• 28 اپریل, 2024

وصیت – ایک عظیم الشان روحانی نظام

الٰہي اشارات کے مطابق سيدنا حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے اپني وفات سے قبل 1905ء ميں نظام وصيت کي بنياد رکھي جس کي روح يہ بيان فرمائي کہ مخلصين جماعت اس ميں شامل ہوکر اپنے تقويٰ کےمعيار کو بلند کريں۔ پنج وقت نماز کا التزام کريں اور تزکيہ نفس کے لئے بخوشي اپنے مال کا کم از کم 10/1 حصہ اشاعت اسلام، ہمدردي خلق اور غرباء پروري کے لئے پيش کريں۔

الله تعاليٰ نے قرآن کريم ميں متعدد بار مومنين کي توجہ اپني راہ ميں خرچ کرنے کي طرف مبذول فرمائي ہے۔ لہذا قرآن مجيد ميں فرمايا ’’وہ لوگ جو اپنے اموال الله کي راہ ميں خرچ کرتے ہيں پھر اسکا احسان جتاتے ہوئے يا تکليف ديتے ہوئے پيچھا نہيں کرتے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئي خوف نہيں ہوگا اور نہ وہ غمگين ہوں گے۔‘‘ (البقرہ: 263) مومنين يہ قرباني کبھي چھپ کر کرتے ہيں تو کبھي کھلے عام۔ اس کا مقصد محض الله تعاليٰ کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ دوسروں کو دکھانے اور خوش کرنے کے ليے کي جانے والي مالي قربانياں خدا کے نزديک کبھي قابل قبول نہيں ہو سکتيں۔

ہمارے حضور صلي الله عليہ وسلم نے ہميں بار بار مالي قرباني کرنے کي تلقين فرمائي۔ اس کے نتيجے ميں ايک مومن تقويٰ حاصل کرتا ہے اور معاشرہ بہت سي برائيوں سے نجات پاتا ہے۔ حديث نبوي ہے کہ رسول الله صلي الله عليہ وسلم نے فرمايا ’’الله تعاليٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بيٹے! تو اپنا خزانہ ميرے پاس جمع کر کے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پاني ميں ڈوبنے کا انديشہ اور نہ کسي چور کي چوري کا ڈر۔ ميرے پاس رکھا گيا خزانہ ميں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ تو اس کا سب سے زيادہ محتاج ہو گا۔ (شعب الايمان کتاب الزکاة) يعني يہ مال انسان کے پاس ہميشہ رہنے والا نہيں ليکن اگر الله تعاليٰ کي راہ ميں خرچ کيا جائے تو اس کا ثواب دائمي ہوگا۔

افراد جماعت کي روحاني ترقي اور اسلامي اقدار کي بلندي کےلئے حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے وصيت کي تحريک جاري فرمائي۔ عام طور پر دنياوي قواعد جذبہ قوميت کو فروغ ديتے ہيں مگر امام الزمان نے وصيت کي شکل ميں ايک عظيم الشان روحاني نظام پيش کيا جو نہ صرف غلبہ اسلام کا پيش خيمہ ہے بلکہ عالمگير اخوت کو بڑ ھانے کي بھي ضمانت ديتا ہے۔ اس بارے ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں: ’’ايک جگہ مجھے دکھائي گئي کہ وہ چاندي سے زيادہ چمکتي تھي۔ تب مجھے کہا گيا کہ يہ تيري قبر ہے اور ايک اور جگہ مجھے دکھائي گئي اور اس کا نام بہشتي مقبرہ رکھا گيا۔ ظاہر کيا گيا کہ وہ ان برگزيدہ جماعت کے لوگوں کي قبريں ہيں جو بہشتي ہيں تب سے مجھے ہميشہ يہ فکر رہي کہ جماعت کے لئے ايک قطعہ زمين قبرستان کي غرض سے خريدا جائے۔‘‘

(الوصيت صفحہ 22)

ان الٰہي ارشادات کي روشني ميں حضرت اقدس عليہ السلام نے اپنے ايک باغ کا حصہ اسي مقصد کے لئے وقف کر ديا۔ پھر فرمايا کہ ’’اس قبرستان ميں وہ مدفون ہو گا جو متقي اور سچا مسلمان ہو، شرک اور بدعت کا کام نہ کرتاہو اور اپني خوشي سے اپنے مال کے دسويں حصہ کي وصيت کر دے تا يہ رقم ترقي اسلام، اشاعت قرآن، يتيموں، بيواؤں اور مسکينوں پر خرچ کي جا سکے۔‘‘ (الوصيت صفحہ 26) يعني نظام وصيت ميں شموليت ايک احمدي کو نہ صرف متقي بنا کر جنت کا وارث بنا سکتي ہے بلکہ اس مالي قرباني سے غرباء اور مصيبت زدگان کي امداد کو بھي يقيني بنايا جا سکتا ہے۔ يہاں قابل توجہ يہ نہيں کہ کب اور کتنا مال الله کي راہ ميں خرچ کيا بلکہ اہميت اس امر کي ہے کہ مامور من الله کي اطاعت کرتے ہوئے دلوں ميں پاک تبديلي پيدا ہوئي يانہيں۔

وصيت ايک ايسا آسماني نظام ہے جو خود الله تعاليٰ کے اذن سے جاري ہوا۔ نيز بہشتي مقبرہ کو يہ اعزاز بھي حاصل ہے کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام نےخود بارہا اسکے بابرکت ہونے کي دعائيں کي ہيں۔ چنانچہ فرماتے ہيں۔ ’’پھر ميں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس ميں برکت دے اور اسي کو بہشتي مقبرہ بنا دے اور يہ جماعت کے پاک دل لوگوں کي خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقيقت دين کو دنيا پر مقدم کر ليا اور دنيا کي محبت چھوڑ دي اور پاک تبديلي اپنے اندر پيدا کرلي اور رسول الله صلي الله عليہ وسلم کے اصحاب کي طرح وفا داري اور صدق کا نمونہ دکھايا۔ آمين يا رب العالمين‘‘

(الوصيت صفحہ 23)

نبي کريم صلي الله عليہ وسلم کي پيشگوئيوں کے مطابق اسلام کا غلبہ امام مہدي و مسيح موعود کے ذريعہ سے ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے ليے حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے جماعت سے مالي قرباني کا مطالبہ کيا۔ يہ مال خود بخود يا انساني صلاحيت سے نہيں آتا بلکہ الله تعاليٰ کے خاص فضل و کرم سے آتا ہے۔ حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله مالي قرباني کے بارے ميں فرماتے ہيں ’’الله کي راہ ميں خرچ کرنے سے کيوں ڈرتے ہو؟ يہي وہ خرچ ہے جو آپ لوگوں کي آمدني کااور الله کي رحمتوں کے حصول کا ذريعہ ہے… يہ وہ بابرکت چشمہ ہے جس کا آغاز حضور صلي الله عليہ وسلم نے کيا تھا اور ہميں اس چشمہ کو برقرار رکھنے کے ليے پيدا کيا گيا ہے۔ ہم جنہيں پوري دنيا کو اس چشمے کا پاني مہيا کرنے کا کام سونپا گيا ہے، ہميں اپني قربانيوں سے اس (چشمے) کو معمور رکھنا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23؍جولائي 1982ء)

وصيت کے قيام کا مقصد تبليغ اسلام اور اشاعت علم القرآن کو فروغ دينا ہے۔ نيز يتيموں، غريبوں اور مسکينوں کي امداد کرنا ہے۔ درحقيقت اسلام ايک ايسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جہاں غريب انسان کسي دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے اور سب انسانوں کي بنيادي ضروريات يکساں پوري ہوتي رہيں۔

حضرت خليفة المسيح الثاني رضي الله عنہ فرماتے ہيں: ’’يہ وہ تعليم ہے جو ہميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے دي۔ عنقريب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنيا چلّا چلّا کر کہے گي کہ ہميں ايک نئے نظام کي ضرورت ہے۔ تب روس کہے گا آؤ! ميں تم کو ايک نيا نظام ديتا ہوں۔ ہندوستان کہے گا آؤ! ميں تم کو نيا نظام ديتا ہوں جرمني اور اٹلي کہے گا آؤ! ميں تم کو ايک نيا نظام ديتا ہوں۔ امريکہ کہے گا آؤ !ميں تم کو نيا نظام ديتا ہوں۔ اس وقت ميرا قائم مقام قاديان سے کہے گا کہ نيا نظام ’’الوصيت‘‘ ميں موجود ہے۔ اگر دنيا فلاح و بہبود کے رستہ پر چلنا چاہتي ہے تو اس کا ايک ہي طريق ہے اور وہ يہ کہ ’’الوصيت‘‘ کے پيش کردہ نظام کو دنيا ميں جاري کياجائے۔‘‘

(نظام نو صفحہ 107)

الوصيت ايک ايسا بابرکت نظام ہے جس سے دشمنان احمديت بھي متاثر ہوئے بغير نہ رہ سکے۔ اس بارے ميں حضرت خليفة المسيح الثاني رضي الله عنہ فرماتے ہيں۔ ’’ميں اس موقع پر ايک دشمن کي تعريف کيے بغير نہيں رہ سکتا۔ جس دن حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے وصيت لکھي اور اس کا مسودہ باہر بھيجا تو خواجہ کمال الدين صاحب اس کو پڑھنے لگ گئے۔ جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے ان کي نگاہ نے اس کے حسن کو ايک حد تک سمجھا۔ وہ پڑھتے جاتے اور اپني رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ ’’واہ اوئے مرزيا احمديت دياں جڑاں لگا دتياں نيں‘‘ يعني واہ واہ مرزا! تو نے تو احمديت کي جڑوں کو مضبوط کر ديا ہے۔ خواجہ صاحب کي نظر نے بےشک اس کے حسن کو ايک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھي نہيں سمجھا۔ در حقيقت اگر وصيت کو غور سے پڑھا جائے تو يہ کہنا پڑتا ہے۔ واہ او مرزا !تو نے اسلام کي جڑيں مضبوط کر ديں، واہ او مرزا! تو نے انسانيت کي جڑيں ہميشہ کے ليے مضبوط کر ديں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍوَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘

(نظام نو صفحہ 118)

ايمان کو بڑھانے اور عمل صالح کا بہترين طريق نظام وصيت ميں شموليت ہے۔ حضرت مصلح موعود رضي الله عنہ نے 1932ء ميں خطبہ جمعہ ميں ارشاد فرمايا ’’وہ لوگ جن کے دل ميں ايمان اور اخلاص تو ہے مگر وصيت کے بارے ميں سستي دکھلاتے ہيں ميں انہيں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وصيت کي طرف جلدي بڑھيں۔ ان ہي سستيوں کي وجہ سے ديکھا جاتا ہے کہ بعض بڑے بڑے مخلص فوت ہو جاتے ہيں۔ ان کو آج کل کرتے کرتے موت آ جاتي ہے۔ پھر دل کڑھتا ہےاور حسرت پيدا ہوتي ہے کہ کاش! يہ بھي مخلصين کےساتھ دفن کيے جاتے مگر دفن نہيں کيے جا سکتے…… پس جس قدر ہو سکے دوستوں کو چاہيے کہ وہ وصيت کريں اور ميں يقين رکھتا ہوں کہ وصيت کرنے سے ايماني ترقي ضرور ہوتي ہے۔ جب الله تعاليٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمين ميں متقي کو دفن کرے گا تو جو شخص وصيت کرتا ہے اسے متقي بھي بنا ديتا ہے۔‘‘

(الفضل يکم ستمبر 1932ء)

مومن کے ايمان کي آزمائش يہ ہے کہ وہ اس بابرکت نظام ميں شامل ہوکر يہ ثابت کرے کہ وہ دين کے لئے اپني زندگي وقف رکھتا ہے۔ حضرت امير المومنين خليفة المسيح الخامس ايدہ ﷲ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے جلسہ سالانہ برطانيہ 2004ء کے اختتامي اجلاس ميں فرمايا ’’بعض لوگ کہتے ہيں کہ ہماري نيکي کے معياروہاں تک نہيں پہنچے جو حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے اس معيار کي شرائط کو پورا کر سکيں تو وہ سن ليں کہ يہ نظام ايک ايسا انقلابي نظام ہے کہ اگر نيک نيتي سے اس ميں شامل ہوا جائے اور شامل ہونے کے بعد اپنے اندر بہتري کي کوشش بھي کي جائے تو اس نظام کي برکت سے روحاني تبديلي جو کئي سالوں کي مسافت ہے وہ دنوں ميں اور دنوں کي گھنٹوں ميں طے ہو جائے گي۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانيہ 2004ء)

نظام وصيت ميں بلا توقف شامل ہونا چاہئے حضرت امير المومنين خليفة المسيح الخامس ايدہ ﷲ تعاليٰ بنصرہ العزيز کئي بار اس خواہش کا اظہار فرما چکے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ افراد جماعت وصيت کرکے الله تعاليٰ کے فضلوں کے وارث بنيں۔ آپ فرماتے ہيں ’’اميد ہے کہ احمدي نوجوان بھي اور خواتين بھي اس ميں حصہ لينے کي بھر پور کوشش کريں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر ميں کہہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھي اس عظيم انقلابي نظام ميں شامل کرنے کي کوشش کريں۔ پس غور کريں فکر کريں۔ جو سستياں، کوتاہياں ہو چکي ہيں ان پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي آواز پر لبيک کہتے ہوئے جلد از جلد نظام وصيت ميں شامل ہو جائيں اور اپنے آپ کوبھي بچائيں اور اپني نسلوں کو بھي بچائيں۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانيہ 2004ء)

؎اے دوستو پيارو! عقبيٰ کو مت بسارو
کچھ زاد راہ لے لو کچھ کام ميں گزارو

(در ثمين)

الله تعاليٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماري قرباني کے معيار کو بڑھائے۔ ہميں سچا مومن بننے کي اور اپنے امام کي تمام خواہشات پر کاربند ہونے کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين ثم آمين

(عطیة الباری غنی۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

MTA International Management Board 2023

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2023