• 26 اپریل, 2024

اولاد کے لئے نیک نمونہ بنو

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لیے کچھ مال چھوڑنا چاہئے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے۔ مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس کا فکر کریں کہ اولاد صالح ہو طالح نہ ہو۔ مگر یہ وہم بھی نہیں آتا اور نہ اس کی پروا کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بد اطواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صرف ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لیے شرارت اور بدمعاشی کی وارث ہوتی ہے۔

اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَ ھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (الاعراف :197) یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی۔ اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لیے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا۔ اور اگر بد چلن ہے تو جائے جہنم میں۔ اس کی پروا تک نہ کرے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔

پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 108تا 110)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2020