تعارفِ مضمون
مندرجہ ذیل مضمون خاکسار کے نانا مکرم و محترم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم (والدِ ماجد مکرم چوہدری منیر احمد صاحب۔ مبلّغ سلسلہ، ڈائریکٹر مسرور ٹیلی پورٹ ایم ٹی اے انٹرنیشنل، امریکہ) نے مؤرخہ 24؍اکتوبر 1995ء کو تحریر کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں بعض پرانے کاغذات سے خاکسار کو ملا ہے۔ در اصل یہ مضمون مکرم بشیر الدین سامی صاحب مرحوم کے ایک مضمون سے متأثر ہو کر لکھا گیا تھا۔ اُس مضمون کا عنوان ’’وہ گنجہائے گراں مایہ‘‘ تھا اور روزنامہ الفضل ربوہ کے 19؍ستمبر 1995ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ نانا جان نے سامی صاحب کے مضمون کے تسلسل میں اپنی یادداشتیں قلمبند کیں لیکن اُس وقت آپ کا یہ مضمون کہیں شائع نہ ہو سکا۔ اس ایمان افروز مضمون میں سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے متعلق اور تقسیم ملک کے زمانے کی نایاب روایات ہیں جو پہلے سلسلہ کے ریکارڈ میں کہیں موجود نہیں۔ لہٰذا خاکسار اس مضمون کو الفضل میں اشاعت کے لئے ارسال کر رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ مضمون قارئین الفضل کی دلچسپی اور ازدیاد ایمان کا باعث ہو گا۔ اِن شاء اللّٰہ العزیز
مکرم چودھری بشیر احمد تحریر فرماتے ہیں:
وسط 1947ء سے ہی حفاظتِ مرکزِ سلسلہ قادیان کے سلسلہ میں احمدی فوجی نوجوان چھٹیاں لے کر قادیان پہنچ رہے تھے۔ خاکسار اپنے برادرم محترم کموڈور چوہدری رحمت اللہ صاحب باجوہ کی تحریک پر نیوی سے رخصت لے کر قادیان جانے کے لئے حضرت شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی واقعہ 13 ٹیمپل روڈ لاہور پر پہنچ گیا تھا۔ ابھی میرے جانے کا انتظام نہیں ہوا تھا تو اچانک ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ایک فوجی جیپ میں 13 ٹیمپل روڈ پر تشریف لے آئے۔ میں وہاں اس وقت موجود تھا حضور نے آتے ہی شیخ صاحب کو حکم دیا کہ جتنے لوگ یہاں موجود ہیں ان کو جمع کر کے قسم لی جائے کہ وہ حضور کی آمد لاہور کا فی الحال کسی سے ذکر نہیں کریں گے خاکسار اس حلف میں شامل تھا اور اس حلف کی پابندی کی توفیق ملی۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک
میری ڈیوٹی وائرلیس کونیکشن کے سلسلے میں بہت حساس تھی اس کے لئے لاہور میں بھی انتظام کرنے تھے اور قادیان میں بھی۔ طے پایا کہ لاہور میں حضرت چوہدری عبد الرحیم صاحب آف اسلامیہ پارک کے گھر میں رہوں گا اور وہاں مناسب انتظام کروں گا پھر قادیان جاؤں گا۔ کچھ دنوں کے بعد جب میرا قادیان جانے کا پروگرام بنا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خاکسار کو یاد فرمایا۔ خاکسار 13 ٹیمپل روڈ پر پہنچا مجھے حضور نے اوپر طلب فرمایا خاکسار سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر گیا تو حضور سیڑھیوں کی طرف تشریف لا رہے تھےاور پاؤں درد نقرس کی وجہ سے ننگے تھے۔ حضور آتے ہی اوپر والی سیڑھی پر تشریف فرما ہوئےاور خاکسار نیچے سیڑھیوں کے اندر کھڑا ہو گیا۔ حضور نے خاکسار کو بعض زبانی پیغامات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کو پہنچانے اور ان کی رائے لینے کے لئے ارشاد فرمانے شروع کئے۔ میں نے عرض کی کہ حضور اتنے سارے پیغامات مجھے یاد نہیں رہیں گے اگر اجازت ہو تو نوٹ لکھ لوں۔ فرمایا ہاں لکھ لو لیکن اگر رستے میں پکڑے جاؤ تو یہ نوٹوں کا کاغذ نگل جانا۔ یہ پیغامات حفاظتِ مرکز اور حفاظتِ مستورات اور دیگر انتظامات کے بارے میں تھے۔ حضور کے ان ارشادات کے دوران صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب بہت سی جوتیاں اور سلیپر لے کر سیڑھیوں پر اوپر آئے اور حضور سے عرض کیا حضور جو جوتی یا سلیپر آپ کو پہننے میں آسانی پیدا کرے وہ رکھ لیں۔ حضور نے جلدی سے یہ جوتے آزمائے اور کہا میاں یہ بھی میرے لئے بھاری ہیں حضور جس پیار اور شفقت کے ساتھ میاں صاحب کو دیکھ رہے تھے اور بات کر رہے تھے اس کا اثر ابھی تک میرے دل میں ہے۔ حضور شفقت اور محبت کا مجسمہ تھے (اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سے راضی ہو) یہاں درمیان میں میاں صاحب کا ذکر آگیا۔ پیغامات کا سلسلہ جو حضور مجھے دے رہے تھے ختم ہوا تو میرے کام کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ چوہدری رحمت اللہ باجوہ صاحب نے مجھے پیغام رسانی کا ایک طریقہ بتایا تھا لیکن وہ مشکل اور دقّت طلب ہے اس لئے تم لکھ لو۔ A کا مطلب یہ ہو گا B کا مطلب یہ ہو گا C کا مطلب یہ ہو گا علیٰ ہذا القیاس جب Z پر پہنچے تو میری طرف دیکھ کر فرمایا ظفر اللہ میں حفاظتی قافلہ کے ساتھ رات کے بارہ بجے قادیان دارالامان پہنچا اس سفر کی صعوبت کے بیان کو چھوڑتا ہوں۔
شدید گرمیوں کے دن تھے خاکسار حضرت صاحبزادہ بشیراحمد صاحب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک تنگ کمرہ میں تشریف فرما تھے۔ اتنے میں لاہور سے آنے والے مزید احباب بھی پہنچ گئے۔ حضرت میاں صاحب نے میرا نام دریافت فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں انتظار کروں۔ کافی دیر بعد جب سارے دوست چلے گئے تو مجھے فرمایا آپ فرمائیں۔ عرض کیا کہ حضرت صاحب کے پیغامات لے کر آیا ہوں اور سنانے شروع کئے۔ ان پیغاموں میں ایک پیغام یہ تھا کہ ہمیں ممبئی سے ایک چھوٹا ہوائی جہاز 28000 روپے میں مل رہا ہے کیا اسے خرید لیا جائے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ میرے خیال میں اب پیغام رسانی کے لئے جہاز استعمال نہیں ہو سکیں گے۔ نیز فرمایا آج جہاز آیا تھا۔ اس کے بعد ہزارہ سنگھ (پولیس آفیسر) میرے پاس آگیا اور آ کر کہنے لگا میاں صاحب کیا آج ہوائی جہاز آیا تھا۔ فرمایا میں غلط بیانی تو نہیں کر سکتا تھا میں نے صرف اتنا ہی کہا ’’اچھا؟‘‘ اس کے بعد ہزارہ سنگھ کو مزید کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی اور چلا گیا۔ جب اس پیغام رسانی کا سلسلہ ختم ہوا تو فرمانے لگے چلو میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ دارالمسیح میں حضرت کے انتظار میں اور احباب بھی تخت پوش پر بیٹھے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ لنگر مسیح موعود کا کھانا اس ’’الدار‘‘ میں کھانے کو ملا۔ کھانے کے بعد خاکسار مہمان خانے کی طرف جانے لگا تو حضرت میاں صاحب فرمانے لگے اس وقت تم کہاں جاؤ گے۔ باہر صحن میں میرا بستر بچھا ہے اس پر سو جاؤ۔ خاکسار نے بار بار عرض کی کہ آپ اس پر آرام فرماویں لیکن اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ کے مطابق اس مبارک بستر پر رات گزاری۔ میں حضرت میاں صاحب کے اس احسانِ عظیم اور خُلقِ عظیم کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی احسن الجزاء
قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ؒ کی اجازت سے خاکسار دار الرحمت میں مکرم عبد الکریم ڈار صاحب کے مکان میں چلا گیا۔ وہاں ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر ظفر احمد صاحب اکیلے رہتے تھے۔ وہاں پر میں نے اپنا ابتدائی کام مکمل کیا لیکن بڑی دشواری یہ تھی یہ مکان بھی خطرہ میں تھا اور کئی بار گولیاں سیدھی آتی تھیں جب بھی ضروری کام کے لئے باہراور مکان کے اوپرنکلا جاتا چلتیں۔ بہت محدود جگہ میں کام کیا جو اگر چہ بالکل تسلی بخش نہیں تھا لیکن کسی قدر اطلاعات مثلاً حملہ آوروں کی حرکت کا پتہ چلتا تھا۔ شائد ایک متبادل انتظام نے یہ کمی پوری کر دی تھی۔ ظفر احمد صاحب ہر طرح میری مدد اور خدمت کرتے تھے۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی احسن الجزاء
اس مکان کی مغربی جانب ایک بڑے مکان میں مستورات جمع تھیں جن کی حفاظت خدام کر رہے تھے۔ جب 3 اکتوبر کو حملہ ہوا تو وہ مکان شدید خطرہ میں آگیا خدام نے جانفشانی سے مستورات کی حفاظت کی۔ ان خدّام میں میرے رشتے کے ماموں زاد بھائی نیاز علی صاحب بھی تھے جو ماموں غلام محی الدین صاحب آف کھاریاں کے بیٹے تھے۔ نیاز علی ایک گولی کا نشانہ بن گئے اور وہیں شہید ہو گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ ’’خوش قسمت نیاز علی‘‘۔ عورتیں الحمدللہ محفوظ رہیں۔
چونکہ اب مزید یہاں رہنا محال تھا میں اپنا سامان ٹھکانے لگا کر ڈھاب کے کنارے مولوی محمد تقی صاحب کے مکان میں آگیا۔ یہاں بھی عورتیں موجود تھیں۔ ساری رات یہاں بھی خدام ان کی حفاطت کرتے رہے اور صبح سویرے بورڈنگ تحریکِ جدید آگئے۔ فالحمدللّٰہ۔
چند دن بعد غالباً بروز جمعہ خاکسار مسجد مبارک گیا تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد علیہ الرحمۃ میری طرف اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے ہوئے آگئے اور فرمانے لگے شکر ہے تم صحیح سلامت ہو۔ میں نے تو سنا تھا کہ تم شہید ہو گئے ہو۔ میں نے عرض کیا شہید ہونے والے میرے ماموں زاد بھائی نیاز علی تھے جو میرے ہم عمر اور ہم شکل تھے۔ ؎
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
ڈاکٹر ظفر احمد صاحب اس وقت ایف ایس سی میں پڑھتے تھے بڑے ہونہار بڑے مخلص تھے۔ میرے دل میں ہمیشہ ان کی یاد تازہ رہی۔ کوئی 47 سال بعد 1994ء میں ان سے لنڈن میں ملاقات ہوئی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی احسن الجزاء۔
بعد ازاں لاہور سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات اور سعی کی بدولت ٹرکوں کے قافلے قادیان آنے شروع ہوئے۔ (ڈاکٹر میاں محمد طاہر آف امریکہ ان انتظامات کو جانتے ہیں۔) ان ٹرکوں کے ساتھ مختلف فوجی دستوں کی گارڈ ہوتی تھی۔ ایک قافلہ میں نیوی کی گارڈ تھی جس کے انچارج لیفٹیننٹ کمانڈر سجّاد تھے۔ انہوں نے مجھے قادیان میں پہچان لیا اور مجھے کہنے لگے تمہاری رخصت ختم ہے تم میرے ساتھ واپس چلو۔ میں نے کہا کہ میں خلیفۃ المسیح کے حکم کے مطابق یہاں آیا ہوں انہیں کے حکم سے واپس جاؤں گا۔ وہ یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے کہ وہ میرے خلاف رپورٹ درج کریں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد حضور کی طرف سے مجھے حکم آ گیا کہ میں واپس اپنی ڈیوٹی پر چلا جاؤں چنانچہ حضور کی زیارت کے بعد کراچی ڈیوٹی پر چلا گیا۔ غیر حاضری کی بنا پر مجھ پر فردِ جرم لگا لیکن دانشمند انگریز کمانڈنگ آفیسر نے یہ کیس dismiss کر دیا۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک
برادرم مکرم بشیر الدین احمد سامی صاحب نے حضرت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے علاج کے لئے اور سفر یورپ کے لئے کراچی تشریف آوری کا ذکر فرمایا ہے۔ جس دن حضور کراچی کینٹ سٹیشن پر تشریف لائے اس دن نیوی کے خدّام کی حفاظت پر ڈیوٹی تھی۔ حضورؓ گاڑی سے اتر کر ویل چیر پر تشریف فرما ہوئے چاروں طرف خدام تھے۔ اس موقع کی نادر تصویر جو میرے پاس ہے اس میں حضرت چوہدری عبد اللہ خاں صاحب امیر کراچی حضور کے دائیں طرف، عنایت اللہ صاحب آف چک سکندر نیوی کے یونیفارم میں ویل چیر کے پیچھے، ڈاکٹر صدیقی صاحب آف میرپورخاص اور کیپٹن محمد حسین چیمہ صاحب بائیں طرف ہیں۔ خاکسار آگے آگے چل رہا ہے۔ نیوی کے خدّام عبد الکریم صاحب۔ سی محمود صاحب اور عمر امجد صاحب بھی بائیں طرف ہیں۔ دیگر بہت سے خدّام ہیں جن میں سے بہت سے بغور پہچانے جا سکتے ہیں۔
گورنر جنرل غلام محمد صاحب جس دن حضور کی عیادت کے لئے ملیر کی کوٹھی میں تشریف لائے تھے اس وقت بھی خاکسار وہاں موجود تھا۔ جناب غلام محمد صاحب کو کار سے نکلنے میں بہت دیر لگی تھی ظاہر ہے وہ خود نہیں اٹھ سکتے تھے جس کمرہ میں حضور تشریف فرما تھے اس کو جانے کے لئے ایک سیڑھی تھی جو جناب گورنر جنرل صاحب کے لئے چڑھنی دشوار تھی چنانچہ فوجی اے ڈی کام نے ایک سپرنگ قسم کا پلیٹ فارم نیچے رکھا جس پر جناب غلام محمد صاحب کو کھڑا کیا گیا اور ہینڈل سے سپرنگ گھما کر انہیں اوپر کیا گیا تب وہ کمرہ میں داخل ہونے کے لئے قابل ہوئے اتنی معذوری کی حالت میں ان کا حضور کی تیمارداری کے لئے آنا غیر معمولی عمل تھا اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب سندھ کی زمینوں کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے تو بہت سے خدّام حیدر آباد اسٹیٹس پر حضور کی زیارت اور حفاظت کے لئے پہنچ جاتے تھے۔ ایک بار جب حضور حیدرآباد سٹیٹس پر تشریف لائے تو خاکسار بھی وہاں موجود تھا۔ استقبال کرنے والوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابی حضرت سیٹھ اسماعیل آدم رضی اللہ عنہ بھی کراچی سے حیدرآباد سٹیٹس تشریف لائے تھے۔ حضورؓ جونہی گاڑی سے باہر تشریف لائے تو حضور کی نظر حضرت سیٹھ صاحب پر پڑی۔ حضور ان کے قریب آگئے شرف ملاقات سے نوازا اور حضور نے اپنی پیشانی مبارک سیٹھ صاحب کی جانب جھکادی اور حضرت سیٹھ صاحب نے پیشانی مبارک کا بوسہ لیا۔ شاید حضور جب بچے تھے تب سے حضرت سیٹھ صاحب اس جبین مبارک کو بوسہ دیتے آئے تھے۔ یہ عشق و محبت کا نظارہ مجھے کبھی نہیں بھولا۔ کیا کیا عاشقِ صادق تھے جو بانی سلسلہ احمدیہ کو ملے۔
ایک بار جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کراچی تشریف لائے تو امیر صاحب اور سیکرٹری مال صاحب نے فیصلہ کیا کہ سب حلقوں کے صدر چندہ نہ دینے والوں کی فہرستیں بنائیں اور یہ لسٹیں حضور کی مجلس میں حضور کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ خاکسار نیوی کے حلقے کا صدر تھا حکم کے مطابق میں بھی لسٹ تیار کر کے وقتِ مقررہ پر پہنچ گیا۔ میں آگے بیٹھا تھا اس لئے اس بارے میں مجھے اپنے حلقہ کے چندہ کی پہلے رپورٹ پیش کرنی تھی۔ حضور نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا دقتیں ہیں۔ میں نے عرض کیا حضور نیوی کے جہاز بندرگاہ کے اندر دور دور کھڑے ہوتے ہیں ان تک پہنچنا دشوار ہے۔ حضور نے فرمایا امیر صاحب یہ تو اپنی یہ مشکل بیان کر رہے ہیں اور مجھے فرمایا کہ جب جہاز والوں کو چھٹی ہو تو جس مقام پر وہ کنارے پر اترتے ہیں وہاں ان کو مل کر چندہ وصول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس طریق کے اختیار کرنے سے خاص کامیابی ہوئی۔ ان دنوں نیوی میں جماعتِ اسلامی کا کافی اثر و رسوخ تھا ان کا ذکر چل پڑا تو حضور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ان کے اخلاق کیسے ہیں میں نے عرض کیا کہ حضور وہ لوگ نمازیں بہت پڑھتے ہیں حضور نے فرمایا صرف نمازیں پڑھنا ایک عادت ہے۔ اس کے بعد جب دوسرے صدروں کی رپورٹ پیش کرنے کی باری آئی تو حضور فوراً اٹھ کر مجلس سے تشریف لے گئے۔ امیر صاحب کو فکر ہوئی کہ حضور ناراض ہو کر تشریف لے گئے ہیں چنانچہ امیر صاحب جلدی جلدی پیچھے گئے تو حضور نے ناراض ہو کر فرمایا کہ میرا کام نادہندوں سے خود چندہ وصول کرنا نہیں۔ یہ خلافت کا مقام نہیں ہے۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے۔ امیر صاحب نے حضور سے اس فروگذاشت پر عاجزانہ معافی مانگی اور حضور نے معاف فرمایا۔
جب مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب قائد مجلس خدّام الاحمدیہ تھے تو حضور کی کراچی آمد پر مجلس نے حضور کی دعوت چائے منعقد کی۔ چائے کے بعد جو تقریر حضور نے فرمائی اس میں فرمایا مجھے ان خدام میں سے بعض پر بزرگی کے آثار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ انہی میں سے بعد میں بڑے خادم دین بزرگ بنے۔ کراچی میں جو غیر معمولی کامیابی ہر لحاظ سے ہوئی ہے وہ حضور کی نظر خاص اور دعا کا نتیجہ تھی۔ ایک بار حضور نے فرمایا جو کام تم لوگوں نے کیا ہے وہ ایسا ہے جیسے فلاں فلاں اسلامی جرنیلوں نے سرانجام دیا تھا ان جرنیلوں میں سے مجھے حضرت عمرو بن معدی کربؒ کا نام یاد ہے جو حضور نے لئے تھے۔
(فرحان حمزہ قریشی۔استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)