• 29 اپریل, 2024

ظلم کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوانوں کے ایمان مضبوط ہورہے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب کچھ دن سکول نہیں گئے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ چوتھے روز مَیں سکول گیا تو مجھے ایک شخص مرزا رحمت علی صاحب آف ڈسکہ جو انجمن حمایتِ اسلام میں ملازم تھے، (انہوں ) نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ تم چار دن کہاں تھے۔ مَیں نے صاف صاف اُن سے عرض کر دیا کہ مَیں قادیان گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیعت کر آئے؟ مَیں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے فرمایا کہ یہاں مت ذکر کرنا۔ مَیں بھی احمدی ہوں اور مَیں نے بیعت کی ہوئی ہے مگرمَیں یہاں کسی کو نہیں بتاتا تا کہ لوگ تنگ نہ کریں۔ مگر مَیں نے اُن سے عرض کیا کہ مَیں تو اس کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا چاہے کچھ ہو۔ چنانچہ ہمارے استاد مولوی زین العابدین صاحب جو مولوی غلام رسول قلعہ والوں کے بھانجے تھے اور ہمارے قرآن حدیث کے استاد تھے اُن سے مَیں نے ذکر کیا کہ مَیں احمدی ہو گیا ہوں۔ اس پر انہوں نے بہت برا منایا اور دن بدن میرے ساتھ سختی کرنی شروع کر دی۔ حتی کہ وہ فرماتے تھے کہ جو مرزا کو مانے، سب نبیوں کا منکر ہوتا ہے۔ اور اکثر مجھے وہ کہتے تھے کہ توبہ کرو اور بیعت فسخ کر لو۔ مگر مَیں اُن سے ہمیشہ قرآنِ شریف کے ذریعے حیات و فاتِ مسیح پر گفتگو کرتا جس کا وہ کچھ جواب نہ دیتے اور مخالفت میں اس قدر بڑھ گئے کہ جب اُن کی گھنٹی آئے، (یعنی اُن کا پیریڈ جب آتا تھا) تو وہ مجھے مخاطب کرتے تھے۔ او مرزائی! بنچ پر کھڑا ہو جا۔ میں اُن کے حکم کے مطابق بنچ پر کھڑا ہو جاتا اور پوچھتا کہ میرا کیا قصور ہے؟ وہ کہتے کہ یہی کافی قصور ہے کہ تم مرزائی ہو اور کافر ہو۔ کچھ عرصے تک مَیں نے ان کی اس تکلیف دہی کو برداشت کیا۔ پھر مجھے ایک دن خیال آیا کہ مَیں پرنسپل کو جو نو مسلم تھے اور اُن کا نام حاکم علی تھا کیوں نہ جا کر شکایت کروں کہ بعض استاد مجھے اس وجہ سے مارتے ہیں کہ مَیں احمدی کیوں ہوگیا ہوں۔ اس پر انہوں نے ایک سرکلر جاری کر دیا کہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے کوئی مدرس، (کوئی ٹیچر) کسی لڑکے کو کوئی سزا نہ دے۔ چنانچہ اس آرڈر کے آنے پر مولوی زین العابدین صاحب اور اُن کے ہم خیال استاد ڈھیلے پڑ گئے اور مجھ پر جو سختی کرتے تھے اُس میں کمی ہو گئی۔

(رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر9 صفحہ127 تا 129)

یہ واقعات کوئی سو سال پرانے نہیں ہیں۔ اُس جہالت کے وقت کے نہیں ہیں بلکہ آج بھی پاکستان میں دہرائے جاتے ہیں۔ آج بھی بچوں سے یہی سلوک ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک طالب علم کا مجھے خط آیا۔ اُس کے بڑے اچھے نمبر تھے۔ ان نمبروں کی بنا پرکالج میں داخلہ مل گیا۔ فیس جمع کروانے گیا تو وہاں انتظامیہ کے کچھ اور بھی افسر بیٹھے تھے۔ انہیں کہیں سے پتہ لگ گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ تم احمدی ہو؟ اُس نے کہا کہ ہاں میں احمدی ہوں۔ انہوں نے کہا یہ لو پیسے اور تمہارا داخلہ کینسل اور آئندہ یہاں نظر نہ آنا۔ نہیں تو تمہاری ٹانگیں توڑ دیں گے۔

اسی طرح چند دن ہوئے مجھے ایک لڑکی کا خط آیا۔ بڑے اچھے نمبر اُس کے آئے، پڑھائی میں ہوشیار ہے لیکن بورڈ کے امتحان کا جو داخلہ فارم ہے۔ اب انہوں نے نیا فارم بنایا ہے، کمپیوٹرائز فارم ہے۔ جس پر ٹِک (Tick) کرنا ہے، مسلم یا نان مسلم۔ پہلے تو ہمارے بچے احمدی لکھ دیا کرتے تھے اور اب وہ آپشن (Option) نہیں رہی۔ یہ بچی کہتی ہے کہ کیونکہ آپ نے کہا ہوا ہے کہ مسلمان لکھنا ہے تو مَیں مسلمان کے کالم پر ٹک کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کی جو ڈیکلریشن ہے اُس پر بھی دستخط کرو۔ وہ جب ہم نہیں کرتے تو داخلہ کینسل ہو جاتا ہے۔ تو یہ سختیاں سکول کے بچوں پر اور اچھے بھلے ہوشیار بچوں پر آج بھی ہو رہی ہیں۔ وہاں تو پرنسپل انصاف پسند تھا۔ اُس نے کچھ انصاف کیا اُس نے اور ان پریہ سختی بند ہو گئی۔ لیکن آجکل تو حکومتی قانون کے تحت یہ بے انصافی کی جارہی ہے اور انتہاتک کی جا رہی ہے اَور کافی اور بچے بھی ہیں جو اِس لحاظ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بہر حال یہ ظلم چل رہا ہے لیکن اس ظلم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو آجکل کے ہمارے نوجوان ہیں ان کے ایمان بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ برطانیہ2021ء، امریکہ میں کس طرح دیکھا گیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اگست 2021