف وقتوں میں یہاں تشریف لا چکے ہیں۔محترم مولانا محمد اسلم قریشی شہید نے کربیئن میں قیام کے دوران پانچ مرتبہ یہاں جماعتی پروگرامز میں شرکت کی۔ محترم مولانا عطا اللہ کلیم صاحب نےستمبر تا نومبر 1986ء یہاں قیام کیا۔ گذشتہ بیس سالوں کے دوران جمہوریہ سرینام کے دو نائب صدر، متعدد وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور متعدد ملکوں کے سفیر اس مسجد کا دورہ کر چکے ہیں۔

قارئین الفضل آن لائن سے سے جماعت سرینام کے نفوس و اموال میں برکت کے لئے دعا کی درخواست ہے۔

(رپورٹ: لئیق احمد مشتاق مبلغ سلسلہ سُرینام ،جنوبی امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2021