ایک تھی بشریٰ
حور جہاں بشریٰ بنت مکرم مرزا عبد الرحیم بیگ اہلیہ مکرم داؤد احمد قریشی
ربوہ کے سالانہ اجتماعات میں ہر شہر کی چنیدہ مقررات کے در میان مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ کراچی کی نمائندگی کرنے والی ’تقریری مقابلے لوٹنے کی اہلیت رکھنے والی حوری بہت جلد معروف ہو گئی انعا مات وصول کرنے والوں میں دو چوٹیوں والی سمارٹ سی لڑکی پیش پیش ہوتی۔ اس کی قابلیت کا شہرہ اس کا تعارف بنا۔ خاکسار لجنہ مرکزیہ میں سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ رہی تھی 1964ء میں شادی کے بعد کراچی آئی تو مرکزی عہدے دار ہونے کی وجہ سے کراچی لجنہ نے ایک استقبالیہ تقریب کی جس میں بشریٰ نے بڑی اچھی تقریر کی۔ دعا کے بعد جب اس نے اپنی آٹو گراف بک میری طرف بڑھائی تو اس میں بہت سی محترم ہستیوں کے دستخط اور دعائیہ جملے پڑھ کر بچی کے اس مفید شوق سے بہت متأ ثر ہوئی۔ بس اس وقت بشریٰ کو اتنا ہی جان سکی تھی۔
کراچی، لاہور، اسلام آ باد میں کچھ سال گزار کر جب 1980ء میں کراچی منتقل ہوئے تو خاکسار کو با قاعدگی سے لجنہ کاکام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں بشری ٰ سے قربت ہوئی۔ کسی نئے شہر میں نیک ’مستعد‘ ہم مزاج ساتھی مل جانا نعمت عظمیٰ ہوتاہے۔ ہماری کوئی رشتہ داری نہ تھی۔ للّٰہی رفاقت نے یک جان دو قالب کر دیا۔ احمدیت کا رشتہ سب رشتوں سے قوی تر اور مبارک ہے۔ اُس کے پاس شعبہ اصلاح و ارشاد تھا میرا شعبہ اشاعت لیکن سارے کام ہم مل کر کرتے تھے۔ لجنہ کے مفوضہ فرائض میں ہم آہنگی اور تعاون کے ساتھ ساتھ گھریلو تعلقات بھی ہوگئے۔ بے تکلف بہنوں جیسا معاملہ ہو گیا۔ اس کو ہر کام دل ڈال کر خوب صورتی سے کرنے کی عادت تھی۔ سن 1946ء کی پیدائش تھی پانچویں چھٹی کلاس سے ناصرات کی سیکرٹری کا کام سونپا گیا۔ پھر وہ آگے سے آگے بڑھتی رہی تبلیغ کا شوق تھا یونیورسٹی میں کھل کر اپنے عقائد پر بات کرتی 1972ء میں شادی کے بعد ایران گئی وہاں بھی خدمت کی راہیں تلاش کر لیں احمدی گھروں سے روابط بڑھائے اپنے گھر میں سیرت النبی ؐ کے جلسے کئے وہاں لجنہ قائم کی۔ 1979ء میں حالات کی خرابی کی وجہ سے واپس کراچی آگئے ۔1981ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کراچی لجنہ کی انتظامیہ کی پانچ رکنی کمیٹی بنائی تو بشریٰ کو ایک رکن نامزد فرمایا۔ انتہائی تندہی سے کام کیا۔ اس کی قیادت نمبر پانچ کی نگران کا فریضہ بھی ادا کیا اس نے کئی انقلابی کام کئے۔ جامعہ احمدیہ کی طرز پر خواتین کا سکول کھولا۔ کتب کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔ خود بھی سیرت پر بہت سی کتابیں لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ چھ کتابیں مکمل کیں۔ ینگ لجنہ کی تعلیم و تربیت کے لئے لیکچرز دئے۔ اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد کا کام تو اس نے تادم آخر جنونیوں کی طرح کیا۔ 1991ء کے تاریخی جلسہ سالانہ پر قادیان گئی اور ڈیوٹی بھی دی۔ وہیں پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے لجنہ لاہور کو ارشاد فرمایا کہ جلسہ ہائے سیرۃ النبی ؐ کروائیں اور کراچی سے بشریٰ کو تقریر کے لئے بلائیں چنانچہ بشریٰ نے 15تا21 /نومبر 1992ء لاہور میں چھ جلسوں میں تقاریر کیں اور سامعات کے دلوں میں حُبّ رسول ؐ بیدار کیا۔
یہ سب کام جاری تھے مگربشریٰ کی صحت کسی نہ کسی عارضے سے کمزور ہو رہی تھی اور اس کے علاج پر مناسب توجہ نہ دینے کا موضوع اکثر زیر بحث رہتا۔ آپا سلیمہ، مسز بھٹی، محمودہ امۃ السمیع (پمی) برکت ناصر، نگار، نعیمہ سب ہی اُسے حسبِ تو فیق پیار سے ڈانٹتے اور اصرار کرتے کہ بشریٰ ڈھنگ سے علاج کرواؤ تا کہ زیادہ کام کر سکو۔ بشریٰ کو کاموں سے فرصت نہ تھی وہ حساب لگاتی کہ ڈاکٹر کو دکھانے میں کتنے دن نکل جائیں گے اور کتنا کام پڑا رہ جائے گا۔ اُسے اپنے عرصۂ حیات کی تنگی کا علم نہ تھا ورنہ شاید وہ زندگی کی ضروریات کا وقت بھی جماعت کو دے ڈالتی۔
بالآ خر بڑے اصرار سے وہ ڈاکٹر کو دکھانے پر آ مادہ ہو گئی۔
اپریل 1993ء کا ایک انتہائی گرم دن تھا جب میں اسے لے کر پہلی دفعہ ہولی فیملی ہسپتال کی اوپی ڈی پہنچی۔ ہولی فیملی اسی کا انتخاب تھا۔ حسن اتفاق سے وہاں جو ڈاکٹر متعین تھی میری بیٹی کی کولیگ تھی۔ بہت سی خواتین اپنی اپنی باری کے انتظار میں بینچوں پر بیٹھی تھیں۔ بشریٰ اور میں ایک دیوار کے ساتھ لگے کھڑے تھے حسب معمول ہمارے پاس مختلف النوع موضوعات تھے اور گفتگو کرنے کے لئے فرصت تھی۔ میں نے اس سے ذکر کیا کہ چند دن پہلے جب تمہاری امی سے کہا کہ آپ بشریٰ پر زور ڈالیں کہ وہ اپنا علاج کروا لے تو کس طرح وہ بے قابو ہو کر روئی تھیں کہ بشریٰ اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتی کہتی ہے ابھی بہت کام ہیں۔ اس بات پر بشریٰ کو اپنی امی پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا پھر بہت دیر تک اپنی امی کی باتیں کرتی رہی اُس نے اپنے ماضی کی‘ بچپن کی کئی باتیں بتائیں اُس نے بتایا تھا، ایک دفعہ وہ کچھ کھیلنے میں اتنی مگن تھی کہ ایک بکری پیچھے کھڑے ہو کر اس کی فراک کھانے لگی۔ وہ پیڑوں پر چڑھ کر دھما چوکڑی مچا کر کپڑے میلے کر کے پھاڑ کر گھر آیا کرتی تھی، بھائی بہنیں مل کر کھیلتے اور جھگڑا کرتے تھے۔ گھر میں دادی اماں کی لاڈلی تھی وہ کسی کو کچھ کہنے نہیں دیتی تھیں۔ پھر اس نے بتایا کہ امی اپنے حالات کسی کو نہ بتاتیں جب کبھی پریشان ہوتیں تو زیادہ خاموش رہتیں صرف اُن کی آ نکھوں سے آنسو بہتے اور وہ یہ شعر پڑھا کرتیں۔
حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر
کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے
اباجان کی بہت عزت کرتیں۔ وقت پر کھانے ’لباس اور ضرورت کی چیزیں مہیا کرتیں۔ بہت کفایت شعار اور سلیقہ مند تھیں۔ بیگ صاحب کے پرانے کُرتے رنگ کے پہن لیتیں۔ پھٹے ہوئے دوپٹے چُن کر اوڑ ھ لیتیں پھر جیوٹ کی بوریوں کو سی کر اُس پر اُون سے کڑھائی کر کے قالین بنانے کا قصّہ بھی سنایا۔ ہم دونوں عجیب جذباتی ہو رہی تھیں۔ بشریٰ نے بتایا کہ ایک دفعہ تعلیمی سال گزرنے کے بعد کالج سے کاشن منی واپس ملی تو یکمشت دس روپے ملنے پر خوشی کے مارے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے اس رقم سے اس نے اپنی امی کی چپل خریدی تھی۔ اِدھر بنتِ درویش کے بچپن کی یادوں میں بھی یہی کچھ تھا مَیں نے بھی اسے بتایا کی دورانِ تعلیم کتابوں کاپیوں کا مکمل ہونا کبھی ممکن نہ ہوا تھا۔ کتابوں کی سنبھال جلد بندی اور پرانی کاپیوں سے کاغذ نکال نکال کر سینا یاد آیا
ہم باتیں کر رہے تھے مگر ہماری نظریں ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے پر تھیں کہ کب بلاوا آتا ہے۔ گرمی میں برقع پہنے ہوئے دم نکل رہا تھا۔ عورتیں قطار میں کھڑی تھیں قطار میں کھڑی ایک نازک سی کم عمر پٹھان لڑکی جب بغیر باری کے ڈاکٹر کے کمرے میں گھسنے کی ناکام کو شش پر پسپا ہو کر پیچھے ہٹتی تو اس کا ادھیڑ عمر موٹا تازہ پٹھان شوہر اسے سرمہ میں ڈوبی ہوئی آ نکھوں سے اس طرح گھور تا جیسے بس چلے تو یہیں ذبح کر دے۔ تیزقدموں سے آ کر اسے ڈانٹتا اور ڈاکٹر کے کمرے میں گھُسنے کی کوشش جاری رکھنے کی پشتو میں تاکید کر کے مونچھوں پر تاؤ دینے لگتا، بہت سی مکرانی، سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھانی، اَن پڑھ کم تعلیم یافتہ عورتوں کو دیکھ کر ہمارے دل درد مند ہو رہے تھے۔ دنیا میں کتنے لوگ بیمار ہیں۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے بشریٰ نے کہا دیکھو ہمیں کتنا کام کرنا ہے۔ ان سب کواحمدیت کی تعلیم دینی ہے۔ عورتیں اتنے دُکھ اس لئے اُ ٹھاتی ہیں کہ اُن کو علم نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ فرائض کیا ہیں۔ نہ مَردوں کو پتہ ہے انسانیت اُن سے کیا تقاضا کرتی ہے۔ ہمیں اُس پیمانے پر انقلاب لا نا ہے جیسے دَور ِ اوّل میں آیا تھا۔
بشریٰ کی آواز دھیمی تھی مگر انداز تقریر کا تھا میرے پرس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا تازہ مکتوب تھا جو ہم نے مل کر ابھی نہیں پڑھا تھا۔ خط پڑھتے ہوئے حضور کی یادوں سے ہم غیر محسوس طور پر آ نحضورؐ کے ذکر تک پہنچے۔ مَیں یہ بتاتی چلوں کہ بشریٰ کی سیرت نبویؐ پر کتابیں لکھنے اور پُر اثر تقریر وں میں اس کا حضرت نبی کریم ؐ سے لازوال عشق کارفرما تھا۔ کثرت سے سیرت کی کتب کا مطالعہ کرتی مجھے بھی مطالعہ کی عادت ہے۔ اس طرح ہماری عمومی گفتگو کا محور بھی سیرت طیبہ ہی رہتا، ہم نے مکہ مدینہ کی مقدس بستیوں اور وہاں کے روزو شب کا خاکہ سا بنا رکھا تھا، مطالعہ سے جو نئے رنگ ملتے ہم اس میں بھرتے چلے جاتے حتیٰ کہ ہم نے اسلام کے دور اول کی ایک جیتی جاگتی دُنیا بنا لی تھی۔
بشریٰ کو ڈاکٹر صاحبہ نے دیکھ کر آ پریشن کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے چھٹی پر جا رہی ہیں۔ بشریٰ کے پاس اب معقول بہانہ تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی واپسی تک وہ دَوا کھا کھا کے وقت گزار لے گی۔ وہ اپنی قوت ارادی اور جذبہ خدمت دین سے چل رہی تھی ورنہ اکثر اسے کوئی نہ کوئی تکلیف رہتی تھی۔ ایک دفعہ بہت ہلکا ہلکا بخار رہا۔ کبھی کبھی کھانسی بھی اُ ٹھتی تھی۔ دردِ شقیقہ سے بےحال ہو جاتی۔ گردے میں بھی درد محسوس کرتی اس کے علاوہ بھی اُسے تکلیف تھی مگر وہ ہم سب سے زیادہ لجنہ کا کام کرتی سب سے زیادہ گھر پر محنت کرتی۔ جلسے ’تقاریر‘ دورے بہت وقت طلب کام تھے۔ اُسے ملال رہتا کہ وہ اپنے میاں اوربچوں کو اتنی توجہ نہیں دے سکتی جتنی دینی چایئے۔ امی ابا کو ملنے نہیں جا سکتی باقی رشتے داروں سے ملنا خاندان کی تقریبات پر جانا اس کے لئے ممکن نہ رہا تھا۔ وقت اور ہمت کم تھی کہاں سے گنجائش لاتی۔ وہ کبھی کبھی رات رات بھر بیٹھ کر لکھنے کا کام کرتی۔ کیونکہ گھر کے سب کام اسے خود کرنے ہوتے تھے۔ وہ اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سیتی تھی۔ تیزی سے کام نپٹا کے جمعہ، اجلاس، جلسوں پر باقاعدہ جاتی۔ رمضان المبارک کا معمول حیرت انگیز تھا دوپہر تک کھانا پکانے اور دیگر گھر کے کام کر کے کھانا ساتھ لے کر بچوں کے ساتھ احمدیہ ہال آ جاتی، عصر کی نماز، پھر درس پھر مغرب کی نماز، پھر کھانا اور ذرا سا آرام اور عشاء اور تراویح پڑھ کر گھر جاتی۔ گھر پانچویں منزل پر تھا اور لفٹ بھی نہیں تھی۔ آ خری مہینوں میں ڈاکٹر نے سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے منع کیا تھا۔۔
ڈاکٹر صاحبہ چھٹیو ں کے بعد واپس آ ئیں تو ہسپتال میں داخل ہونے کی تاریخ آ ٹھ جولائی دی۔ یہ وہ سال تھاکہ حضور ؒ نے دعوت الی اللہ کا نیا ٹارگٹ دیا تھا۔ پُر ولولہ دیوانی اس ٹارگٹ کے لئے بے تاب ہو کر کام کرنے لگی۔ انہی دنوں ہماری عاملہ کی ایک ممبر محترمہ مبارکہ ملک صاحبہ کی وفات ہوئی۔ تعزیت کے لئے ہم دونوں اکٹھی گئی تھیں، غمی خوشی بیمار پرسی تعزیت وغیرہ میں عموماً ساتھ رہتا مگر یہ ساتھ آ خری تھا۔ سارا راستہ باتیں پھر وہاں بھی ساتھ ساتھ بیٹھے واپسی پر بھی ساتھ تھے اور یہ میری پیاری بشریٰ سے طویل ملاقات تھی جس میں غم کے آنسو بھی تھے نئے احمدی بنانے کے عزائم بھی تھے اور …. اور ….. اور بہت کچھ تھا، جولائی کے شروع میں فون پر باتوں کا رنگ کچھ اس طرح تھا، مَیں نے سارے بستروں پر صاف چادریں بچھا دی ہیں تا کہ بچوں کو تکلیف نہ ہو، میں نے بہت سے کھانے پکا کر فریز کر دئے ہیں۔ میرے بعد کام آ ئیں گے۔ آج ڈھیر سارے کپڑے دھوئے ہیں تا کہ میرے بعد کچھ عرصہ تو نکل جائے۔ طوبیٰ کے کپڑے استری کر کے لٹکا دئے ہیں اب بالوں میں کنگھی کر رہی ہوں۔
ایک دن کہنے لگی دل گھبرا رہا ہے کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ آ پریشن کے بعد کوئی واپس آ ہی نہ سکے، مَیں داؤد کو کہوں گی کہ اگر ایسا ہوا تو سارے کاغذات باندھ کر تمہارے گھر دے آئیں۔ باقی کام تم کر لینا۔ ہر وقت ٹارگٹ کے لئے دعا کرتی اور کرواتی۔ اس کی دُعائیں بھی عجیب ہوتیں، کہتی دُعا کرو۔ اللہ تعالیٰ مجھے اُس وقت اٹھا لے جب اُس کی رضا کی نظر یں مجھ پر پڑ رہی ہوں۔ پھر کہتی دُعا کرو نسلوں تک نسلاً بعد نسل ایمان کی دولت نصیب ہو۔ کبھی کہتی دُعا کرو خدا تعالیٰ مجھے اس جماعت میں شامل کرے جسے رسول کریم ؐ کا دیدار کرایا جائے گا۔ کبھی کہتی وہ نظر نہیں آتا ملتا نہیں ہے ورنہ مَیں اسے ایسا چمٹوں کہ کبھی نہ چھوڑوں، بس ایک دفعہ مل جائے تم دعا کرو میرے نفس میں مجھ میں اتنا بُعد ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کو میرا دل پسند آ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کی طاقت تھی اس کی خوشنودی اس کی مساعی کا محور تھا۔ اسی کی طاقت سے وہ چل رہی تھی۔ وہ اللہ والوں سے پیار کرتی تھی۔ وہ با عمل عالم تھی۔ وہ کبھی کسی کا دل نہ دکھاتی تھی۔ جب بھی کہیں کام اٹکتا عجیب پیار بھرے انداز میں تسلیاں دیتی، کوئی مشکل ہوتی ،مشورہ کرنا ہو اُسے فون کر لو پیار سے کوئی حل بتائے گی اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرف رُخ موڑ دے گی۔ کسی امر میں فیصلہ کرنا ہو تو وہ بڑی جلدی نتیجے پر پہنچ جاتی۔ اُس کی رائے مؤقر اور فیصلہ وقیع ہوتا۔
10؍جولائی کو ہسپتال داخل ہوئی۔ 13 تاریخ کو کامیاب آ پریشن ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ جلدی چھٹی ہوجائے گی۔ وہاں مریضوں سے ہمدردی کر کے دل موہ لیاپھر اپنا پیغام حق دیا۔ بہت جلد ہر دلعزیز ہو گئی۔ بہت لوگ اُس کی خیریت پوچھنے ہسپتال گئے۔ بس وہ التجا کرتی دُعا کرو ٹارگٹ پورا ہو جائے۔ ایک دن اپنے بھائی باسط کو کہا تم آتے ہو کھانا دیتے ہو وہاں کھڑے ہو کر حال پوچھتے ہو اور چلے جاتے ہو۔ ادھر میرے قریب آ ؤ پھر اُس کا سر پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر بھینچ لیا اور بہت پیار کیا۔ بہت دُعائیں دیں۔ محمودہ امۃ السمیع پمی صاحبہ اور مَیں اُس سے ملنے گئے۔ ہسپتال میں بستر پر میری بشریٰ ہشاش بشاش لیٹی تھی زیادہ تر بیت کے ٹارگٹ کی باتیں ہوئیں، واہمہ بھی نہ تھا کہ یہ آ خری ملاقات ہے۔ پمی نے کہا بشریٰ آپریشن کے بعد پانچ سیڑھیاں چڑھ کر گھر جاؤ گی۔ انہیں سیڑھیوں نے تمہیں بیمار کیا ہے۔ یہ گھر بیچ دو کہیں نیچے لے لو۔ پمی کی طرف دیکھا اور بڑے سکون سے بولی۔
’’میرا اللہ بھی تو جانتا ہے وہ جب چاہے گا میرے لئے انتظام کر دے گا۔ جہاں چاہے گا وہیں رہ لوں گی وہ بڑا پیارا ہے۔‘‘
اپنے بچوں کو بہت یاد کیا، طاہر زیادہ بے چین ہو جاتا ہے۔ طوبیٰ معصوم انتظار کر رہی ہوگی۔ ناصرخود کو سنبھال لیتا ہے مگر طاہر …. میں سلام کر کے ماتھا چُو م کے دُعا دے کے واپس آ نے لگی تو آواز دے کر کہا کہ شمیم صاحب سے پوچھنا مَیں نے آ خری دن ان کو دعوتِ حق دی تھی۔ کیا سوچا ہے۔ میری خاطر پوچھ لینا میرا نام لے کر پوچھ لینا ….. پھر مَیں نے بشریٰ کی آواز نہیں سُنی۔
20؍جولائی سہ پہر ہسپتال سے ڈاکٹر صاحبہ کا فون آیا ….. آ واز درد میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ کی بشریٰ ٹھیک ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ آج اُسے چھٹی ہو گئی تھی وہ ہسپتال سے جانے سے پہلے سب سے ملیں مجھے بھی مُنہ چوم کے پیار کیا۔ ۔ ۔ سب اُ نہیں بہت پسند کرنے لگے تھے، مگر اچھی خبر نہیں ہے۔
کیوں کیا ہوا؟ مَیں چیخ کر بولی۔ ڈاکٹر نے میری حالت کا اندازہ کرکے آہستہ آہستہ کہا:
وہ خود چل کر سب سے ملیں۔ خود بل پر دستخط کئے، ۔ ۔ ۔ تیار ہوئیں۔۔ مَیں نے بی پی لیا تھا ٹھیک تھا۔ ۔ پھر وہ لفٹ سے نیچے اتریں۔۔ اور باہر گاڑی کے انتظار میں کھڑی ہوئیں۔ ۔ ۔ تو بے ہوش ہو گئیں۔
’’پھر۔ ۔ پھر ایمرجنسی روم میں ٹیبل پر جب مَیں نے۔ ۔ اُن کو دیکھا۔ ۔ تو نہ بی پی تھا۔ ۔ ۔ نہ نبض۔ ۔ ۔ ۔ مجھے خود بہت افسوس ہے۔۔ بہت اچھی تھیں۔ ۔ آپ اُن کے گھر اطلاع دے دیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
یہ کہنا آسان تھا مگر کرنا بہت مشکل گھر والوں کو کیا اطلاع دیتی؟ کیسے دیتی؟
اب اپنی کیفیت خود کیا لکھوں جس کو با علم، ہم مذاق، ہم جنون ساتھی کی قریبی رفاقت ملی ہو وہی محسوس کر سکتا ہے کہ یوں اچانک یہ خبر سُن کے کیا حال ہو سکتا ہے۔ ہسپتال پہنچی تو ایمبولنس میں ڈالا جا چکا تھا۔ داؤد بھائی اس کے مسکراتے چہرے کو بغیر پلک جھپکے دیکھ رہے تھے اور ضعیف العمر عظیم ماں جس نے جنم دیا تھا۔ پالا تھا۔ بیاہا تھا۔ میاں اور بچوں کے ساتھ خوش باش دیکھا تھا۔ ۔ ہسپتال میں خدمت کی تھی۔ ۔ آ خری لمحوں کی روداد سُنا رہی تھی۔ ۔ ۔
مَیں نے اُسے کہا تھا آ ہستہ چلو مگر وہ کہہ رہی تھی مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ پھر ہم وہاں پول کے پاس چبوترے پر بیٹھے تھے مَیں نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈالا ہوا تھا وہ آہستہ سے نیچے کو کھسکی اور لڑھک کر گر گئی، بے ہوش ہو گئی، ناخن ہونٹ نیلے کالے ہو گئے۔ میری چیخ سُن کر داؤد آئے۔ سٹریچر منگوایا اس نے آنکھیں کھولیں۔ ۔ ۔ میں کہاں ہوں ؟ ۔ ۔ ۔ تم میرے پاس ہو۔ ۔ ۔ میری بچی۔ ۔ وہ بولی مجھے جلدی گھر لے جائیں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ پھر آ نکھیں بند کر لیں۔ مجھے گھرلے جائیں۔۔ مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ پھر سٹر یچر پر ایمر جنسی روم میں جاتے ہوئے کہا حضور کو فون کرا دیں۔ ۔ ۔ پھر آ نکھیں بند کر لیں۔ ۔ پھر آنکھیں بند کر لیں۔ ۔ پھر ٹیبل پر دو دفعہ آہ آہ کی آواز آئی۔ ۔ ۔ پھر لمبی سی آواز کھینچ کر اللہ کہا۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ اور وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گئی۔۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
خدا حافظ ! پیاری بشریٰ اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے بچوں پر بے پایاں فضل فر مائے۔ ۔
ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
بشریٰ کی رحلت کی خبر آناً فاناً شہر بلکہ دنیا کی جماعتوں میں پھیل گئی۔ بیگ صاحب کے گھر آخری دیدار کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ عجیب عالم تھا۔ کون کس سے تعزیت کرتا۔ ہر ایک دُ کھی تھا۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ سسکیوں کی آ وازیں تھیں۔ بشریٰ سب کی لاڈلی سب کی پیاری پر سکون سوئی ہوئی تھی۔ جو کسی کو دُکھی نہ دیکھ سکتی تھی، وہ آج سب کو دُکھی کر گئی شام تک آ نے والوں کے لئے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ رہی سڑک تک لوگ کھڑے تھے۔ داؤد بھائی نے بچوں کو سمجھایا کہ یاد ہے آنحضرت ؐ کے والدین کب فوت ہوئے تھے بڑا بیٹا عبدالرحمٰن ناصر (بعمر انیس سال) سیف الاسلام طاہر (بعمر ساڑھے سولہ سال) اور عطیۃ الحبیب طوبیٰ (بعمر ساڑھے نَو سال) اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انتظامات میں لگ گئے۔
پیارے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو اطلاع دی یہ صدمہ نہ صرف ہمارے لئے بلکہ حضور انور رحمہ اللہ کے لئے بھی کم نہیں تھا۔ جمعہ کی نماز سے پہلے آپ نے خاکسار کے نام لکھوائے ہوئے خط پر دستخط فرماتے ہوئے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا:
’’عزیزہ بشریٰ داؤد حوری کے درد ناک سانحۂ ارتحال سے متعلق آپ کا خط ملا تھا۔ اس پاکباز، فدائی، حسن و احسان کی مرقع بیٹی کی نماز جنازہ غائب کا فیصلہ تو خبر ملتے ہی کر لیا تھا۔ آج بعد نماز جمعہ ان شاء اللہ نماز جنازہ ہو گی۔ اقربا، جماعت کراچی اور لجنہ کراچی سے تعزیت کا اظہار خطبہ کے آخر پر کروں گا۔‘‘
23/جولائی کے خطبہ میں آپ نے قابلِ رشک پیارے الفاظ میں مرحومہ کا ذکر فرمایا۔ جس میں خاص طور پر اس کی تقاریر کو سراہا:
’’اس نیک خاتون نے اپنے نیک باپ کی تمام نیکیاں حاصل کیں۔ بے لَوث خدمت کی۔ انتھک محنت کی۔ ان کو سیرت کے بیان میں حسن تقریر کا خاص ملکہ حاصل تھا کہ ایک تقریر سے ہی مخالفوں کی کایا پلٹ دیا کرتی تھیں‘‘
اس کے بعد 29/جولائی کو خاکسار کے نام مکتوب میں جو خاکسار سے تعزیت فرمائی وہ ہمارے لئے ایک اعزاز ہے۔ خط کیا ہے ادب کا ایک شاہکار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خوش نصیب کے حق میں حضور کی دعائیں بڑھا کے قبول فرماتا رہے۔ آمین۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا:
’’عزیزہ حوری غفرلھا کے وصال پر آپ کا سسکتا بلکتا ہوا اظہار درد موصول ہوا جو اس مضمون پر حرفِ آخر ہے۔ اس اظہار درد میں کہے ہوئے غموں کے پیچھے اَنْ کہے غم بھی قطار در قطار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس میں وہ خوابیں بھی ہیں جو نقطۂ تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر گئیں اور کچھ تعبیر کی حسرتیں بھی ہیں جیسے کھیل ختم ہو جانے سے پہلے بساط اُٹھا دی جائے تو کیفیتیں بے کیفیوں اور بے چین جھنجھناہٹوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں کچھ ویسا ہی منظر حروف کی چلمن میں سے دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
ہالینڈ
’’دلِ ناصبور کی رگ رگ پھڑکتی ہوئی وہ چیخیں جو دل کے پردے پھاڑ کر باہر نہ آ سکیں کیسے یہ اعجاز دکھا گئیں کہ لگتا ہے جیسے فضاؤں کے سینے چیر دئیے ہوں صبرو رضا کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بے اختیار یہ چیخیں جو ساتھ والے کمرے میں بھی سنائی نہ دیں کیسے سات سمندر پار سنائی دینے لگیں۔ حبسِ دوام پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی، بپھرتی، تڑپتی، سر پٹکتی ہوئی دل کی آگ سے کیسے آپ نے اپنے عزمِ تسلیم و رضا کو بچا لیا کہ آنچ تک نہ آنے دی۔ کیسے آپ کی آنکھوں کے سامنے ہر شعلۂ فغاں سسکیوں میں ڈھل ڈھل کر خونِ دل میں سنسنا سنسنا کر بجھتا رہا۔
پاک للٰہی محبت ہو تو ایسی ہو۔ لیکن ایک آپ ہی تو نہیں جو حور شمائل حوری کی دفعۃً دل شکن جدائی سے ایسا تڑپی ہیں۔ شہر کراچی میں آپ جیسی ہزاروں ہو ں گی لیکن نہ اُنہیں شعر کہنے کا ملکہ نصیب، نہ نثر میں اظہار درد کا سلیقہ۔ وہ تو ’فی الخصام‘ بھی ’غیر مبین‘ ہیں۔ اُن کو بھی تو آپ ہی نے زبان دینی ہے اُن کی داستانِ غم بھی تو آپ ہی نے رقم کرنی ہے۔ جب دستِ قدرت، گزرتے ہوئے وقت کی مرہم لگا کر، آپ کے جھلّائے ہوئے صبرکو ذرا قراربخش دے اور یہ متلاطم پانی ذرا ٹھہر جائے تو حُوری کی پاکیزہ یاد کو ایسا دل گداز خراج تحسین پیش کریں کہ ہر پڑھنے والے کا دل پگھل پگھل کر آستانہ الوہیت کی جانب دعائیں بن بن کر بہنے لگے۔
جانے والی کا خیال تو بہت دیر اُن کو ستاتا رہے گا جو اس کے ساتھ رہیں مجھے تو پیچھے رہنے والوں کا غم لگ گیا ہے۔ داؤد اور اُن معصوم بچوں کاغم جن کی پیاری باتوں کا ذکر میری زبان سے سنتی تھیں تو حُوری کا دل کھلکھلا اُٹھتا تھا۔ مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا غم تو ایسا دل میں آن بسا ہے جیسے اپنے گھر میں آ بیٹھا ہو۔ ایک ادنیٰ سی بھی اجنبیت نہیں۔
آپ نے ٹھیک یاد دلایا ہے کہ یہ فقیروں کے سے غم میرے محسن ہیں جو دل کو ایک شرف عطا کر جاتے ہیں لیکن بعض غم یہ شرف عطا کر کے چلے نہیں جاتے بلکہ وہیں ایک گوشے میں دھونی رما کر بیٹھ رہتے ہیں اور محض دھیان کی جوگنیں ہی نہیں بلکہ بعض خطوں کی جوگنیں بھی راگنی بن کر آتی ہیں اور رات بھر احساس کے دُکھتے ہوئے تار چھیڑتی ہیں۔ اللہ سب پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور صبر جمیل کا لامتناہی اجر بھی۔
آپ نے تصور کی پریاں روشنائی کے شیشے میں اُتا ردی ہیں۔ کاش حوری بھی آپ کا یہ خط پڑھ سکتی ہر فقرے کے جھونکے سے اُس کی روح اہتزاز کرتی۔ پتہ ہے میں نے کیا دعا کی ہے؟ اگر روحوں کو دلوں میں جھانکنے کی توفیق مل سکتی ہے تو اللہ اس کی روح کو یہ توفیق بخشے کہ اپنے سب پیاروں کے دلوں میں جھانکا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستاروں کی طرح چمکے گی وہ تاریخِ عالم میں
رہے گا خوبیوں کا اُس کی چرچا وہ نہیں ہو گی
چلیں گے کام سب لجنہ کے پہلے سے بھی کچھ بہتر
مگر بنیاد میں جس کا لہو تھا وہ نہیں ہو گی
ابھی تکمیل کی راہوں میں تھے کتنے ہی منصوبے
خدا خود کھول دے گا کوئی رستہ وہ نہیں ہو گی
مری آنکھیں چمک اُٹھتی تھیں اُس کو سامنے پا کر
نظر آئے گا ہر مانوس چہرہ۔ وہ نہیں ہو گی
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)