• 3 مئی, 2024

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید (قسط 1)

اطاعت خلافت، کامرانی کی کلید
قسط 1

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

(النساء: 60)

ترجمہ ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری کرو‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ332)

اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے ….

(ضرورت الامام، روحانی خزائن جلد13صفحہ493)

…اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔ صحابہ رضوان علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔ یہ سچ بات ہے کہ کوئی قوم ،قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے …اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سرّ ہے ۔اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں بھی صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے ،خدا نے ان کی بناوٹ ہی ایسی رکھی تھی ،وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخرجب حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا اپنی تمام آ رائوں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا …نا سمجھ مخا لفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا مگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ دل کی نا لیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہہ نکلی تھیں ۔ یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا …تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو ۔ اطاعت ہو تو ایسی ہو ،باہم محبت اور اخوت ہو تو ایسی ہو ۔ غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد3 سورۃ النساء صفحہ317-318)

اس آیت کریمہ کی تفسیر کی روشنی میں جب ہمیں اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں ‘‘ کہ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے جدھر اسے لے جاؤ ادھر چل پڑتا ہے۔ اور اطاعت کا عادی ہوتاہے۔’’(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ126۔ ابو داؤد کتاب السنہ باب فی لزوم الطاعۃ) تو ہمیں اطاعت کا وہ اعلیٰ سبق ملتا ہے جس میں امت کا اتحاد اور خلافت کی بقا ہے ۔عمومی طور پر دیکھیں تو ہر انسان چاہتاہے کہ اسے کامیابی ملے ، اسے فتح نصیب ہو ۔ ایسی خواہش رکھنے والے ہر انسان کے لئے خداتعالیٰ کا یہ پیغام ہے کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آ پ کو خلافت کے ساتھ وابستہ کرلے ۔ اس کے نتیجہ میں اس کی کامیابی اورفتح یقینی ہو گی۔اور اسی مضمون کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبے میں یوں بیان کیا ہے آپؓ فرماتے ہیں:
’’خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہِ یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے۔ مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہو کر ہوتی ہیں۔اگر ہم اس مسئلہ کو ذرا بھی بُھلادیں، اِس کی قیود کو ڈھیلا کردیں اور اس کی ذمہ واریوں کو نظر انداز کردیں تو جس غرض کیلئے خلافت قائم ہے وہ مفقود ہوجائے گی …امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اُٹھاتا ہے اُس کے پیچھے اُٹھاتا ہے اپنی مرضی اور خواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتا ہے، اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے، اپنے ارادوں کو اس کے ارادوں کے تابع کرتا ہے، اپنی آرزوئوں کو اس کی آرزوئوں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتا ہے۔ اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہوجائیں تو ان کیلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی نکتہ کو واضح کرنے کیلئے فرماتا ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا یعنی جو خلفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے جاتے ہیں ہمارا وعدہ یہ ہے کہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ یعنی ان کے طریق کو جو ہم ان کیلئے خود چُنیں گے دنیا میں قائم کریں گے۔ دین کے معنی صرف مذہب کے ہی نہیں۔ گو مذہب بھی اس میں شامل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب تو انبیاء کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے۔ خلفاء کے ذریعہ سنن اور طریقے قائم کئے جاتے ہیں ورنہ احکام تو انبیاء پر نازل ہوچکے ہوتے ہیں۔ خلفاء، دین کی تشریح اور وضاحت کرتے ہیں اور مُغْلَقْ امور کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں اور ایسی راہیں بتاتے ہیں جن پر چل کر اسلام کی ترقی ہوتی ہے۔یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جو مسلمانوں کا دین ہوگا ہم اسے مضبوط کریں گے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو خلیفہ کا دین ہوگا اسے مضبوط کریں گے۔ جس پالیسی کو خلفاء پیش کریں گے ہم اسے ہی کامیاب بنائیں گے اور جو پالیسی ان کے خلاف ہوگی اُسے ناکام کریں گے۔‘‘

(الفضل 4؍ستمبر 1937ء صفحہ3-4)

تاریخ اسلام پہ نظر ڈالیں تو کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے پاکیزہ نمونے قائم کئے ہیں ۔رسول کریم ﷺ جب بھی صحابہ رضوان اللہ علیہم کو کسی بات کا حکم دیتے صحابہؓ اسی وقت اس پر عمل کے لیے کھڑے ہوجاتے تھےکیونکہ صحابہ کرامؓ  میں اطاعت کی روح کمال تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس ضمن میں تاریخ اسلام سے یہ ایمان افروز واقعات ملاحضہ فرمائیے۔

آنحضرت ﷺکو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ قیام کیے ہوئے ابھی تیرہ مہینے ہی گزرے تھے کہ قریش مکہ نے مدینہ پر چڑھائی کرنے اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنےکا منصوبہ بنایا۔ کفار مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی نگرانی میں ملک شام سے تجارت کرکے واپس مکہ جا رہا تھا اور ان کا راستہ مدینہ سے کچھ فاصلےسے گزرتا تھامکہ والوں نے اس کی حفاظت کے بہانےایک زبردست لشکر مدینہ کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا۔رسول کریم ﷺکو اس کی اطلاع مل گئی تھی۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی آپ پر وحی ہوئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے۔ چنانچہ آپ ؐمدینہ سے 313 صحابہ کرامؓ کو لے کر نکلے۔ جب آپ ؐ مدینہ سے نکلے اس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہوگا یا اصل لشکر سے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشا یہی تھی کہ قافلہ سے نہیں ،بلکہ اصلی مکی لشکر سے مقابلہ ہو۔ آپ ؐنے صحابہؓ کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں۔صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور صحابہؓ اس بارے میں آپؐ کو مشورہ دیں۔ایک کے بعد دوسرےمہاجر صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لیےتیار ہیں۔حضورؐ ہر مہاجر کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے ’’مجھے مشورہ دو۔ مجھے مشورہ دو۔‘‘ مدینہ کے انصار اس وقت تک خاموش تھے۔پھر ایک انصاری سردار مقدار بن اسود اور سعد بن معاذ رئیس قبیلہ اوس رضی اللہ عنہما نےرسول کریمﷺ کی منشا کو سمجھا اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ یا رسول اللہﷺ مشورے تو آپؐ کو مل رہے ہیں مگر پھر بھی آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں۔ تو شاید آپؐ کی مراد ہم انصار سے ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا۔ ہاں۔ اس سردار نے جواب میں کہا: یا رسول اللہ ﷺ شاید آپ ؐ اس لیے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ ؐ کے مدینہ آنے سے پہلے ہمارے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں رہتے ہوئے کسی نے آپؐ پر اور مہاجرین پر حملہ کیا تو ہم آپ اور مہاجرین کی حفاظت کریں گے۔لیکن اِس وقت آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں۔جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پرروشن نہیں ہوئی تھی۔ اب جبکہ ہم پر آپ ؐ کا مرتبہ اور آپؐ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ یا رسول اللہؐ! اب اس معاہدے کا کوئی سوال نہیں۔ ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپؐ کو یہ نہیں کہیں گے۔ فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (المائدہ: 25)

یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ لڑتے پھرو ،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے بائیں بھی لڑیں گے۔ آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔اور یا رسول اللہ ﷺ دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لیےآیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔یا رسول اللہ۔ جنگ تو ایک معمولی بات ہے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے۔ آپ ؐ ہمیں حکم دیجئے کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم بلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔

اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپؐ ان شاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جوآپؐ کی آنکھوں کوٹھنڈا کرے گی۔ آپﷺ نے یہ تقریر سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ سِیْرُوْا وَابْشِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ وَعَدَنِیْ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ وَاللّٰہِ لَکَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی مَصَارِعِ الْقَوْمِ یعنی تو پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور خوش ہوکیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دو گروہوں یعنی لشکر یا قافلہ جو ہے ان میں سے کسی ایک گروہ پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم! میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ354-355)

بعد ازاں مورخہ 17رمضان 2ھ بمطابق 14؍مارچ 624ء کو میدان بدر میں کفار مکہ کے لشکر اور مسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ چند گھنٹوں کی لڑائی میں ہی مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ کفار مکہ کو جنگ میں شکست کے علاوہ زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس فتح کی اَور بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سے ایک اہم وجہ صحابہ کرامؓ کا مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ و نمونہ تھا۔ 

اسی طرح ایک اور صحابیؓ کی اطاعت کا بے نظیر نمونہ ملاحضہ کیجیے ’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ خطبے کے دوران آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ یہ سنتے ہی آپؓ مسجد سے باہر جس جگہ کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے فارغ ہوئے اور یہ خبر آپؐ کو پہنچی تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ زَادَکَ اللّٰہُ حِرصًا عَلٰی طَوَاعِیَۃِ اللّٰہِ وَ طَوَاعِیَۃِ رَسُوْلِہٖ کہ اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی خواہش میں اللہ تمہیں زیادہ بڑھائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 14؍فروری 2020ء صفحہ5)

ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’رسول کریم ﷺ نے رئویا میں دیکھا کہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ حج کا وقت نہیں تھا، آپ نے عمرہ کی نیت کی اور صحابہؓ کو بھی اطلاع دی۔ چلتے چلتے آپ کی اونٹنی حدیبیہ کے مقام پر بیٹھ گئی اور زور لگانے کے باوجود نہ اُٹھی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے خداتعالیٰ نے بٹھادیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مشیت یہی ہے کہ ہم آگے نہ جائیں۔ مسلمانوں کی آمد دیکھ کر کفار نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا شروع کیا۔ کیونکہ وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان طواف کریں۔ رسول کریم ﷺ ان کے آدمیوں کی انتظارمیں تھے کہ آئیں تو شائد کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔ ان کی طرف سے مختلف نمائندے آئے اور آخرکار صلح کا فیصلہ ہوا ۔ شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اِس وقت واپس چلے جائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اب انہوں نے طواف کرلیا تو ہمارے پرسٹیج میں فرق آئے گا اس لئے انہوں نے یہی شرط پیش کی کہ اب کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کرلیں۔دوسری شرط یہ ہوئی کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہوکر رسول کریم ﷺ کے پاس آجائے تو آپ اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ والوں کے پاس جانا چاہے تو اسے اس کی اجازت ہوگی۔ بظاہر یہ شرطیں بڑی کمزور شرطیں تھیں اور پھر جس وقت آپ نے اس شرط کو منظور کرلیا، اُسی وقت ایک مسلمان جس کے ہاتھوں اور پائوں میں کڑیاں اور بیڑیاں پڑی تھیں، جس کا تمام جسم لہولہان تھا نہایت تکلیف سے لڑھکتا اور گِرتا پڑتا وہاں پہنچا اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا حال دیکھئے میں مسلمان ہوں اور میرے رشتہ داروں نے اس طرح مجھے بیڑیاں پہنائی ہوئی ہیں اور مجھے شدید تکالیف پہنچا رہے ہیں۔ آج کفار لڑائی کیلئے تیار ہوئے تو میرا پہرہ ذرا کمزور ہوا اور میں موقع پاکر نکل بھاگا اور اس حالت میں یہاں پہنچا ہوں۔ صحابہؓ کو اس کی حالت دیکھ کر اتنا جوش تھا کہ وہ آپے سے باہر ہورہے تھے۔ لیکن اہل مکہ کی طرف سے جو شخص سفیر ہوکر آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم ﷺ کا نام لے کر کہا کہ ہمیں آپ سے غداری کی امید نہیں۔ آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص آپ کے پاس آئے تو اسے واپس کردیں گے اس لئے یہ شخص واپس کیا جائے۔ اُس وقت اُن ہزاروں آدمیوں کے سامنے جو اپنے گھروں سے جانیں دینے کیلئے نکلے تھے، ان کا ایک بھائی تھا جو مہینوں سے قید تھا، جس کے ہاتھوں اور پائوں سے خون کے فوارے پُھوٹ رہے تھے اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تھا۔ اسے دیکھ کر صحابہؓ کی تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور وہ دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم سب یہیں ڈھیر ہوجائیں گے مگر اسے واپس نہیں جانے دیں گے۔ مگر رسول کریم ﷺ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ خدا کے رسول دھوکا نہیں کیا کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہے اور اب خواہ ہمارے دلوں کو کتنی تکلیف ہو، اسے پورا کریں گے اور آپ نے کفار کے نمائندہ سے فرمایا کہ اسے لے جائو۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ مجھے واپس کیا جارہا ہے تو اس نے پھر نہایت مترحمانہ نگاہوں کے ساتھ صحابہؓ کی طرف دیکھا او رکہا تم جانتے ہو مجھے کس طرف دھکیلتے ہو؟ تم مجھے ظالم لوگوں کے قبضہ میں دے رہے ہو؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کو تاب نہ تھی کہ آنکھ اُٹھا سکے اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔لیکن صحابہ کو اس کا رنج اتنا تھا، اتنا تھا کہ جب صلح نامہ پر دستخط ہوچکے تو رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ اس سال ہمیں عمرہ کا موقع نصیب نہ ہو۔ جائو اور اپنی قربانیوں کو ذبح کردو۔ آپ نے یہ فرمایا اور وہ صحابہؓ جو آپ کے ایک اشارے پر اُٹھ کھڑے ہوتے اور نہایت بے تابی کے ساتھ فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے، ان میں سے ایک بھی نہ اُٹھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ اُمّہات الْمُومنین میں سے ایک بی بی تھیں۔ آپ نے ان سے کہا کہ آج میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے جو نبوت کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے باہر جاکر صحابہؓ سے کہا کہ اپنی قربانیاں ذبح کردو مگر ان میں سے ایک بھی نہیں اُٹھا۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ کسی سے بات ہی نہ کریں۔ آپ سیدھے جاکر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کردیں۔ یہ زجر زبان کی زجر سے بہت سخت تھی اور یہ مشورہ نہایت ہی اچھا تھا۔ چنانچہ آپ باہر آئے ، نیزہ لیا اور بغیر کسی مدد کے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کردیئے۔ جونہی صحابہؓ نے یہ دیکھا معاً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دَوڑے، بعض رسول کریم ﷺ کی مدد کیلئے اور بعض اپنی قربانیوں کی طرف۔ اور ان کی بے تابی اِس قدر بڑھ گئی کہ وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے تلواروں کی نوکوں سے ایک دوسرے کو ہٹاتے تھے۔ لیکن گو انہوں نے یہ فرمانبرداری دکھائی اور ان کا جوش بھی ٹھنڈا ہوا مگر پوری طرح نہیں ہوا۔ حضرت عمرؓ  جیسا مخلص انسان بھی اپنے جوش کو نہ دباسکا۔ آپ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں جاکر بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کیا آپ خدا کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم خدا کی سچی جماعت نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہیں۔ حضرت عمرؓ  نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ کو ایک رئویا ہوئی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوکر عمرہ کررہے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ ناکامی پھر کس بات کا نتیجہ ہے؟ ہم ایمان پر ہوتے ہوئے دب گئے اور کفار کاپہلو بھاری رہا اور ہم نے ایسی ایسی شرطیں منظور کرلیں کہ اپنے ایک بھائی کو سخت مصیبت کی حالت میں دیکھا مگر کچھ نہ کرسکے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک مجھے رئویا ہوئی تھی مگر کیا میں نے کہا تھا کہ اس سال ہم عمرہ کریں گے؟ میں نے صرف قیاس کیا تھا اور اسی قیاس کی بناء پر آیا اور تم کو معلوم ہے کہ یہ بات شرائط میں ہے کہ ہم اگلے سال عمرہ کریں گے اور خواب پورا ہوگا۔ پھر اس میں ذلّت کی کوئی بات نہیں کہ جو مسلمان ہو اُسے واپس کیا جائے اور جو کافر ہو اسے اپنے ہم مذہبوں کے پاس جانے دیا جائے۔ جس مسلمان کو کفار پکڑ کر رکھیں گے وہ تبلیغ ہی کرے گا اور جو مسلمان مرتد ہوجائے تم بتائو ہم نے اُسے رکھ کر کرنا ہی کیا ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے۔ ان کا جوش کم ہوا مگر پوری طرح فرو نہیں ہوا۔ اور پھر وہ اس شخص کے پاس پہنچے جسے اللہ تعالیٰ نے صدیق کہا ہے اور جس کی نبض محمد رسول اللہ ﷺ کی نبض کے تابع چلتی تھی اور کہا ابوبکرؓ ؟کیا محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں؟ کیا ہمارا دین سچا ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے خواب نہیں دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کررہے ہیں، پھر ہوا کیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا عمرؓ ! کیا محمد مصطفی ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم ضرور اسی سال عمرہ کریں گے؟ خواب صرف یہی ہے کہ ہم عمرہ کریں گے سو ضرور کریں گے۔ تب حضرت عمرؓ کا دل صاف ہوا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ صداقت جس طرح رسول کریم ﷺ کی زبان سے نکلی اُسی طرح ابوبکر کی زبان سے بھی نکلی۔ تو صلح حدیبیہ بڑا بھاری امتحان تھا، بڑی آزمائش تھی مگر صحابہؓ  نے انتہائی اطاعت کا نمونہ دکھایا۔

(خطبات محمود جلد18 صفحہ368-371)

(باقی کل ان شاءاللہ)

(درثمین احمد ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ