• 6 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

دعاؤں سے بھرا دن اور ایک پرانی یاد

جاپان اگرچہ نو گھنٹے یوکے سے آگے ہے تو ایسا ہو ا کہ ہم نے ایک پورے دن کی پنجوقتہ نمازیں جہاز میں ادا کیں۔ ہم سب نے اپنی اپنی (انفرادی) نمازیں اپنی نشستوں پر ادا کیں۔ شروع (سفر) میں ہم نے نمازِ ظہر اور عصر ادا کیں پھر بعد میں نمازِ مغرب و عشاء ادا کیں اور پھر جہاز سے اترنے سے قبل نمازِ فجر ادا کی۔

جب ہم نے اڑان بھری تو مجھے یاد ہے کہ کس طرح 2013ء میں جب ہم Los Angeles اور مغربی کینیڈا کے دورے سے لندن واپس آ رہے تھے تو مجھے حضور انور کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا، واپسی کی اس فلائٹ پر جو پوری رات پرممتد فلائٹ تھی۔

رات کے اکثر حصہ میں حضور انور دعاؤں (نماز) اور تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہے۔ حضور انور نے ٹی وی دیکھنا پسند نہ کیا۔ اگرچہ گاہے بگاہے Moving Map ملاحظہ فرماتے رہے۔ حضور انور نے کچھ پڑھنے کے لئے مواد ہمراہ رکھا ہوا تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ Review of religions کے جدید ترین مسودے کو پڑھنے میں کچھ وقت صرف کیا۔

پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ پکڑنا

ایک نوجوان احمدی لڑکے نے حضور انور کی خدمت میں پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کیا جو حضور انور نے احمد بھائی کو تھما دیا۔ میں کیونکہ ان کے بہت قریب تھا، احمد بھائی نے وہ پھول مجھے پکڑا دئیے اور ہدایت دی کہ انہیں پکڑے رکھوں جب تک ہم ہو ٹل میں جہاں ہماری رہائش ہے، نہیں پہنچ جاتے۔

حضور انور، خالہ سبوحی اور چند قافلہ کے افراد لفٹ میں داخل ہوئے اور مجھے دیکھنے پر خالہ سبوحی نے مجھ سے پوچھا کہ فلائٹ کیسی رہی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں سو نہیں سکا اس لئے فلائٹ بہت زیادہ آہستہ رفتار میں (پرواز بھرتی) معلوم ہوئی۔

مجھے پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ پکڑے دیکھ کہ حضور انور نے تبسم فرمایا اور فرمایا:
’’اتنا بڑا پھولوں کا گلدستہ اگر کسی کو ملا ہو تو خوشی اور فرحت سے نیند نہیں آتی۔‘‘

لفٹ میں موجود جملہ احباب حضور انور کے لطیفہ سے خوب محظوظ ہوئے۔

حضور انور توحید کا پیغام پھیلاتے ہوئے

بعد ازاں حضور انور کو اس مقبرہ کے مین حصہ میں لے جایا گیا جہاں وائس چیف پریسٹ Shigehiro Miyazaki نے آپ کا ستقبال کیا جن کی پورے جاپان میں بہت عزت و تکریم کی جاتی ہے۔ انہوں نےحضور انور کی میزبانی کا موقع ملنے کو بہت بڑی سعادت اور باعثِ شرف قراد دیا۔

محترم وائس چیف پریسٹ نے حضور انور کو مین عبادت گاہ کا حصہ دکھایا اور جنگل بھی دکھایا اور مقبرہ کی ہریالی بھی دکھائی۔ انہوں نے بتایا کہ شنٹو عقائد کے مطابق نیچر خدا تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔

(شنٹو احباب) قدرتی وسائل جیسے پانی، درخت اور ہوا کو خدا مانتے ہیں اور کسی حد تک ان عناصر کو kami نامی خدا کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ یہ سننے پر حضور انور نے فرمایا:
’’خدا کی بنائی ہوئی قدرتی خوبصورتی اور ہریالی کو دیکھ کر یہ ہمیں ایک خدا کی بڑائی کی طرف توجہ دلاتی ہیں، جو پوری کائنات کا رب ہے۔ جملہ قدرتی عناصر اور مناظر اس کی پیشی کا ثبوت ہیں۔‘‘

بعد ازاں حضور انور کو ایک لکڑی کے چھوٹے سے ٹکڑے پر کچھ تحریر فرمانے کی درخواست کی گئی جس کو دیگر مہمانان کے میسجز کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔

اپنے پیغام میں حضور انور نے مکرر خدا کی واحدانیت کی وضاحت فرمائی اور یہ بھی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جملہ قدرتی اشیاء کا منبع ہے۔ جہاں آپ نے سورۃ نور کے حوالہ سے تحریر فرمایا کہ آیت36 میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ’’اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے۔‘‘

Emperor Meiji کے بارے میں حضور انور نے تحریر فرمایا کہ:
’’اللہ Emperor Meiji کو ملک اور پوری دنیا کےلئے امن عامہ کے لئےلکھے گئے کاموں کی وجہ سے بہترین جزا عطا فرمائے۔‘‘

حضور انور کی حسِ مزاح کی ایک مثال

اس شام نماز مغرب و عشاء ہوٹل میں ایک میٹنگ روم میں ادا کی گئیں۔ نمازیں ادا کرنے کے بعد حضور انور لفٹ کے منتظر تھے اور اس دوران آ پ نے ایک واقعہ بیان فرمایا جبکہ حاضرین میں آپ کے سکیورٹی گارڈز، مکرم منیر جاوید صاحب اور خاکسار شامل تھے۔ ایسا ہوا کہ حضور انور نے ہمایوں صاحب کا واقعہ سنایا جو خاکسار نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا جو حضور انور کے دورہ ہالینڈ اور جرمنی کے بارے میں تھی جو اکتوبر میں ہوا تھا۔

میں نے لکھا تھا کہ کس طرح جرمنی میں ہمایوں صاحب ہماری اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے جبکہ منیر جاوید صاحب اور خاکسار پچھلی سیٹ پر تھے۔ ہمارے ڈرائیور مکرم ناصر امینی صاحب نے (ہمایوں صاحب سے) پوچھا کہ (سامنے سے) کوئی گاڑی تو نہیں آ رہی۔ جس پر ہمایوں صاحب نے پورے اعتماد سے کہا کہ نہیں۔ تو ناصر صاحب نے گاڑی سائیڈ سے آگے نکالنی چاہی اس خیال سے کہ راستہ صاف ہے۔ اور ہم ایک بہت بڑے ٹریکٹر سے حادثہ میں بال بال بچ گئے۔اس پر ہمایوں صاحب نے کہا کہ آپ نے گاڑی کاپوچھا تھامگر یہ تو ٹریکٹر تھا۔اس واقعہ کو حضور انور نے ہمایوں صاحب کی موجودگی میں بھی سنایا جبکہ حضور تبسم فرما رہےتھےاور لطف اندو زہو رہے تھے۔ جب ہم لفٹ میں داخل ہوئے تو حضور انور نے میرا بازو پکڑ کر مجھے پاس کیا اور فرمایا ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمایوں کو تمہارے ساتھ کوئی دشمنی ہے لیکن ہو سکتا ہے منیر جاوید (صاحب) سے ہو۔‘‘

ہم سب نے قہقہہ لگایا یہ جانتے ہوئے کہ سکیورٹی ٹیم پرائیویٹ سیکریٹری صاحب (منیر جاوید صاحب) کو رپورٹ کرتی ہے۔ دونوں ہمایوں صاحب اور منیر صاحب بھی خوب محظوظ ہوئے۔

یہ ایک نہایت مشفقانہ لمحہ تھا اور اس بات کی مثال تھی کہ کس طرح حضور انور اپنی محبت اور حس مزاح سے اپنے ساتھ سفر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتےہیں۔

Tokyo ٹرین اسٹیشن پر
حضور انور کے ساتھ چہل قدمی

18 نومبر کی صبح حضور انور اور دیگر قافلہ کے ممبران نے بلٹ ٹرین کے ذریعہ Tokyo سے Nagoya کا سفر اختیار کیا۔ جہاں جاپان میں ہمارے مرکزی ہیڈکوارٹرز ہیں۔

ہم Tokyo ٹرین اسٹیشن پر صبح 10 بج کر35 منٹ پر پہنچے لیکن ہماری ٹرین11 بج کر27 منٹ پر آئی۔ جس دوران خالہ سبوحی انتظار گاہ میں تشریف فرما تھیں اور حضور انور اسٹیشن کے اندر چہل قدمی فرماتے رہے۔ حضور انور نے ایک سیاہ اچکن زیب تَن کی ہوئی تھی اور بہت وجیہہ لگ رہے تھے۔ چہل قدمی کے دوران حضور انور نے مجھے پاس بلایا اور یوں اگلے 20 منٹ خاکسار آپ کے ساتھ چہل قدمی کرتا رہا۔

ایک موقع پر حضور انور نے نوجوان جاپانی سکول کے بچوں کو ٹرین اسٹیشن عبور کرتے دیکھا۔ انہیں دیکھنے پر حضور انور نے فرمایا کہ وہ نہایت اطمینان سے اور جوڑا جوڑا بن کر دلکش انداز سے چل رہے ہیں، ایک کے بعد دوسرا۔ حضور انور نے فرمایا کہ انہوں نے بھگدڑ نہیں مچائی ہوئی لیکن نہایت اچھے اور مہذب انداز میں چل رہے ہیں۔ نیز فرمایا کہ نوجوان جاپانی بھی نہایت اعلی اخلاق کے مالک ہیں۔

اس گروپ کے پیچھے چند نوجوان اسکول کی لڑکیاں بھی تھیں جو لڑکوں کے پیچھے چل رہی تھیں اس منظر کو مشاہد ہ کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا:
’’اگر یہ مسلمان ہوتے تو لوگ کہتے کہ یہ مسلمان لڑکیوں کو ادنٰی سمجھتے ہیں اور انہیں لڑکوں کے پیچھے چلنے کا کہتے ہیں۔ لیکن یہاں جاپان میں اسے بالکل نارمل تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

میں نے عرض کی کہ چند دیگر احباب نے بھی اکتوبر میں ہالینڈا ور جرمنی کی ڈائری پڑھی ہے۔ جس پر حضور انور نے فرمایا:
’’اس ڈائری میں تم نے لکھا تھا کہ میں نے قصر (نماز) ادا نہیں کی جس دوران میں ہالینڈ میں تھا، تاہم تم نے یہ نہیں لکھا کہ میں نے جرمنی میں اپنے پانچ روزہ قیام کے دوران قصر (نمازیں) ادا کی تھیں۔‘‘

حضور انور نے بجا فرمایا تھا۔ میں اس حصہ کو شامل کرنا بھول گیا تھا کہ جس دوران ہالینڈ میں قیام کے دوران حضور انور نے قصر (نمازیں) ادا نہیں فرمائیں جبکہ آپ جرمنی اور جاپان میں قصر ادا فرماتے رہے۔

میں نے یہ بھی عرض کیا کہ جرمنی میں خاکسار نے مکرم مرزا کریم احمد صاحب کا انٹرویو بھی کیا تھا لیکن اس وقت مجھے یہ علم نہ تھا کہ وہ خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ہیں۔

اس پر حضور نے مجھے بازو سے پکڑا اور فرمایا:
’’میں نے دیکھا تھا کہ تم نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ میرے رشتہ دار ہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ شاید تم نے کسی مصلحت کے تحت ایسا نہ کیا ہو۔‘‘ نیز فرمایا:
’’کریم (صاحب) میرے فرسٹ کزن ہیں اور تمہاری خوش دامن (کوکو) صاحبہ کے بھی فرسٹ کزن ہیں۔‘‘

حضور انور سے یہ سن کر میں خوب ہنسا کہ جرمنی میں جس دوست کا میں نے انٹرویو کیا تھا وہ میری خوش دامن صاحبہ (امتہ الکریم کوکب) کے قریبی رشتہ دار تھے اور نہ مجھے ان کا تعارف تھا اور نہ انہیں میرا تعارف تھا۔

حضور انور نے میرے سے یہ بھی استفسار فرمایا کہ کیا گزشتہ شام میں دس مختلف ڈِشوں والے ڈنر سے لطف اندوز ہوا تھا۔ جس پر میں نے عرض کی کہ میں خوب لطف اندوز ہوا تھا۔ حضور انور نے مزید فرمایا:
’’میں نے اپنے میزبان Dr: Sata کو بتایا ہے کہ اگلی مرتبہ جب وہ لندن آئیں گے تو مجھے ان کے اعزاز میں بارہ مختلف ڈشوں والا ڈنر دینا ہو گا۔‘‘

اس پر میں خوب محظوظ ہوا لیکن حضور انور کے تبصرہ سے یہ حقیقت عیاں تھی کہ آپ کس قدر عاجز اور اپنے میزبان کی مہمان نوازی سے بڑھ کر اس کی مہمان نوازی کرنے والے ہیں۔

خالہ سبوحی کے لئے حضور انور کی تکریم اور خیال رکھنا

ایک موقع پر حضور انور نے احمد بھائی کو بلایا اور استفسار فرمایا کہ پلیٹ فارم کا راستہ کتنی دوری پر ہے۔ احمد بھائی نے بتایا کہ دو راستے ہیں۔ اس پر حضور انور نے انہیں دونوں راستوں کی پیمائش کرنے کا ارشاد فرمایا نیز فرمایا کہ ہم سب سے چھوٹا راستہ لیں گے تاکہ خالہ سبوحی کو کم سے کم چلنا پڑے۔

اپنی اہلیہ کےلئے حضور انور کی تکریم اور خیال رکھنا نہایت عیاں ہے اور یہ اس کی ایک اور مثال تھی۔ گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے خالہ سبوحی کے لئے لمبے عرصہ کےلئے چلنا مشکل ہے اس لئے حضور انور ہمیشہ خیال رکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا راستہ اختیار کیا جائے۔ جب دونوں اکٹھے چل رہے ہوں تو حضور انور ہمیشہ اپنی رفتار کم کر لیتے ہیں تاکہ آپ خالہ سبوحی کے ساتھ یا ان کے ذرا پیچھے چل سکیں۔

جب میں یہ دیکھتا ہوں تو مجھے چند سال قبل کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے جب مالہ اور میں مسجد فضل لندن کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے۔ حضور انور نے ہم دونوں اکٹھے چلتے دیکھا اور بعد ازاں مجھے مخاطب ہو کے فرمایا:
’’میں نے اپنی کھڑکی سے تمہیں اور مالہ کو چلتے دیکھا تھا لیکن تم اس سے آگے چل رہے تھے بجائے اس کے ساتھ چلنے کے، جیساکہ تمہیں چلنا چاہئے تھا۔ اگر وہ کچھ آہستہ چلتی ہے تو تمہیں بھی آہستہ چلنا چاہئے۔‘‘

چند احمدی احباب کے جذبات کی عکاسی

اس شام حضور انور جب مسجد میں تشریف لائے تو فیملی ملاقاتوں کا آغاز فرمایا۔ جیساکہ کئی احمدی احباب دیگر ممالک سے سفر کر کے آئے تھے خاص طور پر انڈونیشیا اور ملائیشیا سے۔ صرف جاپان کے احمدی احباب کو حضور انور سے ملاقات کی سعادت نہیں مل رہی تھی بلکہ دیگر ممالک کے احمدی احباب بھی یہ سعادت پا رہے تھے۔

جب حضور انور احمدی احباب سے ملاقات فرماتے ہیں تو میں چند ایسے احمدیوں سے خود ملاقات کرتا ہوں اور ان کے اس تجربہ کی روداد سنتا ہوں۔

ایک احمدی دوست جس کو میں ملا وہ ایک نوجوان احمدی دوست تھے جن کا نام منیب احمد شاہ بعمر 21 سال تھا اور ان کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ اپنے سفر کے بارے میں منیب صاحب نے بتایا کہ مجھے یہاں آنے کے لئے چھ گھنٹے کی فلائیٹ لینی پڑی اور میرا مقصد تھا کہ حضور انور سے ملاقات ہو سکے۔ دراصل مجھے یہاں آنے کےلئے اپنی جاب سے استعفیٰ دینا پڑالیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حضور انور کو دیکھنے کی برکت سے مجھے واپسی پر اس سے بہتر نوکری مل جائے گی۔

بعد ازاں میری ملاقات انڈونیشیا کے ایک بہت ہنس مکھ اور ملنسار دوست مکرم عبدالکافی بعمر64سال سے ہوئی۔ دوران ملاقات وہ مسکراتے رہے اور ہنستے رہےاور یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ کس قدر خوش ہیں کیونکہ انہیں کئی سال کے بعد حضور انور سے ملاقات کی سعادت ملی تھی۔ مکرم عبدالکافی صاحب نے بتایا کہ:
’’جب بھی میں حضور انور سے ملاقات کرتا ہوں تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اور میں خوشی اور پریشانی کی درمیانی کیفیت میں ہوتا ہوں۔ میں عام طور پر بہت زیادہ بولتا ہوں۔ لیکن جب میں حضور انور کے سامنے ہوتا ہوں تو بولنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ میں آپ کی وجاہت اور حکمت سے بے حد متاثر ہوتا ہوں۔ ہمارے خلیفہ نہایت شفیق اور نرم خو ہیں اور آپ سے ملاقات کی سعادت اللہ کا خاص فضل ہے۔ کیونکہ آپ کو دیکھنے سے مجھے زیادہ بہتر رنگ میں احساس ہوتا ہے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘

میری ملاقت انڈونیشیا کے ایک احمدی دوست مکرم عبدالناصر صاحب بعمر 40 سال سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ:
’’میں نے 3000کلومیٹر کی مسافت طے کی ہے اور میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ میرا مقصد صرف حضور انور سے ملاقات ہے اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنا ہے۔ میری اور کوئی خواہش نہیں ہے۔ حضور انور سے ملاقات کے چند لمحات نے میری زندگی بدل دی۔ہم جو انڈونیشیا میں رہتے ہیں اپنے تئیں محروم سمجھتے ہیں کیونکہ حضور انور ہمارے ملک کا سفر اختیار نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم نہایت جوش و خروش سے دعا کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں تاکہ ہمارے خلیفہ ہمارے پاس تشریف لاسکیں۔‘‘

(حضور انور کا دورہٴ جاپان نومبر2015ء از ڈائری عابد خان)

(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی