• 5 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ 21؍جنوری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 21؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

اَے الله! جو تُو نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے اُسے پُورا فرما، اَے الله! جو تُو نے  مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ مجھے عطاء فرما۔ اَے الله! اگر تُو نے مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔

حضرت عائشہؓ کے سارا اَحوال بیان کرنے پر آپؐ نے دعا کی کہ اَے الله! مدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے یا اِس سے بھی بڑھ کر اور اِس کو صحت بخش مقام بنا اور ہمارے لیئے اِس کے صاع میں اور مُدّہ میں برکت دے۔

خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہؤا  تو آپؐ نے نہایت جوش سےصحابہؓ سے کہا کہ کہو! اَللهُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ، اَللهُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ؛ تم جھوٹ بولتے ہو ھُبَلْ کی شان بلند ہو ہوئی ہے جھوٹ ہے تمہارا۔ الله وحدہٗ لا شریک ہی معزز اور اُس کی شان بالا ہے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! آجکل حضرت ابوبکرؓ کا ذکر چل رہا ہے،مدینہ پہنچنے کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی طرف توجّہ فرمائی۔

مدینہ قیام کا سب سے پہلا کام

سیر ت خاتم النّبّیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ نے لکھا ہے کہ مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجدِ نبویؐ کی تعمیر تھا جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آ کر بیٹھی تھی ،آنحضرتؐ نے اُسے مسجد اور اپنے حجرات کے تعمیر کے لیئے پسند فرمایا اور دسّ دینار میں یہ زمین خرید لی گئی ۔ بمطابق ایک روایت حضرت ابوبکرؓ کے مال سے اِس جگہ کی رقم ادا کی گئی تھی۔ تعمیر شروع ہونے کے وقت آنحضرتؐ نے اپنے دستِ مبارک سے ایک اینٹ رکھی اور پھر حضرت ابوبکرؓ کو بلایا تو اُنہوں نے آپؐ کی اینٹ کے ساتھ ایک اینٹ رکھی ، پھر بالترتیب حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے۔

 رسول اللهؐ کا حضرت ابوبکرؓ کے لیئے گھر کی جگہ کا تقرر فرمانا

عُبیداللهؒ بن عبداللهؒ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللهؐ نے مدینہ میں مکانوں کے لیئے زمین عطاء فرمائی تو حضرت ابوبکرؓ کے لیئے اُن کے گھر کی جگہ مسجد کے پاس مقررفرمائی۔

حضرت ابوبکرؓ کی مؤاخات کے بارہ میں روایات

رسول الله ؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خارجہؓ بن زید کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ علامہ ابن عساکرؒ لکھتے ہیں کہ مکّہ میں رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکر صدّیقؓ اور حضرت عمرؓ بن خطاب کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی ، پھر جب رسول اللهؐ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے وہ مؤاخات منسوخ فرما دی سوائے دو مؤاخات کے جن میں ایک آپؐ اور حضرت علیؓ نیز دوسری حضرت حمزہؓ اور حضرت زید ؓ بن حارثہ کے درمیان تھی۔ صحیح بخاری کے شارع علامہ قسطلانیؒ کے مطابق مؤاخات دو مرتبہ ہوئی۔

غزوۂ بدر اور حضرت ابوبکرؓ

غزوۂ بدر رمضان 2؍ہجری بمطابق مارچ 623ء میں ہوئی۔ بوقتِ روانگی صحابہؓ کے پاس ستّر اونٹ تھے، اِس لیئے ایک، ایک اونٹ تین، تین آدمیوں کے لیئے مقرر کیا اور ہر ایک باری باری سوار ہوتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرّحمٰن ؓ بن عوف ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔

بدر کے لیئے آنحضرتؐ کا مدینہ سے روانگی فرمانا

رسولِ کریمؐ ابو سفیان کے قافلہ کی روک تھام کے لیئے مدینہ سے نکلے جو شام کی طرف سے آ رہا تھا۔ جب مسلمانوں کا قافلہ  ذَفِرَان کی وادی میں پہنچا تو آپؐ کو قریش کے بارہ میں خبر ملی کہ وہ اپنے تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیئے نکل پڑے ہیں۔ نبیٔ کریمؐ نے صحابۂ کرام سے مشورہ طلب کیا کہ اِس بارہ میں تم کیا کہتے ہو، کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسند ہے ، اُنہوں کہا! کیوں نہیں۔ ایک روایت کے مطابق ایک گروہ نے کہا کہ آپؐ نے ہم سے جنگ کا ذکر کیوں نہ کیا تاکہ ہم اُس کی تیاری کر لیتے ہم تو تجارتی قافلہ کے لیئے نکلے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ اُنہوں نے کہا! اَے الله کے رسولؐ! آپؐ کو تجارتی قافلہ کے لیئے ہی جانا چاہیئے اور آپؐ دشمن کو چھوڑ دیں۔ اِس پر رسولِ کریمؐ کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا۔ حضرت ابو ایّوبؓ بیان کرتے ہیں کہ اِس آیت کے نزول کا سبب بھی یہی واقعہ ہے۔ کَمَاۤ اَخۡرَجَكَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَیۡتِكَ بِالۡحَقِّ ص وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِھُوۡنَ (الانفال: 6)

جیسے کہ تیرے ربّ نے تجھے حقّ کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مؤمنوں میں سے ایک گروہ اُسے یقینًا نا پسند کرتا تھا۔

رسول اللهؐ کا چہرۂ مبارک اِس بات پر چمک اُٹھا

اِس پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بالترتیب کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔پھر حضرت مِقدادؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللهؐ! جس کا الله نے آپؐ کو حکم دیا ہے اُسی طرف چلیئے ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ الله کی قسم! ہم آپؐ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ ؑ سے کہا تھاکہ فَاذۡھَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوۡنَ (المآئدۃ: 25) پس جا تُو اور تیرا ربّ دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ اُنہوں کے کہا کہ ہم آپؐ کے ساتھ مِل کر قتال کریں گے کہ جب تک ہم میں جان ہے۔ الله کی قسم! جس نے آپؐ کو حقّ کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے اگر آپؐ ہمیں برك الغماد بھی لے کر چلیں تو ہم آپؐ کے ہمراہ تلواروں سے لڑائی کرتے ہوئے چلتے چلے جائیں گے، بہرحال حضرت عبداللهؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللهؐ کے چہرۂ مبارک کو دیکھا وہ اِس بات پر چمک اُٹھا اور آپؐ اِس بات پر بہت زیادہ مسرور ہوئے۔

لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر شخص

میدانِ بدر میں جب جمع ہو گئے تو وہاں سعدؓ بن مُعاذ رئیسِ اوس کی تجویز سے صحابہؓ نے آنحضرتؐ کے لیئے ایک سائبان تیار کر دیا، آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ نے اِسی سائبان میں رات بسر کی ۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سائبان میں ننگی تلوار سونت کر آپؐ کے پاس حفاظت کے لیئے کھڑے رہے اور آنحضرتؐ نے رات بھر خدا کے حضور گریّہ و زاری سے دعائیں کیں اور لکھا ہے کہ سارے لشکر میں صرف آپؐ ہی تھے جو رات بھر جاگے باقی سب لوگ باری باری اپنی نیند سو لیئے۔ حضرت علیؓ نے اِسی حفاظت کا فرض سر انجام دینے پر آپؓ کو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر شخص قرار دیا ہے۔

فتح و نصرت کی بشارت، عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے

حضرت ابنِ عبّاسؓ نے بیان کیا کہ نبیؐ نے فرمایا! اور آپؐ بدر کے دن ایک بڑے خیمہ میں تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَنْشُدُكَ عَھْدَكَ وَ وَعْدَكَ اَللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ؛ اَے میرے الله! مَیں تجھے تیرے ہی عہد اور تیرے ہی وعدہ کی قسم دیتا ہوں ، اَے میرے ربّ اگر تُو ہی مسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اُنہوں نے کہا، یارسول اللهؐ! بس کیجیئے۔ آپؐ نے اپنے ربّ سے دعا مانگنے میں بہت اصرار کر لیا ہے اور آپؐ زرّہ پہنے ہوئے خیمہ سے نکلے اور یہ پڑھ رہے تھے۔ سَیُھْزَمُ الۡجَمۡعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّاعَةُ مَوۡعِدُھُمۡ وَ السَّاعَةُ اَدۡھٰی وَ اَمَرُّ (القمر: 47،46) عنقریب یہ سب کے سب شکست کھا جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے اور یہی وہ گھڑی ہے جس سے ڈرائے گئے تھے اور یہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہے۔

ہر کوئی جتنی معرفت رکھتا ہے اتنا ہی وہ ڈرتا ہے

قریش کے عام حملہ کے بعد حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرتؐ کا خیال آتا تھا تو مَیں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا لیکن جب جب بھی مَیں گیا تو آپؐ کو سجدہ گڑگڑاتے ہوئے پایا اور مَیں نے سُنا آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ،  یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ؛ یعنی اَے میرے زندہ خدا، اَے میرے زندگی بخش آقا! حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی اِس حالت کو دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور کبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے، یا رسول اللهؐ! میرے ماں، باپ آپؐ پر فداء ہوں، آپؐ گھبرائیں نہیں۔ الله اپنے وعدے ضرور پُورے کرے گا۔ مگر اِس سچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر اَست ترساں تر، آپؐ برابر دعا اور گریّہ و زاری میں مصروف رہے۔

رسول الله ؐ کے پہلو بہ پہلو قتال نیز حضرت ابوبکرؓ کی بے نظیر شجاعت

جب گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی تو رسول اللهؐ سائبان سے نیچے تشریف لائے اور لوگوں کو قتال پر اُبھارا، لوگ اپنی صفحوں میں الله کا ذکر کر رہے تھے۔ نبیٔ کریمؐ نے بذاتِ خُودخوب قتال کیا اور آپؐ کے پہلو بہ پہلو حضرت ابوبکر صدّیقؓ قتال کرتے رہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی بے نظیر شجاعت سامنے آئی آپؓ ہر سرکش کافر سے لڑنے کے لیئے تیار تھے اگرچہ آپؓ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرّحمٰنؓ نے جب اسلام قبول کیا تو آپؓ سے عرض کیا! بدر کے دن آپؓ میرے سامنے واضح نشانہ و ہدف پر تھے لیکن مَیں آپؓ سے ہٹ گیا اور آپؓ کو قتل نہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! اگر تُو میرے نشانہ پر ہوتا تو مَیں تجھ سے نہ ہٹتا۔

غزوۂ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ اور حضرت ابوبکرؓ کی رائے پر اظہارِ پسندیدگی

عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کر دینے یا مستقل طور پر غلام بنا لینے کا دستور تھا۔مگر آنحضرتؐ کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اِس بارہ میں کوئی اِلٰہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔حضرت ابوبکرؓ کی اِس بارہ میں یہ رائے تھی کہ اِ ن کوفدیّہ لے کر چھوڑ دیا جائے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں ، کیا تعجب کہ کل انہی میں سے فدائیانِ اسلام پیدا ہو جائیں۔جبکہ حضرت عمراِؓس رائے کے برخلاف اُن کے قتل پر مُصِر تھے۔ آنحضرتؐ نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرمایا اور قتل کے خلاف فیصلہ کیا۔

مدینہ میں ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور دوسرے صحابہؓ بیمار ہو گئے

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللهؐ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ ، حضرت بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ کہتی تھیں مَیں اُن دونوں کے پاس گئی اور خیریت دریافت کی نیز جب حضرت ابوبکرؓ کو بخار ہوتا تو یہ شعر پڑھتے؂

کُلُّ امۡرِیٍٔ مُصَبَّحٌ فِیْ اَھْلِهٖ
وَالْمَوْتُ اَدْنٰی مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهٖ

ہر شخص جواپنے گھر والوں میں صبح کو اُٹھتا ہے تو اُسے سلامتی کی دعائیں دی جاتی ہیں اور حالت یہ ہے کہ موت اُس کی جوتی کے تسمہ سے نزدیک تر ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ رسول الله ؐ کے پاس آئیں اور سارا اَحوال بیان کیا تو اِس پر آپؐ نے دعا کی کہ اَے الله! مدینہ بھی ہمیں ایسا ہی پیارا بنا دے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے یا اِس سے بھی بڑھ کر اور اِس کو صحت بخش مقام بنا اور ہمارے لیئے اِس کے صاع میں اور مُدّہ میں برکت دے۔ اور اِس کے بخار کو یہاں سے لے جا کر جُحفہ کی طرف منتقل کر دے۔

غزوۂ اُحد کے بارہ میں روایات

شوال تین ہجری بمطابق 624ء میں یہ غزوہ مسلمانوں اور قریشِ مکّہ کے درمیان ہؤا۔ تین ہجری کے آخر پر قریشِ مکّہ اور اِن کے حلیف قبیلوں پر مشتمل لشکر کے مدینہ پر چڑھائی کی اطلاع ملی۔ نبیٔ کریمؐ نے مسلمانوں کو جمع کر کے قریش کے حملہ کے بارہ میں آگاہ کر کےاِن سے مشورہ مانگا کہ آیا مدینہ میں رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے یا باہر نکلا جائے۔ مشورہ سے قبل آپؐ نے قریش کے حملہ اور اُن کے خونی ارادوں کا ذکر فرمایا اور اپنی ایک خواب اور صحابہؓ کے دریافت کرنے پر اِس کی تعبیر بیان فرمائی۔ اکابر صحابہؓ نے حالات اور کسی قدر آپؐ کی خواب سے متاثر ہو کر مدینہ کے اندر ٹھہر کر مقابلہ کرنے کو مناسب قرار دیا اور آپؐ نے اِس رائے کو پسند فرمایا۔ مگر اکثر صحابہؓ خصوصًا اُن نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے اور اپنی شہادت سے خدمتِ دین کے لیئے بے تاب ہو رہے تھے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیئے۔

خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے

آپؐ نے اُن کے جوش کو دیکھ بات مان لی ۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی مدد سے آپؐ نے عمامہ باندھا، لباس پہنا اور پھر ہتھیار لگا کر الله کا نام لیتے ہوئے باہر تشریف لائے ، حضرت سعدؓ بن مُعاذ رئیس قبیلہ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے پر نوجوان پارٹی کو غلطی محسوس ہوئی نیز آپؐ کو ہتھیار لگائے اور دُہری زِرّہ اور خَود وغیرہ پہنے ہوئے دیکھ کر ندامت سے قریبًا اُنہوں نےیک زبان ہو کر اپنی غلطی کو تسلیم کیا کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے بالمقابل اپنی رائے پر اصرار کیا، آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اُسی طرح کاروائی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا! خدا کے نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر سے اُتار دے قبل اِس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ پس اب الله کا نام لے کر چلواور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ الله تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔

کون ہے جو اِس تلوار کا حقّ ادا کرے

غزوۂ اُحد میں رسول اللهؐ نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ کون ہے جو اِس کا حقّ ادا کرے اِس موقع پر جن اصحابؓ نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تلوار اُن کو عنائیت کی جائےاِن میں حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے۔ آپؐ نے یہ تلوار حضرت ابو دُجانہ انصاریؓ کو عطاء فرمائی۔

موت پر بیعت کرنے والے خوش نصیب

رسول اللهؐ نے اُحد کے دن اپنے صحابہؓ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی جب بظاہر مسلمانوں کی پسپائی ہوئی تھی تو وہ سابق قدم رہے اور اپنی جان پر کھیل کر آپؐ کا دفاع کرنے لگے یہاں تک کہ اُن میں سے کچھ شہید ہو گئے۔ اِن بیعت کرنے والے خوش نصیبوں میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ، حضرت طلحہٰؓ، حضرت زُبیرؓ، حضرت سعدؓ ، حضرت سَہلؓ بن حُنیف اور حضرت ابو دُجانہؓ شامل تھے۔

وہ دن سارے کا سارا طلحہٰؓ کا تھا

غزوۂ اُحد کے دوران جب نبیٔ کریمؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تو اُس وقت کا نقشہ جو حضرت ابوبکرؓ نے کھینچا ہے اُس کے متعلق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب یومِ اُحد کا تذکرہ کرتےتو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہٰؓ کا تھا۔

سامنے کے ٹُوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت

پھر حضرت ابوبکرؓ رسول اللهؐ کے پاس پہنچے آپؐ کا رباعی دانت یعنی سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھا آپؐ کےرُخسارِ مبارک میں خون کی دو کڑیاں دھنس چکی تھیں ۔ رسول الله ؐ نے فرمایا تم دونوں اپنے ساتھی طلحہٰؓ کی مدد کرو اور اُن کا خون بہت بہہ رہا تھا۔ آنحضرتؐ نے بجائے یہ کہ مجھے دیکھو فرمایا !طلحہٰؓ کو جا کے دیکھو، ہم نے اُن کو رہنے دیا اور مَیں آگے بڑھے تا خَود کی کڑیوں کورسول الله ؐ کے چہرۂ مبارک سے نکال سکوں اِس پر حضرت ابو عُبیدہ ؓ نے کہاکہ مَیں آپؓ کو اپنے حقّ کی قسم دیتا ہوں کہ آپؓ اُسے میرے لیئے چھوڑ دیں۔ پس مَیں نے اُن کو چھوڑ دیا۔ اور ابو عُبیدہؓ نے ناپسند کیا کہ اِن کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالیں اور اِس سے رسول اللهؐ کو تکلیف پہنچے، اِن کڑیوں کو اپنے مُنہ سے نکالنے کی کوشش کی۔ایک کڑی کو نکالتے وقت اُن کا اپنا سامنے والا دانت بھی ٹُوٹ گیا۔ پھر دوسری کڑی نکالنے کے لیئےحضرت ابوبکرؓ آگے بڑھے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں جیسا اُنہوں نے کیا ہے تو حضرت ابو عُبیدہؓ نے پہلے والی بات دُہرائی ، آپؓ پیچھے ہٹ گئےتو اُنہوں نے پہلا عمل دُہرایا تب اُن کا سامنے کا دوسرا دانت بھی کڑی کے ساتھ ٹوٹ گیا۔ پس ابو عُبیدہؓ سامنے کے ٹُوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔

کفّار کے لشکر پر آنحضرتؐ کےدلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا گہرا اَثر

حضرت المصلح الموعودؓ آنحضرتؐ کے زخمی ہوکر بے ہوش ہونے، ہوش میں آنے نیز اِس کے بعد کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ ہم نے اسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں ، بائیں بازو کو بھی ہم نے مَار دیا ہے اِس پر ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا! اُعْلُ ھُبَلْ، اُعْلُ ھُبَلْ؛ ہمارے معزز بُت ھُبَلْ کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہی رسولِ کریمؐ جو اپنی، ابوبکرؓ اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکر لَوٹ کر حملہ کر دے اور مُٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہؤا اور شرک کا نعرہ میدان میں مَارا گیا تو آپؐ کی روح بے تاب ہو گئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا! کہ تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہؓ کے دریافت کرنے پر کہا کہ کہو! اَللهُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ، اَللهُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ؛ تم جھوٹ بولتے ہو ھُبَلْ کی کی شان بلند ہوئی ہے جھوٹ ہے تمہارا۔ الله وحدہ ٗلا شریک ہی معزز ہے اور اُس کی شان بالا ہے۔ اور اِس طرح آپؐ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمن تک پہنچا دی، اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفّار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اِس کے اِن کی اُمّیدیں اِس جواب سے خاک میں مِل گئیں ۔ لیکن اِس نعرہ کو سُن کے، یہ جوش دیکھ کر وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکّہ کو واپس چلے گئے۔

اُن کا تعاقب کون کرے گا

حضرت عائشہؓ نے عُروہؒ سے کہا ! اَے میرے بھانجےتیرے آباء زُبیرؓ اور حضرت ابوبکرؓ بھی اِنہی لوگوں میں سے تھے کہ جب جنگِ اُحد میں رسول اللهؐ زخمی ہوئے اور مشرکین پَلٹ گئے تو آپؐ کو اندیشہ ہؤا کہیں وہ پھر نہ لَوٹ آئیں۔ آپؐ نے فرمایا! اُن کا تعاقب کون کرے گاتو اُن میں سے ستّر آ دمیوں نے اپنے آپؐ کو پیش کیا ۔بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فورًا ستّر صحابہؓ کی جماعت جن میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زُبیر بھی شامل تھے تیار کر کے لشکرِ قریش کے پیچھے روانہ کر دی۔ اور اُن سے فرمایا کہ اِن کا پتا لگاؤ کہ لشکرِ قریش مدینہ پر حملہ کرنے کی نیّت تو نہیں رکھتا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا! بہر حال یہ جو وفد گیا تھا جلد ہی یہ خبر لے کر واپس آ گیا کہ قریش کا لشکر مکّہ کی طرف جا رہا ہے نیز عندیہ دیاکہ یہ ابھی اِنْ شآء الله! ذکر آئندہ بھی چلے گا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

واقعہ افک اور اس کا پس منظر (قسط اول)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ