• 16 مئی, 2024

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب (قسط 1)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ
اور ایک آفاقی عالم، متکلم اور ادیب
قسط 1

ایک ممتاز داعی الیٰ اللہ اور متکلّم

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو اللہ تعالیٰ نے جن خاص اوصافِ حمیدہ سے نوازا تھا ان میں سے ایک نمایاں اور روشن وصف یہ بھی تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپؒ کو علم کلام میں خاص اعجاز عطا فرمایا تھا۔آپؒ کا کلام، اجتہاد اور استنباط ٹھوس علمی بنیاد، عقل سلیم اور نور فراست پر استوار تھا جس کے ساتھ برجستگی،بے ساختگی،جلادت اور ذکاوت آپؒ کو دیگر متکلّمینِ امّت سے ایک ممتاز مقام پر کھڑا کرتی تھی۔ آپؒ کے اس علم کی تاریں علمِ لدنّی سے منسلک تھیں جو خلافتِ حقّہ کے اعجاز کی رونمائی کرتا تھا۔ کئی بار یہ ہوتا تھا کہ آپ نے کسی سوال کا برجستہ جواب دیا مگر اس کی بنیاد حضرت مسیح موعودؑ یا آپؑ کے مقدّس خلفاء کی کتب میں موجودہوتی تھی۔مگر آپؒ کے اس جواب کی بناکوئی کتابی یا منقولی علم نہیں تھا بلکہ وہ لدنّی علم تھا جس کی بنیاد سچائی تھی اور اس کا منبع خود ذات باری تعالیٰ تھی۔یہ وہی علم تھا جو اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر حضرت مسیح موعودؑ کو بھی عطا فرمایا تھا اورپھر آپؑ کی جانشینی میں حصّہ رسدی آپؑ کے خلفاء کو بھی۔یہ اعجازی کلام سائل کے عقلی اورعلمی افق کے مطابق اس کی تسلّی کا موجب ہوتا یا اس کے لئے مُسکت ضرور ہوتاتھا۔

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو گفتگو کاجو خاص ملکہ عطا فرمایا تھا،اس کے ساتھ فطری ذہانت اور خدا داد بصیرت مل کر اس گفتگو کو اور بھی پرکشش اور پُرتاثیر بنادیتے تھے۔ اس لئے سننے والا خواہ وہ کس درجے کا ہی پرخاش جُو کیوں نہ ہوتا،کسی نہ کسی حد تک متاثرضرور ہوتاتھا۔

ابتداء ہی سے آپؒ کے اندرسچائی پر قیام کے شعور کے ساتھ ایک اعتماد اور وثوق بھی پایا جاتا تھا جس کی بناء پردوسروں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں آپؒ کو نہ کسی طرح کی جھجک تھی اور نہ ہی کسی قسم کا احساس کم مائیگی۔ چنانچہ آپؒ بیان فرماتے ہیں:
’’ہمارے بچپن کا واقعہ ہے کہ ہم کوہ مری میں تھے۔ وہاں ہم ایک چرچ میں مناظرے کے لئے گئے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم جیتیں گے۔ پادری صاحب سے بات ہوئی۔کچھ دیر ہم ان سے پوچھتے رہے۔انہوں نے وہی باتیں بیان کیں جووہ عام طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہیں ہم نے جب اس کا جواب دیا تو پادری فوراً چونکا اور بولا کیا تم احمدی ہو؟ ہم نے کہاں ہاں۔اس نے کہا پھر احمدیوں سے ہمارا کوئی مناظرہ نہیں۔‘‘

(الفضل30؍دسمبر 1998ء)

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ اپنے تعلق اور نسبت کے متعلق بتایا:
’’بچپن میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر آنحضرتؐ اور اسلام کے دفاع میں پڑھا کرتا تھا تو میں خدا تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ اے خدا! جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا اور مطاع حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت میں سینہ سپرہوجاتے ہیں مجھے بھی یہ توفیق دے کہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دفاع میں اسی طرح کروں۔ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول کیا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 29؍اگست تا 4؍ستمبر 1997ء)

طالبعلمی کے زمانے میں بھی آپؒ کی دوستیاں بھی سچائی کے پرچار اور اس کی برکتوں سے بھری رہتی تھیں۔ اس سلسلہ میں آپؒ اپنے طریق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پہلے دوست بناتا تھا۔ پھر دعوت الیٰ اللہ کرتا تھا۔ کافی دوست ایسے بنائے ہوئے تھے کالج میں۔ اوّل تو اچھے لڑکے دوست بنا کرتے تھے۔ پھر دوستی کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بات کھل جایا کرتی تھی پھر دعوت الیٰ اللہ شروع ہوجاتی تھی۔ بہت پیار ے پیارے ایسے دوست تھے۔‘‘

(الفضل یکم جولائی 2000ء)

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کوشروع سے ہی دعو ت الیٰ اللہ کے شوق کے ساتھ اس کا ڈھنگ بھی خوب عطا فرمایا تھا۔چنانچہ شاذ ہی ایسا ہوا ہوگا کہ کسی غیراز جماعت فرد سے آپؒ کو بات کرنے کا موقع ملا ہو اوروہ بالآخر جماعت احمدیہ کے تعارف کا خواہاں نہ ہوا ہو۔ابتداء میں بات خواہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر شروع ہوتی تھی مگر آخر کاروہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت پر منتج ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ نے آپؒ کو گفتگو اور کلام کا جو خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، اس کے ہمراہ فطری ذہانت اور علم لدنّی اس گفتگو کو پُرکشش بنا دیتے تھے۔لہٰذا سننے والا ضرور کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوتاتھا۔اس قسم کے واقعات روز مرّہ کی زندگی میں ہمیشہ رونما ہوتے تھے۔

دعوت الیٰ اللہ کے لئے جس حق گوئی، دلیری اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپؒ کو پوری طرح آراستہ فرمایا تھا۔ اظہار حق کے لئے نہ آپؒ کبھی کسی استاد سے مرعوب تھے،نہ ہی کسی غیر اللہ سے۔ لہٰذا آپؒ کے غیر مسلم اساتذہ تھے یا کسی بھی شہرت و عظمت یا اقتدار کا مالک کوئی اور شخص،آپؒ پورے اعتماد اور برتری کے مقام سے بات کرتے تھے۔الغرض دعوت الیٰ اللہ کے لئے ہر وہ خوبی اور وصف آپؒ کو قدرت کی طرف سے ودیعت تھا جو اس کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔یہ دراصل آپؒ کی ابتداء تھی جو جلا پاتے پاتے اس نقطۂ عروج پر پہنچی تھی کہ جہاں پھر آپؒ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

آپؒ کے اس وصف کے سفر میں ایک لمحہ آپؒ کے لندن میں طالبعلمی کے زمانہ میں اتر کر دیکھتے ہیں کہ وہاں آپؒ کس طرح اسلام کے دفاع میں مشغول تھے؟ چنانچہ آپؒ اس زمانہ کا ایک واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب میں لندن پڑھا کرتا تھا تو ایک مرتبہ سو ٔر کے گوشت کی حرمت کا ذکر آنے پر میں نے اس جانور کی بے حیائی کا ذکر کیا کہ کس طرح اس کے کھانے سے یہی اثر کھانے والے پر ہوجاتا ہے۔ تو ایک لڑکی کھڑی ہوئی اور اس نے کہا تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ یہی تو میں ثابت کرنا چاہتا تھا۔ یہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جائے وہی خصلتیں اور عادات کھانے والے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 24؍دسمبر تا 30؍دسمبر1999ء)

یعنی اس لڑکی کے جواب میں یہ ثبوت موجود تھا کہ اس جانور کے کھانے سے کھانے والے میں بے حیائی کا احساس تک ختم ہوجاتا ہے۔

ایک مرتبہ یونیورسٹی آف لندن میں تاریخ کے ایک متعصّب پروفیسر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مدینہ میں یہودی قبیلہ بنو قریظہ کی غدّاری اور ان کی سزا کے بارہ میں ظلم کا الزام لگایا۔ اس کے دفاع کا ذکر کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
’’میں اور میرے عزیز دوست میر محمود احمد صاحب ناصرؔ اسے برداشت نہ کر سکے اور جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔اس پر اُس پروفیسر نے کہا کہ یہاں بحث کا وقت نہیں۔تم کو جو کچھ کہنا ہو میرے کمرے میں آکر کہنا۔ مگر ہم نے اسے یہ جواب دیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے آقاؐ پر حملہ کرو تو تم برسرِ عام کرواور جواب ہم علیحدگی میں دیں؟ چنانچہ جب ہم نے اس بارہ میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی توایک یہودی طالبعلم اٹھ کھڑا ہوااور اس نے یہ اعلان کیا کہ ’’اگرچہ میں یہودی ہوں اور سب سے زیادہ مجھے اس بات کا غصّہ ہونا چاہئے تھا مگر یہ بحث سننے کے بعد میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمّدصلی اللہ علیہ وسلم پر اس واقعہ سے ہرگز کوئی حرف نہیں آتا۔ کیونکہ اوّل تو یہ فیصلہ ان کا نہیں تھا۔ دوسرے سعد بن معاذؓ کا فیصلہ بھی میرے نزدیک درست تھا اور وہ غدّاراسی لائق تھے کہ تہِ تیغ کئے جاتے۔‘‘

(مذہب کے نام پر خون، باب بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، صفحہ65)

1978ء میں یورپ اور امریکہ کے سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحبؒ نے ایک شخص سے بات شروع کی جو حسب معمول دعوت الیٰ اللہ تک پہنچ گئی۔ آخرپر وہ کہنے لگا اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ایک بات آپ سے پوچھوں۔ آپ تو بہت مہذ ّب او رتعلیم یافتہ انسان نظر آتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کی بیوی اور بیٹیاں اس موجودہ ماڈرن زمانے کے ساتھ چلتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔آپؒ نے اسے جواب دیا کہ شاید ان برقعوں اورپردے سے تم نے یہ اندازہ لگایا ہے۔ مگر بات اس طرح نہیں ہے جیسے آپ سمجھے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تعلیم یافتہ ہیں اور اس دور کے تقاضوں کو بھی بخوبی جانتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی قوم کی عورتیں اب اتنی مہذ ّب نہیں رہیں۔ تہذیب نے انسان کو رفتہ رفتہ کپڑے پہننا سکھایا تھا کپڑے اُتارنا نہیں۔ آپ کی عورت دوبارہ اس جاہلیت کے دور کی طرف چلی گئی ہے جب انسان بغیر کپڑوں کے شرم محسوس کئے بغیر پھرتا تھا۔ اس بات کو ذرا شگفتہ بنانے کے لئے آپ نے ہنس کر مزید فرمایا: ’’ہوسکتا ہے تمہارے خیال میں میری بیوی اور بیٹیوں نے کچھ زیادہ ہی کپڑے پہن لئے ہوں مگر بہرحال یہ اُن خواتین سے بہتر ہیں جو تہذیب کے تمام تقاضوں کو ایک طرف رکھ کردوبارہ اپنے آپ کو عریاں کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو کلام کا جادو اور بیان کا سحر عطا فرمایا تھا جو بالغ دلیل اور راسخ منطق سے ہمنوا تھا۔ چنانچہ سامع کسی بھی مذہب و ملّت یا مکتبہ ٔ فکر سے تعلق رکھتا ہو، آپؒ کا خطاب سن کر مسحور ضرور ہوتا تھا۔ آپؒ کی ہر مجلس سوال و جواب شاہد ہے کہ چند ہی ثانیوں میں سامعین، خواہ وہ مخالف عقائد و اعتقاد کے حامل یا کیسے ہی رزم پوش کیوں نہ ہوتے تھے، اکثر کی آنکھیں آپؒ کے بیان کی تائید میں چمک جاتی تھیں اور سر ازراہِ تصدیق میں جھولنے لگتے تھے۔

سوالات کے جوابات میں آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقدرت بخشی تھی اور وہ ہر قسم کی صورتحال میں آپؒ کی خودمدد فرماتا تھا۔ آپؒ کی بڑی ہمشیرہ محترمہ صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ نے آپؒ کو خلافت کا منصب عطا ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مجالس سوال و جواب کے بارہ میں آپؒ سے پوچھا: ’’کبھی پھنسے بھی ہو؟‘‘ جواب دیا:
’’ایک مرتبہ پھنسنے لگا تھا جب ایک آدمی نے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تین دن کے بعد سولی سے زندہ اُتر آئے تو آپ اپنا ایک آدمی ہمارے سپرد کر دیں۔ ہم اسے ایک گھنٹے کے لئے سولی پر لٹکا دیں گے۔ اگر وہ زندہ اتر آیا تو آپ کو سچا مان لیں گے۔یہ سن کر پہلے تو میں گھبرایا لیکن خد اتعالیٰ نے مدد فرمائی اور میں نے کہاکہ آپ مانتے ہیں کہ حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں تین دن تک رہے۔آپ اپنا ایک آدمی دیدیں، ہم اسے مچھلی کو کھلواتے ہیں، اگر وہ زندہ بچ گیا تو ہم تمہیں سچا مان لیں گے۔‘‘

اسی طرح لاہور کی ایک مجلس سوال و جواب کا واقعہ ہے کہ ایک روباہ بازنے لبالب بھری جوابات سے مسحور مجلس میں اُٹھ کر اچانک اپنی چَھل سپولی پھینک کر مجلس پر محیط طلسم حق و صداقت کو توڑنے کی جسارت کی اور کہا: ’’مجھے آپ کے چہرے پر کوئی نور نظر نہیں آتا۔‘‘

اس دشمن خشمگیں کا یہ سوال یا تبصرہ بڑا خطرناک تھا کہ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ جس کا نہ اثبات میں جواب دے سکتے تھے کہ خود ستائشی ممکن نہ تھی اور نہ ہی سچائی کی پُرنور بنیاد پر متمکن ہونے کی وجہ سے نفی کر سکتے تھے۔ جبکہ مجلس ایسی جمی ہوئی تھی کہ جیسے ایک ساکت جھیل کی جامد سطح پر اگر ایک ذرّہ برابر کثافت بھی گرے تو اسے لہر خیز بنا دے۔اس روح پروَر اور ٹھہری ہوئی مجلس میں بے موقع، بے وقت اور اچانک گویا ایک بھاری بھرکم پتھر نے سامعین کے اندر طوفان خیز ارتعاش پیدا کر دیاتھابلکہ بعض برافروختہ بھی ہو نے لگے تھے۔قوی اندیشہ تھا کہ کوئی جذباتی ہو کر اس پر دست درازی نہ کر بیٹھے۔چنانچہ پولیس والے بھی مستعد ہو چکے تھے۔

جواب دینے والا اگر کوئی عام انسان ہوتا تواس براہِ راست طعن پر تاؤ کھا کر کھٹا پٹی پر اتر آتا۔مگر حضرت صاحبؒ ایک ایسے صاحب مَقدرت جری کی طرح مطمئن تھے جس کی طاقت مد ّ مقابل کو اپنی گرفت میں کرنے پر چہرے پرسکون و تسلّی کے آثار ظاہر کرتی ہے۔چنانچہ آپؒ نے بڑے اطمینان سے فرمایا:
’’میں تو حضرت محمد مصطفیؐ کا ایک ادنیٰ غلام ہوں۔ آپ یہ تو مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غیر معمولی نور تھا۔‘‘

اس شخص نے بڑے طمطراق سے جواب دیا کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں۔بلا شک آپؐ کا چہرہ بے حد نورانی تھا۔ پس حضورؒ نے اسی لمحے عصائے مسیحِ محمدیؐ پھینکتے ہوئے فرمایا:
’’لیکن ابو جہل کو توآپؐ کے چہرے پروہ نور نظر نہیں آتا تھا۔‘‘

اس عصاکا گرنا تھا کہ مجلس ایک زنّاٹے دار قہقہے سے بھڑک اُٹھی لیکن طرفۃ العین ہی میں وہی پہلے والاسکون و سکوت پھر عود کر آیا۔ مجلس دوبارہ جم گئی۔سامعین سچائی کے جلوۂ جلال و جمال میں پھر ڈوب گئے اور وہ ابوجہل مثال بد سگال پسینۂ عار میں شرابورمنہ بوری ہو گیا۔

ایک دفعہ1985ء کی گرمیوں میں کیمبرج یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم احمدی طلبہ نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضورؒ یونیورسٹی میں تشریف لائیں اور وہاں طلباء اور پروفیسروں کوحضرت عیسیٰؑ کی پیدائش، ہجرت اور وفات کے موضوع پر لیکچر دیں۔آپؒ نے ان کی یہ درخواست قبول فرما لی۔ پروگرام میں آپؒ کے خطاب کے بعدسوالات کا بھی وقفہ تھا اور اس موقع پر شرّ پیدا کرنے کے لئے مسلمان طلبہ تیاری کرنے لگے۔ اس صورتحال کی اطلاع مقامی انتظامیہ کو کر دی گئی تھی تاکہ عملاً کوئی شرارت نہ ہو۔ اس پروگرام میں ایک اچھی تعداد میں یونیورسٹی کے طلبہ اور پروفیسرز تشریف لائے ہوئے تھے اور حضور رحمہ اللہ کے منتظر تھے۔ آپؒ مقررہ تاریخ اور وقت پرکیمبرج یونیورسٹی کے ہال میں تشریف لائے توسامعین کے ساتھ شرارت کے خواہاں یہ لوگ بھی موجود تھے، ان میں چارملّاں نما عرب طلبہ بھی تھے۔

پروگرام شروع ہوا۔ مکرّم مصطفیٰ ثابت صاحب نے چند آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی اوران کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ ان کے بعد حضور رحمہ اللہ نے خطاب فرمایا اور حضرت عیسٰیؑ کی زندگی،ہجرت اور وفات کے بارہ میں بڑی جامعیت کے ساتھ حقائق پیش فرمائے۔ قرآنی سچائیوں پر مشتمل، امام وقت کے اس خطاب سے ہر ایک متفق بھی نظر آتا تھا اور متأثر بھی۔ یا بالفاظ دیگر جو متفق نہ تھا وہ متأثرضرور تھا۔اس صورتِ حال سے چشم شگوں گیرمضطرب بلکہ بے قرار ہو گئی۔ جونہی سوالات کا وقت آیا، انہی عرب طلباء میں سے ایک اٹھا اور کہنے لگا کہ
’’آپ غلط باتیں بتا کر لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں۔آپ نے آیت کریمہ وَاٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیۡنٍ ﴿۵۱﴾ (المومنون: 51) سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضرت عیسٰیؑ اور ان کی والدہ کی کشمیر کی طرف ہجرت کی کہانی گھڑ لی ہے۔ آپ عرب نہیں ہیں جبکہ قرآن کریم کی زبان عربی ہے، اسے عرب ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ اس آیت میں تو حضرت مریم کی وہ ہجرت بیان کی گئی ہے کہ جب انہیں ارضِ مقدّس سے نکل کر مصر کی طرف جانا پڑا تھا اور حضرت عیسٰیؑ ان کے پیٹ میں ان کے ساتھ تھے۔ اس آیت میں ان دونوں کی اُس ہجرت کا بیان ہے نہ کہ کشمیر کی طرف ہجرت کا۔ کیونکہ واقعہ صلیب کے بعد تو حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر چلے گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ان دونوں کی کسی ہجرت کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘

حضور رحمہ اللہ بلا توقف پوڈیم پر تشریف لائے۔ آپؒ کا چہرہ ایک خاص نورانی تجلّی کے ہالہ میں جلال و جمال کے یکساں امتزاج سے دمک رہا تھا۔ اس عالم میں آپؒ نے ایک پُرجلال انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ
’’یہ درست ہے میں عرب نہیں ہوں۔ لیکن میں دعو ٰی سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عربوں اور عجمیوں سے زیادہ قرآن کریم کے علم سے نوازا ہے۔ آپ کی بات قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ حضرت مریمؑ کے جس سفر کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کا وہ سفرحضرت عیسٰیؑ کی پیدائش سے پہلے کا ہے اور خدا تعالیٰ نے یہاں ’’اٰوَیۡنٰہَا‘‘ نہیں فرمایا بلکہ ’’اٰوَیۡنٰہُمَاۤ‘‘ فرمایا ہے اور عرب حاملہ عورت کے لئے کبھی بھی تثنیہ کا صیغہ استعمال نہیں کرتے بلکہ واحد کا صیغہ استعما ل کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں صرف اس سفر کا ذکر ہے جو خدائی منشا کے تحت حضرت عیسٰیؑ نے اپنی والدہ کے ساتھ واقعہ صلیب کے بعد اختیار فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ کسی اور سفر پر اس آیت کریمہ کا اطلاق ہوہی نہیں سکتا۔‘‘

اس وقت اس معترض کی حالت وہی تھی جو آیت کریمہ ’’فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ‘‘ (کہ وہ منکر لاجواب ہو کر مبہوت ہو گیا) میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ابھی مزید آبرو باختہ کرنا تھا۔ چونکہ اس نے عرب ہونے کے ناتے عربی دانی کی بڑ ہانکی تھی اس لئے اللہ تعالی نے اس کی خجلت آمیز شکست کا یہ سامان ایک عرب ہی کے ذریعہ کیا۔ ہوا یوں کہ اپنا جواب مکمل کرتے ہی حضور رحمہ اللہ نے مکرم مصطفی ثابت صاحب سے پوچھا:
’’کیا کوئی عرب، کبھی حاملہ عورت کے لئے تثنیہ کا صیغہ ’’ھُمَا‘‘ بھی استعمال کرتا ہے؟‘‘

مصطفیٰ ثابت صاحب برجستہ بولے: Yes, Huzoor اور پھر انہوں نے ایک ڈرامائی انداز میں کچھ توقف کیا۔ جس پر اس عرب معترض اور اس کے ساتھیوں کے ہونٹوں پر طنز آمیز فاتحانہ مسکراہٹ بکھرنے کو ہی تھی کہ مصطفی ثابت صاحب بولے:

‘‘If he is an ignorant Arab!!!’’

(یعنی سوائے جاہل عرب کے اور کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا) یہ سننا تھا کہ محفل ایک لمحے کے لئے ایک اجتماعی قہقہے سے چمک اٹھی۔چونکہ یہ ایک سنجیدہ اور علم کی سچائی سے بھرپور مجلس تھی اس لئے سب نے اس شرّ خواہ زک شدہ عرب پرایک چشم جہت بیں ڈالی اور خاموشی سے سوالات کے پُرحقائق جوابات سے لطف اندوز ہونے لگے۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ شریروں کو بھری مجلس میں عرق خجالت میں اس حد تک غرق کر دیا کہ پھر ان میں سے کسی کو اور کسی حرکت کی جرأت نہ ہوئی،بلکہ غیب سے خلیفہ ٔ وقت کی تائید فرما کر احمدیت کے علم کلام کی صداقت کا نشان مزید پختہ اور قائم فرما دیا۔

حضور رحمہ اللہ جب یہ جواب ارشاد فرما رہے تھے تو آپؒ پر الٰہی تصرف جلوہ گر تھا۔ چنانچہ پروگرام کی تکمیل کے بعد جب کیمبرج سے لندن واپسی پر خاکسار (راقم الحروف) نے اس ’’ھَا‘‘ اور ’’ھُمَا‘‘ والے پُر معرفت و پُر حقیقت مسکت نکتہ کے بارہ میں سامعین کے لطف و سرور کا ذکر کیا تو آپؒ نے فرمایا:
’’مجھے اس نکتے کا نہ تو پہلے کوئی علم تھا اور نہ ہی میں نے کبھی کسی کتاب میں یہ پڑھا تھا۔ عین اسی وقت اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر یہ القا کیا تھا اور میری زبان خود بخود اسے بیان کر رہی تھی۔‘‘

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی

قارئین کرام! کسی سوال کرنے والے کی علمی،عقلی اور منطقی لحاظ سے تشفّی کرانا اور اسے سچائی کی طرف مائل کر دینا ایک حق پرست متکلم ہی کی اعلیٰ خوبی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک معاند کے حملے سے بچنا اور مائلِ حق سامعین کو اس کی زد سے بچانا بھی اس کی اعلیٰ صفات میں سے ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ایسی ہر صفت سے متّصف تھے جو دین حق کی سچائی کے ثبوت کے لئے ضروری تھی۔اس کے ساتھ آپؒ کو متلاشیان حق ہوں یا معترض، سچّائی آشکار کرنے کے لئے ان کے سوالوں کے جواب دینے میں جو گوناں سکوں اور لذ ّت حاصل ہوتی تھی وہ بیحد تھی۔آپؒ اپنے ایک خط محررہ 12؍مئی 1982ء میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کل کی مجالس مذاکرہ میں دو تین کالج کے وفود بھی آئے ہوئے تھے۔ گفت و شنید اتنے پیارے اور پُرسکون ماحول میں ہوئی اور سوالات اتنے علمی اور دلچسپ تھے کہ مزا آگیا۔جھنگ سے جو وفد آیا تھا وہ عموماً تاجروں پر مشتمل تھااور کچھ مولوی بھی تھے لیکن سلجھے ہوئے تھے۔اس طرح شیخوپورہ کا وفد بھی بہت اچھا تھا۔چار گھنٹے مسلسل بولنے کے باوجود طبیعت کو اتنا سکون ملا کہ دن کے پہلے حصّے کی تھکاوٹ بھی جاتی رہی۔ احمدیّت کے حق میں لوگوں کے چہروں کے نقوش ملائم ہوتے دیکھ کر دل حمد سے بھر جاتاتھا اور جب سختیاں نرمی میں بدلتی تھیں اور نرمی محبت کا رنگ پکڑنے لگتی تھی، روح شکر کے ترانے گاتی تھی کہ میرے جیسے بےکار اور گنہگار انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ورنہ میں خدمت گاروں میں لکھے جانے کے لائق بھی نہیں۔‘‘

آپؒ کی ابتدائی زندگی کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیل علم میں آپؒ کا مزاج محض اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں خاص سمت میں تھا۔اسکول و کالج اور جامعہ احمدیہ وغیرہ کی مروّجہ اور واجبی تعلیمات کے حصول کے ساتھ ساتھ آپؒ اپنی طبعی کشش کے ساتھ اس خاص جانب رواں دواں رہے۔ اس جہت میں آپؒ دنیا بھر کے علوم جو قولِ خدایعنی قرآن کریم کی حقانیّت کے ثبوت کے لئے ضروری تھے گہری دلچسپی کے ساتھ حاصل کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو ان علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ ان کے اظہار کے مواقع بھی عطا فرمائے اورجہاں امکان ہوتا آپؒ انہیں خود عملاً تجربہ کرکے بھی مشاہدہ فرماتے تھے۔ بالآخر آپؒ امّت میں متکلّمین کی صفِ اوّل میں آ کھڑے ہوئے۔اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اس قدر وسعت عطا فرمائی کہ اپنے پیچھے دروس، خطبے، خطابات، لیکچرز، مجالسِ سوال و جواب اور اعتراضات کے جوابات کا ایک لاثانی ذخیرہ چھوڑ گئے۔جس سے امّت صدیوں تک سیراب اور فیضیاب ہوتی رہے گی۔ ان شاء اللّٰہ العزیز

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

MTA International Management Board 2023

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2023