• 24 اپریل, 2024

ترتیبِ نماز

فقہ کیا کہتا ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر عصر کی نماز ہور ہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہوتوآیا وہ امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور ظہر کی نماز بعد میں پڑھ لے یا پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو؟

جواباً فرمایا:۔’’میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے سنا ہے کہ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہواور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہو۔یا عشاء کی نماز ہو رہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی تھی۔اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔یا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔

جمع بین الصلوتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جبکہ نماز ہو رہی ہو،تو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔اسی طرح اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز کو علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔

ایسی صورت میں وہی نماز اس کی ہو جائے گی ۔بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔مثلاً اگر عشاء کی نماز ہو رہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجد میں آ جاتا ہے جس نے مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز ہو رہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہو جائے گی ،مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے یہی صورت عصرکے متعلق ہے۔

اس موقعہ پر عرض کیا گیا کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز ہی نہیں پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ظہر کی نماز اس کے لئے کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟

حضور نے فرمایا: ۔یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیں مگر اس کایہ مطلب تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصرکی نماز کے بعد جائز ہوگی۔

میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ سنا ہے اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ سنا ہے۔مجھے یا د ہے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق وضاحت کر چکا ہوں کہ ترتیب نماز ضروری چیز ہے۔لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ امام کونسی نماز پڑھا رہا ہے،عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے ،تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے،جو امام کی نماز ہو گی وہی اس کی نماز ہو جائیگی۔بعدمیں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔

مولوی محمد الدین صاحب کی اس بارہ میں جو روایت شائع ہوئی ہے یا تو غلط فہمی پر مبنی ہے یا کسی اور سے انہوں نے سنا ہے اور ذہن میں رہ گیا کہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلاۃو السلام سے سنا ہے۔

میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے دودفعہ یہ سوال کیا گیا ،اور دونوں دفعہ آپ ؑنے یہی جواب دیا کہ بعد میں آنے والے کو اگر علم ہوجاتا ہے کہ کونسی نماز پڑھی جارہی ہے تو ترتیب نماز کو مقدم رکھتے ہوئے وہ مثلاً ظہر یا مغرب کی نماز پہلے پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہوسکے تو جو امام کی نماز ہوگی وہی اس کی ہوجائے گی۔بعد میں وہ ظہر یا مغرب کی نماز پڑھے گا۔اور یہی ترتیب حقیقی ترتیب ہے۔محمد رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب اوّل ہے اور امام مؤخر۔جب علم ہو تو شرعی ترتیب کو مقدم رکھنا چاہئے۔جب علم نہ ہو تو پھر امام کا عمل مقدم ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو عدم علم کی صورت میں مقتدی حیران رہ جاتا کہ میں کیا کروں۔

(الفضل 27 جون 1948ء /فرمودہ14 جون 1948 بمقام کوئٹہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20دسمبر2019