• 17 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 20)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
قیصر اور قیصرہ
قسط 20

قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کے بعدنسبتاََ سکون کے دن میسر آتے ہی آنحضرت ﷺ نے جہادِ اصغر کے بعد دعوت الی اللہ اور عبادات کے جہادِ اکبر کی طرف توجہ دی۔ آپ ؐ کا فرضِ منصبی کل عالم کو پیغام حق پہنچانا تھا آپؐ نے اس غرض کے لئے عرب کے چاروں طرف بادشاہوں اور رؤساء کو ایک ساتھ خطوط ارسال فرمائے۔ ان میں شام میں روما کے شہنشاہ قیصر، شمال مشرق میں فارس کے شہنشاہ کسری ٰ،عرب کے شمال مغرب میں مقوقس شاہِ مصر، مشرق میں یمامہ کے رئیس ہوذہ بن علی، مغرب میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی،شمال میں عرب سے متصل ریاست کے حاکم غسان، عرب کے جنوب میں رئیسِ یمن اور مشرق میں والیٔ بحرین شامل تھے۔آنحضور ﷺ نے ان خطوط کے مضامین کمال حکمت سے ترتیب دئے۔نمونے کے طور پر قیصر شاہِ روم کے نام خط کا متن درجِ ذیل ہے:
’’میں اللہ کے نام سے اس خط کو شروع کرتا ہوں۔جو بے مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔یہ خط محمد ؐ خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روما کے رئیس ہرقل کے نام ہے سلامتی ہو اس شخص پر جوہدایت کو قبول کرتا ہے۔اس کے بعداے رئیسِ روما!میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔مسلمان ہوکر خدا کی سلامتی قبول کیجئےکہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے۔اسلام لائیے خداتعالیٰ آپ کو اس کا دوہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر آپ نے روگردانی کی تو یاد رکھئے کہ آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہوگا۔

اور اے اہلِ کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤجو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے۔یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے کسی کو اپنا آقا اور حاجت روانہ گردانیں۔پھر اگر ان لوگوں نے روگردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہر حال خدائے واحد کے دامن کے ساتھ وابستہ اور اس کے فرمانبردار بندے ہیں۔‘‘

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام نے 1893ء میں اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں اپنے عہد کے علماء ومشائخ، فقراء اورگدی نشینوں کو دعوتِ حق کے لئے عربی زبان میں ’’التبلیغ‘‘ کے نام سے ایک طویل مکتوب تحریر فرمایا اس میں برطانیہ کی ملکہ معظمہ وکٹوریہ کے نام خصوصی طور پراپنے محبوب کے مبارک نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے خدائے واحد و یگانہ کا پیغام دیا۔ انداز وہی تھا جو آنحضور ﷺ نے قیصرو کسری اور دوسرے بادشاہوں کے نام خطوط میں اختیار فرمایا تھا۔اس دعوت حق کے لفظ لفظ سے، بیان کی قوت و صداقت سے آپؑ کے قلبِ مطہر کا جوش و جذبہ منعکس تھا۔ آپ نے فرمایا:
اے زمین کی ملکہ! تو مسلمان ہوجا۔ تو اور تیری سلطنت محفوظ رہے گی۔

ملکہ وکٹوریہ نے شکریے کے خط کے ساتھ آپ ؑ سے دیگر تصانیف بھجوانے کی خواہش کی۔ یہ تو بظاہر کوئی بڑی کامیابی نہ تھی مگر یہ خط بیج ڈالنے کے مترادف تھے جو سازگار آب و ہوا ملتے ہی اُگنے، بڑھنے پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔

پھر 1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کے موقع پر ایک رسالہ ’’تحفہٴ قیصریہ‘‘ تحریر فرمایاجس میں ملکہ کو دوسری بار بڑے خلوص سے دعوتِ اسلام دی۔اس کے بعد 1899ء میں ’’ستارہ قیصریہ‘‘ کے نام سے اسی پیغام کا اعادہ فرمایا۔

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

اور جلسۂ احباب کے نام سے ملکہ کے لئے مبارکباد اور دعا کے جلسہ کی کارروائی تحریر فرمائی۔جس میں اس کے اسلام کی آغوش میں آنے کی دعا بھی شامل ہے۔

’’اے قادر توانا ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کرکے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرات کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہء ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر اس کا خاتمہ کر۔ اے عمیق قدرتوں والے! اے عجیب تصرفوں والے! ایسا ہی کر‘‘

(جلسہ ٔ احباب، روحانی خزائن جلد12 صفحہ290)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

نمازجنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اپریل 2022