کشتی نوح کی نصائح کو روزانہ ایک بار پڑھ لیا کرو
(قسط دوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں۔ اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔ غیرقوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلّی اسباب پر گرگئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی۔ اور جیسے گِدْ اور کتّے مُردار کھاتے ہیں انہوں نے مُردار پر دانت مارے وہ خدا سے بہت دُور جا پڑے انسانوں کی پرستش کی اور خنزیرکھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح اُن میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دئیے ہیں پس تم اُس جذام سے ڈرو۔ میں تمہیں حداعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیرقوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اُس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آجائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب ہیچ ہے۔ تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہو مگر اُس کے اِذن سے۔ ایک مُردہ اس پر ہنسی کر ے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سےاس کے لئے بہتر تھا۔ خبردار!!!تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوؔ بوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی اُنہیں کے قدم پر چلیں۔ سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔ میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم اُن لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی۔ اپنی جانوں پر رحم کرو اور جو لوگ خدا سے بکلّی علاقہ توڑ چکے ہیں اور ہمہ تن اسباب پر گر گئے ہیں یہاں تک کہ طاقت مانگنے کے لئے وہ منہ سے ان شاء اللہ بھی نہیں نکالتے اُن کے پیرو مت بن جاؤ۔ خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں۔ نہیں بلکہ یکدفعہ گریں گی۔ اوراحتمال ہے کہ اُن سے کئی خون بھی ہو جائیں۔ اسی طرح تمہاری تدابیر بغیر خدا کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں اگر تم اس سے مدد نہیں مانگو گے اور اس سے طاقت مانگنا اپنا اصول نہیں ٹھہراؤ گے تو تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ آخر بڑی حسرت سے مرو گے ۔یہ مت خیال کرو کہ پھر دوسری قومیں کیونکر کامیاب ہو رہی ہیں حالانکہ وہ اُس خدا کو جانتی بھی نہیں جو تمہارا کامل اور قادر خدا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کے امتحان میں ڈالی گئی ہیں خدا کا امتحان کبھی اس رنگ میں ہوتا ہے کہ جو شخص اُسے چھوڑتا ہے اور دنیا کی مستیوں اور لذتوں سے دل لگاتا ہے اور دنیا کی دولتوں کا خواہشمند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اس پر کھولےجاتے ہیں اور دین کے رو سے وہ نرامفلس اور ننگا ہوتا ہے اور آخر دنیا کے خیالات میں ہی مرتا اور ابدی جہنم میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی اس رنگ میں بھی امتحان ہوتا ہے کہ دنیا سے بھی نامُراد رکھا جاتا ہے مگر مؤخرالذکر امتحان ایسا خطرناک نہیں جیسا کہ پہلا کیونکہ پہلے امتحان والا زیادہ مغرور ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں فریق مغضوب علیھم ہیں۔ سچی خوش حالی کا سر چشمہ خدا ہے پس جبکہ اس حیّ وقیّوم خدا سے یہ لوگ بے خبر ہیں بلکہ لاپروا ہیں اور اس سے منہ پھیر رہے ہیں تو سچی خوشحالی اُن کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے مبارکی ہو اُس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا۔ اسی طرح تمہیں چاہئے کہ اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنی کلام میں سکھلایا ہے ہلاک ہوگئے وہ لوگ جو اس دنیوی فلسفہ کے عاشق ہیں اور کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے سچے علم اور فلسفہ کو خدا کی کتاب میں ڈھونڈا۔ نادانی کی راہیں کیوں اختیار کرتے ہو کیا تم خدا کو وہ باتیں سکھلاؤ گے جو اُسے معلوم نہیں۔ کیا تم اندھوں کے پیچھے دوڑتے ہو کہ وہ تمہیں راہ دکھلاویں۔ اے نادانو! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گابلکہ سچا فلسفہ روح القدس سے حاصل ہوتا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے تم روح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اُسے پاؤ گے۔ تب سمجھو گے کہ یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچا دیتا ہے وہ جو خود مُردار خوار ہے وہ کہاں سے تمہارے لئے پاک غذالائے گا۔ وہ جو خوداندھا ہے وہ کیونکر تمہیں دکھاوے گا ۔ہر ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے پس تم زمینی لوگوں سے کیا ڈھونڈتے ہو جن کی روحیں آسمان کی طرف جاتی ہیں وہی حکمت کے وارث ہیں جن کو خود تسلی نہیں وہ کیونکر تمہیں تسلی دے سکتے ہیں مگر پہلے دلی پاکیزگی ضروری ہے پہلے صدق و صفا ضروری ہے پھر بعد اس کے یہ سب کچھ تمہیں ملے گا۔یہ خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے٭اور روح القدس اب اُتر نہیں سکتا بلکہ پہلے زمانوں میں ہی اُتر چکا۔ اور میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اُترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو تم اُس آفتاب سے خود اپنے تئیں دُور ڈالتے ہو جبکہ اُس شعاع کے داخل ہونے کی کھڑکی کو بند کرتے ہو ۔ اے نادان اٹھ اور اس کھڑکی کو کھول دے تبؔ آفتاب خودبخود تیرے اندر داخل ہو جائے گا جبکہ خدا نے دنیا کے فیضوں کی راہیں اس زمانہ میں تم پر بند نہیں کیں بلکہ زیادہ کیں تو کیا تمہارا ظن ہے کہ آسمان کے فیوض کی راہیں جن کی اس وقت تمہیں بہت ضرورت تھی وہ تم پر اُس نے بند کر دی ہیں ہرگز نہیں بلکہ بہت صفائی سے وہ دروازہ کھولا گیا ہے۔ اب جب کہ خدا نے اپنی تعلیم کے موافق جو سورہ فاتحہ میں سکھلائی گئی گذشتہ تمام نعمتوں کا تم پر دروازہ کھول دیا ہے تو تم کیوں ان کے لینے سے انکار کرتے ہو اس چشمہ کے پیاسے بنو کہ پانی خود بخود آجائے گا اس دو دھ کے لئے تم بچہ کی طرح رونا شروع کرو کہ دودھ پستان سے خود بخود اُتر آئے گا۔ رحم کے لایق بنوتا تم پر رحم کیا جائے اضطراب دکھلاؤ تا تسلی پاؤ بار بار چلّاؤتا ایک ہاتھ تمہیں پکڑ لے کیا ہی دشوار گزار وہ راہ ہے جو خدا کی راہ ہے ۔ پراُن کے لئے آسان کی جاتی ہے جو مرنے کی نیت سے اس اتھاہ گڑھے میں پڑتے ہیں وہ اپنے دلوں میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہمیں آگ منظور ہے ہم اس میں اپنے محبوب کے لئے جلیں گے پھر وہ آگ میں اپنے تئیں ڈال دیتے ہیں پس کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بہشت ہے ،یہی ہے جو خدانے فرمایا وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا یعنی اے بُرو اور اے نیکو! تم میں سے کوئی بھی نہیں جو جہنم کی آگ پر گذر نہ کرے مگر وہ جو خدا کے لئے اُس آگ میں پڑتے ہیں وہ نجات دئے جائیں گے لیکن وہ جو اپنے نفس امارہ کے لئے آگ پر چلتا ہے وہ آگ اُسے کھا جائے گی۔ پس مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بدبخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تاتم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے وقت تھوڑا ہے اور کار عمر ناپیدا تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو۔
میں نے سنا ہے کہ بعض تم سے حدیث کو بکلّی نہیں مانتے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ہیں میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو بلکہ میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے۔ جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا اسی طرح قرآن میں منع کیا گیاہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سَو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دردازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد ّ بر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں ….. قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔ ….. سو تم صدق اور راستی اور تقویٰ اور محبت ذاتیہ الٰہیہ میں ترقی کرو اور اپنا کام یہی سمجھو جب تک زندگی ہے ….. تم خدمت اور عبادت میں لگے رہو تمہاری تمام کوشش اسی میں مصروف ہونی چاہئے کہ تم خدا کے تمام احکام کے پابند ہو جاؤ اور یقین میں ترقی چاہو نجات کے لئے نہ الہام نمائی کے لئے قرآن شریف نے تمہارے لئے بہت پاک احکام لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تم شرک سے بکلی پرہیز کرو کہ مشرک سرچشمہءِ نجات سے بے نصیب ہے۔ تم جھوٹ نہ بولو کہ جھوٹ بھی ایک حصہ شرک ہے …. دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے خدا اور رسول کی ذمہ داری کافرض صرف دو امر تھے اوروہ یہ کہ خدا نے قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کی کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا …….. ہم حدیث کو خادم قرآن اور خادم سنّت قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آقا کی شوکت خادموں کے ہونے سے بڑھتی ہے قرآن خدا کا قول ہے اور سنّت رسول اللہ کا فعل اور حدیث سنّت کے لئے ایک تائیدی گواہ ہے۔ نعوذ باللہ یہ کہنا غلط ہے کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے۔ حدیث جو ایک ظنی مرتبہ پر ہے قرآن کی ہرگز قاضی نہیں ہو سکتی صرف ثبوت مؤیّد کے رنگ میں ہے قرآن اور سنّت نے اصل کام سب کر دکھایا ہے اور حدیث صرف تائیدی گواہ ہے حدیث قرآن پر کیسے قاضی ہو سکتی ہے قرآن اور سنّت اُس زمانہ میں ہدایت کر رہے تھے جب کہ اس مصنوعی قاضی کا نام و نشان نہ تھا یہ مت کہو کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے بلکہ یہ کہو کہ حدیث قرآن اور سنّت کے لئے تائیدی گواہ ہے البتہ سنّت ایک ایسی چیز ہے جو قرآن کا منشاء ظاہر کرتی ہے اور سنّت سے وہ راہ مراد ہے جس راہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر صحابہ کو ڈال دیا تھا سنّت اُن باتوں کا نام نہیں ہے جو سَو ڈیڑھ سَو برس بعد کتابوں میں لکھی گئیں بلکہ ان باتوں کا نام حدیث ہے اور سنّت اس عملی نمونہ کا نام ہے جو نیک مسلمانوں کی عملی حالت میں ابتدا سے چلا آیا ہے جس پر ہزار ہا مسلمانوں کو لگایا گیا۔ ہاں حدیث بھی اگرچہ اکثر حصہ اُس کا ظن کے مرتبہ پر ہے مگر بشرط عدم تعارض قرآن و سنّت تمسک کے لائق ہے اور مؤیّد قرآن و سنّت ہے اور بہت سے اسلامی مسائل کا ذخیرہ اس کے اندر موجود ہے پس حدیث کا قدر نہ کرنا گویا ایک عضو اسلام کا کاٹ دینا ہے ہاں اگر ایک ایسی حدیث ہو جو قرآن اور سنّت کے نقیض ہو اور نیز ایسی حدیث کی نقیض ہو جو قرآن کے مطابق ہے یا مثلاً ایک ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالف ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہوگی کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اور اُن تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں ردّ کرنا پڑتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کوئی پرہیز گار اس پر جرأت نہیں کرے گا کہ ایسی حدیث پر عقیدہ رکھے کہ وہ قرآن اور سنّت کے برخلاف اور ایسی حدیثوں کے مخالف ہے جو قرآن کے مطابق ہیں بہرحال احادیث کا قدر کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اور جب تک قرآن اور سنّت ان کی تکذیب نہ کرے تم بھی ان کی تکذیب نہ کرو بلکہ چاہئے کہ احادیث نبویہ پر ایسے کاربند ہو کہ کوئی حرکت نہ کرو اور نہ کوئی سکون اور نہ کوئی فعل کرو اور نہ ترک فعل۔۔۔۔
اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے۔ یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیریقینی تجلّی کے رُک سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پا سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو۔ کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفّارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کراسکے ….. پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آ سکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہوگا۔ گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش افشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہےیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اُس سے تعلق توڑ سکو۔
اے وے لوگو! جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقیناًسمجھو کہ خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہوگی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہؔ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یاد رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہرگز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بَن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بَن کی طرف اُٹھ سکتا ہے۔ سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا۔ یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے۔ یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے ہر ایک کفّارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے۔ اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتاوہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جس میں بجز پرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے۔ خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اُس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی۔ جس طرح انسان نفسانی لذّات کا سامان دیکھ کر اُن کی طرف کھینچا جاتاہے اِسی طرح انسان جب روحانی لذّات یقین کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کا حسن اس کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ دوسری تمام چیزیں اُس کو سراسر ردّی دکھائی دیتی ہیں اور انسان اُسی وقت گناہ سے مَخلصی پاتا ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے جبروت اور جزا سزا پر یقینی طور پر اطلاع پاتا ہے ہر ایک بیباکی کی جڑھ بے خبری ہے جو شخص خدا کی یقینی معرفت سے کوئی حصہ لیتا ہے وہ بیباک نہیں رہ سکتا۔ اگر گھر کا مالک جانتا ہے کہ ایک پُر زور سیلاب نے اس کے گھر کی طرف رخ کیا ہے اور یا اس کے گھر کے اِردگرد آگ لگ چکی ہے اور صرف ایک ذرہ سی جگہ باقی ہے تو وہ اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا۔ تو پھر تم خدا کی جزاسزا کے یقین کا دعویٰ کر کے کیونکر اپنی خطرناک حالتوں پر ٹھہر رہے ہو سو تم آنکھیں کھولو اور خدا کے اُس قانون کو دیکھو جو تمام دنیا میں پایا جاتا ہے چوہے مت بنو جو نیچے کی طرف جاتے ہیں بلکہ بلند پرواز کبوتر بنو جو آسمان کے فضا کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ تم توبہ کی بیعت کر کے پھر گناہ پر قائم نہ رہو اور سانپ کی طرح مت بنو جو کھال اُتار کر پھر بھی سانپ ہی رہتا ہے موت کو یاد رکھو کہ وہ تمہارے نزدیک آتی جاتی ہے اور تم اُس سے بے خبر ہو۔ کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے مگر تم اس نعمت کو کیونکر پا سکو اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو۔ پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے۔ (1) پہلے جب کہ تم مطّلع کئےجاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلّی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔
(2) دوسرا تغیر اُس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو مثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی۔
(3) تیسرا تغیر تم پر اُس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلّی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو۔ سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے۔
(4) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے۔
(5) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اُس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچؔ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظلّ ہیں۔ نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء و قدر تمہارے لئے لائے گا پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے۔
(روحانی خزائن جلد19 صفحہ22 تا 70)
(ابوسعید)
(باقی آئندہ ان شاء اللہ)