• 26 اپریل, 2024

فدیہ اور تقویٰ کی راہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

• ‘‘ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے۔ تاکہ اس سے روزے کی توفیق حاصل ہو… خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزے کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔… پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ کر سکوں اور اس سے توفیق طلب کرے۔… یہ باتیں کہہ کے انسان اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے۔’’

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 563)

• ‘‘چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔…اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں۔ لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے۔…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ :28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا…جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (آل عمران :10)پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر ُمنفک شرط ہے…تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ108)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2020

اگلا پڑھیں

وبائی حالات میں عید الفطر منانے کی بحث