27 مئی 2008ء کو جماعت احمدیہ نے خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر اپنے مقدس امام کے ہاتھ پر خلافت سے ہمیشہ وابستہ رہنے اور اشاعت اسلام میں سرگرم رہنے کا عہد کیا۔ یہ تاریخ عالم کا ایک عظیم اور منفرد دن تھا۔ جب 200 ملکوں کے احمدیوں نے بیک وقت کھڑے ہوکر یہ عہد دہرایا۔ کہیں صبح کا وقت تھا کہیں دوپہر کہیں شام اور کہیں رات کا اندھیرا مگر خلافت کا اجالا دنیا میں ہر جگہ پھیل رہا تھا اور اخلاص اور محبت کی شعاعیں شمال اور جنوب اور مشرق اور مغرب کو منور کررہی تھیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم نے اس عہد کو کیسے نبھانا ہے اور اس سے اپنا عشق کیسے ہمیشہ تازہ رکھنا ہے۔ کس طرح اس کو دلوں میں زندہ رکھنا ہے کہ ہماری نسلوں کو بھی اس سے عشق ہوجائے اور وہ اس کی پاسداری کرتی رہیں۔ تو دوستو! ہم نے اس عہد کو اس طرح نبھانا ہے جس طرح رسول کریم ؐکے صحابہ نے عہد باندھے اور پھر ان کو پورا کیا۔ انہوں نے جان مال عزت و آبرو لٹا دی مگر اپنے عہد پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
مدینہ سے صحابہؓ نے آکر بیعت میں حصہ لیا اور یہ عہد کیا کہ ہم رسول اللہ ؐ کی حفاظت جان پر کھیل کرکریں گے۔ اصحاب بدر نے کہا یارسول اللہ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ انہی صحابہ نے حدیبیہ کے وقت عہد کیا ہم جان دے دیں گے۔ مگر محمد رسول اللہ ؐکے سفیر کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔
اب دیکھئے صحابہ بھیڑ بکریوں کی طرح قربان ہوگئے۔ مرتے ہوئے انہوں نے رسول اللہ ؐکو سلام بھیجا اور کہا خدا آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے اور قوم کو پیغام دیا کہ ہم جب تک زندہ رہے ہم نے رسول اللہؐ کی حفاظت کی اگر تمہاری زندگی میں ان کو کو ئی زخم آیا تو تم خدا کے حضور جوابدہ ہوگے۔ جنگ بدر میں صحابہ نے رسول اللہ ؐکے لئے دو اونٹنیاں مخصوص کردیں اور کہا یارسول اللہ اگر ہم سب مارے جائیں تو آپ اونٹنی پر مدینہ تشریف لے جائیں۔ ہمارے بقیہ زندہ بھائی آپ کی حفاظت کریں گے۔ جنگ خندق میں ان صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودی۔ جنگ تبوک میں گھر کے سارے سارے مال پیش کردیئے۔
ایسی ہی قربانیوں کے نمونے حضرت مسیح موعود کے صحابہ نے بھی دکھائے۔ مال مانگا تو چار پائیاں فروخت کرکے سب کچھ لے آئے۔ دعوت الی اللہ کی تحریک کی تو بغیر کاغذات اور پاسپورٹ کے مختلف ملکوں میں نکل کھڑے ہوئے۔ ماریں کھائیں مگر حق کا پیغام سناتے رہے۔ وقف زندگی کی تلقین کی گئی تو خود بھی حاضر ہوگئے۔ بچوں کو بھی وقف کردیا اور آنے والی نسلوں کو بھی اس کا حصہ بنادیا۔ مساجد کے لئے تحریک کی گئی تو اپنے گھر بیچ کر خدا کے گھر بنا دیئے۔
استقامت کے وہ نظارے دکھائے کہ لاہور میں چند گھنٹوں میں 86 احمدی شہید ہوگئے۔ مگر کسی کے لب پر کوئی شکوہ، کوئی آہ و بکا نہیں تھی بلکہ توحید کے نعرے اور درود شریف کی آوازیں تھیں اور یہ پیغام بھی کہ اگلے جمعہ کو ہم وہیں کھڑے ہوں گے۔ جہاں ہمارے آباء شہید ہوئے تھے۔ عورتوں اور چھوٹی بچیوں کو حبس دم کرکے مارا گیا مگر ان کے ایمان پر آنچ نہ آئی۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے جماعت میں شہادت کا جو پودا لگایا تھا وہ بڑی شان سے تناوردرخت بن چکا ہے جس کے ہر پتے پر ملکوں ملکوں کی شہادت کی داستانیں رقم ہیں۔
سادہ زندگی کی تحریک ہوئی تو کھانا ایک کردیا۔ زیور بنانے بند کردیئے نئے کپڑے بنانا چھوڑ دیئے اور ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ غیروں نے بھی خراج تحسین پیش کیا۔ وہ جامعہ احمدیہ جس کی بنیاد ایک معمولی کلاس سے ڈالی گئی تھی اب دنیا میں 14 جگہوں پر جگمگا رہا ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد طلبہ اس میں پڑھ رہے ہیں اور دنیا فتح کرنے کے لئے تیار ہیں۔
پس عہدوں کی پاسداری اس طرح کی جاتی ہے اور خلافت کی آواز پر اس طرح لبیک کہی جاتی ہے۔ ہم موسیٰ کی قوم کی طرح نہیں حضرت محمد مصطفیٰ ؐکے غلام ہیں۔ ہم تو صحابہ رسول کی طرح لبیک کہیں گے۔
نظام خلافت کے استحکام کے 15 طریق
- خلیفہ وقت سے دلی محبت کرنا ایسی کہ امام وقت اپنی جان، مال اور بیوی بچوں سے بھی پیارا ہو جائے۔
- امام وقت کے ارشادات کو سننا اور سمجھنا۔ اس زمانہ میں ایم ٹی اے اور اخبارات ورسائل اس کا بہترین ذریعہ ہیں
- پوری طاقت اورصلاحیت سے امام کی آواز پر لبیک کہنا اور ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا۔
- خلیفہ وقت کی ظاہری حفاظت پر مستعد رہنا۔ امت مسلمہ اس بارہ میں غفلت کر کے نتائج بھگت چکی ہے
- خلیفہ وقت کے لئے درد دل سے دعائیں کرنا، اس کی صحت، عمر اور منصوبوں میں کامیابی کے لئے سجدہ ریز ہونا۔
- قیام صلوٰة اور ادائیگی زکوٰة کے مضمون پر دلی توجہ سے عمل پیرا ہونا۔
- خلیفہ وقت سے ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعہ سے تعلق رکھنا اور دعائیں حاصل کرنا۔
- تمام اہم معاملات میں مشورہ کرنا اور اپنے حالات سے باخبر رکھنا۔
- اپنے اہل و عیال اور عزیزوں میں خلیفہ وقت کی محبت کو راسخ کرنا۔
- خلافت کی غیرت رکھنا اور منکرین خلافت کا مقابلہ کرنا۔
- اپنے ماحول میں چوکس رہنا کہ کوئی فرد غیر شعوری طور پربھی خلافت کی بے ادبی نہ کرے۔
- خلافت کے حق میں زبانی تقاریر اور لسانی جہاد کرنا۔
- خلافت کی برکات کے متعلق لٹریچر کی تیاری، اخبارات و رسائل، جرائد میں مضامین کی اشاعت، کتب کو عام کرنا۔
- باہمی طور پر متحد اور بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص بن کر رہنا۔ جس کیفیت کو قرآن نے رُحَمَاءُبَیْنَھُمْ قرار دیا ہے اس کے بغیر نہ جماعت مؤمنین کو استحکام نصیب ہو گا نہ خلافت کو جیسا کہ تاریخ خلافت راشدہ سے ثابت ہے۔
پس اے احباب و خواتین اور بچو! اس عہد کو حرز جان بناؤ اس سے عشق کرو کہ یہ تمہاری زندگی کا راز ہے۔ بقا کی ضمانت ہے۔ یہ ابدالآباد تک تمہاری نسلوں کے لئے آب حیات ہے۔ اسے دیواروں پر نہیں سینوں پر آویزاں کرو۔ دلوں کو منور کرو دماغوں کو اس سے جلا بخشو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ۔ آمین
(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ گھانا)