قرآن کریم میں بہت سی ایسی پیشگوئیاںاور علوم بیان ہوئے ہیں جو آج کے زمانہ میں پوری ہوئیں اور موجودہ سائنسی تحقیقات ان کے پورے ہونے پر گواہی دیتی ہیں۔ اس مضمون میں ان چند پیشگوئیوں اور علوم کا ذکر کیا جائے گا جو اظھر من الشمس ہیں۔
1۔ایٹمی تباہیکی پیشگوئی اس زمانہ میں کی گئی جب ایٹمی دھماکے کا تصور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا جائے گا قرآن کریم کی بعض آیات میں بڑی صراحت کے ساتھ ایسے باریک ذرات کا ذکر ملتا ہے جو بے انتہا توانائی کا منبع ہیں گویا کہ اپنے اندر جہنم کی آگ سمیٹے ہوئے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ ﴿۲﴾ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ﴿۳﴾ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخْلَدَہٗ﴿۴﴾ کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ ﴿۵﴾ وَ مَاۤ اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ ﴿۶﴾ نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ ﴿۷﴾ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْـِٕدَۃِ ﴿۸﴾ اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌ ﴿۹﴾ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ﴿۱۰﴾
(الہمزہ:2تا10)
ترجمہ: ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جو کے لئے۔ جس نے مال جمع کیا اور اس کا شمار ہی کرتا رہا۔وہ گمان کیا کرتا تھا کہ اس کا مال اسے دوام بخش دے گا۔خبردار!وہ ضرور حطمہ میں گرا دیا جائے گااور تجھے کیا معلوم کہ حطمہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی آگ ہے بھڑکائی ہوئی جو دلوں پر لپکے گی ۔یقیناً وہ ان کے خلاف بندرکھی گئی ہے۔ ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے کئے گئے ہیں۔
حطمہ سے مراد وہ مہین اور باریک ترین ذرات ہیں جو ایک نیم روشن کمرے میں سے گزرتی ہوئی روشنی کی شعاع میں تیرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ مستند عربی لغات میں حطمہ کے دو بنیادی معانی پائے جاتے ہیں۔ ایک حطمہ ہے جس کا مطلب کسی چیز کو پیسنا یا ریزہ ریزہ کرنا ہے ۔دوسرا حطمہ جس کےمعنے بے حقیقت سے چھوٹے ذرات کے ہیں۔ گویا حطمہ کسی چیز کو اس کے باریک ترین ذرات میں توڑنے کو کہتے ہیں۔
جب سے انسان نے ایٹم کا پوشیدہ راز دریافت کر کے اس میں موجود بے انتہا توانائی سے آگہی حاصل کی ہے یہ بات قابل فہم ہوگئی ہے کہ یہی وہ دور ہے جب باریک ترین ذرات میں چھپی ہوئی آگ باہر نکل کر ہزار ہا مربع میل علاقہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
جب تک سائنسی لحاظ سے یہ معلوم نہ ہو کہ ایٹمی دھماکہ کس طرح ہوتا ہے اور جوہری کمیت میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں قرآن کریم میں مذکور لمبے ستونوں کے معنی مکمل طورپر سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ پھٹنے سے قبل جو ہری کمیت کی کیفیت کو ایٹمی ماہرین اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے کوئی چیز اپنے اندر بے انتہا دباؤ کی وجہ سے پھٹ پڑنے والی ہو۔ یہ دباؤ ایٹم کے مرکز کے پھٹنے سے قبل اس کے پھینکنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس عمل میں ایک بڑے ایٹمی وزن والا عنصر کم ایٹمی وزن والے دوعناصر میں تقسیم ہو جاتاہے۔ اس عمل میں ایٹمی وزن کا جو معمولی سا حصہ ضائع ہوتا ہے وہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ایٹمی دھماکہ کے وقت گاما ریز نیوٹرانز اور ایکس ریز کی ایک بہت بڑی تعداد خارج ہوتی ہے ۔ ایکس ریز درجہ حرارت کو فور ی طورپر بے انتہا بڑھا دیتی ہیں۔ نتیجۃً آگ کا ایک بڑا سا گولہ بنتا ہے جو انتہائی گرم ہواؤں کے دوش پر تیزی سے بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔یہ بہت بڑی کھمبی نما آگ کی چھتری میلوں دور سے نظر آتی ہے۔
گاما ریز جو اس عمل کے دوران خارج ہوتی ہیں یہ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ان گرم لہروں کو مات دے دیتی ہیں۔یہ بے حد مرتعش ہوتی ہیں اور اسی ارتعاش کی وجہ سے دلوں کی حرکت کو بند کر دیتی ہیں جیسا کہ فرمایا اَلَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الأَفْئِدَةِ (الہمزہ:8) یعنی جو دلوں پر لپکے گی۔اس لئے فوری موت ایکس ریز سے پیدا ہونے والی حرارت کی بجائے گاما ریز کی شدید توانائی کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔ایٹم میں دو طرح کے عمل ہوتے ہیں ہائیڈروجن ایٹم میں Fusion Reaction عمل میں آتا ہے اور Uranium میں Fission Reaction عمل میں آتا ہے۔ Fission Reaction میں ایک زنجیر بنتی چلی جاتی ہے۔ کہ جب نیوٹرانز کی بوچھاڑ یورینیم پر کی جاتی ہے تو یہ یورینیم کا ایک ذرہ آگے مزید دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر جب نیوٹرانز ان دو ذروں پر پڑتے ہیں جن کو Daughter Element کہہ سکتے ہیں تو یہ دو Elements مزید چار Elements میں تقسیم ہو جائیں گے۔ جیسے جیسے یہ element یورینیم کا ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ اس سے گاما ریز اور ایکس ریز نکلتی چلی جاتی ہیں او راس کا کچھ حصہ انرجی میں تبدیل ہو جاتا ہے جو Heat کی صورت میں ہوتا ہے یہی آئن سٹائن کا نظریہ ہے کہ E=mc2 کہ آپ mass کو توانائی (Energy)میں تبدیل کر سکتے ہیں جیسا کہ جب یورینیم کے substance مزید ٹوٹتے چلے جاتے ہیں تو توانائی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ان ذرّات کے ٹوٹنے سے جو عمل وقوع پذیر ہوتا ہے اسے Fission chain reaction کہتے ہیں اور یہ وہی ذرات ہیں جنہیں پہلے حطمہ بتایا گیا ہے۔
دھماکہ کے 37 سیکنڈ کے بعد اس ایٹم کے پھٹنے کے نتیجے میں جو دھواں پیدا ہوتا ہے اس کی اونچائی 3 میل ہوتی ہے اور 10 منٹ بعد اس کے دھواں کی اونچائی 12 میل ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس سے نکلنے والی Heat جسموں کو پگھلا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ دھماکہ کی جگہ سے 2 میل کے فاصلے پر موجود ہیں تو آپ کے بچنے کے امکانات ہو سکتے ہیں وہ بھی اسی صورت میں کہ آپ کسی تہہ خانہ میں موجود ہوں جو کپڑے آپ نے پہنے ہوں وہ فوراً تبدیل کریں کیونکہ ان میں تابکاری شعائیں داخل ہوئی ہوتی ہیں زیادہ وقت ان حالات میں سونے میں گزاریں ممکن ہے کہ آپ کو بہت تیز بخار ہو جو دوائی پاس ہو استعمال کریں اور باہر ہرگز نہ نکلیں۔ کیونکہ ہوا میں موجود تابکاری مدار آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
2۔ وَ خَلَقْنَاکُمْ اَزْوَاجًا ترجمہ: اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔خدا تعالیٰ نے ہر ایک چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے اور اس سے ثابت ہے کہ ہر ایک چیز دوسری چیز کی محتاج ہے سوائے خداتعالیٰ کے۔ ہم باریک ترین نظر سے بھی تحقیق کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایٹمز بھی آپس میں جوڑے بنا کر رہتے ہیں ۔ایٹمز کا بھی اکیلے رہنا محال ہے انہیں بھی کسی دوسرے ایٹم کے ساتھ تعلق بنانا پڑتا ہے ۔ یعنی ایک Bond بنانا پڑتا ہے ۔ جس بھی ایٹم کا Valence Shell مکمل نہیں ہو گا یعنی اس میں موجود الیکٹرونز کی تعداد پوری نہیں ہوگی تو وہ ضرور کسی دوسرے ایٹم کے ساتھ جوڑا بنا کر اپنے Valence Shell کو پورا کرے گا۔ کسی بھی ایٹم کے دوسرے دائرے میں یعنی Shell میں 18 الیکٹرونز ہونے چاہیئں اگر کم ہوں تو ضرور اسے کسی دوسرے ایٹم کے ساتھ Bond بنانا پڑتا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ ہر چیز خدا تعالیٰ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کی ہے اور اس چیز کو آج سائنس Prove کر رہی ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ بات آج سے 1500 سال پہلے قرآن کریم میں بیان فرمادی۔
3۔بگ بینگ(Big Bang)کا نظریہ قرآن کریم نے سب سے پہلے پیش فرمایا۔
أَوَلَمْ يَرَالَّذِينَ كَفَرُواأَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَارَتْقًافَفَتَقْنَاهُمَا (الانبیاء :30)کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا۔
اب یہ ایسی علمی تحقیق کیا کوئی اور مذہب پیش کرتا ہے کہ وہ با ت کہ جو آج لوگو ں کے سامنے ظاہر ہوئی خدا تعالیٰ نے 1500 سال پہلے ہی قرآن کریم نے اسے بیان فرمایا ۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ (الانبیاء:104) جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔بلیک ہول اس وسیع و عریض مادہ کی منفی شکل ہے جو اپنی ہی کشش ثقل کے دباؤ کے زیر اثر سکڑ کر اپنا مادی وجودکھو بیٹھتا ہے۔ سورج سے تقریباً 15 گنا بڑے ستارے جب اپنا دور حیات ختم کر چکتے ہیں تو ان سے بلیک ہول کے بننے کا آغاز ہوتا ہے ان ستاروں کی کشش ثقل ان کے وجود کو سکیڑ کر چھوٹی سی جگہ پر سمیٹ لیتی ہے۔اس کشش ثقل کی شدت کی وجہ سے مادہ مزید سکڑ کر سپر نووا کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ اس کی اندرونی کشش ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں آسکتی۔
اوپر بیان کر دہ آیت میں خداتعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا کہ ایک دن یہ کائنات لپیٹ کر ایک بلیک ہول میں ڈالی جائے گی۔کیونکہ بلیک ہول سے ہی یہ دنیا نکلی اور قرآن کریم کے مطابق اور جدید سائنسی تحقیقات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ کائنات ایک بلیک ہول سے ہی نکلی اور اسی میں جائے گی۔اتنی عظیم خبر خداتعالیٰ نے 1500 سال پہلے بتا دی ۔اب بتلاؤ کہ کیا سوائے قرآن کریم کے کوئی اور کتاب ایسی پیشگوئیاں بیان کرتی ہے؟
قرآن کریم میں اور بھی بہت سارے مضامین بیان فرمائے گئے ہیں جو آج اظھر من الشمس کی طرح لوگوں پر کھلے ہیں۔اب یہ تمام پیشگوئیاں حضرت نبی کریمﷺ نے بیان فرمائیں کیاکوئی شخص اتنے 100 سال پہلے کوئی ایسی پیشگوئی کر سکتا تھا جو کئی 100 سالوں بعد پوری ہو؟لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئیاں ایک صادق کو ظاہر کرتی ہیں اور اسی کا کہنا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی ایک ہے۔
اگر ہم نظر دوڑا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ایک انتظام ہے جو چل رہا ہے ہر ایک چیز اپنے دائرے میں حرکت کر رہی ہے۔ جس سے پتا چلا کہ قانون ایک ہے اور اگر قانون ایک ہے تو اس کائنات کا صانع بھی ایک ہی ہے۔لہٰذا Professor Stephen Hawking کا دہریت والا نظریہ باطل ہوا کہ جو کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے۔
Professor Stephen Hawking سے یہ سوال ہے کہ Newton کا دوسرا قانون ہے F=ma کہ جس طرف کسی ماس پر Force لگائی جائے گی اسی طرف وہ ایکسلریشن Acceleration پیدا ہوتاہے۔ تو بتائیں ان سیاروں میں کسی نے کوئی Force لگائی ہے تو یہ حرکت کررہے ہیں بغیرForce کو Induceکئے کس طرح ان سیاروں میں یہ حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی نے اس نظام میں Force لگائی ہے۔ تو یہ نظام رواں دواں ہے ۔ بغیر کسی چیز کو force لگائے اسے حرکت میں لانا غیر ممکن ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ہی یہ (Force) اس نظام عالم میں ڈالی۔
قرآن کریم کی ان اعلیٰ پیشگوئیوں کو دیکھ کر یہ بات پتا چلتی ہے کہ ضرور یہ قرآن کریم کسی مدبر ہستی کی طرف سے ہے ۔ تو اگر یہ واقعی ایک اعلیٰ ہستی کی طرف سے ہے تو اسی کتاب میں یہ دعویٰ سچا ہے۔ جب دیکھا جارہا ہے کہ اتنی بڑے غیب پر مبنی پیشگوئیاں پوری ہوئیں تو ایک خدا کا دعویٰ بھی اسی قرآن کریم نے کیا جو ہمیں علمی و عقلی تحقیق سے ماننا پڑتا ہے۔قرآن کریم میں اور بھی بعض امور ہیں جو وقت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آتے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم پر تدبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(بلال احمد بھلی)