• 26 اپریل, 2024

صلح کے جسمانی و روحانی فائدے

صلح کے جسمانی و روحانی فائدے
(سوال و جواب)

کرونا وائرس کے باعث بہت سے لوگوں کی زندگی میں محنت اور مشقت والے کام ختم ہیں اور گھر پر بیشتر وقت گزرتا ہے۔ ایسے میں لڑائی جھگڑے، چڑچڑا پن بہت حد تک بڑھ گیا ہے۔ عدم برداشت زیادہ ہوگئی ہے۔ صُلح کے تناظر چند گذارشات پیش ہیں۔

صلح عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ص ل ح ہے۔ اس کا متضاد فسد (ف س د) ہے۔ ص ل ح کے معانی ہیں کہ صحیح سالم ہونا، تندرست ہونا، درست ہونا، رو بہ اصلاح ہونا، صلاحیت ہونا، صلح کرنا اور کرانا وغیرہ۔ صلح کا متضاد فساد ہے۔ جب صلح نہ ہو تو گویا فساد کی کیفیت و حالت ہوتی ہے۔ اور اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے صلح ضروری ہے۔ فساد کی مختلف اشکال مثلاً گالی گلوچ، ہاتھا پائی، جنگ وجدل، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت، تباہی و بربادی اور ذہنی و جسمانی بدامنی ہیں۔

سوال۔ کیا صلح کے بدنی یا جسمانی فوائد بھی ہیں؟

جواب۔ فساد کی مختلف اشکال کا اوپر قدرے مختصر تذکرہ ہو چکا ہے۔ فساد کی صورت میں ہر طرح کی بدامنی ہو تی ہے۔ ذہنی بدامنی وبے سکونی کی صورت میں بالخصوص آجکل جبکہ امراض قلب پہلے ہی بہت زیادہ ہیں،بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔ یہ ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتا ہے۔ کولیسٹرول بڑھ کر شریانوں میں رکاوٹ کا سبب بن کر ہارٹ اٹیک واقع ہو سکتا ہے۔ دماغی شریانیں پھٹ کرموت واقع ہو سکتی ہے۔فالج ہو سکتا ہے۔ دائمی معذوری بھی ہو سکتی ہے۔ گونا گوں ذہنی ونفسیاتی عوارض مسلسل نیند نہ آنے سے مثلاًفتوردماغ واقع ہو کر پاگل پن ہو سکتا ہے۔ بے خوابی کے نتیجہ میں روز مرہ فرائض و استعداد کار متاثر ہو سکتی ہے۔ جب کوئی انسان کسی سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو اس کی سوچ منفی ہو جاتی ہے۔یعنی اسے سب کچھ متضاد و الٹ دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ مگر منفی رنگ میں کسی شاعر نے خوب کہا ہے:

؎و عین الرضا عن کل عیب کلیلتہ
کما ان عین السخط تبدل المساویا

یعنی ایک خوش آنکھ جس سے وہ خوش ہو اس کے ہر عیب سے بند ہوتی ہے۔جبکہ ایک ناراض آنکھ کو تمام اچھائیاں بھی برائیاں نظر آتی ہیں۔ تجربہ کر کے دیکھ لیں، اوپر کا شعر کسی نے کیاسچ کہا ہے۔ تازہ ترین تحقیقات کے مطابق ذہنی دباؤ ،تناؤ اور کھچاؤ سے فی زمانہ کس قدر امراض پیدا ہو رہی ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ امراض قلب و شریانین، کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، نفسیاتی عوارض، دمہ، جوڑوں کا درد، جلدی امراض وغیرہ یہ سب کچھ ذہنی دباؤ کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ ذہنی بدامنی کے نتیجہ میں بعض لوگ خود کشیاں بھی کر لیتے ہیں۔ ذہنی دباؤ، تناؤاور کھچاؤ کے نتیجہ میں میگرین (دردشقیقہ)، سر درد،لو بلڈ پریشر اور نظام انہضام کی خرابیاں واقع ہو سکتی ہیں۔ بھوک مٹ جاتی ہے اور کھانا درست طور پر ہضم نہیں ہوتا۔قبض (جو امراض کی ماں) ہے کی اکثر شکایت ہو جاتی ہے۔ لڑائی جھگڑوں کی صورت میں چونکہ سوچ منفی ہو جاتی ہے لہٰذا منفی سوچنے سے رنجشوں کی خلیجیں وسیع سے وسیع تر ہو جاتی ہیں جو کہ مزید بڑھ کر دشمنیوں اورعداوتوں کو جنم دیتی ہیں۔ یعنی دشمنیاں بڑھ کر بعض اوقات دست دازی، مار پیٹ، قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ صلح نہ ہونے کی صورت میں شدید نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔

سوال۔ کیا عدم صلح کے معاشی نقصانات بھی ہیں؟

جواب۔ عدم صلح کی صورت میں بے تحاشہ معاشی نقصانات بد حالیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔

سوال۔ باوجود نقصان کے لوگ صلح کیوں نہیں کرتے اور کیوں فساد میں پھنسے رہتے ہیں؟

جواب۔ صلح کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ نفس کا موٹا پن،تکبرو انأ حائل ہوتی ہیں۔نفس کی اکڑ ،خود پسندی،نخوت،تکبراورماحول ومعاشرے میں سبکی کا احساس آڑے آتا ہے۔گویا نفس کی فربہی (موٹاپن) اس تنگ گذر راہ سے گزرنے نہیں دیتی۔افراد معاشرے کے بزدلی کے طعنے بھی روک بنتے ہیں۔مثل مشہور ہے کہ رنڈی رنڈیپا کٹدی اے پر دنیانئیں کٹن دیندی۔ غیبت کے رنگ میں ایک دوسرے کے خلاف باتیں کر کے الٹا صلح کے ماحول کو خراب کر دیا جاتا ہے۔اگر اہل معاشرہ جانتے ہوتے کہ صلح کرانے میں کس قدر اجر ہے تو لوگ باہم ناراض لوگوں کی جلد ازجلد صلح کرواتے۔

سوال۔نفس کا موٹاپا کیا ہے؟

جواب۔ نفس کی فربہی یا موٹاپا دراصل ضد،اکڑاورخود پسندی کا مرکب (Compound)ہے۔یا یوں کہہ لیںکہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

سوال۔نفس کی موٹائی چیک کیسے کر سکتے ہیں؟

جواب۔صلح کے مواقع کیلئے بالخصوص حضرت امام الزماں مسیح ِپاک علیہ السلام مندرجہ ذیل کے ارشادات ہیں:
’’سچے ہو کر بھی جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو..، نفس کی فربہی چھوڑ دو، نفس کی فربہی چھوڑ دوجس دروازے کیلئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔

اگر توہمارا طرز عمل ان ارشادات کے برخلاف ہوتو ہمارے اندر نفس کا موٹاپن پایا جاتا ہے۔نفس کا موٹاپا مذکورہ بالا ارشاد پر عمل کیے بغیر ختم نہیں ہو سکتا۔چاہیے تو یہ کہ زیادتی کرنے والاتذلل اور عاجزی اختیار کرےکیونکہ یہ اس کا فرض ہے مگر یہاں حکم ہےکہ صلح کی خاطر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ تذلل اور عاجزی اختیار کرے۔اس میں حکمت یہ ہے کہ صلح وامن کو حاصل کیا جائے خواہ یہ کسی طرح بھی حاصل ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ کبھی بھی ایک دوسرے سے نہ لڑو اور غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے جہاں تک ہو سکے اپنے حقوق چھوڑ دو کیونکہ دینے والا تو خدا ہے۔ جب وہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ بندے کی جھولی میں سما نہیں سکتا۔بعض مجربین کی شہادت ہے کہ انہوں نے اس ارشاد پر عمل کیا اور فی الحقیقت اس کی برکات عملاً مشاہدہ کیں۔ اگر مظلوم شخص تذمل اختیار کرتا ہے تو اس سے ظالم کو سخت احساس ندامت ہوتا ہے اوراس طرح آئندہ اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہماری رائے میں جہاں یہ محسوس ہو کہ اس طرح زیادتی کرنے والے کی اصلاح نہیں ہو گی بلکہ اس کی شوخی اور شرارت بڑھے گی وہاں صلح کا ہاتھ بڑھانے میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔

سوال۔ جب دونوں فریق اپنی ضد پر ڈٹے رہیں تو صلح کیسے ہو سکتی ہے؟

جواب۔ ہر دو میں سے جب ایک فریق اپنی غلطی تسلیم کر لے گااورمعذرت کریگا اور تذمل اختیار کرے گا تو صلح ہو گی۔بسا اوقات زیادتی کرنیوالازیادتی کے باوجوداپنا رویہ تبدیل کر کے صلح پر آمادہ نہیں ہوتا مگر دوسرا فریق صلح کا ہاتھ بڑھانے میں خفت محسوس کرتا ہے۔ایسی صورت حال میں خفت کے احساس کے باوجود صلح کا ہاتھ بڑھانے میں بہت بڑا درجہ اور مقام ہے۔ یہی نفس کو مارنے کا موقع ہے اور یہی نفس کو پاؤں تلے کچلنے کا مقام ہے۔اس کے برعکس صورت ہے تو نفس اس سے خوب موٹا اور فربہ ہو گا اور جس طرح ظاہری وجسمانی موٹا پا بدنی امراض کا بہت بڑا سبب ہے ۔ اس طرح نفس کا موٹاپا بھی روحانی امراض کا بہت بڑا سبب ہے۔ بدنی موٹا پا ورزش سے کم ہوتا ہے اور نفسانی موٹاپا کسر نفسی اورعاجزی و تذلل سے دور ہوتا ہے۔ جس طرح بدنی موٹاپا چیک کرنے کے لیے ویٹ مشین ہے اسی طرح نفسانی و روحانی موٹاپا چیک کرنے کے لیے صلح کے مواقع پر عاجزی وانکساری کا مظاہرہ کرنا نفسانی ویٹ مشین کا کام دیتاہے اور نفسانی موٹاپا چیک کرنے کا پیمانہ ہے۔ اکثر سخت شرائط پر صلح کرنے کو بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ اگر صلح کرنے والا جبکہ وہ پہلے ہی مظلوم بھی ہو تو اس کے حامی لوگ اسے صلح نہیں کرنے دیتےاور اسے بزدلی قرار دیتے ہیں۔ہمارے آقاحضرت محمد ﷺکا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بظاہر ایسی سخت شرائط پر آپﷺ نے صلح فرما لی اور بعض صحابہ ؓکو یہ بات خاصی کھٹکی اور بعضوں سے نہ رہاگیا اورکہہ بھی دیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم اتنے کمزور ہیں کہ کفار نے ہمیںکمزور سمجھ کر ہم سےحقارت آمیز سلوک کیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی۔

سوال۔ نفس کا موٹاپا دور کرنے کا کونسا مؤثر ترین طریقہ ہے؟

جواب۔ جس کے ساتھ زیادتی ہو جائے اس سے معافی مانگ لی جائے اور اگر زیادتی بھی دوسرے فریق کی ہو تو اس کے باوجود بھی تذلل اختیار کیا جائے۔ صلح معاشرے میں امن قائم کرتی ہے اور قیام امن کی خاطر خدا تعالیٰ نے انعام کے رنگ میں اجرو ثواب رکھ دیا ہے۔

سوال۔ صلح کے بارے میں قرآن کریم کے کیا ارشادات ہیں؟

جواب۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے الصُّلْحُ خَیْر کہ صلح میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ایساطرزِ عمل اختیار کر کہ جو بہترین ہو تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک جان نثار دوست بن جائے گا۔ (سورہ حٰٓم سجدہ آیت 35)۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ذہنی و جسمانی بیماریاں عدم صلح کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اگر صلح عام ہو جائے تو بہت سی روحانی بیماریوں کے علاوہ جسمانی بیماریوں کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے مگر صلح کو عام کرنے کے لیے تواضع، عاجزی اور انکساری کا عام ہونا لازم ہے۔

(نذیر احمد مظہر (ڈاکٹر آلٹرنیٹو میڈیسن)، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2021