• 26 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعودؓ مجلس انصار اللہ کا قیام

خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعودؓ

حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ سے مجلس انصار اللہ کا قیام

تبلیغ کرنا ،قرآن پڑھانا ،شرائع کی حکمتیں بتانا ،اچھی تربیت کرنا ، قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں ترقی کے میدان میں بڑھانا
یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہؓ پر تھیں اور یہی پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں

خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں اب انہیں ہرجگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں

حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق ایک دعا کی تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور وہ دعا یہ تھی کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ

1۔اے میرے رب ! تُو ان میں ایک نبی مبعوث فرما جس کا کام یہ ہو کہ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وہ تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اور شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں سمجھائے وَ يُزَكِّيْهِمْ اور انہیں پاک کرے یا يُزَكِّيْهِمْ کے دوسرے معنوں کے مطابق انہیں ادنیٰ حالتوں سے ترقی دیتے دیتے اعلیٰ مقامات تک پہنچا دے۔ یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے۔ اس کے بالمقابل انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق ایک عام دعا بھی کی ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کی انہوں نے فرمانبرداری کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خدمت کو قبول کیا اور فرمایا کہ ہم تم کو امام بناتے ہیں تو اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا 2 کی خبر سننے کے بعد انہوں نے فرمایا وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ 3۔میری امامت تو میرے زمانہ کے لوگوں تک ختم ہو جائے گی لیکن دنیا تو اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی اور جب دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی تو اے خدا میری ذریت میں سے بھی امام مقرر کئے جائیں۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ کوئی نبی ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے لئے رہبر نہیں رہ سکتا بلکہ بار بار خداتعالیٰ کی طرف سے امام آنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار امام آنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد میں سے متواتر امام بنانے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسری طرف مکہ سے تعلق رکھنے والے سلسلہ کے متعلق یوں دعا فرماتے رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ کہ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں انہوں نے صرف ایک رسول مبعوث کئے جانے کی کیوں دعا کی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک رسول کافی نہیں ہوتا بلکہ دنیا ہمیشہ رسولوں کی محتاج رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ میری امامت کبھی اچھے نتیجے پیدا نہیں کر سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی امام نہ ہوں اور جب تک ہدایت کا وہ بیج جو میرے ہاتھوں سے بویا جائے اس کا بعد میں بھی نشوونما نہ ہوتا رہے۔ میں تو امام ہوگیا لیکن اگر بعد میں دنیا گمراہ ہو گئی تو میری امامت کیا نتیجہ پیدا کرے گی؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ کی ذریت سے تعلق رکھنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں ان کے متعلق بھی قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تیری قوم جس شرک میں مبتلا ہوئی کیا اس کی تُو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور کیا تُو نے یہ کہا تھا کہ میری اور والدہ کی پرستش کرو تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ کہ جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا مگر جب مجھے وفات دے دی گئی تو حضور پھر میں کیا کر سکتا تھا؟ اور مجھے کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ میری قوم بگڑ گئی ہے؟ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کا اثر ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے اس کے بعد اگر قوم بگڑ جاتی ہےتو كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ خدا تعالیٰ کو ان کی ہدایت کا کوئی اور سامان کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی تصدیق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی کہ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ یعنی میری ذریت میں سے بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں ورنہ دنیا کی ہدایت قائم نہیں رہ سکتی۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بیان ایک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دو۔ یہ اس بات کے شاہد ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے۔ جب متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر ہدایت قائم نہیں رہ سکتی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے کیا معنی ہوئے کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج۔ پھر تو انہیں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رُسُلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُوْنَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکُّوْنَہُمْ اے میرے رب ان میں بہت سے انبیاء بھیجیئو جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر انہیں سنائیں اور تیری شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں بتائیں اور انہیں اپنی قوت قدسیہ سے پاک کرتے رہیں۔ مگر وہ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وہ تیری آیتیں پڑھے نہ کہ پڑھیں وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وہ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے نہ کہ سکھائیں۔ وَ يُزَكِّيْهِمْ اور وہ ان کو پاک کرے نہ کہ پاک کریں مگر خود ہی دوسرے موقع پر دعا کے ذریعہ اس امر کا اقرار کر چکے ہیں کہ میری نبوت کا فی نہیں ہو سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی انبیاء نہ ہوں اور جب تک نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ دنیا میں قائم نہ ہو۔

اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نےیہ کیوں دعا کی کہ ان میں ایک نبی مبعوث کیجیئو۔ یہ ایک سوال ہے جس کو اگر ہم قرآن کریم سے ہی حل نہ کر سکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خطرناک الزام آتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی دعا کی جس سے دنیا کو ہدایت کامل نہیں مل سکتی تھی اور دنیا کے لئے نور کا ایک رستہ کھولتے ہوئے انہوں نے اسے معاً بند کر دیا ۔ تو کہا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن آگے کی طرف گیا ہی نہیں ۔ انہوں نے صرف یہ چاہا کہ میرے بعد ایک نبی آ جائے اور آئندہ کے متعلق وہ خود دعا کرتا رہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا اور انہوں نے اس کے متعلق دعا بھی کی چنانچہ فرمایا کہ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ کہ میری اولاد میں سے بھی ائمہ ہوتے رہیں۔ تو یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بعد کے زمانہ کی ضروریات کی طرف ذہن ہی نہیں گیا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ انہیں قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا خیال تھا اور جب انہیں اس امر کا خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ائمہ کا ہمیشہ آتے رہنا ضروری ہے تو پھر اس دعا پر انہوں نے کیوں کفایت کی کہ خدایا ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے، انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔

اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔ يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ 5 یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے استعمال کئے تھے۔ فرماتا ہے وہ خدا بڑی بلند شان والا ہے جس نے ابراہیمؑ کی دعا کو سن کر اُمیین میں اپنا رسول مبعوث کیا۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ وَ يُزَكِّيْهِمْ اور ان کو پاک کرتا ہے يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ اور ان کو آسمانی کتاب سمجھاتا اور شرائع کی باریک در باریک حکمتیں بتاتا ہے۔ یہ بتا کر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی اور اب اس اعتراض کا ازالہ کرتا ہے جو بعض طباع میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا نامکمل ہے کیونکہ جہاں اپنی اولاد کے متعلق عام دعا انہوں نے یہ کی تھی کہ ان میں متواتر رسول آتے رہیں وہاں مکہ والوں کے متعلق انہوں نے صرف یہ دعا کی کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔ ان دعاؤں میں بے شک ایک فرق ہے مگرا س کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیمی اولاد کے بعض حصوں میں ایسے نبی آنے تھے جنہوں نے اپنی ذات میں مستقل ہونا تھا مگر ابراہیمؑ نے مکہ والوں کے متعلق جو دعا کی وہ صرف ایسے رسول کے متعلق تھی جس نے ایک ہی رہنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدّر تھا کہ آئندہ دنیا میں ہمیشہ اس کے اظلال و اتباع پیدا ہوتے رہیں۔ پس چونکہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اس رسول نے بار بار متبع اظلال کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہنا ہے اس لئے بہ الفاظِ دیگر اماموں کا سلسلہ بھی ہمیشہ قائم رہنا تھا اور رسول بھی ایک ہی رہنا تھا۔

کیونکہ ان کی امامت اور رسالت جداگانہ نہیں ہونی تھی بلکہ محمد ﷺ کی نبوت و رسالت میں شامل ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں چونکہ ایک ایسا رسول آنا مقدر تھا جس نے بار بار اپنے اظلال کے ذریعہ دنیا میں آنا تھا اس لئے رُسُلًا کہنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ رَسُوْلًا ہی کہنا چاہئے تھا۔ تو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِم میں اس اعتراض کا جواب دے دیا گیا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق عام دعا کی وہاں تو ان میں بار بار رسول اور امام بھیجنے کی التجا کی مگر جہاں مکہ والوں کے متعلق خاص طور پر دعا کی تو وہاں صرف ایک رسول بھیجنے کی دعا کر دی۔ اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ بے شک مکہ والوں کے متعلق انہوں نے بھی دعا کی تھی کہ ان میں ایک رسول مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ آئے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ رسول ایسا کامل تھا کہ اس پر اس قسم کی موت آ ہی نہیں سکتی تھی کہ اس کی تعلیم کا اثر لوگوں کی طبائع پر سے کلیۃً جاتا رہے بلکہ مقدر یہ تھا کہ جب بھی طبعی طور پر یہ اثر جاتا رہے گا خدا اسی رسول کو دوبارہ مبعوث کر دے گا اور چونکہ اس رسول نے اپنے متبع اظلال کے ذریعہ بار بار دنیا میں آنا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت سے رسول مانگنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ تو اس رَسُوْلًا مِّنْهُمْ سے مراد خاتم النبیین تھا اور چونکہ خاتم النبیین کی نبوت میں بعد میں آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت شامل تھی اس لئے یہ ضرورت ہی نہ تھی کہ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ کی بجائے رُسُلًا مِّنْھُمْ کہا جاتا۔

پس ہمیں اس آیت سے یہ نکتہ معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت اپنی ذات میں ہی بعد میں آنے والے رسولوں اور اماموں کی خبر دیتی تھی۔ آپ کے علاوہ دنیا میں اور کوئی ایسا رسول نہیں جو اپنی ذات میں آنے والے انبیاء کی خبر دیتا ہو۔ موسیٰ کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا، داؤد کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا۔ اسی طرح اور انبیاء کے نفوس اپنی اپنی ذات میں منفرد تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء آئے مگر وہ ان کے ظِلّ نہیں تھے بلکہ تابع تھے۔ عیسیٰ ؑ موسیٰ ؑ کے ظِلّ ان معنوں میں نہیں تھے جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کے ظِلّ ہیں۔ یوں تو ظِلّ پہلوں کے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس ظلیت کے معنے صرف مشابہت کے ہؤا کرتے تھے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام الیاسؑ کے ظِلّ تھے مگر ظِلّ کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ الیاسؑ کے ماتحت تھے۔ وہاں ایک تابع ہو سکتا تھا جو ظِلّ نہ ہو اور ایک ظِلّ ہو سکتا تھا جو تابع نہ ہو۔ عیسیٰ ؑ ظِلّ تھے الیاسؑ کے مگر الیاسؑ کے تابع نہ تھے بلکہ تابع وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے۔ تو ظلیت اور اتباع الگ الگ چیزیں ہؤا کرتی تھیں۔ ظلیت کے معنے صرف ‘‘اس جیسا’’ کے ہؤا کرتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد ایک میرے جیسا رسول آئے گا۔

7 اب اس سے مراد رسول کریم ﷺ تھے مگر رسول کریم ﷺ حضرت موسیٰ ؑ کے تابع نہیں تھے۔ پس پہلے انبیاء میں یہ تو ہو سکتا تھا کہ ایک نبی کسی دوسرے نبی کا ظل تو ہو مگر تابع نہ ہو یا تابع تو ہو مگر ظل نہ ہو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تابع تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مگر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظل نہیں تھے۔ اسی طرح وہ ظل تھے الیاسؑ کے مگر وہ ان کے تابع نہ تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھے۔ مگر یہاں جو خبر دی گئی ہے کہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اس میں کام بھی وہی رکھا گیا ہے جو محمد ﷺ نے کیا اور نام بھی وہی رکھا گیا ہے جو آپ کا تھا کیونکہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ۔ وہی رسول پھر آخرین میں مبعوث ہو گا اور ’’وہی رسول‘‘ کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ صفات بھی ویسی ہوں گی، کام بھی وہی ہو گا اور نام بھی وہی ہوگا۔ گویا صفات کے لحاظ سے وہ ظِلّ ہو گا رسول کریم ﷺ کا اور کاموں کے لحاظ سے وہ تابع ہو گا رسول کریم ﷺ کا۔ جس طرح وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ نمازیں پڑھے گا، جس طرح وہ روزے رکھا کرتے تھے اسی طرح یہ روزے رکھے گا، جس طرح وہ زکوٰۃ دیا کرتے تھے اسی طرح یہ زکوٰۃ دے گا، جس طرح وہ احکام الٰہیہ پر چلتے تھے اسی طرح یہ احکام الٰہیہ پر چلے گا۔ یہ تابعیت ہے جو اسے رسول کریم ﷺ کی حاصل ہوگی اور دوسری طرف جو آپ کی خصلتیں ہوں گی وہی اس کی خصلتیں ہوں گی اور جو آپ کے اخلاق ہوں گے وہی اس کے اخلاق ہوں گے اور یہ اس کے ظِلّ ہونے کا ثبوت ہو گا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الیاس ؑ والے کام نہیں کئے۔ الیاسؑ نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی۔ پس گو وہ ظل تھے الیاسؑ کے مگر الیاسؑ کے تابع نہیں تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے لیکن محمد ﷺ کے متعلق فرما دیا کہ آپ کی نیابت میں جو لوگ کھڑے ہوں گے وہ آپ کے ظل بھی ہوں گے اور آپ کے تابع بھی ہوں گے۔

اور یہ دونوں باتیں ان میں پائی جاتی ہوں گی۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں یعنی محمد ﷺ کے نقطۂ نگاہ سے میں امتی ہوں مگر تم لوگوں کے نقطۂ نگاہ سے میں نبی ہوں۔ جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے۔ جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہوگا جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہو گی مگر جب میں محمد ﷺ کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک اُمتی کی ہو گی اور محمد ﷺ کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہو گا اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہو گا۔ گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی ہوتی ہے وہی محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے۔ ایک باپ جب اپنے باپ کی طرف مُنہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے۔ بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف مُنہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت بیٹے کی تھی نہ کہ باپ کی تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ اب اس کا مُنہ اپنے باپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہوگا۔

یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے۔ وہ اُمتی بھی ہیں اور نبی بھی وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ اُمتی ہیں محمد ﷺ کی نسبت سے۔ عیسیٰ ؑ نبی تھے موسیٰ ؑ کی طرف مُنہ کر کے بھی صرف اپنی اُمت کی طرف مُنہ کر کے ہی نبی نہیں تھے۔ اسی طرح داؤد نبی تھے موسیٰ کی طرف مُنہ کر کے بھی، صرف اپنی امت کی طرف مُنہ کر کے نبی نہیں تھے۔ اسی طرح سلیمانؑ، زکریاؑ اور یحییٰ نبی تھے موسیٰ ؑ کی طرف مُنہ کر کے بھی۔ یہ نہیں کہ صرف اپنی اُمت کی طرف مُنہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ کی طرف مُنہ کر کے اُمتی۔ مگر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ یہ عجیب قسم کی نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد ﷺ سے مخاطب ہوتا ہے تو امتی بن جاتا ہے اور وہ کسی ایسے کام کا دعوے دار نہیں ہو سکتا جو محمد ﷺ نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ اسی کام کو چلائے جس کام کو محمد ﷺ نے چلایا کیونکہ فرماتا ہے کہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ گویا محمد ﷺ کی دوبارہ بعثت ہو گی اور یہ ظاہر ہے کہ محمد ﷺ کے دو کام نہیں ہو سکتے۔ وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے۔

اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری کے بھی ظل یا مثیل تھے مگر آپ سے ان کو صرف ظلیت کا تعلق تھا تابعیت کا نہیں کیونکہ گو آپ کو نام مسیح کا دیا گیا تھا کام مسیح کا نہیں دیا گیا تھا۔ کام آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کا سپرد کیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ جمعہ سے ثابت ہے۔ پس حضرت مسیح موعودؑ کو جومشابہت آنحضرت ﷺ سے حاصل ہے وہ زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کو مسیح ناصری سے حاصل ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لاتی ہے اس کے افراد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یا تو وہ یہ دعویٰ کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقامِ نبوت حاصل کیا ہے۔ اس صورت میں وہ بے شک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے۔ اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہو گا وہی کریں گے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے۔

پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے اور وہ رسول کریم ﷺ کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم ﷺ یا صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں۔ جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی صرف ان میں حصہ لیں گے باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے لیکن اگر ہمارا یہ دعویٰ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سورۂ جمعہ کے مطابق اُمتی نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم ﷺ ہی وہ رسولًا ہیں جن کی نبوت و رسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت شامل ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمد ﷺ نے جو کام کئے وہی کام مسیح موعود کے بھی سپرد ہیں اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں۔ مگر میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری جماعت کے دوست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کے کامل ظل اور اُمتی نبی ہیں اور وہی شریعت جو رسول کریم ﷺ نے قائم فرمائی اسی کو دوبارہ قائم کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور دوسری طرف جماعت کا ایک حصہ صحابہؓ کے طریق عمل کی جگہ ایک نئی راہ پر چلنا چاہتا ہے اور اس راستہ کو اختیار ہی نہیں کرتا جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ نے اختیار کی۔ گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے کہ جہاں درجوں اور انعامات کا سوال آتا ہے وہاں تو کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ سے کوئی الگ وجود نہیں بلکہ آپ کی بعثت درحقیقت رسول کریم ﷺ کی ہی بعثت ثانیہ ہے۔ اس وجہ سے جو صحابہؓ کا مقام وہی ہمارا مقام۔ چنانچہ وہ اس قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں آتا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ کہ جیسے اولین میں سے ایک بہت بڑی جماعت نے خدا کا قرب حاصل کیا اسی طرح آخرین خدا کی بہت بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے۔ پس جیسے صحابہؓ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جماعت ہے۔ جیسے وہ رسول کریم ﷺ کی بعثتِ اولیٰ سے مستفیض ہوئے اسی طر ح ہم رسول کریم ﷺ کی بعثتِ ثانیہ سے مستفیض ہوئے۔ پس

ہم میں او رصحابہؓ میں کوئی فرق نہیں مگر جب قربانی کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے۔ گویا وہ بالکل شتر مرغ کی طرح ہیں جو اپنی دونوں حالتوں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کسی شتر مرغ سے کسی نے کہا کہ آؤ تم پر اسباب لادیں کیونکہ تم شتر ہو (شتر کے معنی اونٹ ہیں اور مرغ کے معنی ہیں پرندہ) وہ کہنے لگا کیا پرندوں پر بھی کسی نے اسباب لادا ہے؟ اس نے کہا اچھا تو پھر اڑ کر دکھاؤ کہنے لگا کبھی اونٹ بھی اڑا کرتے ہیں؟ پس جس طرح شتر مرغ اڑنے کے وقت اونٹ بن جاتا ہے اور اسباب لادتے وقت پرندہ اسی طرح ہماری جماعت کا جو حصہ کمزور ہے کرتا ہے۔ یعنی جب قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے ہمارا حال اور ہے اور صحابہ کا حال اور مگر جب درجوں اور انعامات اور جنت کی نعماء کا سوال آتا ہے تو کہتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ حضرت صاحب تو رسول کریم ﷺ کے ظِلّ تھے۔ پس جو حال صحابہؓ کا وہی حال ہمارا۔

میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی پوربیا مر گیا تھا۔ پوربیے عام طور پر دھوبی ہوتے ہیں۔ اس کی عورت نے باقی دھوبیوں کو اطلاع دی اور سب اکٹھے ہو گئے۔ رسم و رواج کے مطابق عورت نے ان سب کے سامنے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ ان میں طریق یہ ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو عورتیں اور لڑکیاں اکٹھی ہو کر پیٹتی ہیں اور مرد انہیں تسلی دیتے ہیں۔ اس پوربیے کی عورت نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا اور روتے روتے اس قسم کی باتیں شروع کیں کہ ارے اس نے فلاں جگہ سے اتنا روپیہ لینا تھا اسے اب کون وصول کرے گا۔ ایک پوربیا آگے بڑھ کر کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ وہ کہنے لگی ارے اس نے ادھیارے پر گائے دی ہوئی تھی اب اسے کون لائے گا؟ وہی پوربیا پھر بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر وہ روئی اور کہنے لگی ارے اس کی تین ماہ کی تنخواہ مالک کے ذمہ تھی اب وہ کون وصول کرے گا؟ وہ پوربیا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر وہ عورت رو کر کہنے لگی ارے اس نے فلاں کا دو سو روپیہ قرض دینا تھا اب وہ قرض کون دے گا؟ اس پر وہ پوربیا باقی قوم کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا ارے بھئی میں ہی بولتا جاؤں گا یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا۔ ان کمزور احمدیوں کی بھی یہی حالت ہے۔ جہاں جنت کی نعماء اور مدارج کا سوال آتا ہے وہاں تو کہتے ہیں ارے ہم رے ہم مگر جب یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہؓ نے بھی قربانیاں کی تھیں تم بھی قربانیاں کرو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ہی بولتے جائیں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا؟ یہ حالت بالکل غیرمعقول ہے اور اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مستقل نبی تھے تو بے شک کسی نئی شریعت، نئے نظام اور نئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ محمد ﷺ کے تابع اور اُمتی نبی ہیں تو پھر جو محمد ﷺ کا حال تھا وہی مسیح موعود کا حال ہے۔ اور جو ان کے صحابہؓ کا حال تھا وہی ہمارا حال ہے۔ مگر یہ کمزور لوگ جب اپنی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت تو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پڑھ پڑھ کر اپنے سر ہلاتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے یہ انعام بھی ہے اور ہمارے لئے وہ انعام بھی ہے مگر جب کام کا سوال آتا ہے تو کوئی یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر میں کام پر گیا تو میری دکان خراب ہو جائے گی اور کوئی یہ عذر کرنے لگ جاتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ حالانکہ صحابہؓ کی بھی دکانیں تھیں اور صحابہؓ کے بھی بیوی بچے تھے مگر انہوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ پھر اگر ہم بھی صحابہؓ کے نقش قدم پر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ کے نقش قدم پر تو ان باتوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے معنے کیا ہوئے؟

ہمارا مذہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ کے ظِلّ اور آپؐ کے تابع تھے۔ ان کی تمام عزت اور ان کا تمام رتبہ اسی میں تھا کہ خدا نے ان کو محمد ﷺ کا عکس بنا دیا تھا اور وہ اسی کام کے لئے مبعوث کئے گئے تھے جس کام کے لئے محمد ﷺ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مبعوث ہوئے۔ بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد ﷺ دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے اور یہ ایک بہت بڑی عزت کی بات ہے۔ مگر ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر محمد ﷺ دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے ہیں تو صحابہؓ کو بھی تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آ جانا چاہئے۔

پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کام کئے ہیں جو رسول کریم ﷺ نے کئے تھے تو ہمارے کام وہ ہیں جو صحابہؓ نے کئے۔ صحابہؓ کو ہر سال چار چار پانچ پانچ لڑائیاں لڑنی پڑتی تھیں اور بعض لڑائیوں میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ صَرف ہو جاتا تھا۔ گویا بعض سالوں میں انہیں آٹھ آٹھ نو نو مہینے گھروں سے باہر رہنا پڑا ہے۔ پھر انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا۔ دال، روٹی اور نمک کے لئے بھی پیسہ تک نہیں ملتا تھا۔ بیوی کا کام تھا کہ وہ بعد میں اپنی روزی آپ کمائے اور جانے والوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے خرچ پر جائیں۔ حتّٰی کہ لڑائی پر جانے والوں کو راشن تک نہیں ملتا تھا بلکہ ہر شخص کا فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنی روٹی کا آپ انتظام کرے۔ اس کے مقابلہ میں مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ان باتوں کا احساس ہی نہیں۔ یہ تو میں نہیں کہتا کہ سب میں احساس نہیں مگر بہرحال جن کے دلوں میں یہ احساس ہے ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی احساس نہیں اور اس وجہ سے ہم محض اس بات سے تسلی نہیں پا سکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں ان باتوں کا احساس ہے۔ جب تک جماعت کا ایک حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے جو اس احساس سے بالکل خالی ہے اور دعوے یہ کرتا ہے کہ اسے صحابہؓ کی مماثلت حاصل ہے خواہ وہ کتنا بھی تھوڑا ہے جب تک اس کے اس غیر معقول رویہ کی اصلاح نہ کی جائے گی اس وقت تک ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔

میں نے سب نوجوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی مگر ان کی رپورٹ ہے کہ بعض نوجوان ایسے ہیں کہ جب ہم کوئی کام ان کے سپرد کرتے ہیں تو پہلا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر زور دیاجائے تو وہ مان تو لیتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا ہم یہ کام کریں گے مگر پھر دوسرا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرتے نہیں۔ یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم کریں گے، کریں گے مگر عملی رنگ میں کوئی کام نہیں کرتے۔ اس کے بعد جب ان کے لئے سزا مقرر کی جاتی ہے تو وہ اس سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ دے دیں گے مگر سزا برداشت نہیں کریں گے۔ اس قسم کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ سچے احمدی نہیں۔ کیا منافقوں کے سوا مخلص صحابہؓ میں سے تم کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہو کہ ان میں سے کسی نے کام کرنے سے اس طرح انکار کر دیا ہو یا کیا رسول کریم ﷺ نے کبھی اس بات کو برداشت کیا؟ پھر اس جماعت میں سے ایسا نمونہ دکھانے والوں کو ہم صحابہؓ کا نمونہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں ہم تو ان کو انہی میں شامل کریں گے جو صحابہؓ کے زمانہ میں ایسے کام کرتے رہے ہیں یعنی منافق لوگ۔

اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور آج تلوار کا جہاد نہیں لیکن ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور ممکن ہے اس قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اگر کسی وقت تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو وہ سب سے آگے آگے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کبھی تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو ایسے لوگ سب سے پہلے بھاگنے والے ہوں گے۔ پس جب وہ کہتے ہیں کہ یہاں کون سا تلوار کا جہاد ہو رہا ہے اگر تلوار کا جہاد ہو تو وہ شامل ہو جائیں۔ تو یا تو وہ اپنے نفس کودھوکا دیتے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں تو وہ جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مہینہ میں دو دن دکان بند کرنے کے لئے تو تیار نہ ہو اور وہ جہاد کے لئے سال میں سے آٹھ ماہ گھر سے باہر رہ سکتا ہو۔ یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے خدا کا کام ہے اور یہ خدا کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ہمارے ہاتھ میں تلوار دے دے، چاہے توقلم دے دے اور چاہے تو تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد مقرر کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں تلوار کا جہاد نہیں رکھا بلکہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد رکھا ہے۔ اور یہی وہ جہاد ہے جس کا سورۂ جمعہ کی ان آیات میں ذکر ہے جن میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ میں ہر مومن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نشاناتِ الٰہیہ کو بیان کرے یعنی انہیں تبلیغ کرے۔ یُزَکِّیْہِمْ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انہیں پاک کرے یعنی دعاؤں کے ذریعہ تزکیہ نفوس کرے۔ یا یُزَکِّیْہِمْ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگوں کو بڑھائے۔ اگر وہ دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میدان میں ان کو آگے لے جائے، تعداد میں کم ہوں تو تعداد میں بڑھائے، مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھائے۔ غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو انہیں بڑھاتا چلا جائے ۔ گویا لوگوں کی مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے۔ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو قرآن سکھائے۔ وَالْحِکْمَۃَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کے اسرار سے لوگوں کو آگاہ کرے۔ اس آیت کے اور بھی معنے ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی اس تقریر میں بیان کیا ہؤا ہے جو خلافت کے آغاز میں مَیں نے کی تھی اور جو ’’منصبِ خلافت‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہے۔ لیکن یہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں

(1) تبلیغ کرنا (2) قرآن پڑھانا (3) شرائع کی حکمتیں بتانا (4) اچھی تربیت کرنا (5) قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں ترقی کے میدان میں بڑھانا۔ یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہؓ پر تھیں اور یہی پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں۔ تبلیغ ہمارے ذمہ ہے، تعلیم ہمارے ذمہ ہے اور احکام کی حکمتیں بتانا ہمارے ذمہ ہے اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کی درستی اور اس کی پستی کو دور کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ اگر ہم یہ پانچ کام نہیں کرتے تو ہم جھوٹے اور کذّاب ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو صحابی کہتے ہیں انہی کاموں میں سے ایک کام کے متعلق میں نے کچھ عرصہ ہؤا قادیان کی جماعت کو توجہ دلائی تھی اور میں نے کہا تھا کہ کم سے کم قادیان میں کوئی اَن پڑھ نہیں رہنا چاہئے مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ جہاں باقی سب محلوں نے کام ختم کر لیا ہے وہاں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تعاون نہیں کر رہے۔ (اس سے مراد دارالفضل والے نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے محلہ آرائیاں بھی کہتے ہیں) اس محلہ کے لوگ نہ تو نمازوں کے لئے باقاعدہ جمع ہوتے ہیں نہ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ اسی طرح مجھے بیس لوگوں کی ایسی لسٹ دی گئی ہے جنہیں اس محلہ کے اَن پڑھوں کو تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا گیا مگر کسی نے کوئی عذر کر دیا اور کسی نے کوئی اور۔ جس نے مان بھی لیا وہ بھی پڑھانے کے لئے نہیں گیا۔ اور جب ان میں سے بعض کو کہا گیا کہ تمہیں اس جرم کی سزا دی جائے گی تو ان میں سے دو نے کہا ہم خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دے دیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے وہ خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ نہیں دے سکتے بلکہ انہیں احمدیت سے استعفیٰ دینا پڑے گا۔

یہ پانچ کام ہیں جو محمد ﷺ نے کئے۔ یہی پانچ کام ہیں جو صحابہ نے کئے اور یہی پانچ کام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے۔ ہر شخص جو یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ کے مطابق تعلیم قرآن کا کام نہیں کرتا بلکہ تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے وہ اس سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو تبلیغ سے گریز کرتا ہے وہ تبلیغ سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو دوسروں کی تربیت سے گریز کرتا ہے وہ تربیت کرنے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز کرتا ہے وہ شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ وہ احمدیت سے گریز کرتا ہے اور ہر شخص جو تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے وہ تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ایسے شخص کی نہ احمدیت کو کوئی ضرورت ہوسکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی وجہ ہے کہ وہ احمدیت میں داخل رہے۔ وہ یہ کہہ کر کہ وہ احمدی ہے اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے یا اگر اپنے نفس کو دھوکا نہیں دیتا تو جھوٹا اور مکار ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ وہ مومنوں کی جماعت میں شامل رہ سکے۔ یہ پانچ کام ضروری ہیں۔ اور جماعت کے ہر فرد کو ان میں حصہ لینا پڑے گا اور جب تک وہ طوعًا یا کرہًا ان کاموں میں حصہ نہیں لیں گے وہ کبھی صحیح معنوں میں صحابہؓ کے مثیل نہیں کہلا سکیں گے۔ آخر تمہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا صحابہؓ اپنی مرضی سے ہی تمام کام کیا کرتے تھے؟ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تھے بلکہ رسول کریم ﷺ کے احکام کی متابعت میں تمام کام کرتے تھے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے جہاد کے لئے چلو اور سب چل پڑتے تھے اور جو نہ چلتا تھا اسے جبری طور پر لے جایا جاتا تھا۔ مَیں نے چاہا تھا کہ طوعی طور پر جماعت کو ان قربانیوں میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے ساری جماعت طوعی طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ منافقوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اسے اپنی جماعت میں سے خارج کر دیں یا اگر وہ منافق نہیں تو ایسے کُودن لوگ ہیں جو ڈنڈے کے محتاج ہیں اور جیسے رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کو سزا دی تھی جو جہاد کے لئے نہیں گئے تھے اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سزا دی جائے اور جبراً ان سے احکام کی تعمیل کرائی جائے۔ ڈنڈے سے میری مراد سوٹا نہیں بلکہ جبراور حکم مراد ہے۔

بہرحال ان لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جماعت کے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا۔ ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔ اگر 15 سے 40 سال تک کی عمر کا کوئی احمدی 15 دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا تو پہلے اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس سے بھی اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اس کے لئے کسی کو تحریک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدام الاحمدیہ ہرگز کسی کے پاس نہ جائیں۔ ہاں ہر مسجد میں وہ اپنے بعض آدمی مقرر کر دیں اور ہر نماز کے بعد اعلان ہوتا رہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک ہمارا آدمی مسجد میں بیٹھے گا جس نے خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھانا ہو وہ اسے نام لکھا دے اور محلّوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ اس کے متعلق خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو بھی اعلانات آئیں ان کے سنانے کا فوری طور پر انتظام کریں۔ جو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اس میں غفلت سے کام لے گا وہ مجرم سمجھا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔ غرض تمام مساجد میں خدام الاحمدیہ اعلان کرا دیں کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک اس مسجد میں ہمارا فلاں آدمی بیٹھے گا اسے نام لکھا دیا جائے بلکہ انہیں اپنے بعض آدمی قریب کے دیہات میں بھی مقرر کر دینے چاہئیں جیسے نواں پنڈ وغیرہ ہے۔ اس پندرہ دن کے عرصہ میں جو شخص خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا ہم پہلے اس پر کیس چلائیں گے اگر کوئی معذور ثابت ہؤا مثلاً ان دنوں وہ قادیان میں موجود نہ تھا یا چارپائی سے ہل نہیں سکتا تھا تو اس کو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کا دوبارہ موقع دیتے ہوئے باقی ہر ایک کو جس نے ان دنوں خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہو گا سزا دی جائے گی اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ہم سزا نہیں لیتے، ہم خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہنا چاہتے ان کے متعلق خدام الاحمدیہ فوراً ایک کمیٹی بٹھا دیں جو تحقیق کرے کہ ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ پھر جن کا جُرم ثابت ہو جائے انہیں تین تین دن کے مقاطعہ کی سزا دی جائے۔ ان تین دنوں میں کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ ان سے بات چیت کرے۔ نہ باپ کو اجازت ہو گی، نہ ماں کو اجازت ہو گی، نہ بیوی کو اجازت ہو گی نہ بیٹے کو اجازت ہو گی اور نہ کسی اور قریبی رشتہ دار اور دوست کو اجازت ہو گی۔ اسی طرح ان دنوں میں انہیں قادیان سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ مبادا وہ خیال کر لیں کہ ان دنوں وہ قادیان سے چلے جائیں گے اور اس طرح اپنی شرم کو چھپا لیں گے بلکہ انہیں قادیان میں رہتے ہوئے یہ تین دن پورے کرنے پڑیں گے اور ان کی کسی قریب ترین ہستی کو بھی ان سے بولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں انہیں صبح شام روٹی پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہوگا۔ اسی طرح جن لوگوں نے وعدہ کر کے کام نہیں کیا (سوائے دسویں جماعت کے طلباء کے جن کو مقرر کرنے میں خود خدام الاحمدیہ کے افسروں کی غلطی ہے) ان کے الزام کی بھی تحقیق کی جائے اور جب الزام ان پر ثابت ہو جائے تو ان کو ایک ایک دن کے مقاطعہ کی سزا دی جائے۔ اس عرصہ میں ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کا فرض ہے کہ جس طرح ایک گندا چیتھڑا اپنے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں۔ باپ بچے کو نکال دے۔ بھائی دوست وغیرہ سب اس دن کے لئے اس سے قطع تعلق کر لیں اور وہ گھر کو چھوڑ کر مسجد یا کسی اور مناسب مقام پر چلا جائے اور چوبیس گھنٹے تک لگاتار وہیں رہے۔ ہاں ان لوگوں کو بھی کھانا پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا مگر میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے۔

اس لئے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفالِ احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔ اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں۔ وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمتِ دین کے لئے وقف کریں۔ اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جا سکتے ہیں مگر بہرحال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے۔

مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد، چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں۔ تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلّوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے اُوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے۔ یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دو چار دن لے لئے جائیں۔ جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کر لیں اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جا سکتے ہیں۔ سردست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظّم نہ ہو جائیں۔ جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہو گی۔

میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہو گا جیسے مربی کا تعلق ہوتا ہے۔ اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہو گی یا جو بھی خلیفۂ وقت ہو۔ میرا اختیار ہو گا کہ جب بھی میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلا لوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں۔ یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے۔ اس لئے ان کو میں پھر متنبّہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ سوائے اس کے کہ جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو۔ ہر شخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اورکاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو۔ سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں۔ اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں اب انہیں ہرجگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں۔ ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے مگر سرِدست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہو گا لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔ کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر اس کی عمر 15 سال سے اُوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا اور اگر وہ چالیس سال سے اُوپر ہے تو اس کے لئے انصاراللہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا۔ اسی طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائے گا کیونکہ احمدیت صحابہؓ کے نقش قدم پر ہے۔ صحابہؓ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو۔ مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقع دیناتھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے۔

اب 15 سے 40 سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا تھا۔ بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے۔ البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اس میں جو بھی شامل ہو گا اسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے۔ مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں کہ دیکھو شتر مرغ کی طرح مت بنو جو کچھ بنو اس پر استقلال سے کاربند رہو۔ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے مثیل ہو تو تمہیں اپنے اندر صحابہؓ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہؓ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے دین کا کام حکماً لیا جاتا تھا۔ پس جب صحابہؓ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چُون و چرا کریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ یا تو یہ کہو کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور چونکہ وہ نبی نہیں تھے اس لئے ہم صحابی بھی نہیں اور نہ صحابہؓ سے ہماری مماثلت کے کوئی معنے ہیں مگر اس صورت میں تمہارا مقام قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہو گا کیونکہ وہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم ﷺ کے ظِلّ کامل نہیں تھے جس کے لازمی معنے یہ بنتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو وہ صحابی بھی نہیں۔ مگر ان میں بھی شترمرغ والی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب رسول کریم ﷺ کے ظلِ کامل یعنی نبی نہیں تھے مگر کہتے اپنے آپ کو صحابی ہی ہیں۔ حالانکہ اگر مرزا صاحب نبی نہیں تو وہ صحابی کس طرح ہو گئے؟ چنانچہ بار بار ہمارے مقابلہ میں غیرمبائعین نے اپنے اکابر کو صحابہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ گویا مولوی محمد علی صاحب تو صحابی بن گئے مگر مرزا صاحب ان کے نزدیک ‘‘مخصوص عالم’’ ہی رہے۔ پس ایسے لوگوں کا مقام لاہور ہے قادیان نہیں۔ ہر چیز جہاں کی ہو وہیں سجتی ہے۔ ان کو بھی چاہئے کہ قادیان سے اپنا تعلق توڑ کر لاہور سے اپنا تعلق قائم کر لیں۔ پھر ہم ان کاموں کے متعلق ان سے کچھ نہیں کہیں گے۔ مگر جب تک وہ ہم میں شامل رہیں گے ہم ان سے دین کی خدمت کا کام نظام کے ماتحت ضرور کرائیں گے اور اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے کمزور لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر دیں۔ میں نے متواتر بتایا ہے کہ کوئی جماعت کثرتِ تعداد سے نہیں جیتتی

قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللّٰهِ یعنی کئی دفعہ قلیل التعداد جماعتیں کثیر تعداد رکھنے والی اقوام پر غالب آ جایا کرتی ہیں۔ پس محض کثرت کچھ چیز نہیں اگر اس کثرت میں ایمان اور اخلاص نہیں۔ پھر میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہم میں شامل ہی رہیں تو کسی قوم کے مقابلہ میں بھلا ہمیں کون سی غیرمعمولی فوقیت حاصل ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں سب سے کم تعداد سکھوں کی سمجھی جاتی ہے مگر وہ بھی تیس چالیس لاکھ ہیں اور ہم تو ان سکھوں کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ آج سے چھ سال پہلے مئی 1934ء میں سردار کھڑک سنگھ صاحب جو سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلایا کرتے تھے یہاں آئے اور انہوں نے بسراواں میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا قادیان میں احمدی سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں۔ اگر احمدی اس ظلم سے باز نہ آئے توقادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی بلکہ ان کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ مجھے جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے ایک اشتہار لکھا جس میں مَیں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کے مظالم کی داستان بالکل غلط ہے۔ اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں تو ان میں سے ننانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنے حسنِ سلوک کے کئی واقعات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش کئے۔

اسی ضمن میں مجھے یہ رپورٹ بھی ملی کہ ایک احراری نے ان کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گرو کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کرتے ہیں اور پھر بھی ان کو جوش نہیں آتا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر۔ اس احراری کے نزدیک باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ باوا صاحب کو کیا سمجھتا ہے؟ اگر تو وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر باوا صاحب کو کوئی درجہ دے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیرخواہ ہے اور اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ باوا صاحب چونکہ بانیٔ اسلام ﷺ کے منکر تھے اس لئے کافر تھے تو آپ بتائیں کہ باوا صاحب کی ہتک کرنے والا وہ ہوا یا ہم۔ ہم تو انہیں مسلمان ولی اللہ کے معنوں میں کہتے ہیں اور مسلمان ولی اللہ سے اُوپر مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہی ہوتے ہیں ۔ پس ہمارا ان کو مسلمان کہنا کسی تحقیر کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ان کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں جیسے ہمارے نزدیک مسلمان اولیاء قابل عزت ہوتے ہیں۔ ہمارا انہیں مسلمان کہنے سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ان ادنیٰ لوگوں کی طرح تھے جو سکھوں کے گاؤں میں بستے ہیں اور گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے انہیں کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ہم ان کی دنیوی حیثیت سے ان کو مسلمان نہیں کہتے بلکہ ان کو دینی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں اور دینی لحاظ سے مسلمان کے معنے ولی اللہ کے ہوا کرتے ہیں مگر عام طور پر چونکہ سکھوں کے گاؤں میں مسلمان کمیں ہؤا کرتے ہیں اور دنیاداروں کی نگاہ میں کمّیں حقیر خیال کئے جاتے ہیں اس لئے وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے گاؤں کے کمّیں مسلمان ہیں ویسا ہی مسلماں یہ ہمارے باوا صاحب کو سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہم اس نقطۂ نگاہ سے انہیں مسلمان نہیں کہتے بلکہ مسلمان کا لفظ ان کے ولی اللہ ہونے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ لفظ بُرا محسوس ہوتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ہم انہیں کیا کہیں؟ ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے سوا جتنے لوگ ہیں سب کافر ہیں اور دو ہی اصطلاحیں مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یا کافر کی اصطلاح یا مسلمان کی اصطلاح۔ اگر باوا صاحب مسلمان بمعنے ولی اللہ نہیں تو دوسرے لفظوں میں وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کافر اور خدا سے دُور تھے۔ اب آپ ہی سوچ لیں کہ باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے یا ان کو مسلمان نہ کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے۔

احرار کا تو اس اعتراض سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ احمدی باوا صاحب کی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ مگر سکھ ناواقفیت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ احرار ان کی تائید کر رہے ہیں اور احمدی انہیں گالی دے رہے ہیں۔ میں نے جب یہ اشتہار شائع کیا تو چونکہ وہ آدمی سمجھدار تھے اس لئے انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اَور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں۔ میرا منشاء اس مثال سے یہ ہے کہ باوجود اس بات کے کہ سکھ تمام قوموں میں سے کم ہیں پھر بھی وہ اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر ہمیں یہ نوٹس دے دیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ تو قومی لحاظ سے غیر اقوام کے مقابلہ میں ہم پہلے ہی تھوڑے ہیں۔ پھر اگر ان منافق طبع لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دینے پر بھی ہم تھوڑے ہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ نہیں ہو سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب ان کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے مُضر ثابت ہو رہا ہو انہیں جماعت سے خارج نہ کیا جائے لیکن اگر خدا کے رسولوں کی جماعتیں کثرت تعداد کی بناء پر نہیں بلکہ خدا کی نصرت اور اس کی مدد کے ساتھ جیتا کرتی ہیں تو اس صورت میں خواہ یہ لوگ نکل جائیں پھر بھی گو ہم موجودہ وقت سے تھوڑے ہو جائیں گے مگر شکست نہیں کھا سکتے۔ ممکن ہے پیغامی یہ کہنا شروع کر دیں کہ پہلے تو اپنے زیادہ ہونے کو صداقت کی دلیل قرار دیتے تھے اب کہتے ہیں کہ تھوڑے ہو کر بھی ہم حق ہی پر رہیں گے۔ ایک ہی وقت میں یہ تمہاری دونوں باتیں کس طرح درست ہو سکتی ہیں؟

سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میری دونوں باتیں درست ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہ کھائیں گے اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں اور جب میں کہتا ہوں کہ ہم زیادہ ہیں اس لئے ہم حق پر ہیں تو اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کیا کرتا ہوں۔ ہم تھوڑے ہیں غیر اقوام کے مقابلہ میں اور ہم زیادہ ہیں اس لحاظ سے کہ نبی کی جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ پس جب میں نے یہ کہا کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہیں کھا سکتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا زیادہ حصہ ہم سے الگ ہو جائے گا اور قلیل حصہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا کیونکہ جماعت کی اکثریت بہرحال ہمارے ساتھ رہے گی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمراہ ہو جائے۔ اگر کسی وقت اکثریت کو غلطی لگے تو وہ غلطی پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ چند دنوں میں ہی اسے غلطی کی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے۔ جیسا کہ صحابہؓ کے زمانہ میں حضرت علیؓ کی خلافت کے عہد میں ہوا۔ پس میں نے اپنے آپ کو تھوڑا دنیا کی اور اقوام کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور میں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت قلیل رہ جائے گی کیونکہ جب تک جماعت کے دلوں میں نور ایمان باقی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کی اکثریت بگڑ جائے۔ پھسلنے والے پھسلیں گے، گرنے والے گریں گے اور جدا ہونے والے جدا ہوں گے مگر اکثریت پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی۔ پس پیغامی یا ان کے گماشتے مصری میرے ان الفاظ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ اگر بعض منافق یا کمزور طبع لوگ اپنی ایمانی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سے الگ ہو جائیں تو وہ پھر بھی اکثریت قرار نہیں پائیں گے بلکہ اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور وہ ہمارے مقابلہ میں تھوڑے ہی رہیں گے کیونکہ نبیوں کی جماعتوں کے اندر شروع زمانہ میں منافق اور فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں اور مومن زیادہ ہوتے ہیں۔

پس جب میں اپنے متعلق تھوڑے کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم احمدی کہلانے والوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں بلکہ غیر اقوام مراد ہوتی ہیں اور میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہیں لیکن احمدی کہلانے والے غیرمبائعین کے مقابلہ میں ہم زیادہ ہیں اور زیادہ ہی رہیں گے۔ انشاء اللہ پس مَیں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پوزیشن ہم نے دیانتداری کے ساتھ تسلیم کی ہوئی ہے ہمیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں بھی تغیر پیدا کرنا چاہئے۔ اسی طرح صحابہؓ کی جو پوزیشن ہمارے نزدیک مسلّم ہے وہی پوزیشن ہمیں اختیار کرنی چاہئے۔ صحابہؓ کی پوزیشن یہ تھی کہ انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فوراً اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور یہی پوزیشن ہماری ہونی چاہئے۔ جو شخص یہ پوزیشن اختیار نہیں کرتا ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امتی نبی مانتا ہے کیونکہ امتی نبی ماننے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جو کچھ صحابہؓ نے کیا وہی ہم کریں اور اگر کوئی شخص صحابہؓ کے سے کام نہیں کرتا تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آزاد نبی مانتا ہے۔ اس صورت میں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم جسے مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں وہ رسول کریم ﷺ کا امتی ہے۔ ہم کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں جو اپنے آپ کو مستقل نبی قرار دے اور رسول کریم ﷺ کی غلامی سے آزاد ہو کر نبوت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کو خدا نے بھی نبی قرار دیا ہے اور اس کے رسول نے بھی نبی قرار دیا ہے اور ہمارے نزدیک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کلیۃً تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ خداکو بھی جھوٹا کہتا ہے اور خدا کے رسول کو بھی جھوٹا کہتا ہے۔ اس لئے ان کا راستہ اور ہے اور ہمارا راستہ اور۔ پس میں قادیان کی جماعت کو آئندہ تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں۔

اول: اطفال احمدیہ۔ 8 سے 15 سال تک
دوم: خدام الاحمدیہ۔ 15 سے 40 سال تک
سوم: انصار اللہ۔ 40 سے اوپر تک

ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے۔ خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے۔ مجالس اطفال احمدیہ بھی قائم ہیں۔ البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب کو پریذیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب کو سیکرٹری بنایا گیا ہے۔ یہ اگر کام میں سہولت کے لئے مزید سیکرٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے۔ ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندر اندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی مسجد میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں اور پندرہ دن کے اندر اندر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس کے لئے قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلّوں میں پھر کر لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں بلکہ وہ مسجد میں بیٹھ رہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آ جائے اور جس کی مرضی ہو ممبر بنے اور جس کی مرضی ہو نہ بنے۔ جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائے گا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے۔ پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے۔ اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو اس لئے اب تم باہر ہی رہو مگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہو گا اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں آؤ اور تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائے گا جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ۔ یعنی کچھ تو اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ تعلیم و تربیت کا کام کریں اور کچھ یُزَکِّیْھِمْ کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی ترقی کی تدابیر عمل میں لائیں۔

یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے۔ اسی طرح جس طرح جماعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے۔ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا مثلاً وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے الَّا مَا شَاءَ اللّٰہ۔ مثلاً اسے کہہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو۔ پس ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کر سکے۔ قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لئے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سب سے کم برداشت کرنی پڑتی ہے دعا ہے۔ ہاں بعض کے کام بالواسطہ بھی ہوتے ہیں جیسے پاگل نہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ کچھ اور کام کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف عبرت کا کام دیتے اور لوگ انہیں دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ مگر ایسا معذور میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں۔ نیم فاتر العقل دو چار ضرور ہیں مگر پورا پاگل میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں۔ لیکن یہ لوگ بھی اتنا کام تو ضرور کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ ان میں سے کوئی بھی باغیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو گا ۔ اگر کوئی شخص ان مجالس میں سے کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو گا تو وہ ہرگز جماعت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا۔ پس ان مجالس میں شامل ہونا درحقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عملی رنگ میں اقرار کرنا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہیں اور خدا اور اس کے رسول نے جو احکام دئیے ہیں ان کے نفاذ اور اجراء میں حصہ لینا صرف میرا فرض نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے۔ آخر میں نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تھا نہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) رسول کریم ﷺ کا آخری مظہر بنا کر بھیجا ، نہ صحابہؓ کو میں نے بنایا اور نہ تم کو میں نے بنایا۔ یہ خدا کا کام ہے جو اس نے کیا۔ میرا کام تو صرف ایک مزدور کا سا ہے اور میرا فرض ہے کہ خدا نے جس فقرہ کو جہاں رکھا ہے وہاں اس کو رکھ دوں۔ پس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا نے کہا۔ اگر کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کرتا تو اسے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ بات خدا نے نہیں کہی ورنہ وہ میرا انکار نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کا انکار کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ مورخہ 26 جولائی 1940ء۔ بحوالہ الفضل یکم اگست 1940ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2020