• 3 مئی, 2024

جام لقاء پلا دے (قسط 1)

(حدیقة النساء)

جام لقاء پلا دے
قسط 1

ایک نئے فیچر کا آغاز

خاکسار کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ ممبرات لجنہ اور ناصرات کے لیے ہفتہ میں کم ازکم ایک صفحہ مختص ہو کیونکہ بانی لجنہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو۔ تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے۔

(الازهار لذوات الخمار صفحہ641)

کچھ عرصہ قبل کینیڈا سے مکرم شیخ ریاض محمود نے ایڈیٹر کے نام ایک خط میں بچیوں اور مستورات کے لیے ایک صفحہ مختص کر کے چھوٹے چھوٹے دلچسپ انداز میں واقعات پر مشتمل مضامین شامل اشاعت کرنے کی درخواست کی۔ جس پر خاکسار نے محترمہ امة السلام ملک صدر لجنہ کینیڈا کے ساتھ ڈسکس کر کے تعاون کی درخواست کی۔ جس کو آپ نے بخوشی قبول کر کے الفضل کی ایک مستقل قاری، مضمون نگار اور شاعر محترمہ مسز صدف علیم صدیقی کے سپرد اس اہم کام کی ذمہ داری لگائی۔ محترمہ صدف علیم صدیقی نے صحابیات رسول کریمؐ اور خواتین مبارکہ کی سیرت بحر بے کنار سے اپنے نام کے مترادف سپیاں اور مونگے ڈھونڈ کر ابتدائی طور پر پانچ مضامین تیار کر کے بھجوائے۔ جس کی ابتداء ’’جام لقا پلا دے‘‘ کے عنوان سے کی جا رہی ہے۔ یہ ہر منگل کو ’’حدیقة النساء‘‘ کے نام سے شامل اشاعت ہوا کرے گا۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ

اس فیچر اور سلسلہ کا مقصد احمدی خواتین کو ایک مومن مسلمان عورت کا اصل چہرہ دکھانا مقصود ہے تا ان خواتین مبارکہ کی سیرت و سوانح کو پڑھ کر ہم اپنے حقیقی مقام کو پہچان سکیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف اپنے گھروں بلکہ پورے اسلامی معاشرے کو جنت نظیر بنا سکیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

دنیا بھر کی اہل قلم خواتین و ممبرات لجنہ سے بھی اس میں حصہ ڈالنے اور اس فیچر کی کامیابی کی دعا کی درخواست ہے۔ ایڈیٹر

صحابیات اور دیگر بزرگ خواتین کا ذکر خیر کرنے سے پہلے اس زمانے اور اس ماحول کا تھوڑا ذکر کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ وہ کیسے حالات تھے اس معاشرے کے افراد عورتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے تھے؟ کیا ان کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام تھا کیا؟ ان کو مردوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ یہ سب سوالات جب ہمارے ذہنوں میں اٹھتے ہیں تو حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ تعالی عنہا کی تحریر کردہ ایک نظم جو اس دور میں خواتین کے ساتھ سلوک ہوتا تھا اسے بیان کرتی دکھائی دیتی ہے یوں سمجھو جیسے دریا کو کوزے میں بند کر دیا جائے۔

اس کے اشعار کچھ اس طرح ہیں۔

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن، جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں، جب دنیا میں تو آتی تھی

یعنی بیٹی کی پیدائش کے ساتھ اس سے نفرت و حقارت کا سلسلہ شروع ہو جایا کرتا تھا۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی حالت بتاتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ

(النحل: 59)

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ (اسے) ضبط کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔

آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر جاہلیت کے کسی فعل پر سزا دینا جائز ہوتا تو میں زندہ درگور کرنے والے کو سزا دیتا۔‘‘

(نبیوں کا سردارؐ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ صفحہ73)

اسلام جو سلامتی کا مذہب ہے اس نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دئیے۔

خدا تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَلَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ

(النحل: 98)

ترجمہ: مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجالائے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اُسے ہم یقیناً ایک حیاتِ طیّبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے اور انہیں ضرور اُن کا اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

بیٹی کی پرورش کرنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں خوشخبری دی کہ

فَلَہُ الْجَنَّةُ مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَہُنَّ

(ابو داؤد)

ترجمہ: جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی‘‘

(ترمذی)

پھر بیویوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی گئی انہیں پاؤں کی جوتی کی بجائے گھر کی ملکہ بنایا گیا۔ کہیں آبگینے سے انکی مشابہت کی گئی کتاب رحمان میں خدا تعالیٰ نے مردوں سے کہا کہ

ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ

(البقرہ: 188)

ترجمہ: وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔

ان سے تسکین حاصل کرنے کو کہا گیا انہیں پاک کھیتیوں سے تشبیہ دی گئی جو نیک نسل کی بنیاد رکھنے والیاں ہوتی ہیں۔

ارشادِ نبوی ہے: یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے

(سنن نسائی)

عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا
یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی

اس زمانے میں جب عورت کی پیدائش ہی قابل شرم تھی اس کے ساتھ اور کسی نیکی کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ اسے جانور سے بدتر زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ وراثت میں تقسیم ہوتی سوتیلے بیٹے تک اس کے مالک بن بیٹھتے۔ تعدد ازدواج جس کی کوئی حد نہ تھی۔ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا تو کجا اس بارے میں سوچنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف مردوں کے دل بہلانے کا سامان تھی۔ مرد اس بات پر فخر کا اظہار کیا کرتے تھے کہ ہم نے عورت کو کس طرح اپنے قدموں تلے رکھا ہوا ہے۔

گویا تُو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے
توہین وہ اپنی یاد تو کر! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

اور کہاں یہ وقت بھی آیا کہ اپنی ازواج سے حسن سلوک کرنے والے کو سب سے بہتر قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

’’خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ وَ اَ نَا خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِیْ‘‘

(مشکوٰۃ)

تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے سلوک اچھا ہے اور مَیں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔

بیٹی سراپا رحمت قرار پائی بہن عزت کی حقدار بیوی نصف ایمان کی امین ماں کا درجہ ایسا بیان کیا کہ اَلْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ۔ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔

غرض وہ کونسا جائز حق ہے جو اسلام نے عورت کو نہ دیا ہو۔ اسے وراثت کا حق دار بنایا اسے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق دیا خلع کا حق دیا۔ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی۔ جنگ میں سپاہیوں کی مدد کرنے کی اجازت۔

وہ رحمتِ عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تُو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
ان ظلموں سے چھڑواتا ہے
بھیج درود اس محسن پر تُو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰ ؐ نبیوں کا سردار

اسلام نے عورت کو جب یہ سب حقوق دے دئیے تو پھر اس وقت کی عورت نے نہ صرف ان حقوق کا درست استعمال کیا بلکہ اپنے فرائض کو تندہی کے ساتھ انجام دیا۔ اس کو اگر بیٹی کے طور پر جنت میں گھر بنانے کی ضامن بنایا گیا تو اس نے اپنے والدین کے لیے دنیاوی گھر کو مثل جنت بنایا۔ اگر بہن بنا کر اسے بھائی کے برابر حقوق اور وراثت کا حق دار بنایا تو وہ بھائیوں کی عزت میں اضافہ کرنے والی بھی بنی۔ اسے اگر جسمانی کمزوری اور جذباتی طور پر نازک ہونے کی وجہ سے آبگینہ سے تشبیہ دی تو اس نے وقت پڑنے پر اپنے آپ کو آہنی وجود ثابت کیا۔ دشمنان دین کے سامنے وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ اس کے قدموں تلے جنت آئی تو اس نے بڑے بڑے سورماء پیدا کیے۔ اپنی کوکھ سے ایسے ایسے ہیرے جنے جنہوں نے اسلام کی ترقی کے لیے ان تھک جدوجہد کی۔ وہ نبیوں کی ماں بنی اس نے اولیاء اللہ پیدا کیے۔ دین پر مر مٹ جانے والے جوان پیدا کیے جو یہ کہتے دکھائی دئیے کہ
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔

’’یہ حضرت مقداد بن عمروؓ  کے وہ تاریخی فقرات ہیں جو غزوہ بدر کے موقع پر آپؓ نے کہے تھے۔

حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اسلام کی پہلی خاتون شہید ہیں کون کونسے ظلم وستم کے پہاڑ ہیں جو آپؓ پر نہ توڑے گئے۔ لیکن آپؓ نے کمال استقامت سے ان سب مظالم کا سامنا کیا اور جان قربان کر دی لیکن اپنے ایمان کا سودا نہ کیا۔ حضرت ام عُبَیْس رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت لبینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حمامہؓ المعروف ام بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان سب خواتین پہ کفار نے ظلم وستم کی انتہا کر دی لیکن یہ سب اس محسن انسانیتؐ کے حسن سلوک کی بدولت جو تعلق اپنے خالق حقیقی سے بنا چکی تھیں اس سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

ایک اور واقعہ جس سے مسلمان عورت کی شان کا اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت ام عمارہؓ ایک صحابیہ تھیں۔ غزوہ احد میں جب ایک اچانک حملہ کی وجہ سے بڑے بڑے بہادران اسلام کے پاؤں تھوڑے سے وقت کے لیے اکھڑ گئے تو وہ آنحضرتﷺ کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئیں۔ کفار آپؐ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بے جگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے۔ ادھر آپ ؐکے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے۔ جو آپؐ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے۔ ایسے نازک اور خطرناک موقعہ پر حضرت ام عمارہؓ  آپؐ کے لیے سینہ سپر تھیں ۔ کفار جب آنحضرتﷺ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام عمارہؓ  کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قیمہ جب آنحضرتﷺ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا۔ اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا۔ اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہوجاتا۔

(سیرۃ ابن ھشام ذکر احد)

غزوہ احد میں اس خاتون کا واقعہ جو ہم سب کو ازبر ہے کہ جب کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افوہ اڑ ادی تھی تو ایک انصاری خاتون ہر آنے جانے والے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرتیں کسی نے بتایا کہ تمہارے والد شہید ہو گئے اس نے تڑپ کر پھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کی اس نے باری باری اس کے بھائی کے خاوند اور پھر بیٹے کی خبر سنائی لیکن وہ بدستور یہی دہراتی رہی کہ میرے آقا و مطاع خیریت سے ہیں اور ان کی خیریت پتا چلنے کے بعد بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ کُلُّ مُصِیْبَۃٍ جَلَلٌ۔ یعنی اگر آپ زندہ ہیں تو پھر سب مصائب ہیچ ہیں۔یہ تو محض چند ایک مثالیں ہیں جو اس وقت پیش کیں ہیں ورنہ اس طرح کی خواتین کے کارناموں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ اب ہم جو حقیقی اسلام یعنی احمدیت کو مان کر خود کو احمدی مسلمان کہلواتی ہیں اب ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم ان خواتین کو اپنا رہنماء بنا کر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں اور اپنی گود میں وہ نسل پروان چڑھائیں جو خلیفہ وقت کی ہر لحاظ سے سلطان نصیر ہو۔ اسلام احمدیت کا جھنڈا پوری دنیا میں لہرانے والی ہو۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست
ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو
ایسی تمہاری گھر کے چراغوں کی ہو ضیاء
عالَم کو جن سے نور ِہدایت نصیب ہو

(درعدن صفحہ47 ایڈیشن 2008ء)

(مرسلہ:صدف علیم صدیقی۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ