• 4 مئی, 2024

احمدیت قبول کرنے کے بعدنومبائعین کی پاک روحانی تبدیلی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سلسلہ بیعت میں آنے والوں کو جو نصائح فرمائیں ان میں بنیادی اور اہم نصیحت یہی ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرو۔ اپنے خدا سے تعلق جوڑو، اپنے اخلاق کے معیار اعلیٰ کرنے کی کوشش کرو۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ جو اس سلسلے میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلن اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی اُن کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز باجماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں وہ کسی کو زبان سے ایذاء نہ دیں۔ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنے کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور ناکردنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ220 مطبوعہ ربوہ)

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جن لوگوں نے زمانہ کے امام کو مانا ہے یا مان رہے ہیں وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ یہ پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا ہوں اور قائم رہیں۔ ایک انقلاب ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہوا ہے اور ہو رہا ہے جنہوں نے بیعت کی حقیقت کو سمجھا۔ مَیں اس وقت اُن لوگوں کے چند واقعات پیش کروں گا جو اپنے اندر بیعت کے بعد ایک انقلاب پیدا کرنے والے بنے ہیں۔ دنیا کی مختلف قوموں، مختلف نسلوں کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے میں ترقی کی ہے۔ نیکیوں کے بجا لانے اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کی ہے۔ اپنے نفس کی خواہشات کو مارنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند رہنے میں ترقی کی ہے۔ اپنی روحانیت کے بڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کا خوف اور محبت دنیا کے خوفوں اور محبتوں پر حاوی ہے۔ یہ واقعات مَیں نے جلسہ کے دوسرے دن کی (جو رپورٹ پیش کی جاتی ہے اُس) رپورٹ میں سے لئے ہیں۔ یہ واقعات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے اُس وقت بیان نہیں ہوئے تھے اور عنوان بھی بیان نہیں ہوا تھا۔ عنوان یہ ہے کہ ’’احمدیت قبول کرنے کے بعدنو مبائعین میں غیر معمولی تبدیلی‘‘ تو جیسا کہ مَیں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ بعد میں بیان کروں گا تو آج مَیں یہ بیان کروں گا۔ یہ بڑا اہم عنوان ہے جو پرانے احمدیوں کو بھی ایمان میں بڑھانے اور اصلاح کا باعث بن جاتا ہے اور نئے بھی جب یہ سنتے ہیں تو مزید ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ امیر صاحب جماعت احمدیہ دہلی لکھتے ہیں کہ جو لوگ احمدی ہو رہے ہیں اُن میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ لکھتے ہیں کہ:
’’عثمان صاحب جو جلسہ سالانہ قادیان 2010ء کے موقع پر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے، بیان کرتے ہیں کہ بیعت کرنے سے پہلے مَیں کبھی کبھار نماز پڑھتا تھا لیکن بیعت کے دن سے ہی نہ صرف پانچوں وقت کی نماز ادا کرتا ہوں بلکہ اکثر تہجد ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

خدا کرے کہ ان نومبائعین جن کے اکثر یہ واقعات ہیں اور لکھتے بھی رہتے ہیں ان کا بھی یہ سلسلہ مستقل مزاجی سے چلتا رہے اور جو پرانے احمدی ہیں ہم میں سے جو بعض دفعہ نمازوں میں سستیاں دکھا جاتے ہیں، اُن کو بھی احساس پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے جو بہت اہم ذمہ واریاں ہیں جس کے بغیر ہمارا بیعت کرنا صرف نام کا بیعت کرنا ہے اور سب سے بڑی اور اہم چیز جوہے وہ نمازوں کی ادائیگی ہے، اس کی طرف توجہ ہے اور اس کے بعد پھر نوافل کی ادائیگی ہے۔ پس ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ نئے آنے والے کس طرح اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں طارق محمود صاحب اپر ایسٹ ریجن گھانا کے، وہ لکھتے ہیں کہ:
’’گزشتہ دنوں گمباگا کے مقام پر نو احمدیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس موقع پر ایک نو احمدی امام نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم لوگ مسلمان تھے۔ (یہ گھانا کا نارتھ کا علاقہ ہے، اکثریت اُن میں مسلمانوں کی ہے اور وہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہو رہی ہیں۔ پھر اُس زمانے میں جب احمدیت گھانا میں پھیلی ہے تو سمندر کے ساتھ ساتھ کے علاقے میں پھیلی، ساؤتھ کے علاقے میں پھیلی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ عیسائیت سیاحمدیت میں شامل ہوئے اور بڑی تیزی سے جماعت نے اُس علاقے میں ترقی کی۔ اور جو مسلمانوں کا علاقہ تھا وہاں مخالفت بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی سوائے چند ایک کے یا ایک جماعت قائم ہوئی جو وا (wa) کی جماعت تھی جہاں آج سے پچاس ساٹھ ستر سال پہلے، بلکہ شروع میں ہی کہنا چاہئے جب احمدیت وہاں گئی ہے تو احمدیت کا پودا لگا اور پھر جماعت بڑھتی گئی لیکن باقی علاقہ میں نارتھ میں مسلمان ہونے کی وجہ سے شدید مخالفت رہی ہے۔ اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند سالوں سے نارتھ میں بھی بڑی تیزی سے احمدیت کا نفوذ ہو رہا ہے)۔ تو لکھتے ہیں کہ ہمارے جو نو احمدی امام تھے (جو اُن کے ماننے والے ہیں وہ بھی اللہ کے فضل سے اُن کے سمیت جماعت میں شامل ہو رہے ہیں) کہ ہم لوگ مسلمان تھے مگر اسلام کی حقیقی تعلیم سے بے خبر تھے۔ احمدیت نے ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کروایا۔ وہ امام صاحب کہتے ہیں کہ مَیں پہلے لوگوں کو تعویذ لکھ کر دیا کرتا تھا مگر احمدیت کی برکت سے یہ کام چھوڑ دیا ہے اور اب اسے غیر اسلامی سمجھتا ہوں۔ یہ جوتعویذ گنڈے کا کاروبار ہے یہ مسلمانوں میں عام رواج ہے۔ یہ دنیا میں ہر جگہ ہے۔ صرف ہندوستان پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ عربوں میں بھی ہے اور دوسرے لوگوں میں بھی ہے۔ یہ بدعات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر دور فرمایا اور فرمایا کہ جو اصل اور حقیقی اسلامی تعلیم ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو، براہِ راست تعلق پیدا کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرو۔ اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے۔

پھرلوکوسا ریجن کے ایک گاؤں کے صدر جماعت سوسوگاجی صاحب بیان کرتے ہیں کہ پہلے مجھے بہت جلد غصہ آ جاتا تھا اور اس حالت میں بیوی اور بچوں کو مارنا شروع کر دیتا تھا اور گالی گلوچ میرا معمول تھا۔ جب سے میں نے بیعت کی ہے نمازوں کی طرف توجہ ہو گئی ہے اور مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مجھ میں صبر اور برداشت پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے۔

تو یہ افریقہ کے دور دراز علاقے کے نئے احمدی ہونے والے کی پاک تبدیلی ہے جو اُس میں پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوا، نمازوں کی طرف توجہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے اور اُس پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی۔

(خطبہ جمعہ 2؍ ستمبر 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2021