• 4 مئی, 2024

مہمان نوازی کا قرآن کریم میں ذکر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ(ھود:70) اور یقینا ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا، اس نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ پس مہمان نوازی یہی ہے کہ اپنے عمل سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہ ہو کہ مہمان آ گیا تو مصیبت پڑ گئی۔ بلکہ مہمان کو پتہ بھی نہ چلے اور اس کی خاطر مدارات کا سامان تیار ہو جائے۔ جو بہترین کھانا میسر ہو، جو بہترین انتظام سامنے ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے۔ رہائش کا جو بہترین انتظام مہیا ہو سکتا ہے، مہمان کے لئے مہیا کیا جائے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ضروراتنی خاطر داری ہو کہ ایک دو مہمان آئے ہیں تو بے تحاشا کھانا تیار کیا جائے، بچھڑے کی مہمان نوازی کے بغیر اس کا حق ادانہیں ہو سکتا یا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔ اُس زمانے میں وہ لوگ بھیڑ بکریاں پالنے والے تھے، بازار تو تھے نہیں کہ بازار گئے اور چیز لے آئے، بھیڑیں موجود تھیں اور وہی فوری طور پر میسر آ سکتی تھیں تو اصل چیز اس میں یہ ہے کہ مہمان سے بغیر پوچھے کہ کھانا کھاؤ گے یا نہیں اس کی مہمان نوازی کے سامان تیار کر لئے جائیں۔ آنحضرتﷺ نے مہمانوں کو دودھ بھی پیش کیا۔ آپؐ کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے۔ کھجوریں میسر ہوئیں تو وہ بھی پیش کیں۔ اگر گوشت یاکوئی اور اچھا کھانا ہے تو وہ مہمانوں کو کھلا دیا۔ تو اصل اسلامی خُلق جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے۔ مہمان کو یہ احساس نہ ہو کہ میرا آنا میزبان کے لئے بوجھ بن گیا ہے۔ بلکہ حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں نے تو یہ محسوس کیا کہ کھانے کی طرف ہمارا ہاتھ نہ بڑھنا حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں تنگی پیدا کر رہا ہے۔ جس کی پھر انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ہم لوطؑ کی طرف جا رہے ہیں۔ تو یہ اسلامی خلق ایسا ہے کہ ہر مسلمان کو اس کو اپنانا ضروری ہے۔ مختلف رنگ میں دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ ایسی تعلیم ہے جس کا ایک احمدی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور پھر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان بن کر آ رہے ہوں ان کا کس قدر خیال ہونا چاہئے۔ ہر احمدی جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہے وہ خود اس بات کا اندازہ کر سکتا ہے کہ جس سے پیار ہو اس کی طرف منسوب ہونے والے تو ہر چیز سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ پس ہمیں ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پیارے کے مہمان آ رہے ہیں جو ہمیں بہت پیارے ہیں اور اس نیت سے ان کی خدمت کرنی ہے۔ اس جذبے کے ساتھ ہر کارکن اگر مہمانوں کی خدمت کرے گا تو اس خدمت کا لُطف ہی اور ہو گا۔ پس چاہے آپ کے عزیزوں میں سے جلسے کے لئے ذاتی مہمان آ رہے ہوں یا جماعتی انتظام کے تحت جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا ہے اور اس مہمان نوازی کی جو ڈیوٹیاں مختلف لوگوں کے سپردکی گئی ہیں، ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی حتی الوسع خدمت کی توفیق پانی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ20؍ جولائی 2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2021