• 29 اپریل, 2024

مہمان نوازی ایک عظیم خُلق

’’میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتاہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے۔ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پرہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا۔ ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے بمجبوری علیحدگی ہوئی۔ ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے۔ بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ292 ایڈیشن 1988ء)

ایک دفعہ جب بہت سارے مہمان آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میاں نجم الدین صاحب کوجو لنگرخانے کے انچارج تھے، تاکید کی کہ:
’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ492 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات