• 17 مئی, 2024

تم ہو رہبر تو پھر مجھے کیا غم

تجھ سے کچھ اِس طرح ہوں وابستہ
روح جیسے بدن میں پیوستہ
دام پھیلا رکھے ہیں کیوں اتنے
طائرِ دل تو آپ ہے پھنستا
پیار کی اک نظر مری قیمت
دیکھ! مَیں کس قدر ہؤا سستا
زیست کی ڈور ٹوٹ بھی جائے
عشق سے پر نہ ہوں گے وارستہ
مقتلِ حسن کو چلا ہوں مَیں
جاں بکف، مستعد، کمر بستہ
میں نے حق بات کی سرِ محفل
بر محل، بے دریغ، برجستہ
مَیں دوراہے سے تو گزر آیا
اب ہے درپیش مجھ کو چَورستہ
تم ہو رہبر تو پھر مجھے کیا غم
کتنا مشکل ہے عشق کا رستہ!
اِس کو سودائے دشتِ دامن ہے
اشک دل کے نگر نہیں بستا
ہے نشاطِ غمِ وفا بھی عجیب
دل کبھی روتا ہے، کبھی ہنستا
چشمِ گلباز زخم زخم ہوئی
جب سجا اشک اشک گلدستہ
کتنی راتوں کو پائمال کِیا
تب کھلا رازِ عشق سربستہ

(میر انجم پرویز)
(جون 1999ء۔ ربوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اگست 2020