• 10 مئی, 2025

جو اسلام کی تعلیم ہے، اس کو مانناہے، اس پر عمل کرنا ہے اور دنیا کی کوئی پرواہ نہیں کرنی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپؑ (حضرت مسیح موعود ؑ) فرماتے ہیں کہ: ’’دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}۔ (الاحزاب:57)۔ اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر توجانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا۔ صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء۔ سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صِدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا‘‘۔ یعنی اگر قرآن شریف کی تعلیم سامنے نہ ہوتی اور جس طرح قرآن کریم نے ہمیں ان انبیاء کا بتایا وہ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتے۔ یہ آنکھوں سے دیکھنے والی ہی بات ہے جس طرح تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر ہے تو تمام گزشتہ انبیاء کی جو سچائی ہے وہ اس طرح ہم پر ظاہر نہ ہوتی جس طرح قرآن کریم کے پڑھنے سے ہم پر ظاہر ہوئی ہے۔ فرمایا کہ ’’کیونکہ صرف قصّوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں۔ اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں۔ کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور یقینا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آ گئے۔ اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں‘‘ کہ اب یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ تجربے سے یہ باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہو گئیں۔ ’’اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیزہوتا ہے۔‘‘ یہ صرف قصے نہیں رہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے ہی پتہ لگ گیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمکلام ہوتا ہے کس طرح بات کرتا ہے کس طرح سنتا ہے اور کس طرح سناتا ہے۔ ‘‘اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرتﷺ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے

محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں۔ کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی۔ ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج‘‘۔ یعنی جو سعید فطرت لوگ ہیں ان کی روح کو تازگی دینے کے لئے، ان کو نور پہنچانے کے لئے ایک سورج ہے۔ جیسے ہمارے جسم کی صحت کے لئے ایک سورج ہے۔ ’’وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ وہ نہ تھکا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصّہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے۔ اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفّاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیّت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا۔ لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو‘‘۔

(چشمہ ٔمعرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 303-302-301)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بتانے کے بعد یہ فرمایا کہ کون ہے جو سچے دل سے ہمارے پاس آیا کہ اسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نو رکا پتہ نہ لگا۔ یعنی اس غرض سے آیا کہ اس نور کو دیکھے اور اس کو نہ دکھایا ہو۔ کیونکہ اب اس زمانے میں آنحضرتﷺ کا نور دیکھنے کے لئے مسیح موعود کے پاس ہی آنا ہو گا۔ یہ بھی آنحضرتﷺ کا ہی ارشاد ہے کہ چودہ سو سال کے بعد جب مسیح و مہدی آئے گا وہ میرے نور سے ہی منور ہوگا، میری روشنی ہی پھیلائے گا۔ پس آنحضرتﷺ کی پیروی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کی اس بات کی بھی پیروی کی جائے کہ چودھویں صدی میں جس مسیح و مہدی کا ظہور ہونا ہے اس کو بھی مانا جائے۔ یہ نہیں ہے کہ جیسے مسلمانوں کا آج کل یہی شیوہ ہے کہ جو مرضی کی باتیں ہوں وہ مان لیں اور کچھ نہ مانی۔ تو فرمایا کہ یہ تو گھٹیا اور گندی زندگی کو پسند کرنے والی باتیں ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خود اپنے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے کہ مجھ سے کس طرح محبت کرو۔ ایک روایت میں آتا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا جب تک مَیں اسے اپنے والد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔

(بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان)

تو یہ معیار بتایا ہے دنیاوی رشتوں کی مثال دے کر کہ صرف پیروی کا دعویٰ ہی نہیں کرنا بلکہ یہ جو دنیاوی رشتے ہیں، والدین اور بچے، ان سب سے زیادہ مَیں تمہارا پیارا بنوں۔ مجھے تم سب سے زیادہ پیار کرنے والے بنو۔ صحابہ نے جن میں بچے بھی تھے بوڑھے بھی تھے جو ان بھی تھے انہوں نے اسی طرح قربانیاں دی ہیں اور اسی طرح پیار کیا ہے۔ بچوں نے اپنے والدین کو چھوڑنا گوارا کر لیا مگر آپ کا در نہ چھوڑا۔ پس آج ہمیں بھی وہی مثالیں قائم کرنی ہیں، ان شاء اللہ۔ جس طرح آپؐ نے فرمایا، جو اسلام کی تعلیم ہے، اس کو مانناہے، اس پر عمل کرنا ہے اور دنیا کوئی پرواہ نہیں کرنی۔ آپؐ کے لئے جو غیرت اور محبت اور عشق ہمارے دلوں میں ہونا چاہئے اس کے مقابلے میں ہر دوسری چیز اور ہر دوسرا رشتہ اور ہر قسم کی غیرت جو بھی ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2020