• 13 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 17)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 17

دعا کے ذریعہ حق معلوم کرنے کیلئے تحریک

(آپ)خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہار کے لئے خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گذرے گا کہ اس پر حق کھل جائے گا۔ مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان شرائط کے ساتھ خداتعالیٰ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضد و تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کرکے ایمان سلب کرالیتے ہیں۔ کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے۔ اُسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے۔ اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے۔ اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہوجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ16)

غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ میں پیشگوئی

پہلی ہی سورۃ کو پڑھو جو سورہ فاتحہ ہے۔ جس کے بغیر نماز بھی نہیں ہوسکتی۔ دیکھو اس میں کیا تعلیم دی ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷﴾

(الفاتحہ 6-7)

اب صاف ظاہر ہے کہ اس دعا میں مغضوب اور ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا ہے۔ مغضوب سے بالاتفاق یہودی مراد ہیں اور ضالین سے عیسائی۔ اگر اس امت میں یہ فتنہ اور فساد پیدا نہ ہونے والا تھا تو پھر اس دعا کی تعلیم کی کیا غرض تھی؟ سب سے بڑا فتنہ تو الدَّجَّال کا تھا مگر یہ نہیں کہا وَلَاالدَّجَّال۔ کیا خداتعالیٰ کو اس فتنہ کی خبر نہ تھی؟ اصل یہ ہے کہ یہ دعا بڑی پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے۔ ایک وقت امت پر ایسا آنیوالا تھا کہ یہودیت کا رنگ اس میں آجاوے گا۔ اور یہودی وہ قوم تھی جس نے حضرت مسیحؑ کا انکار کیا تھا۔ پس یہاں جو فرمایا کہ یہودیوں سے بچنے کی دعا کرو اس کا یہی مطلب ہے کہ تم بھی یہودی نہ بن جانا یعنی مسیح موعود کا انکار نہ کربیٹھنا۔ اور ضالین یعنی نصاریٰ کی راہ سے بچنے کی دعا جو تعلیم کی تو اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت صلیبی فتنہ خطرناک ہوگا۔ اور یہی سب فتنوں کی جڑ اور ماں ہوگا۔ دجال کا فتنہ اس سے الگ نہ ہوگا۔ورنہ اگر الگ ہوتا تو ضرور تھا کہ اس کا بھی نام لیا جاتا۔ اب سارے گرجوں میں جا کر دیکھو کہ کیا یہ فتنہ خطرناک ہے یا نہیں؟

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ38-37)

بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے

نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں دوری ڈال۔ صدق سے انسان دعا کرتا رہے۔ تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہوجائے۔ جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی۔زمیندار ایک کھیت بوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا۔ بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے۔ نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتا۔ بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بے نصیب دیکھے گئے ہیں۔ اگر ایک انسان کنواں کھودے اور بیس ہاتھ کھو دے۔اور ایک ہاتھ رہ جائےتواس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھودلے تو گوہر مقصود پالے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ ذوق اورشوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے۔ اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی۔ سعدی نے کیا عمدہ کہا ہے۔

گر نباشد بدوست راہ بردن
شرط عشق است در طلب مردن

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ245)

استغفار

غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے۔ بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آجاتی ہے۔اس لئے استغفار ہے۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے۔ عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے۔ اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر ہی نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنے رکھتا ہے تو وہ بتلادیں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کونسا لفظ ہے۔غفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں۔ تمام انبیاء اس کے محتاج تھے۔ جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اتنا ہی معصوم ہوتا ہے۔ اصل معنے یہ ہیں کہ خدا نے اسے بچایا۔ معصوم کے معنے مستغفر کے ہیں۔

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ255)

رَبِّ کُلُّ شَیۡیءٍ خَادِمُکَ
رَبِّ فَاحۡفَظۡنِیۡ وَانۡصُرۡنِیۡ وَارۡحَمۡنِی

جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گزشتہ گناہ اس کے بخشے جائیں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قویٰ سے گناہ کا ظہوروبروز نہ ہو۔یہ مسئلہ بھی قابل دعا کے ہے۔ ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اس وقت تو دعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرے۔ اگر انجیل میں یہ دعا نہیں ہے تو پھر وہ کتاب ناقص ہے۔انجیل میں لکھا ہے کہ مانگو تو دیا جائے گا۔ پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے استغفار مانگا۔ آپؐ کو دیا گیا۔ مسیح نے نہ مانگا۔ ان کو نہ دیا گیا۔ غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن مجید نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دونوں راہ کا محتاج ہے کبھی گناہ کی معافی کا اور کبھی اس امر کا کہ وہ قویٰ ظہور و بروز نہ کریں۔ ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قویٰ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے بغیر خود بخود بچے رہیں۔ وہ کتاب کامل ہے۔ عقل اور ضرورت خود دونوں قسم کی دعا کا تقاضا کرتی ہے۔

خواب میں خداتعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القاء کی گئی

رَبِّ کُلُّ شَیۡیءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحۡفَظۡنِیۡ وَانۡصُرۡنِیۡ وَارۡحَمۡنِی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا۔ ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ262-264)

استخارہ

استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے۔ چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہوکر شگن وغیرہ کرتے ہیں۔ اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کرکے استخارہ رکھا۔ اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔ اول رکعت میں سورة الکافرون پڑھ لے اور دوسری میں سورةالاخلاص۔ التحیات میں یہ دعا کرے۔

یا الٰہی! میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے ہی سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کا جاننے والا ہے۔ الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میں بہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو تو اسے میرے لئے مقدر کردے اور آسان کردے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو تو مجھ کو اس سے باز رکھ۔

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ307-308)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

نمازجنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2022