• 25 اپریل, 2024

کاش آج مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن بھی دو معاملات میں سے ایک کو اختیار کرنے کی اجازت دی گئی، آپؐ نے اُن میں سے آسان ترین کو اختیار فرمایا سوائے اس کے کہ اسے اختیار کرنا گناہ ہوتا۔ اور اگر اسے اختیار کرنا گناہ ہوتا تو آپ اس سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا سوائے اس کے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں ناجائز طریق سے داخل ہوتا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر سزا دیتے۔

(بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبیؐ حدیث نمبر 3560)

حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے والدین آپ پر قربان جائیں۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی تھی اور یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح: 27)۔ اے میرے ربّ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے۔

یا رسول اللہ! اگر آپ حضرت نوح کی طرح ہمارے لئے بددعا کرتے تو ہم سب کے سب تباہ ہو جاتے۔ آپ کی کمر کو لتاڑا گیا۔ آپ کے چہرے کو خون آلود کیا گیا۔ آپ کے سامنے کے دانت توڑے گئے مگر آپ نے صرف خیر کی بات ہی کی اور آپ نے یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اے اللہ میری قوم کو بخش دے، ان کو معلوم نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔

(الشفاء لقاضی عیاض الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم صفحہ73 جزء اول دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا۔ اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ (یوسف: 93) کہا۔ اور اس عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا۔ اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا۔‘‘

(براہین احمدیہ۔ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ286-287 بقیہ حاشیہ نمبر 11)

پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو تھا جو مخالفوں کی نظر میں بظاہر ایک بہت مشکل بات تھی۔ کبھی اس طرح کا عفو دکھایا جا سکتا ہے؟۔ لیکن جب آپؐ سے یہ حسنِ سلوک دیکھا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ اسلام قبول کر لیا۔ کاش آج مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ شدت پسند گروہوں کے چنگل سے نکل کر اس اسوہ پر غور کریں جو ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ آمین

(خطبہ جمعہ 14؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2021