• 26 اپریل, 2024

تبلیغ کا جنون اور ایمان افروز دلچسپ واقعات (قسط اول)

مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان احمدیت کے فدائی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے پُرولولہ خطبات اور خطابات نے دعوت الی اللہ کا سر گرم جوش وجذبہ پیدا کر دیا تھا۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت ابوالبشارت عبدالغفور صاحب ؓ اور چھوٹے بھائی مکرم صالح محمد صاحب سلسلہ کے مبلغ تھے ۔ آپ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے مگر لگن تبلیغ کی رہتی ۔ کام کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے مواقع نکال لیتے۔ بےخوف اور بے دھڑک دعوت الی اللہ کرتے ۔ پھر سال میں ایک ماہ وقف عارضی کرتے اور اپنے خرچ پر تبلیغ کے لئے نکل جاتے ۔ کاروبار کے عروج کے زمانہ میں بھی کبھی کوئی سال ایسا نہ گزراکہ ایک ماہ وقف عارضی کی سعادت حاصل نہ کی ہو۔ دکانداری میں طلب و رسد کے سلسلوں کو ایک مہینے کے لئے موقوف کرنا بڑا مشکل کام تھا جس میں کئی قسم کی قربانیاں شامل تھیں مگر اللہ پاک نے آپ کو حوصلہ دیا اور اجر تو وہ بے حساب عطا فرماتا ہے۔ آپ نے اپنی یادداشتوں کی کتاب میں دوران تبلیغ پیش آنے والے کچھ واقعات لکھے ہیں اور کچھ آپ کے خطوط میں ملتے ہیں۔ ہم انہیں دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا حصہ تقسیم برصغیر سے پہلے کے واقعات اور دوسرا حصہ زمانہ درویشی کے واقعات پر مشتمل ہے۔

نُصِرْتُ بالرُّعْبِ

ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے علاقہ بیٹ Bait (یہ قادیان کا نواحی علاقہ ہے) کو دعوت الی اللہ کے لئے منتخب کیا۔ کئی احباب کو ایک ایک مہینہ کےلیےاپنے خرچ پر وقف کر کے باری باری اس علاقے کے کسی گاؤں میں جانے کی توفیق ملی۔ خاکسار کو بھی دعوت الی اللہ کا شوق تھا اور ہر تحریک میں حصہ لیتا تھا۔ دو دوست مکرم محمد حسین جہلمی صاحب ٹیلر ماسٹر اور مکرم مرزا عبداللطیف صاحب (جو اب میرے ساتھ درویش قادیان ہیں) بھی ساتھ ہو لئے۔ ہم سے پہلے اس گاؤں میں جو گروپ تبلیغ کے لئے آیا تھا اُس میں میرے والد صاحب مکرم میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے اور ایک فوجی دوست تھے۔ گاؤ ں والوں نے شدید تعصب کی بناء پر اُن کی بات نہ سُنی تھی اور اُنہیں گاؤں سے نکال دیا تھا۔ جب ہم پہنچے تو اُنہوں نے ہمیں بھی اپنی دُشمنی کا نشانہ بنانا چاہا۔ ہم بڑی تیاری سے گئے ہوئے تھے۔ رہائش کے لئے کمرہ کرایہ پر لے لیا تھا۔ کھانا پکانے کے لئے اسٹوو اور روشنی کے لئے گیس لیمپ تھا ۔گیس کی روشنی گاؤں والوں کو بہت متوجہ کرتی ۔کافی لوگ جمع ہو جاتے۔ ہم اُنہیں کھانا کھلاتے اورپیغام حق دیتے۔ پورا علاقہ رام ہونے لگا۔ غیر احمدیوں کو عجیب بات سوجھی اورہمیں کبڈی کا چیلنج دے دیا۔ اور کہا کہ جو جیت جائے گا اُسے سچا سمجھا جائے گا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور لنگوٹ کس کر آگئے۔ مگر اُن پر ایسا رُعب پڑا کہ خود ہی کھیلنے سے دستبردار ہوگئے کہ قادیان والے کبڈی میں بڑے ماہر ہیں۔ اس کے بعد ہم مہینہ بھر ٹھہرے۔ بحث مباحثہ ہوتا رہا مگر ہمارا رعب قائم رہا۔

اینٹ پتھر کھانے کی سعادت

اسی طرح کا ایک ٹرپ ویرووال کے قریب سکنہ نَو گاؤں میں ہوا۔ اس میں بھی تین آدمی تھے۔ ایک مکرم مرزا عبداللطیف صاحب، مکرم دوسرے علم الدین صاحب سائیکل والے اور تیسرا خاکسار۔ گاؤں میں ہر طرف تبلیغ کی۔ ظہر کا وقت ہوا تو مسجد کی طرف چلے کہ کچھ لوگ وہاں مل جائیں گےاوربات چیت کا موقع ملے گا۔ وہاں پہنچ کر وضو کرنے لگے۔ ابھی آدھا وضو ہی کیا تھا کہ اُنہوں نے شدید گالی گلوچ اور زدو کوب شروع کیا حتیٰ کہ مسجد سے نکال دیا اور بچوں کو پیچھے لگا دیا کہ اینٹ پتھر مارتے جائیں اور گاؤں سے باہر نکال کر آئیں۔ ہم بہت خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مار کھانے کی سعادت ملی۔

اب اللہ تعالیٰ کی مدد دیکھئے۔ راستے میں ویرووال کے احمدی دوست مکرم مہر اللہ دِتہ صاحب ملے۔ اکٹھے چلتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھانیدار نے بُلایا تھا۔ ذرا پوچھتے جاتے ہیں کہ کیا کام ہے؟ جب ہم وہاں پہنچے تو تھانیدار صاحب جو ہندو تھے پوچھنے لگے کہ بھائیو! کہاں سے آئے ہو ؟کس کام سے آئے ہو؟ ہم نے بتایا کہ قادیان سے آئے ہیں اورتبلیغ کرتے ہیں۔ وہاں ایک مشہور معاند مولوی عبداللہ صاحب بھی بیٹھے تھے۔ تھانے دار صاحب نے پوچھا:

تم کیا تبلیغ کرتے ہو؟

ہم نے بتایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور جس مسیح کو اس زمانے میں آنا تھا وہ آ چکے ہیں اور وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہیں۔

ہندو تھانیدار نے مولوی عبداللہ صاحب کی طرف دیکھ کر پوچھاکہ مولوی صاحب! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟مولوی صاحب کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کوئی جواب ہی نہ بَن پڑا۔ ہمیں خوب موقع ملا اور تفصیل سے اپنے عقائد بتائے۔ مولوی صاحب خاموش رہے ا ور تھانیدار صاحب ہنستے رہے۔

بظاہر حقیر چیز حمد و شکر کا سامان بن گئی

ایک اور تبلیغی ٹرپ کا دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ علاقہ مکیریاں کے قول پور چھنیاں میں ایک ماہ کے لئے وقف کیا۔ ایک احمدی بھائی نے ایک کمرہ ہمیں دے دیا۔ ہم دن بھر پھرتے پھراتے رہتے۔ دعوت الی اللہ کرتے اور رات کو کھانا پکا لیتے۔ آرام کرتے اور پھر صبح وہی معمول رہتا۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دور نکل گئے۔ واپسی میں دیر ہو گئی اور بارش بھی ہو گئی ۔کھانا پکانے کے لئے جو لکڑی اور اُپلے (پاتھیاں) تھے وہ بھی کوئی اُٹھا کر لے گیا۔ پانی بھرنے گئے تو گاؤں کے واحد کنوئیں سے سب پانی بھرنے کے بعد لَج (رَسی معہ ڈول) اُتار کر لے جا چکے تھے۔ ہم اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔ آخر ایک لوٹا پانی جو کمرے میں تھا اُس سے دال چاول دھو کر اور ایک اُپلہ جو باقی رہا تھا، جلا کر کھچڑی چڑھا دی اور دل میں دعا کی کہ بغیر مادے کے سب کچھ پیدا کرنے والے میرے ربّ! ہماری مدد کو آ۔ ابھی اپنے رب سے بات کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر ماشکی (سقّہ) آیا۔ گاؤں والوں کو بُرا بھلا کہا اور کہا کہ جب تک آپ ادھر ہیں میں خود پانی پہنچاؤں گا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ یہی ماشکی پہلے ہمیں پانی دینے سے انکار کر چکا تھا۔ اب سنیئے آگ کی ضرورت ربِ کریم نے کیسے پوری کی۔ ایک بچی ایک ڈھکنے پر بڑا سا اُپلا رکھ کر لائی اور کہا میری ماں کہتی ہے کہ تھوڑی سی آگ دے دیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ تو پہلا مادہ ہی مانگنے آ گئی۔ اِتنے میں اُس کے باپ نے دور سے آواز دی کہ مولوی صاحب! اس کو آگ نہ دینا۔ دیا سلائی دے دینا ورنہ راستے میں کپڑے جلا لے گی۔ اُپلا بھی وہیں رکھ لیں۔ میں نے سجدہ ٔشکر ادا کیا۔ اُپلا چولہے میں رکھا۔ تھوڑی دیر میں کھچڑی تیار ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھائی ۔کبھی بظاہر حقیر چیز بھی حقیقی حمد و شکر کا سامان بن جاتی ہے۔

ہمارے دلائل کا سامنا نہ کر سکا

اسی دورے میں ایک دن ہم داتاپور پہاڑ پردعوت الی اللہ کے لئے نکل گئے۔قریباً دس میل کا فاصلہ تھا۔ رات ہوئی تو اس قدر تھک گئے تھے کہ واپس آنا محال تھا۔ ہندو آبادی زیادہ تھی۔ نہ کسی نے رہنے کو جگہ دی اورنہ کھانا پکانے کو برتن ملے۔ ایک مسلمان کا گھر ملا تواُس نے بھی سختی سے بات کی اور شہر سے دور ایک امام باڑے کا پتہ بتایا جہاں کوئی انتظام نہ تھا ۔گندا فرش تھا کیڑے مکوڑے خصوصاً بچھو بہت زیادہ تھے۔ ہم واپس شہر آ گئے تو خدا کی شان کہ ایک لڑکا کنوئیں پر کھڑا ملا۔ ہم نے کہا کہ بھائی کوئی برتن دو ہم کھانا پکا کر کھا لیں؟ اُس نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ ہم نے بتایا کہ قادیان سے۔ اُس کی قادیان میں دور کی رشتہ داری تھی۔ ہم نے سب کے نام بتائے تو وہ خوش ہوا اور ایک برتن لا کر دےدیا۔ ہم ہندو سرائے میں ٹھہرے۔ نمکین چاول پکائے۔ خود کھائے اور وہاں کچھ پٹھان قینچی چھری تیز کرنے والے بیٹھے تھے اُنہیں کھلائے۔ سرائے میں دو ہی چارپائیاں تھیں۔ اُن پر چادریں بچھا کر قبضہ کیا۔ پٹھان نیچے سوئے تواُنہیں بچھو کاٹ گیا۔ ہم نے دم کیا جس سے اچھا اثر ہوا اور وہ ہم سے گھل مِل گئے۔ ساری نمازیں باجماعت پڑھیں۔ صبح وہاں ایک اہلحدیث مولوی آ گیا جو اُس شہر میں آٹا پیسنے کی مشین کا کام کرتا تھا۔ اُس سے دلچسپ بحث ہوئی۔ اُس نے ڈینگ ماری کہ ہمارے دس سال کے بچے کے سامنے احمدی کی چیں بول جاتی ہے۔ ہم نے اُسے للکارا کہ تم تو چالیس سال کے ہو۔آؤ اورہم سے مباحثہ کر لو۔ ہمارے دلائل کے آگے ٹھیک سے جواب نہ دے سکنے پر سرائے کے مالک اور دوسروں نے اُسے خوب شرمندہ کیا۔ ہم نے دعوت الی اللہ کا موقع ملنے پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کیا۔

گھر میں کنواں کھودا

مکیریاں کے قیام کی ایک اور بات یاد آ گئی۔ مخالفت زوروں پر تھی مگر ہم ڈٹے ہوئے تھے۔ آخر مخالفوں نے ایک تدبیر سوچی کہ ان کا پانی بند کر دیا جائے۔ خود ہی بھاگ جائیں گے۔تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہوئی۔ ایک ہندو دوست نے اپنے گھر سے پانی لینے کی اجازت دے دی۔ ہم مٹی کی مٹکی لے کر جاتے اور ضرورت کا پانی بھر لاتے۔ اُن کو ہمارا آرام سے پانی حاصل کر لینا گوارا نہ تھا جب ہم مٹکی لے کر جا رہے ہوتے تو کوئی پتھر یا ڈنڈا مار کے مٹکی پھوڑ دیتے پانی بہہ جاتا اور کپڑوں کا ستیاناس ہو جاتا۔ پانی کے بغیر تو چارہ نہ تھا ہم نے گھر میں بڑی محنت سے کنواں کھودا۔ کچا سا کنواں تھا اس میں سے پانی نکال کر سنبھال لیتے۔ یہ کنواں ایک دیوار کے ساتھ تھا۔ مخالفین نے اب یہ طریقہ اختیار کیا کہ دیوار پر سے گندی سڑی چیزیں کنوئیں میں پھینک دیتے جس سے بہت تکلیف ہوتی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے دل میں ہماری ہمدردی ڈالی اُس نے ایک ماشکی کو کہا کہ وہ ہمیں پانی دے دیا کرے۔ اس طرح یہ مسئلہ حل ہوا۔

مکرم چوہدری محمد اعظم صاحب

مکیریاں ہی کی بات ہے مکرم چوہدری محمد اعظم صاحب (سیشن جج) بھی عارضی وقف کے لئے تشریف لائے۔ ایک دن سڑک پر ہی ایک مسلمان کو روک کر اپنے انداز میں تبلیغ شروع کر دی۔ بات کرتے کرتے یہ کہا کہ اس زمانےکے علماء کو اچھا نہیں کہا گیا یہاں تک کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کھانے والے بھیڑئیے نے حضرت یعقوبؑ سے کہا تھا کہ اگر میں نے یوسف علیہ السلام کو کھایا ہو تو چودھویں صدی کے علماء میں اُٹھوں۔ مخاطب نے اس روایت کا حوالہ طلب کر لیا۔ چودھری صاحب اُسے گھر لے آئے آ کر کتاب دیکھی تو حوالہ غائب چودھری صاحب کو علم نہ تھا کہ علماء سوء یہ حرکت بھی کرتے ہیں کہ کتابوں سے حوالے نکال دیں یعنی کتاب میں تحریف کر کے حوالہ نکال دیا گیاتھا۔ چودھری صاحب بڑے سادہ بہت مخلص انسان تھے میں نے خود اُن کے پاؤ ں میں چھالے دیکھے ہیں جو بہت کثرت سے چلنے کی وجہ سے تھے مگر تبلیغ میں ناغہ نہ کرتے آپ کی ذاتی وجاہت اور نیکی کا ہمیں بہت فائدہ ہوتا۔ لوگ اُن سے مشورے لینے آتے مجھے کھانا پکانے میں مہارت ہو گئی تھی۔ اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ افسران بالا اور بارسوخ آدمیوں کی دعوت کرتے اس طرح کافی مواقع بات چیت کے میسر آ جاتے۔ اور علاقے میں سہولت سے رہنے کی صورت بھی بن جاتی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خوب کام لیتا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء

مولوی عبدالغفار غزنوی صاحب کو دعوت الی اللہ

مکیریاں قیام کے دوران قادیان سے ناظر صاحب دعوت الی اللہ کی تار ملی کہ آپ کی والدہ صاحبہ بیمار ہیں جلدی قادیان پہنچ جائیں۔ تیزی سے اسٹیشن پہنچا مگر جالندھر کے اسٹیشن پر رش کی وجہ سے سوار نہ ہو سکا کسی دوسری ٹرین میں دو گھنٹے کا وقفہ تھا۔ میں نے سوچا نہ جانے پھر کب آنا ہو۔ چلو کسی کو تبلیغ کے لئے تلاش کریں۔ اس نیت سے نظر اُٹھائی تو ایک لمبا اونچا خوبصورت وجیہہ خوش پوش ہاتھ میں نفیس چھڑی سر پر رومی ٹوپی شہزادوں کی سی آن بان لئے ایک شخص نظر آیا پہلے تو میں اپنی رَو میں اُس کی طرف بڑھا۔ پھر سوچا ایسا نہ ہو کوئی نواب شواب ہو بُرا ہی مان جائے۔ اندر سے نفس نے دھکا دیا ظاہری رعب داب سے ڈر گئے دعوت الی اللہ میں خوف کیسا؟ آگے بڑھ کے دعا سلام کے بعد قادیان والے مرزا صاحب کا تعارف کروایا۔ کہ ایک شخص امامِ جہاں بنایا گیا ہے۔ اُس نے بے ساختہ کہا:

آپ کی مراد مرزا غلام احمد قادیانی سے ہے؟

جی ہاں آپ ہی کا ذکر ہے۔

’’اوہ میں تو اُنہیں دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں‘‘

اُس نے بہت رعونت سے کہا ۔میں نے دلیری سے کہا یہ دائرہ آپ نے کھینچا تھا یا آپ کے والد صاحب نے۔ اسٹیشن تھا سواریاں فارغ تھیں سب جمع ہو گئے۔ لوگوںکی گفتگو میںدلچسپی بڑھ رہی تھی ہندو، سکھ ،مسلم دلچسپی سے سُن رہے تھے۔ اُس نے یہ اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے پچاس کتابیں لکھنے کا وعدہ کیا قیمت بھی لے لی اور صرف پانچ لکھ کر کہہ دیا یہ پچاس کے برابر ہیں میں نے عرض کیا کہ جب فرض نماز پچاس سے پانچ رہ گئیں تو اعتراض نہ ہوا۔ مجمع دیکھ رہا تھا کہ ایک دُبلا پتلا غریب کمزور لڑکا ایک زبردست امیر آدمی پر بھاری پڑ رہا تھا۔ اس لئے اُس نے بات بدلتے ہوئے کہا:

آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟

میں نے کہا: آج پہلی ملاقات ہے۔

بڑی تمکنت اور رعونت سے کہا میں عبدالغفار غزنوی ہوں۔

میں نے کہا میں نے یہ نام سنا تو ہوا ہے مگر آپ پر صادق نہیں آتا۔

کیوں؟

اتنا بڑا لیڈر تو حوصلہ والا ہوتا ہے۔ مگر آپ کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے۔ شخصیت کا رُعب ڈال رہے ہیں۔

اُس کے تیور ایسے بگڑے کہ دھکے دینے لگا۔ پھر میرا حشر یہ ہوا کہ کبھی کوئی دھکا دے رہا ہے، تو کبھی کوئی ۔وہاں جو سکھ کھڑے تھے اُن میں سے کسی نے کہا جب اس کی بات کا جواب نہیں دے سکتے تو دھکے کیوں دیتے ہو؟ پانچ سکھ مجھے اپنے ساتھ لے کر وہاں سے ہٹ گئے میں نے اُن کو بھی دعوت الی اللہ کی۔ الحمدللہ۔

گالیاں سُن کر دعا دو

دورہ کرتے کرتے ترنتارن چلے گئے۔ وہاں ایک گوردوارہ کے سامنے ایک تعلیم یافتہ مذہبی مزاج کے ڈاکٹر کو تبلیغ کی۔ اُس نے کہا کہ بھائی میرے گھر کے پاس ایک درزی رہتا ہے۔ اُس کو بھی آپ کے عقائد سننے کا شوق ہے اگر آپ اجازت دیں تو اُس کو بُلا لاؤ ں۔ میں نے کہا ہم تو آئے ہی اسی غرض سے ہیں ضرور بُلا لیں۔ درزی آیا تو بے چارہ معذور تھا اُس کی دونوں ٹانگیں پیدائشی طور پر بہت کمزور تھیں وہ ہاتھوں کے بل چلتا ٹانگیں ساتھ گھسٹتی رہتیں اوپر کا دھڑ ٹھیک تھا۔ اُس سے طویل بات چیت ہوئی بازار تھا راہ چلتے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ وفاتِ مسیح پربات ہو رہی تھی۔ میں نے اُس سے کہا اچھا فرض کر لو مسیح آبھی جائیں اور آ کر مر جائیں۔ تو پھر لوگوں کو جن آیات سے آپ اُن کی وفات ثابت کریں گے وہ ہمیں قرآن کریم سے نکال کر دکھا دیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آ کر فوت ہوں اور دوسرے لوگ زندگی کی آیات ہی پیش کرتے رہیں۔ اس بات کا اُس پر عجیب اثر ہوا کچھ دیوانہ سا ہو گیا۔ مجھے موڑھے سمیت بازار میں پھینک دیاگیا۔ فحش گالیاں دی گئیں۔ لاجواب ہونے کے اقرار کا یہ عجیب انداز تھا۔ خدا کی شان سُننے والوں میں کچھ سکھ یاتری بھی تھے اُس کی خفت ’مار دھاڑ اور دھکم پیاں دیکھ کر بولے:
میاں جی آپ کہاں سے آئے ہیں؟ آپ کا کمال حوصلہ ہے وہ گالیاں دے رہا ہے اور آپ ٹھنڈے دل سے اُسے سمجھاتے جا رہے ہیں۔

ایک سکھ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم چل پڑے۔ اگرچہ اُس کی گالیاں سُن کر طبیعت منغّض ہو رہی تھی تا ہم جو سکھ ہاتھ لگے اُنہیں خوب تبلیغ کی اور بتایا کہ مزاج میں یہ نرمی ہمارے مسیحا کی تعلیم ہے۔

گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو میلے میں مار

قول پور چھنیاں سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر ایک گاؤں گگن ناتھ کاٹلہ ہے وہاں سال میں ایک دفعہ میلہ لگتا تھا۔ ہر مذہب ملت کے لوگ آتے تھے میں نے اور مرزا عبداللطیف صاحب نے میلہ میں تبلیغ اور ٹریکٹ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہم نے دیکھا کہ چار پٹھان اپنے کام سے تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں۔ ہم بھی بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے کہ قادیان میں حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو نشانیاں بتائی تھیں سب پوری ہو گئی ہیں۔ اپنے طور پر ہم اُنہیں سمجھا رہے تھے مگر یکدم ایک پٹھان نے میری گردن دبوچ لی اور کہا ’’خو تم ایک اور نبی کو مانتا‘‘ میں نے اُسے بمشکل سمجھایا کہ انگریز کا راج ہے میلے میں پولیس بھی آئی ہوئی ہے آپ کو زیادتی کا بدلہ ملے گا۔ تب بہت جلدی وہ کہنے لگے بھائی صاحب معاف کر دیں اَور باتیں سُنائیں پھر ہم نے جی بھر کے باتیں سُنائیں۔ مگر اُن کو دست درازی کی جرأت نہ ہوئی۔

قصہ عربی پیر کا

مکیریاں میں دعوت الی اللہ کے لئے قیام کے دوران ہماری قیام گاہ کےبالکل پڑوس میں ایک عربی آیا۔ وہ شخص اصل عربی نہ تھا بلکہ لباس عربوں جیسا پہنتا تھا۔ سارا محلہ اُس کا مرید تھا وہ ہر سال آتا لوگوں سے نذر نیاز وصول کرتا۔ جب اُسے ہمارے بارے میں علم ہوا تو اُن کے سامنے ڈینگیں مارنےلگا کہ یہ لوگ تو جاہل ہیں۔ جھوٹے ہیں۔ تنخواہ لیتے ہیں اس کام کی وغیرہ وغیرہ۔ ایک شخص نے جو ہمارے پاس آیا تھا یہ سارا قصہ سنایا۔ میں نے اُسے کہا کہ شام کو آپ اُس کے پاس آ کر بیٹھنا۔میں بھی آؤں گا مگر اُسے علم نہ ہو کہ مجھے آپ وہاں لے کر آئے ہیں۔ وہاں سارا محلہ ہمارا واقف تھا ہم اگرچہ ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کرتے تھے۔ مگر کئی سال آنے جانے سے بہت لوگ شناسا ہو گئے تھے۔ شام ہوئی تو میں اُن کے گھر گیا اور کہا سُنا ہے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں ہم بھی نیاز حاصل کرنے آئے ہیں۔ پیر صاحب نے ہمیں جگہ دی اور تپاک سے ملے۔ اب گفتگو شروع ہوئی ہم نے عربی سے علمی افاضہ کے لئے چند باتیں کیں تو وہ گھبرائے اُن کو علم سے کیا واسطہ تھا وہ تو کاہلواں کے قریب کے گائوں کوٹلی راول کے راول تھے اور مانگنے والے تھے۔ پندرہ بیس منٹ کی گفتگو سے اس قدر بر افروختہ ہوئے کہ اُن کے میزبان بھی گھبرا گئے۔ پیر صاحب کی حالت سے حیران ہو کر وہ مجھے چلے جانے کو کہنے لگے۔ میں نے کہا پیر صاحب! آپ تو عربی ہیں اورعربوں کے حوصلے توبہت بلند ہوتے ہیں مگر اب تو عربی پیر کی قلعی کھل چکی تھی۔ میں نے جاتے جاتے اُسے کہا کہ تم نے یہ کیا منافقانہ صورت بنا رکھی ہے۔ دھوکہ دہی سے رزق کماتے ہے۔ صبح ہوئی تو پیر صاحب غائب تھے۔ میرے ساتھی نے بڑا لطف اٹھایا۔ اس کے بعد ہم جب بھی گئے پیر صاحب کو کبھی نہیں دیکھا۔

ویرو وال میں دعوت الی اللہ کے دوران رام لیلا دیکھنے کا واقعہ

ویرو وال کے لئے ایک ماہ وقف کے میدان میں ہمارے امیرالمجاہدین مکرم خان عبدالمجید خان صاحب (والد محترم آپا طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ) تھے ان کے چھوٹے بھائی مکرم حفیظ خان صاحب کی لالہ سرن داس بھنڈاری سے دوستی تھی۔ ایک دن وہ آئے اور کہنے لگے بھائی جی! چلیں آپ کو رام لیلا دکھا لائیں۔ میں نے انکار کیا کہ اب اصل قصہ تو پیش نہیں کرتے لغو کہانی دیکھنے سے کیا فائدہ مگر اُنہوں نے بہت اصرار کیا۔ اور کہا کہ آپ وہاں اس سے زیادہ ذکر الٰہی کر لیں گے جتنا آپ نے یہاں کرنا ہے میں اُن دونوں کے ہمراہ گیا جلدی سے مجلس میں بیٹھ گیا تاکہ کوئی مجھے وہاں دیکھ نہ لے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ عجیب عجیب مذاق کے وہاں جمع تھے حیران ہوا کہ دیکھنے تو ایک خدا کے بزرگ مقرب کی زندگی اور پاکیزہ سیرت آئے ہیں مگر اوباش صورت لوگ ہیں۔ اچھے اچھے امیر وضع سفید ریش لوگ ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں سے عورتوں کو تاڑ رہے ہیں۔ فحش گانے گا رہے ہیں۔ میری تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور دل ایسا دُکھا کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ ارد گرد کے لوگ مجھے قدرے حیرانی سے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ تماشا شروع ہوا۔ رام چندر جی جب بن باس میں ہیں تو ایک ندی پار کرنے کے لئے کشتی میں بیٹھتے ہیں اور اُجرت میں ملاح کو اپنی پیاری بیوی کی بے حد قیمتی انگوٹھی اُتار کر دیتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ ایک تو بادشاہ ہے بادشاہ کا بیٹا ہے دوسرے قوم کا رشی بھی ہے مگر پاس پیسہ دھیلہ نہیں ورنہ بیوی کی انگوٹھی اُتروا کر نہ دیتا۔ جس بات نے بہت متاثر کیا وہ ملاح کی ذہانت اور نیک نفسی تھی۔ اُس نے انگوٹھی جیسی قیمتی چیز نہ لی اور کہا میں اُجرت نہیں لوں گا ۔ہاں آج ایک ندی میں نے آپ کو پار کروائی ہے جس دن مجھے ایک ندی پار کرنے کے لئے آپ کی ضرورت ہو گی تو آپ میری مدد کیجئے۔ میری تو چیخیں نکل گئیں۔ لوگوں نے میری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ بعد میں بہت عرصے تک میری طبیعت پر اس کا اثر رہا۔ پھر جب بھنڈاری صاحب سےملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا بھنڈاری جی! آپ نے کیا دیکھا جواب دیا کھیل تماشا، روپ بہروپ، رنگ روپ پھر میں نے اُس کو اصل حقیقت سمجھائی کہ کس طرح کسمپرسی کے زمانے میں رام چندر جی صابر شاکر رہے۔ دوسر ا علاج کی زیر کی دنیاوی دولت ترک کر کے اصلاحِ احوال اور اُخروی زندگی کا فکر کیا۔ میرے بیان میں ایسا درد اور اثر تھا کہ بھنڈاری صاحب بھی رونے لگے۔

ویرووال کے شدید معاند کودعوت الی اللہ کا موقع

ایک دن مکرم عبدالمجید خان صاحب مجھے اپنے ساتھ باغ لے گئے وہاں دو آدمی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا خان صاحب یہ کون ہیں۔ آپ نے بتایا مہر ابراہیم صاحب ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے بیٹے مہراللہ دِتہ صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی ہے۔ مگر انہوں نے اُس پر وہ ظلم توڑے کہ الاماں گھر سے نکال دیا۔ بیوی چھین لی۔ جائیداد سے بے دخل کر دیا اور اب وہ ’’میاں ونڈ‘‘ میں رہتا ہے۔ میں نے خان صاحب سے پوچھا میں ان سے احمدیت کے بارے میں کچھ باتیں کروں آپ نے فرمایا:
نہ ایسا نہ کرنا بڑا منہ پھٹ ہے اس نے ایک مبلغ کی زبان باہر نکال کر مار دینے کی دھمکی دی تھی۔ (وہ مبلغ مولوی روشن الدین صاحب تھے جن سے سارا دن کام لیا مگر کنوئیں سے پانی تک نہ پینے دیا) میں نے خدا سے دُعا کی خان صاحب سے بصد اصرار اجازت لی اور اُن کے پاس جا بیٹھا۔ پہلے تو ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر دینی باتیں شروع کر دیں اور جب دیکھا کہ وہ میرے ساتھ بہنے لگے ہیں اور میری باتیں اُن پر اثر انداز ہو رہی ہیں تو میں نے صداقتِ مسیح موعود پر قرآن و حدیث کی رُو سے باتیں شروع کر دیں۔ خداتعالیٰ نے اُن کی ہدایت کاوقت بھی قریب رکھا ہوا تھا۔ غروب آفتاب تک وہ اتنے متاثر ہو چکے تھے کہ کہنے لگے کہ بھائی مبلغ تو یہاں بہت آئے مگر آپ کا طرزِ استدال نرالا ہی ہے۔ اب شام ہو گئی ہے آپ صبح آٹھ بجے ہی تشریف لے آئیں پھر باتیں کریں گے کیونکہ میری کافی حدتک تسلی ہو گئی ہے۔ شکر ہے بعد میں اُنہوں نے احمدیت قبول کر لی۔

ان کے دوسرے بھائی بھی غالباً چراغ الدین نام تھا بے حد مخالف تھے اَن پڑھ تھے کان سے اونچا سُنتے تھے مگر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر احمدی بھائی کو بہت دُکھ دیتے تھے۔ ایک دفعہ دریائے بیاس میں کشتی پر سوار اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کر رہے تھے کہ اچانک طوفان آ گیا کشتی ڈانواڈول ہو گئی۔ موت سامنے نظر آئی تو کہنے لگے دعا کرو ہم بچ جائیں اگر بچ گئے تو مرزا صاحب کو سچا مان لیں گے۔ کشتی کنارے لگی تو مُکر گئے کہ کشتی تو لگنی ہی تھی کنارے پر۔ اگر تمہارا مرزا صاحب مشکل میں کام آ سکتے ہیں تو جاؤ اُن سے کہو میری ٹانگ توڑ دیں۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ اُن کی ٹانگ خراب ہو گئی۔ بے حد تکلیف میں بار بار کہتے یا اللہ اب ٹھیک کر دے مرزا صاحب کو ضرور مان لوں گا۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ اُس کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی۔ پھر ہر مجلس میں جہاں کہیں حضرت مسیح موعود کے خلاف بات ہوتی وہ برادشت نہ کرتے ٹانگ کی خرابی کے دوران لَٹھ لے کر چلنے کی عادت پڑی اس لٹھ کو وہ مخالف کے سر پر بھی مار دیتے بعد میں سُنا تھا احمدیت قبول کر لی تھی۔

اُردو میں جواب دیا اُردو نہیں جانتا

ایک دفعہ راستے میں ایک کشمیری مولوی صاحب کو آتے دیکھا سوچا انہیں تبلیغ کرنی چاہیے پاس جا کر سلام عرض کیا اور خیریت پوچھی۔ مولوی صاحب نے وعلیکم السلام کہا اور کہا کہ بالکل خیریت سے ہیں میں نے عرض کی آپ اردو بول سکتے ہیں؟ بڑی رواں اردو میں جواب دیا کہ میں تو اردو بالکل نہیں بول سکتا۔ مجھے بہت ہنسی آئی کہ اردو میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے اُردو نہیں بول سکتا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں دراصل آپ سے جان بچانے کے لئے ایسا کہہ رہا تھا۔

میں نے دل میں کہا اب تو آپ کی جان نہیں بچ سکتی۔ فوراً سوال کیاکہئے آپ کو مرزا صاحب کی صداقت پہ کیا اعتراض ہے؟

اُس نے کہا حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بادشاہت کرنی ہے، جزیہ لینا ہے، اُن کے ساتھ فوج ہو گی۔

میں نے کہا بادشاہ تو اپنی رعایا سے جزیہ لیتا ہے مگر مرزا صاحب کو ساری دنیا سے احمدی احباب شوق سے خود بخود چندہ دیتے ہیں۔ رہا سپاہی کا سوال تو ایک سپاہی مرزا صاحب کی فوج کا میں خود آپ کے سامنے کھڑا ہوں آپ نے خود بیان کیا ہے کہ آپ مجھ سے جھوٹ بول کر جان بچا رہے تھے اور بادشاہ کیا ہوتا ہے۔ مرزا صاحب کو تو شاہِ کونینؐ نے سلام فرمایا ہے۔ کہ جب آئے تو میرا سلام دینا۔ ہم آپ علیہ السلام کی دل سے اطاعت کرتے ہیں۔ اور اپنا دینی و دنیاوی بادشاہ مانتے ہیں۔ اُس پر کافی اثر ہوا۔

(مرسلہ:امتہ الباری ناصر- امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2021