رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ
(سورۃالبقرۃ:287)
ترجمہ:
’’اے ہمارے رب!ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہوجائے۔اور اے ہمارے رب!ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر(ان کے گناہوں کے نتیجہ میں) تو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب!ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔اور ہم سے درگزر کر۔ اور ہمیں بخش دے۔اور ہم پر رحم کر۔تو ہی ہمارا مولیٰ ہےپس کافر قوم کے مقابل پر ہماری مدد فرما۔‘‘
یہ قرآنِ مجید کی طلبِ مغفرت، رحمت اور مدد باری تعالیٰ کی بہت پیاری دعا ہے۔ انسان کے گناہوں، لغزشوں، غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے دور ہونے کے لئےیہ کامل اور جامع دعابے حد مجربّ ہے۔
رحمۃٌللعالمین، نبیوں کے سردار، محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کوبذریعہ وحی یہ خوشخبری دی گئی کہ ایک کامل دعا جو اس سے پہلے کسی نبی کوعطا نہیں کی گئی وہ سورۃالفاتحہ اور سورۃ البقرۃ کی آخری آیات ہیں۔جو بھی ان دعاؤں کے ذریعہ خدا سے مانگتا ہے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔
(صحیح مسلم)
پیارے امام سیدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہُ اللہ تعالیٰ بنصرِہ العزیز فرماتے ہیں:
’’صرف آیت کے یا ان آیات (سورۃ البقرۃ 286۔287) کے الفاظ دوہرا لینے سے تو مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توجہ اس طرف کروائی کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھنی پڑے گی اور جب یہ توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی اپنے بندے پر پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی ایمان میں ترقی اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر رہی ہو گی اور اس کی بخشش کا سامان کرے گی نہ کہ پھر جس طرح عیسائی کہتے ہیں اس کو کسی کفارے کی ضرورت ہوگی۔ پس روزانہ پھر جس طرح یہ آیت پڑھنے سے نیکیوں کے کمانے کی طرف توجہ رہے گی۔ ایک مومن رات کو جائزہ لے گا کہ کون کون سی نیکیاں مَیں نے کی ہیں اور کون کون سی برائیاں کی ہیں۔ پھر اگر نیکیوں کی زیادہ توفیق ملی ہو گی، اگر شام نے یہ گواہی دی ہو گی کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا تو شکر گزاری کے جذبے کے تحت ایک مومن پھر اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکے گا اور ایک مومن کو کیونکہ نفس کے دھوکے کا بھی خیال رہتا ہے اس لئے وہ پھر خداتعالیٰ سے یہ عرض کرتا ہے کہ اگر میرا جائزہ جو مَیں نے شام کو لیا ہے نفس کا دھوکہ ہے تو پھر بھی مجھ پر رحم کر اور بخش دے اور مجھے نیکیوں کی توفیق دے اور اگر کھلی برائیاں سارے دن کے اعمال میں نظر آ رہی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے ایک مومن جھکتا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 16؍جنوری 2009ء)
(مرسلہ: قدسیہ محمود سردار)