• 8 مئی, 2024

ویلنسیا (Valencia) میں مسجد کی تعمیر پر احباب جماعت کو نصائح

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ آیات (سورۃ البقرہ 128-129) جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے بعد اُس کا حق ادا کرنے کا ایک خوبصورت طریق ہمیں بتا دیا۔ اور ساتھ ہی حق ادا کرنے کیلئے دعاؤں کا طریق اور اُس طرف توجہ بھی دلا دی۔ پس اس پر غور کرنے کی ہمیں ضرورت ہے تا کہ نسلاً بعد نسلٍ اللہ تعالیٰ کے گھر کا حق ادا کرنے والے ہم میں سے پیدا ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ خانہ کعبہ کی دیواریں استوار کر رہے تھے تو یہ دعا مانگ رہے تھے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ پس یہ شان ایک حقیقی اللہ والے کی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے قریب اور اللہ والے ہوتے ہیں کہ سالوں سے قربانیاں کر رہے ہیں، باپ بھی قربانی کر رہا ہے، بیٹا بھی قربانی کر رہا ہے، بیوی بھی قربانی کر رہی ہے لیکن یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں اتنا عرصہ ہو گیا ہے قربانیاں کرتے ہوئے، اب ہم تیرے اس گھر کو بنا رہے ہیں، تیری خاطر بنا رہے ہیں، تیرے کہنے پر بنا رہے ہیں، اس لئے ہمارا حق بنتا ہے کہ ہماری ہر قربانی کو آج قبول کر اور قبول کر کے ہمارے لئے آسانیاں اور آسائشیں پیدا فرما۔ جماعت احمدیہ میں تو اس کا رواج نہیں ہے لیکن دوسرے مسلمانوں میں تو یہ رواج ہے کہ ذرا سی قربانی کی اور قربانی کے بعد پھر یہ کوشش ہوتی ہے کہ پھر اعلان کیا جائے۔ ایک روپیہ، دو روپے، چار روپے دے کر پھر مسجدوں میں اعلان ہوتے ہیں اور اگر بڑی قربانی ہو تو بہت زیادہ فخر کیا جاتا ہے۔ لیکن جو نمونہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ان دو نبیوں کے ذریعہ سے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ بیٹا خدا تعالیٰ کی خاطر ذبح ہونے کو تیار ہے، باپ بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر ذبح کرنے کو تیار ہے۔ اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب بیٹا چھوٹی عمر کا ہے اور بڑھاپے کی اولاد ہے۔ پھر قربانی کا معیار آگے بڑھتا ہے تو ایک لمبا عرصہ بیوی اور بیٹے کو غیر آباد جگہ میں قربانیاں کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھوک اور پیاس سے دونوں ماں بیٹا شاید زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اور پھر وہ وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ بیٹے اور بیوی کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اگر اُن کے لئے پہلے سامان نہیں تھے تو پھر اُن کے لئے کھانے پینے کے سامان مہیا فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ کی تعمیر بھی شروع ہو جاتی ہے اور تعمیر کرنے والے بھی صرف دو اشخاص ہیں جو یہ عہد کر رہے ہیں کہ اس کی تعمیر کے ساتھ اب واپسی کے ہمارے تمام راستے بند ہیں۔ اب ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کے گھر کو آباد کرنا ہے۔ یہاں ایسی آبادی بنانی ہے جو مومنین کی آبادی ہو، جو نیک لوگوں کی آبادی ہو، جو خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والوں کی آبادی ہو، جو اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والوں کی آبادی ہو۔ ایسی آبادی بنانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی انتہا کو پہنچنے والی ہو۔

پس یہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کا گھر بنا رہے تھے اور عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا یہ حال ہے کہ یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو، اس کوشش کو قبول فرما لے۔ اپنے خاص رحم سے ہم پر رحم کرتے ہوئے اُسے قبول کر لے کہ یہ قبولیت ہمیں تیرے اور قریب کرنے والی بن جائے۔ پس یہ سبق قربانی کر کے پھر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس قربانی کو قبول کرنے کی درخواست اور دعا کا ہے۔ اور یہی اصول ہے جو ہمیں بھی ہر وقت اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ یہ ابراہیمی اور اسماعیلی سوچ اور دعا ہے جو آج ہمیں اس طرف توجہ دلا رہی ہے۔ ہم جو اس زمانے کے ابراہیم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور عشق و محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ اعزاز بخشا ہے کہ اس زمانے کا ابراہیم بنا دیا، جس نے دین کو اُس کی اصل دیواروں پر دوبارہ استوار کر کے دکھایا اور ہم گواہ ہیں اور ہم روز نظارے دیکھتے ہیں کہ ایسا استوار کیا کہ اگر اُس پر کوئی صحیح طرح عمل کرنے والا ہو تو اُس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ دینِ اسلام کی خوبصورتی کو اس طرح چمکا کر پُر عظمت اور پُر شوکت بنا کر دکھایا کہ غیر مسلم بھی کہنے لگ گئے کہ اگر یہی اسلام ہے جو تم پیش کرتے ہو تو ہم اسلام کے خلاف اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لیتے ہیں۔ پس آج اس ابراہیم کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد بھی پورے ہو رہے ہیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی بھی دنیا پر ظاہر ہو رہی ہے۔ اور انہی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں ہماری ہر تعمیر ہونے والی مسجد گواہ ہے اور ہونی چاہئے اور آج یہی مسجد جس کا نام بیت الرحمن رکھا گیا ہے، اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بننے کا اظہار کر رہی ہے۔

پس یہ مسجد جہاں ہمیں عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے، وہاں ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اگر ہم اپنے عہدوں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے تو پھر ہی ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے مسیح محمدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق! ہم نے جو آپ سے عہدِ بیعت باندھاہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور توحید کو دنیا میں پھیلائیں گے تو اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے جو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی، تبلیغ کے جو راستے کھلیں گے، اُن کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تو حید کا قیام اور ملک کے باشندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہمارا اوّلین فرض ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

پس اے خدا! اے سمیع اور علیم خدا! ہماری دعائیں سن لے۔ ہمیں اپنے فرائض نبھانے کی توفیق عطا فرما۔ یہ مسجد جو تیرے گھر کی تتّبع میں بنائی گئی ہے، اس کو اُن مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا جو تیرے گھر بنانے کے مقاصد ہیں۔ تُو علیم ہے، تُو ہماری کمزوریوں اور نا اہلیوں کو بھی جانتا ہے۔ پس ہماری دعائیں سنتے ہوئے ہماری نا اہلیوں سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ہمیں مسجد کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے والا بنا۔ مسجد کی خوبصورتی، مسجد کی وسعت، یہ ہمارے اُس وقت کام آ سکتی ہیں جب ہم اُس کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ اور حق ادا کرنے کے لئے جہاں مسجد کو آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہم ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ پیار، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے ہم ہوں تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے عملی نمونوں کا ہم سے اظہار ہو رہا ہو۔ تا کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف ہو، تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کودنیا سمجھنے کی کوشش کرے۔ اے اللہ! تُو سننے والا ہے۔ ہماری یہ دعا بھی سن لے کہ اس مسجد کی ظاہری خوبصورتی سے زیادہ اس مسجد کی آبادی کی روح کو خوبصورت کر کے ہمیں دکھا دے۔ اصل میں تو اس مسجد کی تعمیر کی روح ہے جو اگر حقیقت میں ہم میں پیدا ہو جائے تو اُس مقصد کو ہم حاصل کرنے والے بن جائیں گے جس کے لئے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

(خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

نمازجنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2022