• 6 مئی, 2024

سو سال قبل کا الفضل

21؍دسمبر 1922ء پنج شنبہ (جمعرات)
مطابق 2جمادی الاول1341 ہجری

صفحہ اول و دوم پر ایک دوست حبیب النبی خان صولت از کلکتہ کے ایک انگریزی خط کا اردو ترجمہ اس عنوان کے تحت شائع ہوا ہے۔

’’رسولِ کریمﷺ کے بعد نبی۔ عدو شود سببِ خیر گر خدا خواہد‘‘

اس عنوان کے تحت درج ہے کہ ’’ذیل میں ایک انگریزی خط کا ترجمہ دیا جاتا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ مبارک میں ایک تعلیم یافتہ اور معزز شخص کی طرف سے موصول ہوا ہے۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح کے جس خط بہ دستخط جناب مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے ملنے کا ذکر ہے وہ ’’مکتوباتِ امام‘‘ کے زیرِ عنوان 7؍دسمبر کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے۔امید ہے حسبِ ذیل خط دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ (ایڈیٹر)‘‘

ازاں بعد اخبار نے مذکورہ بالا شخص کا خط من وعن شائع کیا ہے جو کچھ یوں ہےکہ
’’حال ہی میں ایک ایسا واقع ہوا ہے جو اس قول کی صداقت کو ثابت کرتا ہے کہ عدو شودسببِ خیر گر خدا خواہد (اگر خدا چاہے تو دشمن بھی بھلائی کا موجب بن جاتا ہے۔ ناقل)۔ اور اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ وہ آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ میں آپ کو اس کی اطلاع دیتا ہوں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح صحیح دلائل غلط دلائل پر ہمیشہ غالب رہتے ہیں۔

کچھ عرصہ سے میں سلسلہ احمدیہ کی تہہ کو پہنچنے کی کوشش میں تھا اور اس کے لیے سلسلہ کے مختلف لٹریچر کا مطالعہ کر رہا تھا۔ میں نے مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ قرآن پڑھا ہے لیکن میں اس کو مکمل نہیں مان سکتا تھا اور نہ ہی مجھے ان سے ان کی ہر بات میں اتفاق تھا۔اس عرصہ میں مجھے اس امر کا علم نہ تھا کہ احمدیہ سلسلہ میں اختلاف پیدا ہو چکا ہے۔میں نے یہ ترجمہ پڑھنے کے بعد متعدد خطوط مولوی صاحب کو لکھے۔ جن میں مَیں نے ان کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی اور اس سے بہتر ترجمہ پیش کیا۔ان میں سے بعض کو انہوں نے پسند کیا اور بعض کو رد کردیا۔اس کے بعدمیں نے ایک اخبار میں ایک مضمون پڑھا۔جس میں یہ لکھا تھا کہ احمدی عام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔میں نے اس مضمون کی کٹنگ مولوی صاحب کی خدمت میں بھیجی اور ان سے پوچھا کہ کیا واقعی یہ سچ بات ہے۔اور یہ کہ اگر یہ سچ ہو تو پھر خدا تعا لیٰ کے اس ارشاد کا کہ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا کا آپ کیا مطلب سمجھتے ہیں۔اس خط میں مَیں نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ کیا بحیثیت پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ ان کا یہ فرض نہیں کہ اس کی کھلم کھلا تردید کریں۔ اس کے جواب میں جو خط ان کا مجھے ملا۔ اس کی نقل میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔‘‘

چنانچہ الفضل نے مولوی محمد علی صاحب کا خط بھی اس کے ذیل میں مِن وعَن درج کیا۔جس میں انہوں نےاس بے حقیقت اعتراض کو نہ صرف درست قرار دیا بلکہ یہ بے بنیاد بات بھی لکھ دی کہ ’’ہم جماعت قادیان سے اس عقیدہ کی وجہ سے علیحدہ ہوئے ہیں۔‘‘

مذکورہ سائل نے اس کے بعد اپنے خط میں تحریر کیا کہ ’’اس جواب سے میری تسلی نہ ہوئی اور میں نے 30؍اگست کو ایک خط آپ (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی) کی خدمت میں لکھا۔میں اس کے جواب سے مایوس ہی ہو چلا تھا کہ آپ کا خط جو ایک نصیحت اور چند واقعات کے اظہار پر مشتمل تھا، 16؍اکتوبر کو مجھے ملا۔یہ خط آپ کا آپ کے پرائیویٹ سیکرٹری مولوی رحیم بخش صاحب کے دستخط سےتھا۔اس خط کے پہنچنے کی اطلاع میں نے آپ کی خدمت میں بھیج دی تھی۔اور ساتھ ہی اس میں ایک کوٹیشن مولوی محمد علی صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔‘‘

موصوف حضرت مصلح موعود ؓ کے جس مکتوب کا ذکر کر رہے ہیں وہ الفضل 7؍دسمبر (صفحہ7-8) میں شائع ہوا۔ جس کا متن ذیل میں درج ہے۔

’’آپ کا خط مجھے ملا۔مجھے اس امر سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو سلسلہ احمدیہ کے متعلق تحقیقات کی خواہش ہے اور آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو سنی سنائی باتوں پر ہی بد ظن ہو جاتے ہیں بلکہ آپ خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

مگر جس سوال کو آپ نے پیش فرمایا ہے اس کو پڑھ کر مجھے تعجب ہوا کہ آپ نے تحقیق کے لیے ایک ایسے مسئلہ کو سب سے پہلے چنا ہے جس کا کسی سلسلہ کی صداقت یا کذب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر اسی طور پر کسی سلسلہ کی صداقت ثابت ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت کیا کہتا ہے۔ تب پھر اسلام کی اشاعت ہونی ہی نہیں چاہیے۔ سب مذہب کہہ دیتے ہیں مسلمان ہم سب لوگوں کو کافر کہہ دیتے ہیں۔ اس لیے اسلام سچا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ کسی سلسلہ کی سچائی معلوم کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ انسان اس بات پر غور کرے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیموں اور ماموروں کی صداقت کے کیا معیار ہوتے ہیں۔ پھر اگر آپ کو اس سلسلہ کی سچائی معلوم ہو جاتی یا س مدعی کی صداقت اپ پر کھل جاتی تو آپ خداتعالیٰ کی طرف سے بتائی ہوئی ہر ایک بات کو قبول کر لیتے اور اگر مدعی کا جھوٹ اور اس کے دعویٰ کا بطلان آپ پر ثابت ہو جاتا تو آپ ذرا سی بھی اس بات کی پروا نہ کرتے کہ مدعی یا اس کی جماعت دوسرے لوگوں کی نسبت کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹا شخص اور اس کے پیرو ایک مردار کی طرح ہے۔ اس کا قول خدا کے نزدیک کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ نہ اس کے قول سے دنیا کے نزدیک کوئی اثر ہوتا ہے۔پھر بے فائدہ اس کے قول پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نہ اس کی بات سے ہم کافر بن سکتے ہیں۔

اس نصیحت کے بعد میں اس سوال کے متعلق جو آپ نے کیا ہے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دنیا میں کسی ایک مسلمان کو بھی کافر نہیں کہتے۔ قرآن شریف میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص خدا کے کسی مامور کا انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر ہوتا ہے۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اس سے زیادہ کوئی نہیں۔ اگر کسی شخص کو ایسا پائیں جو خدا کے سب ماموروں کومانتا ہے تو ہم ہر گز اس کو کافر نہیں کہتے۔ پس ہماری طرف سے یہ خیال کر لینا کہ ہم مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ٹھیک نہیں ہے۔قرآن شریف نے جو کافر کی تعریف کی ہے اس کے مطابق جو کا فر قرار پاتا ہے، ہم بھی قرار دیتے ہیں۔ ہم غیراحمدی مولویوں کی طرح فروعات پر زور نہیں دیتے۔ قرآنِ شریف بیان فرماتا ہے جو خدا کا منکر ہے ملائکہ یا کتبِ سماویہ کا منکر ہے یا اس کے رسولوں کا یا اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کا منکر ہو یا قیامت کا منکر ہو تو وہ کافر ہوتا ہے۔ اس کے بعد کوئی کافر نہیں ہوتا۔ کتنے ہی وہ گناہ کرے وہ گنہگار کہلا سکتا ہے۔فاسق کہاجا سکتا ہے مگر کافر نہیں۔ پس ہم ان لوگوں کے فعل کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جو ذاتی اختلاف کی وجہ سے یا چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے دوسروں کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن ہم اس بات کو بھی نہایت حیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جن باتوں کے انکار کی وجہ سے خدا نے قرآن میں صریح الفاظ میں کسی شخص کو کافر قرار دیا ہے اس کو ہم مسلمان قرار دے دیں۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس میں ہم سارے متفق ہیں، تاویل طلب نہیں۔ شیعوں خارجیوں ہم سب کا یہی مذہب ہے۔ اس میں تو مسلمانوں میں اختلاف رہا ہےکہ ان کے علاوہ اور باتیں بھی ہیں جن کے انکار سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس امر میں کسی جماعت میں 1300سال کے عرصہ میں اختلاف نہیں رہا کہ ان باتوں میں سے کسی ایک کے انکار سے انسان کافر نہیں ہو جاتا۔ چونکہ رسول اللہﷺ نے آنے والے مسیح کو نبی قرار دیا ہے جیسا کہ مسلم کی روایات سے ثابت ہوتا ہے اور جیسا کہ ائمہ اسلام کا قریب قریب اس بات پر اجماع ہے اور حضرت مسیحِ موعودؑ کے اپنے الہامات میں خدا کی طرف سے آپؑ کو نبی اور رسول کہا گیا ہے۔ ہاں آپ نئی شریعت نہیں لائے ہیں بلکہ اس کی اشاعت اور توضیح کے لیے دنیا میں نازل کیے گئے ہیں۔ پس ہمارے لیے تین راستوں میں ایک راستہ کھلا ہے۔ یا تو ہم یہ کہیں کہ رسول اللہﷺ نے جو کچھ پیشگوئی فرمای تھی وہ سب غلط ہے اور خداتعالیٰ نے جو مسیحِ موعودؑ کی نسبت الہامات میں نبی اور رسول کا استعمال کیا وہ بھی غلط ہے۔ یا یہ کہ مسیح موعود جن کو ہم سچا تسلیم کرتے ہیں، جھوٹے تھے اور ان کا دعویٰ سچا نہ تھا۔ یا پھر یہ کہیں کہ جو خدا نے اسلام کی تعریف قرآن میں بیان کی ہے اس کے مطابق جو لوگ اس زمانہ کے مامور کو جسے رسول اللہﷺ نے نبی قرار دیا ہے، جس کو تمام امت نبی مانتی چلی آئی ہے اور جن کو اپنے الہامات میں نبی قرار دیا گیا ہے، جو نہیں مانتا وہ قرآنِ کریم کے وعید کے نیچے ہے۔ اور وہ وہی ہے جو قرآنِ کریم نے اس کا نام رکھا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ ان میں سے صحیح راستہ کون سا ہے۔ رسول اللہﷺ کو جھوٹا قرار دینا یا جس شخص کو ہم مانتے ہیں اس کو جھوٹا قرار دینا یا پھر یہ سمجھ لینا کہ جن لوگوں نے خدا کے احکام کی پرواہ نہیں کی اور ان کو پسِ پشت ڈال دیا ہےوہ قرآنِ کریم کی تعریف کے مطابق اسلام سے خارج ہیں۔ گو نام کے لحاظ سے ہم ان کو مسلمان ہی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا نام مسلمان رکھا ہے، ہاں حقیقتِ اسلام کے لحاظ سے ہم کہتے ہیں کیونکہ جوآواز خدا کی طرف سے آئی تھی اس کو وہ رد کبھی نہ کرتے۔

میں آخر میں پھر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اصل طریق کسی بات کی حقیقت دریافت کرنے کا یہ ہے کہ اس کے پرکھنے کے معیار پہلے دریافت کیے جاویں۔ پھر اگران معیاروں پر وہ سچی ثابت ہو تو مان لیا جائے اور اس کے مان لینے سے جو فرائض بھی عائد ہوں ان کو بھی مان لیا جائے۔ اور اگر جھوٹی ثابت ہو تو ترک کر دینا چاہیے۔جزئیات کے ذریعہ کسی چیز کی سچائی اور جھوٹا ہونا ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا اور اس گورکھ دھندا میں پڑ کر انسان ساری عمر نہیں نکل سکتا۔ اگر آپ چاہیں تو ہم سلسلہ کی ایسی کتب آپ کو بھجوا سکتے ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ کی صداقت آپ پر منکشف ہو سکتی ہے۔‘‘

صفحہ3 تا 14پر زیرِ عنوان ’’مولوی محمد علی صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب الجواب کا جواب اور ان کے مخفی ارادوں کا ظہور‘‘ ایک طویل آرٹیکل شائع ہوا ہے۔ جس میں امیرِ اہلِ پیغام مولوی محمد علی صاحب کے بعض سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔

صفحہ نمبر14 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 15؍دسمبر 1922ء شائع ہوا ہے۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221221.pdf

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر