حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’ آج دنیا اس قدر مادیت میں گھر چکی ہے کہ دین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دنیا کے عمومی اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں بیس پچیس فیصد سے زیادہ لوگ نہیں ہیں جو اپنے آپ کو دین سے منسوب کرتے ہیں اور جو دین سے منسوب کرتے بھی ہیں وہ بھی عملاً دین پر عمل کرنے والے نہیں ہیں۔ بڑی تیزی سے نہ صرف خدا تعالیٰ سے دور جا رہے ہیں بلکہ دین سے دور جا رہے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے وجود کے ہی انکاری ہیں۔ صرف اور صرف دنیا ان کا مطمح نظر ہے اور مسلم دنیا جو ہے اگر ہم اسے دیکھیں تو ان کی اکثریت بھی دینی تعلیم سے دور ہے، بدعات میں گھری ہوئی ہے۔ کہنے کو تو مسلمان ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی ایک موقعے پر فرمایا ہے کہ بڑے زور سے یہ کہتے ہیں کہ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں لیکن عمل نہیں ہیں۔ آپ علیہ السلام کے زمانے سے اگر آج کا مقابلہ اور موازنہ کیا جائے تو اَور بھی بری حالت ہو چکی ہے۔ اسلامی اخلاق اور تعلیمات سے دور جا چکے ہیں لیکن احمدیت کی مخالفت کا معاملہ آئے تو کٹ مرنے اور جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ پس جہاں اسلام ہے تو فقط احمدیت کی مخالفت کا نام اسلام ہے اور نام نہاد علماء جن کی اپنی زندگیاں ہی ہر قسم کے گند سے ملوث ہیں اور جس کا اظہار مختلف میڈیا کے ذرائع سے بھی ہوتا رہتا ہے وہ ان کے لیڈر ہیں۔ لیکن بہرحال ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس بات سے ضرور غرض ہے اور ہونی چاہیے کہ دنیا کو آگ میں گرنے سے بچائیں، دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے دکھائیں لیکن اس کے لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم اپنے آپ کو اس کے لیے تیار پاتے ہیں؟ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کے بعد اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا بنا رہی ہیں؟ کیا ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہیں یا ہم بھی باوجود اپنے آپ کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ منسوب کرنے کے دنیا کے لہو و لعب، کھیل کود اور دل بہلاووں اور بدعات کو دین پر ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل،29اکتوبر2019ء)