• 19 اپریل, 2024

حضرت مولوی حبیب احمد صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت مولوی حبیب احمد صاحب رضی اللہ عنہ
سڑک دودھلی ضلع سہارنپور

حضرت مولوی حبیب احمد صاحب ولد مکرم مولا بخش صاحب موضع سڑک دودھلی (Sadak Dudhli) نزدسہارنپور(یو پی، انڈیا) کے رہنے والے تھے۔ آپ مدرس تھے جس کےساتھ ساتھ تجارت کے پیشہ سے بھی وابستہ تھے۔ آپؓ نے 1903ء میں قادیان حاضر ہوکر سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی اور نہایت مخلص اور فدائی وجود ثابت ہوئے۔ آپؓ نے ایک تحریر بعنوان ’’میں کیوں فرقہ احمدی میں داخل ہوگیا‘‘ کے تحت اپنے ابتدائی حالات اور بیعت کا احوال لکھا ہے چنانچہ قبول احمدیت کے متعلق آپ لکھتے ہیں:
’’….. میں اپنے بچپن کے زمانہ میں مردوں اور عورتوں سے سنا کرتا تھا کہ اب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے کیونکہ تیرھویں صدی خاتمہ پر ہے ۔ بعد ازاں ایک نظم کی کتاب ’’آثار محشر‘‘ نام مجھے ملی کہ جس کے اندر صاف یہ نشان معہ دیگر نشانوں کے درج تھا کہ مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں کسوف و خسوف ایک ہی ماہ میں ہوں گے۔ سو یہ واقعہ 1311ھ میں مَیں نے اور اَور بہت لوگوں نے دیکھا اور نماز کسوف و خسوف بھی پڑھی گئی۔ سو اُس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ ضرور اب حضرت امام مہدی کا زمانہ ہے اور بہت قریب اُن کا ظہور ہونے والا ہے اور غالباً عرصہ تین سال کا ہوا ہوگا کہ مجھ کو ایک کتب فروش سے رسالہ تصدیق المثیل و نیز ایک ماہواری رسالہ الحق سیالکوٹ ہاتھ آیا۔ اُس پرچہ میں کسوف و خسوف کا ماہ رمضان میں مقررہ تاریخوں پر ہونا اور حضرت اقدس کا خوشی منانا اور شاید سو آدمیوں کو کھانا کھلانا اور خیرات کرنا درج تھا اور دیگر مضامین بھی تھے ….. اگرچہ یہ مضامین حضرت اقدس کے قلم سے نکلے ہوئے نہ تھے مگر تاہم ان میں حق کی چمک ہویدا تھی ….. اکتوبر 1902ء میں جب شیخ زین الدین صاحب و حافظ فہیم الدین صاحب تاجران کتب سہارنپور چند رسالے حضرت اقدس کے دارالامان سے لے گئے اُن میں سے تحفہ گولڑویہ معہ اور تین چھوٹے رسالوں کے مجھے مل گیا جس کے اندر ایک کافی ذخیرہ حضرت اقدس کے دعوے کے ثبوت کا ہے اور نیز مخالفین کے شبہات کا بھی مختصرًا کافی جواب ہے۔ پس وہ شبہات اس سے دور ہوگئے۔ میں نے حضرت کی تصنیف میں وہ نور حق کی چمک پائی کہ جو بغیر تائید ایزدی ناممکن ہے۔ غرض کہ فوراً دیکھتے ہی بذریعہ عریضہ کے تصدیق کر لی مگر اُسی وقت سے دل کو اشتیاق دیدار پُر انوار ہوگیا مگر دنیوی امورات مانع رہے۔

4؍ستمبر 1903ء کو میں دار الامان کی طرف روانہ ہوا…..چنانچہ بفضل ایزد منان 5؍ستمبر 1903ء کو دارالامان میں داخل ہوا ….. حضرت کا حلیہ بالکل بخاری کی اُس حدیث کے مطابق ہے جس میں مسیح موعودؑ کا حلیہ بیان ہوا ہے ۔ چہرہ پر رعب، جسم ایک عمدہ ترتیب پر واقعہ ہے۔ چہرہ پر خشیت الٰہی اور تفکر کے آثار نمایاں ہیں۔ گفتگو نہایت متین اور شستہ ہے۔ کم گوئی کی عادت ہے۔ دوسرے کی بات کو توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی قابل امر کا جواب صاف صاف اگر مختصر کی ضرورت ہے مختصر اور جو مفصل کی ضرورت ہے مفصل دیتے ہیں۔ اپنی جماعت پر خود السلام علیکم کرتے ہیں۔ ہمیشہ گھر میں رہتے ہیں اور تیغ قلم جس پر مامور ہیں، جاری رہتی ہے۔ صرف اوقات نماز میں شامل جماعت ہوتے ہیں اور مغرب سے عشا تک اکثر مسجد میں بیٹھتے ہیں اور یہی وقت گویا عرض معروض کا ہے۔ بیٹھنے میں کوئی ممتاز جگہ یا درجہ علیحدہ نہیں رکھتے بلکہ اکثر مرید اونچی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر میں بچے شور مچاتے ہیں مگر آپ کچھ نہیں کہتے اور آپ کے فرض منصبی میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا۔ آپ ہمیشہ افشاء السلام علیک ایک متین اور سنجیدہ لہجہ میں اپنے متبعین پر کرتے ہیں۔ آپ کا فرض منصبی اس درجہ بڑھا ہوا ہے کہ مہمانوں کی باوجود تکریم اور تواضع کے (جس کو ملازمان انجام دیتے ہیں) پاس نہیں بیٹھتے۔ مہمانوں کی پوری پوری خبرگیری کی جاتی ہے …. ان حالات پر غور کرنے کے بعد مجھ کو ثبوت ملتا ہے کہ آپ بیشک وہی مسیح موعود ہیں جن کی خبر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اور حضرت مسیح نے انجیل میں اور رسول کریم ﷺ نے اپنی حدیث میں دی ہے اور یہ بات میں عین الیقین اور حق الیقین سے کہتا ہوں ….‘‘

(الحکم 10 اکتوبر 1903ء صفحہ12،11 و الحکم 24؍اکتوبر 1903ء صفحہ10،9)

یہ آپ کا اخلاص ہی تھا کہ آپ نے اپنی بیٹیوں کے رشتے قادیان میں کرنے کو ترجیح دی چنانچہ اپنی بڑی بیٹی حضرت سکینہ بیگم صاحبہ (وصیت نمبر687۔ وفات: 1914ء) کے متعلق اخبار بدر میں اشتہار دیا:
’’میں اپنی پندرہ سالہ باکرہ دختر کا نکاح کسی احمدی متقی سے کرنا چاہتا ہوں۔ دارالامان کے باشندہ کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود کی تجویز کو سب سے مقدم رکھتا ہوں۔ بعد ازاں بزرگان ملت کی تجویز۔ اگر دارالامان میں ایسا موقعہ میسر نہ آوے تو اضلاع مظفر نگر، انبالہ، ڈیرہ دون، میرٹھ کے باشندہ کو بوجہ قرب اپنے مسکن کے ترجیح دوں گا۔ تقویٰ و دیگر اُمور مستفسرہ کا فیصلہ بزرگان ملت یا دیگر مقامی بزرگوں کی رائے سے ہوگا۔ اس معاملہ میں جملہ خط و کتابت بذریعہ ایڈیٹر بدر یا براہ راست احقر کے نام ہو۔ المشتہر حبیب اللہ احمدی مدرس چھینٹی گاڑہ ڈاک خانہ و ضلع سہارنپور‘‘

(بدر 14؍ مارچ 1907ء صفحہ11)

یہ رشتہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد رشید حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری رضی اللہ عنہ (بیعت: 1898ء۔ وفات: 27؍اپریل 1956ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کے ساتھ کروا دیا اور فرمایا :
’’یہ مجھے نہایت عزیز ہیں اور میں انہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہوں اور پھر یہ کہ مجھ پر اس کے ایسے ایسے احسان ہیں کہ میں ان سے عہدہ برا نہیں ہو سکتا۔‘‘

اور حضورؓ نے ہی مؤرخہ 17؍جون 1907ء کو قادیان میں نکاح پڑھایا۔ حضرت مولوی حبیب احمد صاحب نے اس موقع پر کہا کہ اس کا حق مہر یہی ہے کہ مولوی غلام نبی قادیان دارالامان کی رہائش کو نہ چھوڑیں اور لڑکی کو دین کی تعلیم دیں اگر ایسا نہ کریں تو ہزار روپیہ مہر ہے۔

(بدر 20؍جون 1907ء صفحہ5)

آپ کی دوسری بیٹی حضرت استانی میمونہ صوفیہ بیگم صاحبہ (وفات: 19؍جون 1980ء ۔مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے مؤرخہ 12؍مئی 1916ء کو حضرت حکیم غلام محمد صاحب امرتسریؓ (موصی نمبر2۔ وفات: 22؍فروری 1926ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) شاگرد خاص حضرت خلیفہ اولؓ کے ساتھ پڑھایا۔ نکاح کی خبر دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا :
’’منشی حبیب احمد کا نمونہ قابل تعریف ہے، انہوں نے اپنی پہلی لڑکی کا نکاح مولوی غلام نبی صاحب سے اس شرط پر کیا کہ اسے دین سکھایا اور قادیان میں رکھا جائے اور اب بھی اسی مبارک نیت و شرط پر نکاح کیا ہے۔‘‘

(الفضل 16 مئی 1916ء صفحہ1)

اخبار بدر 7جنوری 1909ء صفحہ 10پر آپ کے متعلق سہارنپور کے علاقہ تاج پور ڈاک خانہ سنسارپور سے اپنے علاقہ کے چاول اور گڑ بطور نمونہ دو تین بوریاں لانے کا ذکر ہے کہ اگر کوئی صاحب یہ چیزیں منگوانا چاہیں تو آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

حضرت مولوی حبیب احمد صاحبؓ نے مؤرخہ 23؍مارچ 1929ء کو بعمر قریباً 56 سال وفات پائی۔ آپ بفضلہ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 523) تھے۔ آپؓ اپنے علاقہ سڑک دودھلی میں ہی دفن ہوئے۔ یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2021