• 5 مئی, 2024

اگر دوسری قدرت کا فیض پانا ہے تو پھر اس عرصے میں اکٹھے رہو، دعائیں کرتے رہو اور خلیفہ کو منتخب کرو…کسی انجمن کے نمونہ بنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ شخص نمونہ بنے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
… پس اس میں اپنے وصال کے بعد خلیفہ کے انتخاب تک اور ہر خلیفہ کے بعد اگلے خلیفہ کے انتخاب تک کا عرصہ بیان کر کے اس بات کی تلقین کی کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے، یہ جو چند دن، ایک دو دن بیچ میں وقفہ ہو، اس میں بگڑ نہ جانا۔ اگر دوسری قدرت کا فیض پانا ہے تو پھر اس عرصے میں اکٹھے رہو، دعائیں کرتے رہو اور خلیفہ کو منتخب کرو۔ اس بات سے یہ غلطی نہیں لگنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر لوگوں سے بیعت لیں۔ گویا خلافت ایک شخص سے وابستہ نہیں بلکہ افراد کے مجموعے سے وابستہ ہے۔ اس کو بہانہ بنا کر غیر مبائعین انجمن کو بالا سمجھنے لگ گئے تھے جبکہ اس کی وضاحت آپ علیہ السلام نے اسی کے حاشیہ میں فرمادی ہے کہ ’’ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہوگا‘‘۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا۔ ’’پس جس شخص کی نسبت‘‘ (یہاں پھر واحد کا صیغہ آ گیا) ’’جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا‘‘۔ (یہاں جمع نہیں آئی۔ پھر آگے ہے کہ وہ شخص بیعت لے گا) ’’اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے‘‘۔ کسی انجمن کے نمونہ بنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ شخص نمونہ بنے۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر20 حاشیہ صفحہ306)

پس جہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا وہاں کوئی انجمن نہیں ہے بلکہ خلفاء کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو آئندہ آنے والے خلفاء ہیں وہ یہ بیعت لیں گے۔ پھر اس اصول کو مدّنظر رکھتے ہوئے جماعتی نظام میں انتخابِ خلافت کے لئے انتخابِ خلافت کی ایک مجلس قائم ہے جس کے تحت خلافتِ ثانیہ کے بعد اب تک انتخابِ خلافت عمل میں آتا ہے۔ اب اگر یہ سوال ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ کا ہے؟ تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اور تائیدات اور افرادِ جماعت کے رؤیائے صالحہ جو مختلف افراد کو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے وہ کافی ہیں۔ پھر خلیفۂ وقت کے حکموں پر عمل کرنا اور دل سے عمل کرنا، اور دلوں کا خلیفہ وقت کی تائید میں پھرنا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہیں۔ پہلے میں اس ضمن میں مثالیں بھی دے آیا ہوں کہ دشمن کی کیا کوشش رہی ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت نے کیا نشان دکھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رسالے میں مزیدنصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے رُوح القدس سے حصہ لو کہ بجز رُوح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کیلئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کیلئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذّت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضب الٰہی ہو۔ اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے۔ اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذّات چھوڑ کر، اپنی عزّت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لوگے تو ایک پیارے بچّے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ307)

پھر آپؑ نے فرمایا:
’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردیگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کیلئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے۔ خدانے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ309)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ میں دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جارہے ہیں، اور اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اُن کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ احمدی کس جرأت سے اور کس قربانی کے جذبے سے اور کس ہمت سے جانی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں اور مالی قربانیاں بھی پیش کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ جو آپؑ کے اقتباسات ہیں، ان میں بعض انذار بھی ہیں اور خوشخبریاں بھی ہیں جو آپ نے خلافت اور جماعت سے منسلک رہنے والوں کو دی ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ ان خوشخبریوں سے حصہ پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے وعدے سے فیض اُٹھانے کے لئے خدا کی عظمت دلوں میں بٹھانے والے بنیں۔ عملی طور پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اظہار کرنے والے ہوں۔ بنی نوع سے سچی ہمدردی کرنے والے ہوں۔ دلوں کو بُغضوں اور کینوں سے پاک کرنے والے ہوں۔ ہر ایک نیکی کی راہ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے ہوں۔ ایمان میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے قدم صدق کے قدم شمار ہوں اور ہم اُس کے وعدوں سے فیض پانے والے بنیں۔ اس کتاب ’’رسالہ الوصیت‘‘ کے آخر میں آپ نے اُن تقویٰ شعار لوگوں اور ایمان میں بڑھنے والوں کے لئے جنہوں نے اعلیٰ ترین معیار کے حصول کے لئے کوشش کی اور اُس مالی نظام کا حصہ بنے جو آپؑ نے جاری فرمایا تھا، اور جس کا اعلان آپؑ نے فرمایا تھاکہ جو اپنی آمد اور جائیدادوں کی وصیت کریں گے، اس سے ترقی اسلام اور اشاعتِ علم قرآن اور کتبِ دینیہ اور سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ان اموال میں سے اِن خرچوں کے علاوہ ’’اُن یتیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہِ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں‘‘۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر20 صفحہ319)

آپؑ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ اموال جمع ہوں گے اور کام جاری ہوں گے کیونکہ یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ آپ نے ایسے لوگوں کو جو اس وصیت کے نظام میں شامل ہوں گے اور دین اور مخلوق کی مالی اعانت کریں گے، دعاؤں سے بھی نوازا۔

یہ وصیت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مقبرہ موصیان یا بہشتی مقبرے میں دفن ہوں گے فرمایا: ’’اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچّا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں‘‘۔

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر20 صفحہ317)

پس جو لوگ نظامِ وصیت میں شامل ہیں اُن کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ انہوں نے ایک عہد کیا ہے۔ اس لئے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہئے۔ خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ نظامِ خلافت کے الٰہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو توفیق ملتی رہے تا کہ یہ نظام ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں۔

(خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2021

اگلا پڑھیں

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کی تردید از روئے قرآن